می ٹو۔۔۔۔روبینہ فیصل

“تم کہاں کی شریف  زادی ہو ، جو تمھاری کوئی عزت ہو گی ، کس کے جانے کا شور کر رہی ہو بی بی۔؟”
“تم جیسیوں کے ساتھ ایسے ہی ہو نا چاہیے” ۔
“شرافت کا اتنا ہی شوق ہے تو بی بی گھر بیٹھو۔۔۔۔۔”

یہ یو ٹیوب پر دیے جانے والے سب سے شریف کمنٹس ہیں ۔ باقی جو کچھ میشا شفیع کو کہا جا رہا ہے ، اسے لکھنے کے لئے مجھ جیسے بے دھڑک رائٹر کو بھی اس سے بھی بڑی “می ٹو “تحریک کی پشت پناہی چاہیے ۔۔
میشا شفیع نے” می ٹو” کے جن کو پاکستان میں بھی بوتل سے باہر نکال دیا ہے ۔مگر وہ یہ بھول گئی ہیں کہ ہمارے معاشرے کے باعزت مردوں کی جعلی غیرت اور عورتوں کا اصلی اور خالص حسد ، اسے تگنی کا ناچ نچا دے گا ۔ مگر وہ ایک بہا در ماں کی بیٹی ہے کچھ نہ کچھ تو پاگل ہو نے سے پہلے مقابلہ کر ے گی ۔

اب یہ ایک اوپن سیکرٹ ہے کہ یہ جنسی فوائد کی وبا ہر شعبے ، ہر ادارے میں پھیلی ہو ئی ہے ،اور شو بز یا میڈیا میں آنے والی لڑکیاں تو ویسے ہی حلوہ تصور کی جاتی ہیں اس لئے ہمارے مولویانہ معاشرے میں انہیں ڈکارانا کوئی غلط بات نہیں تصور کی جاتی ۔ کوئی لڑکی کسی ادارے میں اس وجہ سے ٹاپ کر گئی یا ترقی کر گئی کہ وہ لڑکی ہے ، تو اس لڑکی کو bitch کہتے ہیں۔ اگر انہیں صرف ان کے ٹیلنٹ کے زور پر آگے آنے دیا جائے تو وہ کبھی بھی اس آپشن پر نہ جائیں مگر بھیڑ کے روپ میں اعلی عہدوں پر بیٹھے بااثر بھیڑیئے ،اپنی طاقت کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں ، اور اگر لڑکیاں ایسا نہ کرنے  دیں  تو صرف یہی نہیں کہ ترقی کے مواقع ان کے ہاتھ سے نکل جائیں گے بلکہ لاکھ ذہین فطین ہو نے کے باوجود بھی وہ ایک جگہ منجمند کر دی جائیں گی۔اور ایک نہ نظر آنے والی موت ان کا مقدر بنا دی جاتی ہے ۔

جنسی طو ر پر ہراساں کر نا صرف یہ ہی نہیں کہ کوئی آپ کے جسم کو ہی کچلے ۔ اس سے بھی بڑی لعنت یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کو تو بچا لیں مگر آپ کی ایسی جذباتی تذلیل ہو کہ آپ کی روح کچلی جائے۔ یہ جسم ہے جو کسی کو حاصل ہو جائے یا جب تک حاصل رہے تو آپ کچھ ترقی اور عزت پا سکتے ہیں ۔ اور اگر نہیں تو ایسی تذلیل ملتی ہے کہ جو شائد جنسی طور پر ہراساں ہو نے کے بعد بھی محسو س نہیں ہو تی ہو گی ۔ آپ کا خود سے اعتماد اٹھ جا تا ہے ، اور آپ زمین پر رینگنے والے کیڑے کی طرح ، سر اٹھا اٹھا کر دیکھتے ہیں کہ ہمیں کیوں بار بار کچلا جا رہا ہے ۔۔۔۔ آپ نے اپنے جسم کے باہر نو انٹری کا بورڈ لگا یا یا آپ کا جسم ان بھیڑیوں کی پہنچ سے دور ہو، اور وہ بھانپ جائیں کہ یہاں دال نہیں گلنی تو آپ کو آپ کی نظروں سے ہی گرا دیا جاتا ہے ۔

یہ عجب معاشرہ ہے عزت گنوا نے والوں کے سروں پر سونے کے تاج سجا ئے جا تے ہیں ، اور بچانے والوں کے پیروں تلے کانٹے بچھا دئے جاتے ہیں ۔۔
مجھے جب میری کتاب “خواب سے لپٹی کہانیاں “پرخالد احمد (بلائنڈ) ایو ارڈ ملا جو کہ خالص میری صلاحیتوں کے لئے تھا تو میں چھلانگیں مارتی ، مئی 2017کے مہینے میں ایورڈ لینے خود گئی ، کیونکہ مجھے اس ایورڈ نے زندگی دی تھی ، ورنہ میں تو جنوری ، میں لاہور کو خیر باد کہہ آئی تھی ۔جو مجھے یہی کہہ رہا تھا کہ :”جسم کو بچانا ہے تو اپنی ذہانت کا بوریا بستر سمیٹو اور نکلو یہاں سے ۔۔۔”

جب آپ کی زندگی کے تجربات کی گٹھڑی میں ایسا بوجھ بڑھنے لگ جا ئے تو آپ کو ٹو ٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ۔ ایک سنئیر صحافی کو جب میں نے فون پر میٹنگ کے لئے پو چھا تو پہلا سوال تھا کہ آفس میں ملنا ہے ، یا ریستوران میں یا ہو ٹل میں ۔۔؟ اور میری نالائقی دیکھیں مجھے ان آپشنز میں چھپا کھیل ہی سمجھ نہیں آیا۔میرا  آپشن بہر حال آفس ہی تھا ، وہ میری کتاب کے صفحے الٹتے پلٹتے اور اپنے مخصوص اور معروف انداز میں اس پرگفتگو کر تے رہے ، پھر ذومعنی انداز میں بولے :”کہانیاں ۔۔ بڑی بولڈ ہیں مگر آپ خود کتنی بولڈ ہیں ۔۔۔ ؟”

میرے سپاٹ چہرے سے جب حوصلہ شکنی ہو گئی تو ایک لمحہ ضائع کئے بغیرکرسی کا منہ دوسری طرف گھما دیا اور اپنے فون کے ساتھ کھیلنے لگ گئے ۔میں جو اپنے آپ کو بڑا پھنے خان قسم کا رائٹر سمجھتی تھی ، ایسی تذلیل پر میری آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں ۔ اس نامی گرامی ادارے سے لے کر اپنے گھر تک کا سفر میں نے آنسوؤں کے ساتھ طے کیا ۔۔۔۔۔ سوال یہ ہے کہ اُن صاحب کے سامنے بولڈ بن جاتی اور اپنا مطلب نکلوا لیتی ، یہ گھاٹے کا سودا تھا؟ یا ڈرپو ک بن کر صحیح سلامت ، بچ کر ، اپنی تحریر اور تقریر کی بے حرمتی گلے لگا کر بے اعتمادی کا شکار ہو کر بیٹھ رہی ۔۔ کس میں زیادہ گھاٹا تھا ؟لوگ ، کامیاب عورتوں پر مفاد پرستی کا الزام لگاتے ہیں تو ان کے پاس کوئی اور آپشن بھی ہوتی ہے ؟

اس واقعے سے ایک سال پہلے ،ایک ہینڈ سم ، اینکر ، تقریبا ایسی ہی فرمائش ، اور انکا ر کی صورت میں مجھے no one کر کے میری تذلیل کر چکے تھے ۔۔ مگر انہیں جوان ، اور خوبصورت دیکھ کر سوچا تھا کہ شائد انہیں عادت پڑ چکی ہے کہ کوئی انہیں انکار نہ کر تا ہو گا ۔۔ لیکن سال بعد ان بزرگ صحافی کے موٹے پیٹ کے ساتھ یہ چونچلے دیکھ کر لگا کہ یہاں نہ بات عمر کی ہے ، نہ لٹکے ہو ئے پیٹ کی ، نہ بدصورت چہرے کی ، یہاں بات ہے ، اپنی کر سی ، عہدے ، دولت اور شہرت سے فائدہ اٹھانے کی ۔ آپ ان کے کام کے ہیں تو وہ آپ کو آسمان پر بٹھا سکتے ہیں ۔ نہیں تو ، آپ کی ہستی کیا ہے ؟ آپ سے ہزار درجہ بہتر ٹورنٹو میں رائٹرز اور اینکرز موجو د ہیں ۔۔۔ یہ سب آپ کی unavailability کے کنفرم ہو نے کے بعد ،ان کے تیور بتاتے ہیں ۔۔ اور آپ ایسی بے عزتی پر اپنے حلق کے اندر ساری عمر گولہ رکھ کر بیٹھ جا تے ہیں ۔۔۔ یا مجھ جیسے ڈھیٹ ہو ں تو سال کی خود ساختہ قیدَ تنہائی کے بعد پھر سے سینہ سپر ہو جاتے ہیں ۔

ہم مہاجر بھی ایسے دیوانے لوگ ہیں یہی سب دیکھ کرتو ہجرت کی تھی اور تب تو یہ کر پشن کا زہر یوں لاہور کی نس نس میں نہیں اترا ہو ا تھا ۔ بہت ساری وجوہات میں سے ہجرت کی ایک بڑی وجہ ،جب بنک کے ہیڈ آفس میں میری ٹرانسفر ہو گئی اور وہاں مجھے جب یہ سمجھ آنے لگی کہ   آپ کا ہر کام ، چھٹی منظوری سے ترقی تک پل بھر میں ہو سکتا ہے اگر آپ عورت ہیں تو آپ موٹی توند اور گنجے سروں والے جی ایمزکو خوش رکھنے کے لئے تیار ہیں اور اگر آپ مرد ہیں تو آپ کو انہی عیاش بڈھوں کو خوش کر نے کے لئے شراب یاشباب کا سپلائر بننا ہے۔ ۔ ہیڈ آفس میں dirty old man کی تصویریں ہی تصویریں نظر آئیں۔

میری قابلیت ، وقار اور انا کو پہلی ٹھیس تب لگی جب میرے ایک ہمدرد دوست نے مجھے کہا روبی میٹرنٹی لیو بڑھانی ہے تو فلا ں لڑکی کو کہو ۔۔۔ میں کہوں ؟ میں بی کام، ایم انگلش ،ڈی ای بی پی ،گریڈ2 آفیسر ؟ میں اس سفارش سے آئی کیش آفیسر بی اے پاس لڑکی سے کہو ں کہ میری سفارش کر ے ؟ جی ایم ایڈمن کے سامنے جا کر پر اعتماد انداز سے چھٹی کا پو چھا ، مضبوط اور بے اعتنائی سے کئے گئے انکار نے میرے حلق میں وہی گولہ بھر دیا ،جس نے سالوں بعد اسی جیل روڈ پر مجھے پھر سے ویلکم کیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

یہ سب harassment وہ قسمیں ہیں ، جس میں آپ جسم تو بچا لیتے ہیں ، مگر آپ کا اعتماد اور وقار لٹ جا تا ہے ۔ اور آپ اپنی validation لئے عام لوگوں کی طرف پر امید نگاہوں سے دیکھتے رہتے ہیں کہ کوئی تو ہمیں ہمارے جسم سے ہٹ کر بھی دیکھے ۔۔۔۔۔۔۔میری نظم :
خود کو منوانے کا کر ب
زندگی کی سحر سے شام ہو نے تک
میں ستارہ سا جسم ہی بنی رہی
چمک چمک کے بجھتی گئی
مگر کبھی دماغ بن کر
اس دنیا کے افق پر طلوع نہ ہو سکی!

Facebook Comments

روبینہ فیصل
کالم نگار، مصنفہ،افسانہ نگار، اینکر ،پاکستان کی دبنگ آواز اٹھانے والی خاتون

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”می ٹو۔۔۔۔روبینہ فیصل

  1. باقی تو سب ایک طرف یہ لاہور کے بے مقصد ذکر سے کیا مراد تھی ؟کیا یہ سب کچھ صرف لاہور نامی شہر میں ہوتا ہے ؟محترمہ آپ تو اسی ملک کی پیدایش ہیں تو مہاجر لفظ پر اتنا اصرار کیوں ؟کب آپ لوگوں کے دلوں اور ذہنوں سے یہ لاہوری کمپلیکس نکلے گا ؟آپ کی اس تحریر کو ایک لاہوری نے ہی ایڈیٹ کیا اور لاہور سے متعلق ریمارکس جوں کے توں جانے دییے،یہ لاہوری ظرف کی ایک ادنیٰ مثال ہے ۔نکال دیجیے اپنے دل اور دماغ سے یہ کمپلیکس اور زندگی کے ارفع معنی پا لیں ۔

Leave a Reply