چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔ جاویدخان/قسط16

بابُوسر گاؤں:
بابُوسر گاؤں پاکستان کی طرف سے گلگت کاسرحد ی گاؤں ہے۔گاؤں کی حدود میں اُترتے ہی ایسے لگا جیسے ہم وادی نیلم کے کسی گاؤں میں داخل ہو رہے ہوں۔کچے پکے مکانات کچھ سُرخ جِستی چادروں سے بنے ہوئے۔خُنکی ابھی دُھلی نہیں تھی۔مگر بچے سڑک کنارے سیاحوں کی کاروں کو دھو رہے تھے۔چشموں کے زور آورپانی کو پلاسٹک کے پائپوں میں آکر طاقتور پھُواروں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔اس زورآور  پانی سے گاڑیوں پہ جمی میل اور دھول صاف ہونے میں دیر نہیں لگتی۔

دوکاریں ایک دوسرے کے پیچھے کھڑی تھیں اَور دو بچے اِنھیں دھونے میں لگے تھے۔اچانک ایک بچے نے اپنی کار دھوتے دھوتے پانی کی پھُوار دوسری کار کے پیچھے کھڑے بچے پہ ماری۔اُسے اس وار سے بچنے میں دیر ہو گئی،وہ کافی بھیگ گیا۔ جوابی کارروائی ضروری سمجھی گئی۔اپنی کار کے پیچھے پناہ لینے کے بعد حریف کی پوزیشن کااندازہ کیااَور جوابی فائر چھوڑ دیا۔حریف نے سنبھلنے کی کوشش کی مگر بے سود۔پانی نے چہرے اورسامنے کی قمیض کو گیلا کر دیا۔طاہر یوسف نے شور مچایا اوہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔کسی ایک آدھ نے فقرہ کسا ”ٹھہر“اور قافلہ آگے بڑھ گیا۔اپنی غُربت کو سرد پھُواروں سے دھوتے اِن بچوں کو چھوڑ کر ہم نے ایک موڑ کاٹا اور نیچے اُتر گئے۔

چلے تھے دیو سائی۔ جاویدخان/سفر نامہ۔قسط15
ہم آگے بڑھ رہے تھے اور مسلسل اُترائی اُتر رہے تھے۔یہ اُترائی بابُو سر کے موڑوں کی طرح خطرناک نہیں ہے۔ایک شفاف پہاڑی ند ی اپنے آبی نغموں کے ساتھ نشیب کو دوڑ رہی تھی۔گاؤں کی کُھلی وادی کادامن اَب تنگ ہوتا جارہا تھا۔اِس ند ی کے پانی سے بچے کھیل رہے تھے۔مکئی کے چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں فصلیں کھڑی تھیں۔سڑک کے دونوں طرف پہاڑ دیواروں کی طرح کھڑے تھے اَور گاؤں اُن میں تنگ دامنی کی شکایت کر رہا تھا۔جیسے جیسے آپ آگے بڑھتے جاتے ہیں یہ تنگ دامنی پھیلتی جاتی ہے۔پہاڑوں پہ تونگ سے ملتے جلتے درخت ہیں۔یہاں کے پہاڑ سر سے گنجے ہیں۔نیچے درخت اور انسان آباد ہیں اور مکمل تودوں کے رحم و کرم پہ ہیں۔بارانی موسموں میں بارشیں اور مٹی کے تودے مکانوں اور کھیتوں کو تباہ کردیتے ہیں۔ایسے خوفناک مناظر جگہ جگہ بکھرے تھے۔
مکئی کے کھیتوں پہ بڑے بڑے پہاڑ بلندیوں سے ٹوٹ کر گرنے سے کھیت ٹوٹ چکے تھے۔ان لوگوں کی زندگیوں کا انحصار انھی کھیتوں پر ہے۔انھیں ہر بار مشقت سے ٹھیک کیا جاتا ہے۔مٹی بھر ی جاتی ہے۔اس میں آئے پہاڑوں کو  توڑ کر ان کے پتھروں سے کھیتوں کی دیواریں از سر نو تعمیر کی جاتی ہیں۔فصلیں اُگائی جاتی ہیں،موسم کا بے رحم عمل انھیں پھر مشکل میں ڈال دیتا ہے۔اِن دُشوار وادیوں کے باسی موسمی بے رحمیوں کے عادی ہوچکے ہیں۔

چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں مکئی،آلو،کدو،ککڑیاں،توری اور سفید موٹھ اُگائی گئی تھی۔ڈھلوانوں پہ اَخروٹ کے باغات کھڑے تھے۔جہاں کہیں بھی اُگانے کی گُنجائش ہو سکتی تھی۔وہاں پھلوں کے باغات اور فصلوں کے زیور نے پتھریلی زمین کو حسن بخش دیا تھا۔اِنسانی مشقت نے آج تک زندگی میں جو رنگ بھر ے ہیں وہ سارے یہاں نظر آتے ہیں۔

خواتین کھیتوں میں کام کر رہی تھیں اَور اُن کے بچے بھی اُن کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔سجرے پانی کی آب روئیں اَور کولیں پہاڑوں پہ زیر زمین دَاب کر آبادیوں تک پہنچائی گئی ہیں۔انھی سے کھیت اَور باغ سیراب ہوتے ہیں۔بعض جگہوں پر بڑے بڑے پتھروں کو توڑ کر مٹی کے بہاؤ کو روکا گیاہے۔مٹی بھر جانے کے بعد اِسے کھیت میں بدل دیا جائے گا۔جیسے باقی کے کھیت تعمیر ہوئے ہیں۔کدو  اورککڑیوں کی بیلیں کھیتوں کی منڈیروں سے لٹک رہی تھیں۔

سڑک کی دلدل اور پریشان سیاح:
آگے سڑک ایک دلدل کی شکل پیش کر رہی تھی۔ایک مشین ابھی تک صرف ایک طرف کی مٹی کو ہٹا پائی تھی۔یہ کام رات بھر کی محنت سے ہواتھا اور ابھی تک ہو رہا تھا۔پہاڑ جتنے پتھر کچھ سڑک میں پڑے تھے اور کچھ سڑک سے نیچے۔لمبائی کے رُخ سڑک کا ایک حصہ دلدل نما مٹی میں گُم تھا اَور مشین اِسی کی صفائی میں مصروف تھی۔دُونوں طرف گاڑیاں قطاروں میں کھڑی تھیں۔ایک طویل اِنتظار کے بعد ہمارا قافلہ یہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوا۔کراچی سے آئے سیاحوں کی کار دلدل میں پھنس گئی تھی۔اِن وادیوں میں نازک اندام کاروں کا گزارا ہر گز نہیں مگر سیاح اِس بات کو نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں۔کار کو ہماری مِٹوبُشی نے کھینچ کر نکالا۔کنارے پہ کھڑی سیاح خواتین منہ ہی منہ  میں کچھ پڑھے جارہی تھیں۔گاڑی نکلی تو اُنھوں نے ہاتھ اُٹھائے اور چہرے پر پھیرے۔مدد پہ ہمارا شکریہ اداء کیا گیا۔
پُورا گاؤں جو سڑک کے اطرا ف میں آباد ہے، تودوں کی زد میں ہے۔بڑھتی ہوئی آبادی،کٹاؤ کا شکار زمینیں،یہاں زندگی مشکل میں ہے۔مگر یہاں کے باسی نہ جانے کس اُمید پر دوکمروں کے گھر تعمیر کرتے جارہے ہیں۔وہ بھی پہاڑ کھُرچ کھُرچ کر۔ایک ایسا ہی گھر، ایسی مشکل جگہ کھڑا کیا جارہا تھا۔ندی پار چھ سات گھروں پر مشتمل ایک بستی تھی۔جِس کے اَطراف کی ساری زمین شکست و ریخت کا شکار تھی۔اِن سات گھرانوں کا ایک قبرستان بالکل ایسی ہی حالت میں بے غور پڑا تھا۔جینے اَور مرنے والے دونوں لڑھکتی،سرکتی زمینو ں سے بے نیا ز اپنے دن گزار رہے تھے۔
ممتا ندی کی روانی:

کٹی پھٹی سڑک پہ ہم اَحتیاط سے آگے بڑھ رہے تھے۔ندی ہمارے بائیں طرف تھی۔کٹاؤ کی زد میں ایک اور بستی میں،خواتین ندی کنارے کپڑے دھو رہی تھیں۔ایک عورت اپنے بچے کے کپڑے اُتار کر اُسے نہلانے کی تیاری کر رہی تھی۔طاہر یوسف نے کہا۔اوہ جاویدصاحب۔۔۔۔!وہ دیکھیے کبھی آپ کی امی نے بھی آپ کو ایسے ہی نہلایا ہو گا۔ماں اِنسان کی ہو یا جانور کی اس کی ممتا میں کوئی فرق نہیں آتا۔چڑیا اپنے بچوں کے لیے اپنی ننھی جان کے ساتھ کئی گُنا طاقتور  دُشمن کے ساتھ ٹکر ا جاتی ہے۔ممتا کا رشتہ اُن رشتوں میں سے ہے جن میں ملاوٹ نہیں۔ممتا ایک ایسی لبالب ندی جس میں محبت کی میٹھی موجیں ہمیشہ جوش میں رہتی ہیں۔ممتا ندی کا جو ش کبھی سر د نہیں پڑتا نہ ہی اس کی روانی میں کمی آتی ہے۔ہم سب کا بچپن ممتا ندی کے ٹھنڈے پانیوں میں دُھلا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے!

Facebook Comments

محمد جاوید خان
جاوید خان راولاکوٹ آزادکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں. شعبہ تدریس سے منسلک ہیں. سفرنامے لکھتے ہیں اور مکالمہ خاندان کا اہم رکن ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”چلے تھے دیوسائی۔۔۔۔ جاویدخان/قسط16

Leave a Reply