کیا جناح انگریزوں کے ایجنٹ تھے؟۔۔۔۔عماد بزدار

ہمارے کچھ قوم پرست دوست اور کچھ مذہبی طبقے یہ الزام اکثر و بیشتر لگاتے ہیں کہ بانی پاکستان انگریزوں کے ایجنٹ تھے۔ولی خان نے اس حوالے سے ایک کتاب بھی لکھی کہ جناح یہ سب کچھ انگریزوں کی مرضی سے کرتا رہا ۔ یہی سوچ کر میں نے اپنی تحقیق کا آغاز کیا ۔ میں نے ڈاکٹر صفدر محمود ، زید حامد یا اوریا مقبول کو نہیں پڑھا بلکہ میں نے غیر جانبدار لوگوں کو پڑھنا شروع کیا بلکہ متحدہ ہندوستان کے کٹر حامیوں کو بھی پڑھا کہ دیکھوں وہ جناح بارے کیا رائے رکھتے ہیں یہ سب پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ جناح انتہائی سچے اور کھرے اور خوددار آدمی تھے ان کی شخصیت پر اس سے زیادہ بھونڈا الزام لگایا ہی نہیں جا سکتا جو یہ حلقے لگاتے ہیں ۔ آپ بھی مختلف کتابوں سے اکٹھے کیے گئے یہ اقتباسات پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ کیا فسانہ ہے کیا حقیقت۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر بوڑھے وکیل نے پاس کے ایک دفتر سے دو دوستوں کو بلایا اور تینوں نے باری باری جناح کے متعلق قصے سنائے۔ان میں ایک شخص ان کو اس زمانے سے جانتا تھا:” جب ان کے مالی حالات اچھے نہ تھے ،لیکن اس وقت بھی ان کا لباس ان کا طرہ امتیاز تھا اور اس وقت میں بان میں انتہا کی خود اعتمادی اور بے باکی تھی،شاید اس سے بھی زیادہ جس کے لیے وہ بعد میں اتنے مشہور ہوئے۔اور ان کی دیانت بھی انتہا درجے کی تھی۔بے شک وہ ذرا ٹیڑھے آدمی تھے لیکن میں نے کبھی یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کوئی نا انصافی یا ہیر پھیر کیا ہو۔یہ باتیں ان کی فطرت کے خلاف تھیں۔ ” تیسرا وکیل بات کاٹتے ہوئے بولا :”لیکن جب ہم جناح کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں بار بار ان کی غیر معمولی دیانتداری کا خیال آتا ہے۔ایک دفعہ ان کے سولسٹر نے ایک موکل ان کے پاس یہ کہہ کر بھیجا کہ اس کے پاس مقدمے کے لیے زیادہ روپیہ نہیں ۔جناح نے مقدمہ لے لیا۔وہ ہار گئے،لیکن انہیں یقین تھا کہ مقدمے میں جان ہے،لہٰذا انہوں نے مشورہ دیا کہ اپیل کی جائے ۔سولسٹر نے پھر یاد دلایا کہ موکل کے پاس پیسے نہیں ۔جناح نے سولسٹر سے کہا کہ اپیل دائر کرنے کے اخراجات کا کچھ حصہ وہ اپنی جیب سے دے اور خود مقدمہ مفت لڑنے کا وعدہ کیا۔اپیل میں وہ جیت گئے۔لیکن جب سولسٹر نے انہیں فیس دلوانا چاہی تو جناح نے یہ کہہ کر لینے سے انکار کر دیا کہ انہوں نے مقدمہ بغیر فیس کے لیا تھا۔ ” میں اسی قسم کا ایک اور واقعہ آپ کو سناتا ہوں دوسرے وکیل نے کہا ” جناح کا ایک موکل عدالت میں ان کی کارکردگی سے اتنا متاثر ہوا کہ اس نے مقررہ معاوضے کے علاوہ ان کو کچھ روپیہ بھیجا۔ جناح نے یہ فاضل رقم واپس کر دی اور اس کے ساتھ ایک پرچے پر لکھ بھیجا کہ آپ مجھے اتنی رقم دے چکے ہیں،فیس اتنی طے ہوئی تھی ،بقایا رقم واپس بھیج رہا ہوں” جب ان تینوں وکیلوں سے میں نے پوچھا کہ وہ محض جناح کی قابلیت سے متاثر تھے یا انہیں پسند بھی کرتے تھے تو ان میں سے ایک بولا ” میں انہیں واقعی پسند کرتا تھا ۔سیاسی زندگی کے اختلافات اور تلخیوں کے باوجود ان کے دل میں کینہ نہ تھا ۔وہ سخت ضرور تھے لیکن کینے سے بالکل پاک تھے۔ان تینوں وکیلوں میں سے دو ہندو تھے اور ایک پارسی”۔

ہاں یہ ٹھیک ہے جناح کے طور طریقے ذرا انوکھے تھے ۔ایک مقدمے کی سماعت کے دوران ایک جج نے بلند آواز سے بولنے کو کہا” مسٹر جناح میں آپ کی آواز نہیں سن سکتا ۔۔جناح نے جواب دیا ” میں بیرسٹرہوں ایکٹر نہیں” جج بات پی گیا لیکن ذرا دیر کے بعد پھر مجبور ہو کر بولا ” مسٹر جناح میں درخواست کرتا ہوں کہ آپ ذرا اونچا بولیے اب کے جناح نے کہا کہ” اگر جناب کتابوں کا انبار اپنے سامنے سے ہٹا دیں تو آپ آسانی سے مجھے سن سکیں گے”
” میں اس طرح کے بہت سے قصے آپ کو سنا سکتا ہوں ۔لیکن اگر آپ جناح کے غیر معمولی کردار کو سمجھ لیں تو ان کی بظاہر غیر معمولی باتیں آسانی سے آپ کی سمجھ میں آ جایئں گی۔ میرے خیال میں ان کی ظاہری کج خلقی ان کی پکی دیانت داری سے متعلق تھی۔آپ شاید آسانی سے اس بات پر یقین نہ کریں ،لیکن آپ یہ نہ بھولیں کہ جناح ایک ایسے ملک میں رہتے تھے جہاں ذاتی اخلاق بالعموم پست تھے اور جناح نے اپنے لیئے ایمانداری کا جو معیار قائم کیا تھا وہ ان کے گردوپیش کے لوگوں کے اخلاق سے بہت مختلف تھا”۔

ہیکٹر بولتھو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چنانچہ جب جناح نے اپنی تقریر کے دوران ( عدم تعاون کی تجویز کی مخالفت میں) گاندھی جی کا حوالہ دیتے ہوے انھیں مسٹر گاندھی کہا تو زبردست شور مچااور حاضرین نے جناح کو چیخ کر کہا کہ وہ گاندھی جی کو مہاتما گاندھی کہیں۔ یہ افسوسناک واقعہ سنگین صورت حال اختیار کر گیا کہ جناح نے حاضرین کے حکم یا ان کی دھونس جمانے کی روش کے آگے جھکنے سے انکار کر دیا تھا اور صدر محترم اور عظیم المرتبت لیکن کہنہ سال Shri Vijay Raghava Cuariar اس کشیدہ صورت حال پر قابو نہیں پا سکی اور نہ تو جلسے کے بپھرے ہوے شرکاء کو اور نہ ہی جناح کو گاندھی جی کو مسٹر گاندھی کہہ کر اپنے پالیمانی حق پر مصر تھے، سمجھانے میں کامیاب ہو سکے۔ اس واقعے کا ذکر کچھ تفصیل سے مسٹر اے اے رؤف نے اپنی تصنیف Meet Mr. Jinnah میں کیا ہے اور اسے کانگریس کی رپورٹ میں تفصیل سے درج کیاگیا ہے۔ یہ واقعہ کہ جس کی اہمیت کو سمجھا گیا اور نکتہ رسی سے پسند کیا گیا گویا مصیبت کی ابتداء تھی جس نے بالآخر ہندوستان کو تقسیم کیا اور حصہ پاکستان کو وجود میں لانے کا سبب بنا۔

جناح کا مسئلہ( یعنی قوم پرستی سے فرقہ پرستی کی جانب مراجعت) Supcgo کی مرضیات کا مطالعہ ہے جس کے متعلق علم نفسیات کے معالجوں کا خیال ہے کہ یہ لا علاج مرض ہے۔ اس مرض کے آثار ان کے یہاں بہت پہلے دکھائی دیے تھے، لیکن جوں جوں دن گزرتے گۓ مرض بد سے بد تر ہو گیا۔ان کی وکالت کے ابتدائی دنوں میں وہ قابل شناخت تھا کیونکہ جب بمبی ہائی کورٹ کے ایک جج نے کہا: ‘ یاد رکھیں مسٹر جناح، آپ کسی تیسرے درجے کے مجسٹریٹ سے نکتے کی وضاحت نہیں کر رہے ہیں۔ دوسری ہی ساعت جواب ملا: “مائی لارڈ مجھے یہ کہنے کی اجازت دیں کہ آپ کسی تیسرے درجے کے وکیل سے بات نہیں کر رہے ہیں۔” کوئی تیسرا یا دوسرا کلاس کسی صورت یا ہئیت میں جناح کو پسند نہیں تھا۔ ان کا جست کرتا ہوا حوصلہ انھیں یہ سمجھاتا تھا کہ وہ ہر جگہ مقدم رہیں یا پھر کچھ نہ رہیں۔ یعنی یہ کہ جناح ہوں تو سب کچھ ہوں، اپنی ساری زندگی وہ اپنی اعلی استعداد کے سلسلے میں حد درجہ با شعور رہے، وہ شخص جس نے خود کو کبھی کسی دباؤ میں آنے نہ دیا خواہ کوئی شعبہ یا سرگرمی ہو، قانون، سیاست یا سماجی زندگی۔

جناح کسی کے ماتحتی میں کام نہیں کر سکتے تھے۔ وہ یا تو لازمی طور پر قیادت کریں گے یا پھر کہیں نہیں رہیں گے۔ ان کا مطمع نظر واضح طور پر یہ تھا کہ جہنم میں حکومت کرنا بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ دوسروں کے اشتراک سے جنت میں حکومت کریں۔ ایک کرم خوردہ تقسیم شدہ اور کٹے پھٹے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل بننا بہتر ہے، بہ نسبت اس کے کہ فیڈریشن آف انڈیا کی سب سے بڑی ریاست کے گورنر یا اس کے گورنر جنرل۔ جناح کی کامیابی میں حیرت انگیز بات یہ تھی کہ وہ اپنی زندگی کے آخری بارہ برسوں میں اسلامیان ہند کے تسلیم شدہ لیڈر رہے کیونکہ مسلمانوں کے اپنے وطن کا فسوں اتنا زبردست تھا کہ جب جناح مذہبی جوش اور متشددانہ دیوانگی کی آگ کو بھڑکاتے تو اس کا مقابلہ کرنا، ان کے لئے نا ممکن ہو جاتا اور اس طرح واقعات کی منطق میں آ کر جناح بہت سمٹ گۓ اور ایک ایسے ملک کے لئے رضا مند ہو گۓ جس کے نا صرف کے دو حصے کر دیے گئے تھے جن کا آپس کا ہزار میل سے بھی زیادہ کا فاصلہ تھا، بلکہ بہت کچھ ان کی مرضی کے خلاف بنگال اور پنجاب کے صوبے سفاکانہ انداز سے بانٹ بھی دیئے گئے تھے۔ جناح کی کامیابی کی خاص وجہ تھی۔ ایک فرد کی آرزو، ایک نظریہ ایک مقصد، پاکستان بمقابلہ کانگریس پارٹی کے بار بار رنگ بدلنے کے، جس نے اپنے اعلان کے ساتھ کہ وہ حق خود داری کے اصول کو تسلیم کرتی ہے۔ یہ بات ماننے کو تیار نہیں ہوئی کہ وہ صوبے یا صوبے کے حصے جو ایک واضح مسلم اکثریت رکھتے تھے،انھیں یہ استحقاق حاصل ہو کہ اس اصول پر وہ انڈین یونین سے علیحدگی اختیار کر سکیں۔

ڈاکٹر سچد انند سنہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سوال: آپ سمجھتے ہیں کہ تاریخی حوالے سے تقسیم نا گزیر ہو گئی تھی؟
ڈاکٹر مبارک علی : جی بالکل نا گزیر ہو گئی تھی کیونکہ اس کے علاوہ پھر کوئی دوسری صورت نہیں رہی تھی۔

سوال : یعنی آپ اس تھیوری سے متفق نہیں ہیں کہ دو قومی نظریہ انگریزوں نے بنایا ؟
ڈاکٹر مبارک: نہیں یہ تو خیر بالکل غلط ہے کہ انگریزوں نے دو قومی نظریہ بنایا یہ بات ہمارے ہاں جو تھوڑی سی سازش کی عادت ہے اس کی وجہ سے ہے۔ ایسا تو نہیں ہوتا کہ کوئی نظریہ اوپر سے بنا کر نافذ کر دیا جائے ۔نظریات کی جڑیں بڑی گہری ہیں ۔ آپ تاریخ دیکھیں نا، خاص طور پر نو آبادیاتی دور میں یہ بات ابھر کر سامنے آ گئی تھی۔

سوال: آپ اس بات سے با الکل متفق نہیں ہیں کہ ( جیسا کہ ولی خان اور نیشنلسٹ کہتے ہیں) کہ جناح صاحب نے برطانیہ کے کہنے پر سب کچھ کیا ؟
ڈاکٹر صاحب۔ نہیں نہیں اس سے میں بالکل متفق نہیں ہوں اگر چہ جناح صاحب کی بہت سی باتیں مجھے پسند نہیں ہیں لیکن کم از کم ان کے کریکٹر کے لحاظ سے یہ بات ناممکن ہے کہ وہ کسی کے ایجنٹ کے طور پر کام کر سکتے .اس معاملہ میں بہت دیانتدار اور سچے کھرے آدمی تھے جو انہوں نے صحیح سمجھا وہ کیا۔اب آپ اس کو کچھ بھی کہہ لیں لیکن اگر یہ کہا جائے کہ انہوں نے انگریزوں کے اشارے پر سب کچھ کیا یہ صحیح نہیں اس سے میں متفق نہیں۔

سوال : اور وہ جو کہتے ہیں کہ تاریخ کے حوالے سے ہمارے پاس ثبوت موجود ہیں؟ ولی خان اکثر برٹش ریکارڈ کا حوالہ دیتے ہیں؟
ڈاکٹر مبارک۔ نہیں،نہیں ان کی جو کتاب ہے Facts and Facts میں بھی کوئی حوالے اور کوئی ریفرنس نہیں ہیں مثلاً  وہ کہتے ہیں کہ “میں نے کہا” ، “میں نے یہ دیکھا” لیکن انہوں نے ریفرنس وغیرہ نہیں دیئے تو یہ کہنا کہ جناح صاحب انگریزوں کے کہنے پر کچھ کرتے تھے۔یہ میں سمجھتا ہوں کہ بالکل غلط ہے اور یہ تاریخی حقائق نہیں ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹھندے اور تیز دماغ کا ایک اور آدمی تھا۔
ایک ضدی وکیل جو چوتھائی  صدی سے گاندھی کا اہم ترین مسلمان رقیب بنا ھوا تھا۔ اس کا نام تھا محمد علی جناح۔
اس نے فورن بھانپ لیا کہ وہ اس تباہی کے نظارے کو ایک اوزار کی حیثیت سے استعمال کر سکتا ہے۔ وہ اوزار جس سے ملک کے ٹکڑے ہو سکتے تھے۔جناح کے حامیوں کے علاوہ جن لوگوں نے اس دور کی تاریخ لکھی ہے وہ شاید جناح کو وہ مقام نہ دیں، جس کا وہ مستحق ہے۔ ان کامیابیوں کی وجہ سے جو اس نے حاصل کی ھیں۔

مؤرخوں کے اس تعصب کے باوجود کوئی اس بات سے انکار نہیں کر سکتا کہ ان دنوں ہندوستان کے مستقبل کی کنجی نہ گاندھی کے ہاتھ میں تھی نہ کسی اور کے۔ بلکہ وہ جناح کے ہاتھ میں تھی۔
جناح مسلمانوں کا سچا لیڈر تھا۔ضدی اور سخت، اپنے حامیوں کو وہ با لآخر اس منزل مقصود تک لے گیا جسے وہ اپنی سر زمین کہ کر خوش ہو سکتے تھے۔
ہندوستان کے اہم لیڈروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ جناح پر ختم ہونے والا تھا۔ جناح کے لہجے میں جو روکھائی تھی وہ پچیس سال بعد بھی ماؤنٹ بیٹن کو یاد تھی اور ان کی زبان سے یہ جملہ نکل گیا۔۔۔”ہندوستان میں مجھے کتنا مشکل کام سونپا گیا تھا اس کا اندازہ اس وقت تک نہیں ہوا جب تک محمد علی جناح سے پہلی ملاقات نہ ہوئی۔”

مسلمانوں کے قائدِ اعظم سے ملاقات کے بعد جب ماؤنٹ بیٹن نے اپنی مطالعہ گاہ سے باہر قدم رکھا تو ایک لمبی گہری سانس لی اور اپنے پریس اتاشی کی طرف دیکھ کر بولے۔۔”باخدا!میری ساری طاقت تو اس پتھر سے لڑنے میں لگ گئی۔”
وہ سیاست میں داخل ہوئے۔دس سال تک انہوں نے کانگریس کے ہندو مسلم لیڈروں کے درمیان اتفاق و اتحاد قائم رکھنے کے لیئے کام کیا تا کہ انگریزوں کے خلاف مل کر سب جدو جہد کر سکیں۔

جناح کی سیاسی زندگی کا اہم موڑ اس وقت آیا جب 1937 میں کانگریس پارٹی نے ان صوبوں میں جناح اور ان کے مسلم لیگ کا تعاون لینے سے انکار کر دیا جہاں مسلم اقلیت میں تھے۔جناح خود پسند اور خوددار تھے۔کانگریس کا یہ قدم انہیں ایک ذاتی سانحہ سا معلوم ہوا۔انہیں اسی دن سے ہمیشہ کے لیئے یقین ہو گیا کہ کانگریس کی قیادت میں ہندوستان میں ان کے اور ان کی مسلم لیگ کے ساتھ کبھی انصاف نہ ہو سکے گا۔ہندو مسلم اتحاد کی حمایت کرنے کے بجائے وہ ایک ایسے سانچے میں ڈھل گئے کہ ان کی ضد نے پاکستان بنوا کر ہی دم لیا۔

مسلمانوں میں بھی جناح کا دوست کوئی نہیں تھا۔ساتھی ضرور تھے۔جناح کا شاگرد کوئی نہیں بن سکا،ساتھ کام کرنے والے ضرور تھے۔بہن کے علاوہ جناح کے خاندان میں کوئی اور فرد نہیں تھا۔دراصل جناح کے خاندان میں دو افراد تھے ایک بہن اور دوسرا پاکستان کا خواب۔

جناح ہر وقت اتنے چوکس اور مستعد نظر آتے تھے جیسے وہ گوشت ہڈی کے بجائے فولاد کے بنے ہوئے ہوں۔لیکن یہ فولادی وجود محض دکھاوا اور دھوکا تھا۔اندر سے جناح کمزور،نازک اور بیمار آدمی تھے۔ ان کے ڈاکٹر نے ایک بار کہا تھا کہ “زندگی کے آخری برس انہوں نے قوتِ ارادی اور سگریٹوں پر گزارے۔”

فریڈم ایٹ مڈ نایٹ (لیری کولنس اور دامنک لیپئر)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتقالِ اقتدار سے پہلے بر صغیر کے مخصوص حالات میں جناح کا بڑآ ہاتھ تھا ۔ وہ ایک ایسا کارنامہ سر انجام دینے میں کامیاب ہوئے جس کی جدید دور میں مثال نہیں ملتی۔انہوں نے کامل قانونی انداز میں ایک نئی ریاست تخلیق کی۔انہوں نے کبھی پستول کو ہاتھ تک نہ لگایا اور نہ ہی کسی اور کو ایسا کرنے کا حکم دیا۔اور کسی ملک کے بانی کے بارے میں تصور کرنا مشکل ہے جس نے ساری زندگی ایک دن بھی جیل میں نہ گزارا ہو۔جناح اپنی زندگی میں صرف ایک مرتبہ گرفتار ہوئے۔۔۔۔۔۔۔ 1893 میں آکسفورڈ-کیمبرج کشتی ریس میں غیر منظم طرزِ عمل کی وجہ سے۔ جناح کی یاد گار کامیابی کا دارومدار کچھ مخصوص خوبیوں کے امتزاج پر تھا جنھوں نے برطانویوں کو مشکل میں ڈالے رکھا۔سمجھوتہ کرنے سے انکار اور نہایت پیچیدہ قانونی معاملات کو سمجھنے اور بیان کرنے کی شاندار صلاحیت۔

Pakistan eye of the storm اوون بینیٹ جونز نامہ نگار بی بی .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس زمانے میں بمبئی کے گورنر لارڈ ولنگڈن تھے جو بعد میں ہندوستان کے وائسراے ہوئے شروع میں ولنگڈٍن کے متعلق جناح کی رائے اچھی تھی لیکن جناح کی شادی کے بعد ایک ایسا حادثہ رونما ہوا جس سے جناح اور ولنگڈن کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی۔ کہا جاتا ہے کہ ایک رات جناح اور ان کی بیگم گورنمنٹ ہاؤس میں کھانے پر مدعو تھے ۔مسز جناح نے جو بلاؤز اس موقع پر پہن رکھا تھا ،اس کا گلا اتنا کھلا تھا کہ لیڈی ولنگڈن اسے دیکھ کر چیں بہ جبیں ہوگیئں۔جب مہمان کھانے کی میز پر بیٹھے تو لیڈی صاحبہ نےایک اے ڈی سی سے کہا کہ وہ مسز جناح کے لیئے کوئی شال لے آٰیئں،شاید انہیں سردی محسوس ہو۔یہ سنتے ہی جناح اٹھ کھڑے ہوئےاور بولے۔” جب مسز جناح کو سردی لگے گی تو وہ خود ہی شال مانگ لیں گی”۔ پھر وہ اپنی بیوی کو ڈایئننگ ہال سے باہر لے گئے اور اس کے بعد کبھی انہوں نے گورنمنٹ ہاؤس میں قدم نہ رکھا۔

جناح پر کبھی یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ وہ درشت مزاج واقع ہوئے تھے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی ظاہرا ً سخت مزاجی ان کی بے پناہ ایمانداری اور کھری طبیعت کا نتیجہ تھی۔سر چمن لال اپنی کتاب ری کنسیلی ایشنز اینڈ ریفلیکشنز میں لکھتے ہیں ” جناح نے ابتدا ہی سے اپنی بے باکی قائم رکھی تھی۔وہ کسی بڑے سے بڑے جج یا حریف بیرسٹر سے مرعوب نہیں ہوتے تھے۔ایک بار اسٹرینگ مین اور جناح ایک مقدمے میں ساتھ پیروی کر رہے تھے ۔جناح مشورے کے لیے اسٹرینگ مین کے چیمبر میں گئے تو اس ملاقات کے دوران اسٹرینگ مین نے کچھ اس طرح گفتگو کی کہ جس سے جناح کی ہتک ہوتی تھی۔پھر اس کے بعد جناح اسٹرینگ مین کے چیمبر میں کبھی نہیں گئے” ” مجھے عدالت کا ایک اور واقعہ یاد ہے ۔مرحوم جسٹس مرزا کے اجلاس پر جناح اور میں فریقین کی جانب سے کام کر رہے تھے۔اس کیس کے سلسلے میں کئی دوسرے وکلا بھی حاضر تھے۔بحث کے دوران میں جناح نے جج کو کچھ ایسے انداز سے مخاطب کیا کہ اسے برا لگا۔ جج نے جناح کو متنبہ کیا کہ وہ توہین عدالت کے مرتکب ہورہے ہیں۔پھر جسٹس مرزا نے مجھ سے پوچھا :کیا مسٹر جناح عدالت کی توہین نہیں کر رہے ہیں؟ یہ بڑا احمقانہ سوال تھا۔میں نے جواب دیا اس کا فیصلہ کرنا آُپ کا کام ہے ،میں کیسے کوئی رائے دے سکتا ہوں۔لیکن مسٹر جناح کو تھوڑا بہت جانتا ہوں اور اس کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ وہ ایسی حرکت کے مرتکب نہیں ہو سکتے۔ اس واقعے کے بعد ایک مدت تک جناح نے جسٹس مرزا کے اجلاس پر کام نہیں کیا۔”

کانگریسی اخبار “بمبئی کرانیکل” نے جناح کے خلاف یہ لکھ کر الگ محاذ قائم کیا کہ وہ پکے فرقہ پرست ہیں۔ میں نہایت وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جناح ہر گز فرقہ پرست نہیں تھے۔ کرانیکل کے ایڈیٹر سید عبد اللہ بریلوی بڑے نرم طبیعت اور مرنجاں مرنج انسان تھے لیکن کانگریس ہائی کمان کی خوشنودی کی خاطر انہوں نے جناح پر رکیک جملے کسے اور ایسے ذلیل الزامات لگائے جن سے جناح کی شخصیت صرف مشتبہ ہی نہیں بلکہ مکروہ نظر آنے لگی۔میں جانتا ہوں کہ ان جھوٹے الزاموں سے جناح کو کتنا سخت صدمہ پہنچا اور ان کا رنجیدہ ہونا بالکل درست بھی تھا۔

اس سے ٹھیک ایک ہفتہ پہلے لارڈ لنلتھگو (وائسرائے) ایک وار ایڈوائزری کونسل تشکیل دے کر اس کا اعلان کر چکے تھے۔اس کونسل میں پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ سر سکندر حیات خان کا نام بھی شامل تھا۔مسلم لیگ نے وار کونسل کا بایئکاٹ کرنا طے کیا تھا۔ اس کے باوجود سر سکندر حیات خاں (جو مسلم لیگ کے اہم رکن تھے) کونسل میں شریک ہو گئے۔جناح کو یہ بات بہت ناگوار گزری۔انہوں نے اخباروں میں یہ بیان دیا کہ لارڈ لنلتھگو کی یہ حرکت نہیات نا معقول ہے۔اب ہوا یوں کہ وائسرائے سے ملاقات کا وقت گیارہ بجے دن کو مقرر تھا لیکن اس وقت تک جناح وہاں نہیں پہنچے تھے۔ہر شخص جناح کی طبیعت سے واقف تھا کہ وہ وقت کے کتنے پابند تھے ۔ٹیلی فون پر ٹیلی فون ہوتے رہے ۔آخر سوا گیارہ بجے جناح گورنمنٹ ہاؤس پہنچے۔وائسرائے کو انتظار کی زحمت دینا خود جناح کے اخلاق سے بعید تھا لیکن اس موقع پر جناح نے کوئی معذرت نہیں کی۔ہاتھ ملانے کے بعد جب دونوں بیٹھے تو واسرائے نے ان کے اخباری بیان کا ذکر کیا اور کہا کہ شاید جناح کو ان کے طریقہ کار سے کچھ غلط فہمی ہو گئی ہے جسے وہ دور کرنا چاہتے تھے۔یہ سنتے ہی جناح اٹھ کھڑے ہوئے اور بولے ” جو کچھ ہوا اس کے لیئے مجھے وائسرائے سے کسی وضاحت کی ضرورت نہیں۔” اتنا کہا اور وائسرائے کو ہکا بکا چھوڑ کر باہر نکل آئے۔ جو لوگ لنلتھگو کے دبدبے سے واقف ہیںوہی اس کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس وقت ہندوستان کے وائسرائے کے دل پر کیا گزری ہوگی۔ ہمیں اس واقعے پر فخر ہوتا ہے کیونکہ جب دوسرے ہندوستانی لیڈر (جن میں کانگریسی ہائی کمان کے لوگ بھی شامل تھے) اس برطانوی وائسرائے کے لیئے “شریف ترین انگریز” اور “شریف ترین کرسچین” کی توصیفی صفتیں استعمال کر رہے تھے ،کم از کم ایک ہندوستانی تو ایسا تھا جو حق گوئی و بے باکی سے کام لیکر اس کے منہ پر کھری کھری سنا دینے کی جرات رکھتا تھا۔

کانفرنس کے دوران جناح نے برطانوی کنزرویٹو پر یہ کہہ کر بڑا سخت حملہ کیا کہ ہندوستان میں ان کا مقصد صرف اتنا تھا کہ ان کے تجارتی مفاد محفوظ رہیں۔اس بیان سے کنزروٹو پارٹی کے ارکان بہت برہم ہوئے ۔انہوں نے آغا خان کے ذریعے جناح پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کی مگر وہ اپنے مقام سے ذرا بھی نہیں ہٹے اور ہندوستانیوں کے مقاصد اور ان کی مفاد کے لیئے ڈٹے رہے۔ برطانیہ کے وزیر اعظم ریمزے میکڈونلڈ نے جناح کو بلا کر سمجھایا کہ حالات جس طرح پلٹنے والے ہیں ان کے پیشِ نظر برطانوی وزیر اعظم کو ایسے ہندوستانیوں کی ضرورت ہو گی جو صوبوں کے گورنر بن سکیں گے۔ یہ گویا اشارہ تھا کہ اگر جناح نے “نیک بختی” کا ثبوت دیا تو انہیں بھی گورنری کے عہدے سے سرفراز کیا جا سکتا تھا۔ جناح نے ریمزے میکڈونلڈ سے پوچھا کیا برطانوی تجارتی مفاد کو محفوظ کرانے کی خاطر انہیں رشوت دی جا رہی ہے؟

کانجی دوآرکاداس۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ 8 جون کو لارڈ اسمے نے ایک یادداشت تیار کی جس میں ہندوستان اور پاکستان کے لیئے مشترکہ گورنر جنرل کے فائد گنوائے۔سر ایرک میوائل نے 20 جون کو لیاقت علی خان سے ملاقات کی جس میں لیاقت نے مشترکہ گورنر جنرل کے بارے میں کوئی جواب نہ دیا۔یہی حشر ماؤںٹ بیٹن کی جناح سے 23 جون کی ملاقات کا ہوا۔ البتہ جب دو جولائی کو ماؤنٹ بیٹن اور جناح کی ملاقات ہوئی تو جناح نے بتایا کہ اس نے پاکستان کا گورنر جنرل بننے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ماؤنٹ بیٹن نے اس فیصلے کے خلاف دلائل دیئے اور تصفیئے کے طور پر تجویز کیا کہ جب وہ (ماؤںٹ بیٹن) دلی میں ہو تو آپ (جناح) پاکستان کے قائم مقام گورنر جنرل ہونگے۔ جناح نے ان سے اتفاق نہ کیا ۔اس پر ماؤںٹ بیٹن نے لکھا ” میں نے اس (جناح) سے پوچھا کہ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ اس کی آپ کو کتنی قیمت ادا کرنی پڑے گی؟ اس نے اداس لہجے میں جواب دیا ” اثاثوں میں ہمیں اس کی قیمت کروڑوں میں ادا کرنی پڑے گی” میں (ماؤںٹ بیٹن) نے ترشی سے کہا ” اس کی قیمت تمام اثاثے اور پاکستان کا مستقبل بھی ہو سکتی ہے” (وائسرائے کی رپورت نمبر 11 بتاریخ 4 جولائی 1947 ٹرانسفر آف پاور جلد گیارہ صفحہ 890-899 پر موجود ہے)۔ البتہ زیگلر نے اضافہ کیا ہے” چوہدری محمد علی موقع پر موجود تھے ۔انہوں نے بتایا کہ وائسرائے نے دلائل کے انبار لگا دیئے۔ان سے اپیل کی اور پھر اونچی آواز میں دھمکیاں دیں۔جناح نے اس حملے کا بڑے صبر اور وقار سے سامنا کیا” یہ بات درست لگتی ہے کیونکہ وائسرائے تقریبا غصے میں تھا اور جناح کی خاموشی جلتی پر تیل پر تیل کا کام دے سکتی تھے۔ حوالہ زیگلر صفحہ نمبر 398

۔۔۔بہرحال اس واقعے نے اپنے پیچھے ناخوشگوار اور بد قسمت وراثت اور یادیں چھوڑیں۔جناح کے اس انکار نے ماؤنٹ بیٹن پر اتنے کاری زخم لگائے جو کبھی مندمل نہ ہوسکے اور جن کے نتیجے کے طور پر وہ کھلے عام جناح کے بارے میں سخت اور نا خوشگوار باتیں کرتا رہا۔ مثال کے طور پر لیری کولنز کی کتاب “ماؤنٹ بیٹن اور پارٹیشن آف انڈیا” ملاحظہ فرمایئں ماؤنٹ بیٹن نے کہا “جناح شیطانی ذہانت کا مالک تھا صفحہ نمبر 65۔۔۔ وہ نفسیاتی کیس تھا صفحہ نمبر 131۔۔ وہ اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھتا تھا صفحہ نمبر 253۔۔۔۔ اس نے گالی تک دی صفحہ نمبر 69

Advertisements
julia rana solicitors london

تقسیمِ ہند افسانہ اور حقیقت (ایچ ایم سیروائی ایڈوکیٹ جنرل مہاراشٹر 1957-74)۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”کیا جناح انگریزوں کے ایجنٹ تھے؟۔۔۔۔عماد بزدار

  1. جناح یقینا انگریزوں کے ایجنٹ نہیں تھے لیکن ان کے ہم خیال ضرور تھے۔ مضمون نگار نے بہت سی کتابوں کا حوالہ دیا ہے لیکن یہ سارے حوالے جو انھوں نے دیئے ہیں وہ پہلےبھی چھپ چکے ہیں۔ مضمون نگار نریند رسنگھ سریلہ کی کتاب انڈر دی شیڈو آف گریٹ گیم بھی پڑھنی چاہیے۔

Leave a Reply