سیانے کہتے ہیں کسی جنگل میں ایک سنہری بھیڑ رہتی تھی، اس کا قد خچر جیسا اونچا اور جسم بیل جیسا فربہ تھا، سر پر کھڑے دو نوکدار سینگ دھوپ میں خوب چمکتے تھے، مجموعی طور پر سنہری بھیڑ کا حلیہ ایسا رعب دار ثابت ہوا تھا کہ ہر جانور اس کیساتھ پنگا لینے سے گھبراتا بلکہ چھوٹے موٹے جانور تو اس کیلئے راستے چھوڑتے ہی تھے یہاں تک کہ جنگل کا شیر بھی اس سے بچ بچا کے گھومتا تھا۔
ایک دن شیر نے دیکھا کہ سنہری بھیڑ جنگل کے ساتھ والی بستی میں ایک کسان کے کھیت میں سبزی کے پتے چر رہی ہے، کسان کو اپنے کھیت کا اجاڑا دیکھ کر شدید تاؤ آگیا اور اس نے بید کی سونٹی اٹھا کے بھیڑ کی دبڑکٹ لگا دی، شیر نے سنہری بھیڑ کی درگت بنتے دیکھ کر سوچا کہ جو جانور گھاس پھونس کھاتا ہو وہ شیر سے طاقتور کیسے ہو سکتا ہے؟ اور جو کسان سے پٹائی کھا کے بھاگ رہا ہو وہ شیر کے سامنے کیسے ٹک سکتا ہے؟
کسان سے پٹائی کھا کے لنگڑاتی ہوئی بھیڑ جیسے ہی جنگل میں داخل ہوئی تو شیر نے اس پر حملہ کردیا، اس دن جنگل میں سنہری بھیڑ کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوگیا۔
کہانی ختم ہو گئی لیکن بات ابھی ختم نہیں ہوئی، محترم اشفاق احمد صاحب زاویہ میں کہتے ہیں کہ الحمراء ہال میں ایک سیمینار تھا جس میں پروفیسر صاحب عام آدمی کیلئے پاکستان بننے کی فضیلت بیان کر رہے تھے، پروفیسر بتا رہے تھے کہ اگر پاکستان نہ بنتا تو شائد آج وہ چپراسی ہوتے یا کہیں معمولی سے کلرک لگے ہوتے لیکن خدا کا شکر ہے کہ پاکستان بن گیا اور وہ بھی پڑھ لکھ کر استاد بن گئے، ان کا کہنا تھا کہ یہ مقام مجھے پاکستان کی بدولت ملا ہے کہ آج میں ایک یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی ہوں، لہذا پاکستان کی قدر کیجئے۔
اشفاق احمد صاحب کہتے ہیں کہ پروفیسر کی بات سن کر بابا جی سیمینار سے اٹھ کر چلے گئے اور ڈیرے پر جا کے ہماری کلاس شروع کر دی، کہا اس آدمی کو زرا بھی عقل نہیں تھی، اس نے کتنے دلوں کا خون کیا ہے، وہ حاضرین بیچارے اس کی بات سن کر کس قدر شرمندہ ہوئے ہوں گے کہ پاکستان بننے سے اسے تو بلند مقام مل گیا اور ہم وہی چھوٹے موٹے مقام پر رہے، ان کے دل پر کیا بیتی ہو گی؟
بابا جی دل کو بڑی اہمیت دیتے تھے، وہ انسان کا بہت خیال رکھتے تھے، ان کا کہنا تھا کہ کسی کا دل نہ ٹوٹے اس بات کے مقابلے میں وہ ترقی، سائنس اور مقام کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے، بابا جی سمجھتے تھے ایسی بات کرکے لوگوں کو شرمندہ کرنا ایک قبیح فعل ہے۔
پاکستان میں ایسی سنہری بھیڑیں اب جا بجا ملتی ہیں جن کی شخصی قابلیت کی بجائے ان کا ظاہری مقام و مرتبہ اور اثر و رسوخ ہی ان کا تعارف بنتا ہے، یہاں دوسروں کے دلوں پر اپنی سماجی حیثیت اور طاقت سے چرکے لگانا سنہری بھیڑوں کا پسندیدہ مشغلہ ہے، میڈیا بھی ان سنہری بھیڑوں میں سے ایک ہے، یہ بھی جس کھیت میں جی چاہے منہ اٹھا کے گھس جاتے ہیں اور دوسروں کا گریبان پکڑ پکڑ کے، ان کے منہ میں مائیک ٹھونس ٹھونس کے، جارحانہ رویے اور دھونس کے ساتھ کیمرے سے لوگوں کی پرائیویسی مجروح کرکے معاشرے کو میڈیا کی طاقت باور کراتے ہیں۔
معاشرتی ٹیبوز پر اصلاحی گفتگو کرنا ادب اور صحافت کا بنیادی وصف ہے لیکن اس کیلئے ایک دائرہ کار بھی متعین ہے، اگر کہیں کچھ غلط ہو رہا ہے تو اس کی باز پرس کا طریقہ کار بھی موجود ہے، وہ طریقہ کار اگر کام نہیں کر رہا تو اسے ایکٹیویٹ کرنے کا تقاضہ تو کیا جا سکتا ہے لیکن خود جج بن کر عدالت کہیں نہیں لگائی جا سکتی۔
ادب اور صحافت میں تھوڑا سا ہی فرق ہے لیکن یہ معمولی سا فرق دونوں کے پروٹوکول میں بہت واضع فاصلہ پیدا کر دیتا ہے، ادب اپنی علامت نگاری اور استعارے میں معاشرے کے ٹیبوز پر کسی کو مخاطب کئے بغیر جو بات کہتا ہے وہی بات صحافت میں کسی کو مخاطب کرکے کہی جاتی ہے، صحافت کا مخاطب کوئی نہ بھی ہو تو بھی صحافت کا دائرہ کار ایسا ہے کہ اس کا مخاطب بین السطور میں نظر آ ہی جاتا ہے، اسی تعلق سے طبقاتی کشمکش اور بلیک میلنگ کا دروازہ بھی کھلتا ہے اور اسی سے زرد صحافت بھی جنم لیتی ہے۔
ادب میں کوئی فنی کمزوری تو ہو سکتی ہے لیکن زرد ادب جیسی کوئی چیز نہیں ہوتی اسی لئے سب کچھ کہہ دینے کے باوجود ادب اور ادیب معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے لیکن صحافت جب اپنی طاقت کے زعم میں طبقات کیساتھ دوبدو ہونے لگے یا کسی کھیل کا حصہ بن جائے تو اس کا مقدس کام زرد صحافت اور وہ خود سنہری بھیڑ بن جاتی ہے۔
سیانے کہتے ہیں اگر پاکستان بننے کی بدولت آپ کسی سنہرے مقام پر پہنچ ہی گئے ہیں تو اپنے آپ کو ایسے ممتاز کرکے دکھانا کہ باقی اپنے آپ کو چھوٹا محسوس کریں، ان کی دل آزاری ہو یا وہ آپ سے خوف کھانے لگیں تو یہ ایک قبیح شغل ہے جو اس وقت اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے جب کسی کھیت میں کسان کے ہاتھوں اچانک اس رعب کا طلسم ٹوٹ جائے۔
۔۔۔٭٭٭۔۔۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں