“ملک صاب”…محمد اشفاق

اپنے اپنے ذوق کی بات ہے، مگر میانوالی اور سرگودھا کے لہجے میں گالیوں کی آن، بان اور شان ہی کچھ نرالی ہوتی ہے- میانوالی کے لہجے سے ہمیں روشناس کرانے والے ملک صاحب تھے-
سات پشتوں سے آباء کا پیشہ استراگری چلا آ رہا تھا، ملک صاب کو مگر بچپن ہی سے ہوٹل چلانے کا شوق تھا- اس شوق کی خاطر سینکڑوں سر مونڈنے کے بعد جو جمع پونجی مہیا ہوئی، ملک صاب وہ لے کر ہمارے علاقے میں فروکش ہوئے- چوک پہ ایک مناسب سائز کی دکان لے کر آپ نے اس کا نام ڈیرہ رکھا اور چاول چھولے اور چائے فروشی کا کام شروع کر دیا- ان کے ڈیرے کے عین سامنے وڈیوگیمز پارلر ہوا کرتا تھا جہاں ہم سکول سے بچا ہوا جیب خرچ لٹانے جایا کرتے تھے- کبھی گھر کے سودے میں سے بچائے پیسے جیب میں ہوں تو لذت کام و دہن کا انتظام بھی ہو جایا کرتا تھا، یونہی ملک صاب سے شناسائی ہوئی-
ملک صاب کی زمانہ شناس نظروں نے پہلے ماہ ہی بھانپ لیا کہ یوں ڈیرہ زیادہ عرصہ چلنے والا نہیں- اپنے لاجواب کاروباری ذہن کا استعمال کرتے ہوئے وہ ایک بڑے سائز کا بھاری بھرکم ٹی وی اور وی سی آر اٹھا لائے- خود بھی سلطان راہی مرحوم کے پرستار تھے چنانچہ پنجابی فلموں کی ریلیز کا وہ سلسلہ شروع ہوا جس نے ڈیرے کو اجڑنے سے بچا لیا- اب فلم دیکھنے کیلئے آرڈر دینا شرط قرار پایا- کاروبار میں برکت تو یقینا” ہوئی مگر اس قدر نہیں جتنا ملک صاب کو توقع تھی، کیونکہ ہم ایسے ڈھیٹ، کنجوس اور فارغ گاہک ایک چاول کی پلیٹ یا چائے کی پیالی پر پوری فلم دیکھ لیا کرتے تھے-
مزید ایک ماہ گزرنے پر ملک صاب نے اپنی شرط میں ترمیم یوں فرمائی کہ چاول یا چائے ختم ہونے پر آدھ گھنٹے کے اندر مزید آرڈر دینا ہوگا ورنہ ڈیرے سے بیدخل کر دیا جائے گا- ہم دونوں نے اس چیلنج کا حل یوں نکالا کہ ایک سنگل پلیٹ چاول جس پہ ملک صاب گن کر پانچ چھ چنے اور ایک بالٹی شوربہ انڈیلا کرتے تھے، دو چمچوں کے ساتھ منگوا لیتے تھے- فلم میں جب کوئی گانا آئے تو ہم نہایت احتیاط سے ایک ایک چمچ منہ میں ڈال کر اگلے گانے تک اسے چباتے رہتے تھے- ملک صاب جلتے کڑھتے تو بہت تھے مگر کوئی قانونی کاروائی کرنے سے قاصر رہتے تھے- آخر انہوں نے ہمیں وہ بیہودہ خطاب عطا فرمایا جس کی رو سے ہمارے اس ڈھیلے پن کی ذمہ داری ہم دونوں کے والد گرامی پر عائد ہوتی تھی-
یوں تو ملک صاب کے میانوالی والے لہجے میں بلا کی سلاست اور روانی تھی خصوصا” گالیوں کے معاملے میں، مگر کسی نامعلوم وجہ کی بنیاد پر حضرت لام سے لٹک ہی جایا کرتے تھے- چنانچہ گالیوں اور ہمیں عطا کردہ خطاب میں انہیں لٹکنا پڑتا تھا، ان کی اس ہکلاہٹ سے گالیوں کا صوتی تاثر مزید گھمبیر اور بارعب ہو جایا کرتا تھا-
میں آغاز میں بتانا بھول گیا کہ ملک صاب کے ڈیرے پر چاولوں اور چائے کے علاوہ جو شے باافراط اور مفت دستیاب تھی وہ یہی گالیاں تھیں- خود کو، برتنوں کو، گاہکوں کو، سلطان راہی، انجمن اور مصطفیٰ قریشی کو غرضیکہ ہر کس و ناکس کو وہ یہ سوغات مفت بانٹا کرتے تھے- مگر آفرین ہے کہ کبھی کسی واحد حاضر کو گالی نہیں دیتے تھے- ان کی گالیوں کا حقدار ہونے کیلئے کم سےکم دو ہونا شرط تھی، زیادہ کی البتہ کوئی حد نہ تھی- کوئی گاہک اکیلا ہو اور اسے گالی دینا واجب تو ملک صاب خود کو گالیاں دینے لگ جاتے تھے-
اب گاہکوں کی بھی سن لیجئے، مجھے اور میرے لنگوٹیے کو ڈیرے کے قدیم ترین سرپرست ہونے کا اعزاز حاصل تھا- آرڈر خواہ کم دیتے ہوں مگر دیگر گاہکوں کی نسبت خوشحال اور علاقے کی معروف سماجی شخصیات ہونے کی بدولت ملک صاب ہم سے قدرے دبتے بھی تھے، کیونکہ ان کے آس پاس باقی جو بھی دکانیں تھیں، ان کے مالکان ہم دونوں کے پڑوسی، محلے دار یا بزرگ تھے- سامنے کپڑے کے تاجر سب افغانی بھی ہماری گلی کے تھے، چنانچہ ملک صاب کو احساس رہتا تھا کہ ہم سے بگاڑنی اچھی نہیں- کبھی فلم زیادہ آگے نہ نکلی ہو تو ہماری فرمائش پر ریوائنڈ بھی کر دیا کرتے تھے- ملک صاب کا ڈیرہ جہاں واقع تھا وہ سوزوکیوں کا اڈہ بھی تھا اس لئے تقریبا” تمام کنڈکٹر اور ڈرائیور بھی ان کے مستقل گاہک تھے، اس کے علاوہ کوڑا اٹھانے والے پٹھان، چوک پر زیادہ تر فارغ بیٹھنے والے مزدور اور سامنے وڈیو گیمز میں آنے والے تلنگے ملک صاب کے ڈیرے کی اصل رونق تھے-
خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے، یہاں تو سب خربوزے ہی رنگدار تھے، اس لئے آپس میں انتہائی فحش جگتوں، گالیوں اور بیہودہ دھمکیوں کا سلسلہ یوں تو ہر وقت ہی جاری رہتا تھامگر شام کو اپنے عروج پہ ہوا کرتا تھا، جب بیشتر گاہک دن بھر کی کمائی لے کر تفریح کی غرض سے ڈیرے پر پہنچتے تھے- ملک صاب کو یوں تو اس فحش کلامی پر ہرگز اعتراض نہ ہوتا، خود بھی حسب توفیق شرکت فرماتے تھے مگر جانے کیوں ہر روز ان گالیوں اور جگتوں کا رخ ملک صاب کی جانب ہو جایا کرتا تھا- پشتو، سرائیکی، پنجابی اور اردو میں انہیں اتنا کچھ سننا اور سہنا پڑتا تھا کہ ان کے کان، ناک اور ماتھا سرخ ہو جایا کرتا تھا- وجد میں آ کر خود کو، ہمیں، اپنے والد مرحوم کو، مالک دکان کو یہ بڑی بڑی گالیاں دیتے اور لام پہ ہکلاتے دکان سے باہر نکل کر سٹینڈ پہ پڑے دیگچے میں زور زور سے چمچہ ہلانے لگتے تھے-
ایک روز یونہی گھمسان کا رن پڑا تھا کہ ملک صاب کی برداشت جواب دے گئی- تقریبا” چیختے ہوئے انہوں نے چند مرصع و مرقع گالیوں سے مزین یہ اعلان فرمایا کہ آج سے ڈیرے پر گندی باتیں کرنا منع ہے-
ایک لمحے کیلئے ڈیرے پر سناٹا چھا گیا، اظہار رائے پر یہ پابندی ہم میں سے کسی کو گوارا نہ تھی، یوں بھی ملک میں تازہ تازہ جمہوریت بحال ہوئی تھی- ایک گاہک نے میز پر ہاتھ مار کر ہمارے جذبات کی ترجمانی کی- کیوں۔۔۔ آخر کیوں؟
یہ یقینا” اہم سوال تھا ، چند لمحے سوچنے کے بعد ملک صاب نے فرمایا کہ “باہر سے مائیں، بہنیں بھی گزرتی ہیں” اس پہ بہت قہقہے لگے کیونکہ ماؤں بہنوں نے عرصہ ہوا سڑک کے دوسری جانب سے گزرنا شروع کر رکھا تھا- یہ دلیل کارگر نہ ہوئی تو ملک صاب بولے ” ماحول خراب ہوتا ہے” اس پہ ماحول کو اور ملک صاب کو دیکھ کر سب کے پیٹ میں بل پڑ گئے-
آخر اپنے متوقع فرضی اور شریف گاہکوں کو چند موزوں القابات سے نوازتے ہوئے ملک صاب نے فرمایا کہ “کبھی کوئی انسان کا بچہ بھی ڈیرے پہ آ سکتا ہے”- یہ دلیل وزنی تھی، کارگر رہی- امکان کتنا ہی موہوم کیوں نہ ہو، اس امر کا بہرحال خدشہ تو تھا-
اپنے پیٹرنز کو قائل ہوتا دیکھ کر ملک صاب نے چارٹ پیپر اور مارکر منگوایا اور ہماری تجویز پر ہمارے ایک خوشخط کلاس فیلو کی نوٹس لکھنے کی ڈیوٹی لگی- مگر نوٹس پہ کیا لکھا جائے؟ ملک صاب کا خیال تھا “یہاں پر گندی باتیں کرنا منع ہے” مناسب رہے گا- گاہک مگر متفق نہ تھے-
ہر صاحب علم، صائب الرائے شخص کے “گندی باتوں” پر اپنے تفردات تھے- نصِ قطعی سے نہیں کہا جا سکتا تھا کہ کون سی بات گندی شمار ہو اور کون سی پاک- مزید یہ کہ مجلس شوریٰ میں شامل ہم پرانے پاپیوں کی تو خیر تھی، نئے گاہکوں کو کون سمجھائے گا کہ کیا کیا باتیں “گندی” میں شمار کی جائیں گی- اس مسئلے پر بہت سی گندی باتیں کرنے کے بعد مجلس کا ایک فقرے پہ اتفاق ہوا- ملک صاب کچھ مشکوک تھے مگر انہیں بائیکاٹ کی دھمکی دے کر منا لیا گیا- یوں موٹے موٹے الفاظ میں یہ اعلان تحریر ہوا-
“یہاں پر ۔۔ اور ۔۔۔۔ کی باتیں کرنا منع ہے”
لفظِ اول سے ملک صاب لٹک لٹک جاتے تھے، مگر لفظ دوم سے کمال جوش و جذبے سے گزر جایا کرتے تھے- خیر اس روز کے بعد ڈیرے پر گندی باتیں ممنوع قرار پائیں- اب بس ہر دو منٹ کے بعد باآواز بلند نوٹس پڑھ کر سب کو خبردار کر دیا جاتا تھا- اس پہ ملک صاب بھی خوش تھے-
چند روز بعد کی بات ہے- پشتو فلموں سے انسپائر ہو کر بالآخر ان دنوں پنجابی فلموں میں بھی ہیروئن کی پشت پر کیمرا فوکس کرنے کا چلن نکلا تھا- ماضی کی ایک معروف اداکارہ کا کم بیک ہوا تھا چنانچہ ان کی بیک پر مادام کا گانا چل رہا تھا- ہم چار پانچ مستقل گاہک موجود تھے اور نظریں سکرین پہ گاڑے سلو موشن میں چمچ منہ تک لانے کی کوشش میں تھے جب ایک بزرگ مولوی صاحب ایک نوجوان مولوی کے ہمراہ، جو بلاوجہ ہر بات پہ زور زور سے سر ہلا کر ان کی عقیدت بھری تائید کر رہا تھا، ڈیرے میں داخل ہوئے- آرڈر باہر وہ دے آئے تھے، ملک صاب چنانچہ دو فل پلیٹ چاولوں کی لے کر آئے اور دونوں باریش حضرات کو فخریہ اور ہمیں ملامتی نظروں سے گھورتے باہر چلے گئے-
بڑے مولوی بولنے اور چھوٹے سننے میں اس قدر محو تھے کہ گردوپیش پر ان کا دھیان نہیں گیا- آخر بڑے مولوی صاحب نے چمچ چاولوں سے بھرتے ہوئے باآواز بلند تعوذ پڑھا، جس پہ ہمیں ان کی جانب متوجہ ہونا پڑا- تسمیہ کا آغاز ہی تھا جب مولوی صاحب کی نظر ہمارے نورانی چہروں سے ہوتی ہوئی، پردہ سکرین پر کویتا کی پشت پہ پڑی اور وہاں سے پھسلتی ہمارے نوٹس بورڈ پہ آن ٹھہری- حضرت بسم اللہ کے لام ہی پہ اٹک گئے- زوردار آواز کے ساتھ چمچ پلیٹ پہ مارا، چھوٹے مولوی کا ہاتھ تھاما اور اسےگھسیٹتے ہوئے باہر نکل گئے-
ملک صاب نے اندر جھانک کر سوالیہ نظروں سے ہماری جانب دیکھا ” انہیں فلم نہیں پسند آئی” میں نے قصہ مختصر کیا- ملک صاب نے دو گالیاں لڑھکائیں اور بولے ” انہاں ۔۔۔۔۔ دیاں واسطے مڑ میں بلیو پرنٹ چلاواں”
آج ایک صاحب سے مشورہ مطلوب تھا، کال پہ بات چل رہی تھی، سارا قصہ سن کر فرمانے لگے “مجھے کیا دکھانا چاہتے ہیں آپ؟”
ملک صاب بے طرح یاد آئے-

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply