بارعب اداکار، ونود کھنہ

بارعب اداکار، ونود کھنہ
ذوالفقار علی زلفی
ہندی سینما میں امیتابھ بچن کی الگ اور منفرد حیثیت ہے , انہیں اگر افسانوی ہیرو قرار دیا جائے تو شاید غلط نہ ہو. 70 کی دہائی میں اینگری ینگ مین امیتابھ بچن فلم بینوں کے دل و دماغ پر چھائے ہوئے تھے ایسے میں فلم “امر اکبر انتھونی” ریلیز ہوئی جس میں انہوں نے انتھونی کا کردار نبھایا. فلم کے ایک سیکونس میں انسپکٹر امر , امیتابھ بچن یعنی انتھونی کی للکار پر ان کے علاقے میں جاکر ان کی دھنائی کرتے ہیں. اس سیکونس پر سینما اور گلی کوچوں میں بجائے سکوت طاری ہونے کے تالیاں اور سیٹیاں بجتی ہیں , انسپکٹر امر ایک نئے محبوب ہیرو کی صورت امیتابھ بچن کی جگہ لینے پہنچ جاتے ہیں. انسپکٹر امر تھے نوجوان فلم بینوں کے آئیڈیل “ونود کھنہ”.

ونود کھنہ کا تعلق ایک متمول پنجابی گھرانے سے تھا. 06 اکتوبر 1946 کو انہوں نے جب پشاور کی فضاؤں میں آنکھ کھولی تو برصغیر مذہبی بنیادوں پر دولخت ہونے کو تھا. ہندوؤں کے لئے مسلم اکثریتی علاقوں میں رہنا سراسر رسک تھا سو جب 47 کو پاکستان بننے کا اعلان ہوا تو ان کے خاندان نے ہجرت کرکے ممبئی کو اپنا ٹھکانہ بنانے میں ہی عافیت سمجھی.

جواں ہوتے ہی انہوں نے قسمت آزمانے کے لئے فلمی صنعت کا رخ کیا. اتفاق سے سپر اسٹار سنیل دت اپنے چھوٹے بھائی سوم دت کو لانچ کرنے والے تھے , انہوں نے نوجوان ونود کھنہ میں منفی کردار نظر آگیا اور انہوں نے ان کو اپنی فلم “من کا میت” میں ولن کا کردار دے دیا. 1968 کو ریلیز ہونے والی یہ فلم بری طرح پٹ گئی یوں سوم دت کے ہیرو بننے کا سپنا بھی خاک میں مل گیا مگر , ونود کھنہ کے دلکش انداز اور منفی اداکاری نے فلمسازوں کے دل جیت لئے. اس کے بعد وہ یکے بعد دیگرے “پورب اور پچھم” , “سچا جھوٹا” , “لکشمن” اور “آن ملو سجنا” میں بھی منفی کردار کرتے نظر آئے. بالخصوص “آن ملو سجناں” میں انہوں نے نروپا رائے کے عیاش بیٹے کے کردار میں راجیش کھنہ اور آشا پاریکھ کے مقابل بڑی زبردست اور مضبوط اداکاری کی اور غالباً اسی کردار کے تناظر میں لیجنڈ ہدایت کار راج کھوسلہ نے ان کو دھرمیندر اور آشا پاریکھ کے مقابل فلم “میرا گاؤں میرا دیش” میں “جبر سنگھ” جیسے بے رحم ولن کا رول دیا. انہوں نے اپنی اداکاری کے ذریعے “جبر سنگھ” کے کردار کو ہمیشہ کے لئے ولنوں کی فہرست میں امر کردیا.

جبر سنگھ کے کردار نے ان کے اندر چھپی صلاحیتوں کو سب پر آشکار کردیا. درست طور پر دیکھا جائے تو ونود کھنہ کی فلمی صنعت میں شاندار انٹری 1971 کی “میرا گاؤں میرا دیش” ہی ہے جس نے باریک بین اور محتاط فلمساز گلزار کو مجبور کردیا کہ وہ ان کو میناکماری کے معاون کے کردار میں شتروگھن سنہا کے مقابل فلم “میرے اپنے” میں کاسٹ کریں. اس فلم کے ذریعے گلزار پہلی دفعہ ہدایت کاری کے میدان میں اتر رہے تھے سو رسک لینے کا تو سوچا بھی نہیں جاسکتا. توقعات کے عین مطابق ونود کھنہ نے اپنی جاندار اداکاری کے ذریعے شتروگھن سنہا کو پچھاڑ دیا.

گلزار ان پر اس قدر فریفتہ ہوئے انہوں نے ان کو 1973 میں اپنی تھرلر فلم “اچانک” میں نیوی آفیسر کا مشکل کردار دے دیا. گیتوں اور مصالحے سے خالی اس حقیقی کہانی میں ونود کھنہ نے اپنی اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ تقریباً تمام فلمی ناقدین ان کی تعریف کئے بنا نہ رہ سکے. یہ ونود کھنہ کا عروج تھا , کچھ نہیں سے وہ بہت کچھ بن چکے تھے.

اگلے دس سالوں میں “کچے دھاگے” , “ضمیر” , “قدرت” , “مقدر کا سکندر” , “قربانی” , “ہاتھ کی صفائی” ، “ایک حسینہ دو دیوانے” , “پرورش” , “برننگ ٹرین” اور “امر اکبر انتھونی” سمیت متعدد فلموں میں مثبت اداکاری کے ذریعے انہوں نے خود کو سپر اسٹار منوالیا. امیتابھ بچن اور ونود کھنہ کے درمیان مقابلے جیسا ماحول تھا , ونود کھنہ کا جارحانہ انداز , بارعب شخصیت اور متاثر کن اداکاری کے باعث یہ امکان ظاہر کیا جارہا تھا بہت جلد وہ مقبولیت کے لحاظ سے امیتابھ بچن سے آگے نکل جائیں گے. ایسا ممکن تھا , سو فیصد ممکن تھا مگر ونود کھنہ اچانک بدل گئے.

1983 کو وہ فلمی دنیا کو خیر باد کہہ کر ایک دانشور نما احمق شخص گرو رجنیش سے جا مل گئے اور امریکہ جاکر ان کے آشرم میں رہنے لگ گئے. ان کے اس احمقانہ فیصلے سے نہ صرف ان کا فلمی کیریئر تباہ ہوا بلکہ ان کی عائلی زندگی کے بھی پرخچے اڑ گئے.

چار سال بعد انہیں اپنی حماقت کا احساس ہوا اور وہ دکھی دل کے ساتھ 1987 کو دوبارہ ممبئی پہنچے. فلمی صنعت کے دروازے گوکہ ان کے لئے بند نہ تھے مگر اب حالات بدل چکے تھے. ان کے رقیب امیتابھ بچن بلندیوں کے اس مقام پر پہنچ چکے تھے جہاں پہنچنا اب ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا. انہوں نے فلم “انصاف” سے دوبارہ کم بیک کیا. ونود کھنہ کے مطابق وہ اس فلم کی شوٹنگ کے دوران میک اپ روم کا دروازہ بند کرکے رویا کرتے تھے , ان میں خوداعتمادی تقریباً ختم ہوچکی تھی. ڈمپل کپاڈیہ جیسے جونیئر فنکار کے سامنے ان کی اداکاری پھیکی پھیکی سی محسوس ہوئی. ایسے میں ان کے دیرینہ دوست فیروزخان آگے بڑھے , انہوں نے ونود کھنہ کی ہمت بندھائی اور ان کو اپنی فلم “دیاوان” میں مرکزی کردار دے دیا. 1988 کی فلم “دیاوان” میں وہ اپنے سے کم عمر مادھوری ڈکشت کے ساتھ رومانس اور گاڈفادر طرز کے ایکشن میں نظر آئے. اس فلم کے ذریعے انہوں نے اپنا وہ کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرلیا جسے وہ ایک غلط فیصلے سے گنواچکے تھے.

1989 کو انہوں نے ڈھلتی عمر کے باوجود سری دیوی اور رشی کپور جیسے رومانٹک فنکاروں کے سامنے رومانٹک اداکاری کے وہ جوہر دکھائے کہ بقول شخصے انہوں نے فلم “چاندنی” کا میلہ لوٹ لیا.

باریک بین گلزار پھر ایک مشکل کردار کے ساتھ آدھمکے. اس بار سروں کی ملکہ لتا منگیشکر بھی پروڈیوسر کے روپ میں ہمراہ تھے. گلزار کی ہدایت میں ونود کھنہ 1991 میں فلم “لیکن” میں ایک اور دلنواز کردار کے ساتھ جلوہ گر ہوئے. فلم بینوں سمیت ناقدین نے بھی ونود کھنہ کو سراہا. بس پھر تو گاڑی نکل پڑی. “دھرم سنکٹ” , “فرشتے” اور “اینامیناڈیکا” سمیت درجنوں فلمیں سینما اسکرین کی زینت بنتی گئیں.

1997 کو ایک جانب انہوں نے فلم “ہمالیہ پتر” کے ذریعے اپنے بیٹے اکشے کھنہ کو فلمی صنعت میں متعارف کیا اور دوسری جانب خود سیاست کا رخ کرگئے. اکشے کھنہ , سنجے دت اور سنی دیول کی بجائے ابھیشک بچن اور بوبی دیول کی مانند اپنے والد ونود کھنہ کے نالائق وارث ثابت ہوئے. ہرچند اکشے کھنہ متعدد فلموں میں اداکاری کرتے نظر آئے مگر وہ ونود کھنہ کے عشرعشیر بھی نہیں ہیں.

Advertisements
julia rana solicitors

نئی صدی ان کو دوبارہ فلمی صنعت کی جانب کھینچ لائی. اب کے وہ کریکٹر آرٹسٹ اور ولن بن کر آئے. 2007 کی “رسک” اور 2014 کی “کوئلانچل” میں ادا کئے گئے ان کے کرداروں کو بلاشبہ ان کے آخری ادوار کی بہترین منفی کرداروں کا درجہ دیا جاسکتا ہے بالخصوص “کوئلانچل” میں ان کا سرد اور خشک رویہ تعریف کے قابل ہے. سلمان خان کے ساتھ دبنگ سیریز کی دونوں فلموں میں بھی پانڈے جی کے کردار بہترین کی سند دیے جانے کے قابل ہیں. خاص طور پر سلمان خان کے مکالمے “کمال کرتے ہیں پانڈے جی” پر ان کے چہرے کے اتارچڑھاؤ دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں.
بدقسمتی سے ان کی آخری فلم شاہ رخ خان اور کاجول کے ساتھ 2015 کی “دل والے” ثابت ہوئی. اس فلم کے بعد وہ منظرِ عام سے غائب ہوگئے. ایک دن ان کے چھوٹے بیٹے راہل کھنہ نے اطلاع دی کہ ان کے والد کینسر کے لاسٹ اسٹیج پر ہیں ان کے لئے دعا کیجئے.
27 اپریل 2017 کو ایک عہد تمام ہوا. ھندی سینما نے اپنے ایک ہونہار فنکار کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے کھودیا. پشاور سے سفر کا آغاز کرنے والے ونود کھنہ ممبئی میں انتقال کرگئے.
“زندگی تو بے وفا ہے ایک دن ٹھکرائے گی
موت محبوبہ ہے اپنے ساتھ لے کر جائے گی”

Facebook Comments

ذوالفقارزلفی
ذوالفقار علی زلفی کل وقتی سیاسی و صحافتی کارکن ہیں۔ تحریر ان کا پیشہ نہیں، شوق ہے۔ فلم نگاری اور بالخصوص ہندی فلم نگاری ان کی دلچسپی کا خاص موضوع ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply