عربی اور غربی دہشتگردی کا علاج۔۔۔نذرحافی

طعنے کلیجہ کھا جاتے ہیں، جملے انسانوں کو مار دیتے ہیں اور الفاظ کردار کو نگل جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انسانیت کے دشمن اپنے دفاع کے لئے ایسے جملے استعمال کرتے ہیں، جن سے لوگ مایوس اور اولاِد آدم ناامید ہو جاتی ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ اب تو زمانہ ہی برا ہے، کبھی کہا جاتا ہے کہ سب ایک جیسے ہیں، کبھی کہا جاتا ہے کہ یہاں کون پاک صاف رہ گیا ہے۔۔۔۔ یہ جملے نہیں بلکہ شیطان کے ترکش کے تیر ہیں، جب تک اس دنیا مین ظلم ہوتا رہے گا، اس وقت تک مظلوم قیام کرتا رہے گا، یہ دنیا کی کسی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے والے ملک کے مندر میں آصفہ کے ساتھ ریپ ہو یا دنیا کی کسی اسلامی جمہوریہ کے کسی تہہ خانے میں کسی زینب کے ساتھ درندگی ہو، یمن میں ننھے بچوں کا دانہ پانی بند کیا جائے، شام میں نوجوان نسل پر زبردستی دہشت گردوں کی حکومت قائم کرنے کی کوشش کی جائے اور یا پھر کابل میں ایک ووٹر رجسٹریشن سنٹر کے باہر خودکش حملہ کرکے ستاون افراد کو ہلاک کر دیا جائے، یہ سب انسانیت کے خلاف جرائم ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ کچھ مجرموں کو باقاعدہ کچھ ممالک نے اپنی ضرورت کے لئے ٹریننگ دی ہے اور کچھ مجرم وقتی طور پر کسی منفی جذبے کے تحت جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ مجرموں کو مجرم مانا جائے اور یہ تسلیم کیا جائے کہ جس طرح ہندوستان کے کسی مندر میں کسی بچی کے ساتھ ریپ کرنا جرم ہے، اسی طرح یمن کے بچوں پر جارحیت بھی جرم ہے، جس طرح پاکستان کے کسی تہہ خانے میں زینب نامی بچی کے ساتھ درندگی کرنے والا وحشی درندہ ہے، اسی طرح افغانستان، عراق اور شام میں بھی داعش اور طالبان کا عزّت دار اور پرامن خاندانوں پر شب خون مارنا اور ناموس کی دھجیاں بکھیرنا بھی قابلِ مذمت ہے۔ ہمیں چند لمحوں کے لئے مشرق و مغرب کی تقسیم اور فرقوں کی حدود سے اوپر آکر یہ سوچنا ہوگا کہ سعودی عرب نے امریکہ و اسرائیل کے ساتھ مل کر اب تک پاکستان و افغانستان و عراق و شام و یمن میں مسلمانوں کے لاشیں زیادہ گرائی ہیں یا کسی عالمی جنگ میں کسی کافر ملک نے اس قدر مسلمانوں کا قتل عام کروایا ہے!؟ اسی طرح طالبان، القاعدہ، داعش، لشکر جھنگوی اور سپاہ صحابہ جیسے دہشت گردوں کی سعودی عرب نے سرپرستی کی ہے یا کسی کافر ریاست نے!؟

تفصیلات کے مطابق کابل میں ہونے والے حالیہ خوفناک خودکش دھماکے میں ستاون سے زائد لوگ ہلاک ہوچکے ہیں اور زخمیوں کی تعداد 119 سے عبور کرچکی ہے، جن میں سے بعض کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ اس واقعے کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی ہے۔ فرض کریں کہ اگر اس حملے میں ہلاک ہونے والے سب لوگ کافر بھی ہوں تو کیا داعش بنانے والوں کو اس قتلِ عام کا ثواب پہنچ رہا ہے!؟ یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اب نئی حکمت عملی کے تحت اس وقت داعش، القاعدہ اور طالبان بنانے والے لبرل لوگوں کے لشکر تیار کرنے نکلے ہوئے ہیں۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جو کام داعش اور القاعدہ کا ہے، ویسا ہی یونیورسٹیوں کے طالب علموں سے بھی لیا جانے لگا ہے۔ ملکی سلامتی، علاقائی امن اور خطے کے استحکام کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ دہشت گرد گروہوں کے خاتمے کے لئے قریبی تعلقات قائم کرے اور اس منطقے کے سارے ممالک ایک مشترکہ حکمت عملی کے ساتھ دہشت گردی اور انسانیت سوز جرائم کا توڑ کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان و افغانستان کو اپنے ہمسایہ ممالک سے مل کر عربی اور غربی دہشت گردی کا توڑ کرنا ہوگا۔ مغربی اور عربی ممالک نے افغانستان و پاکستان میں مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ دہشت گردی کا بیج بویا ہے، اب اس دہشت گردی کے مقابلے کے لئے پاکستان و افغانستان کو مقامی سطح پر ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر ایک بلاک تشکیل دینا چاہیے، جو اس دہشت گردی کا مقابلہ کرے۔ یہ سوچنا کہ اب تو زمانہ ہی برا ہے، یا سب ایک جیسے ہیں، یا یہ کہنا کہ یہاں کون پاک صاف رہ گیا ہے۔۔۔ اس طرح کی باتیں لوگوں کی ہمت اور حوصلے کو کم کرنے کے حربے ہیں۔ پاکستان و افغانستان اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مل کر آج بھی اپنے درمیان حائل خلیج کو عبور کرسکتے ہیں اور عربی و غربی طاغوت کو دندان شکن شکست دے سکتے ہیں۔ بے شک انسانوں کو ناامید کرنا اور شیاطین کے چنگل سے نکلنے کے لئے جدوجہد سے منحرف کرنا یہ شیطانوں کا ہی کام ہے۔ دنیا میں جب تک سورج طلوع ہوتا رہے گا، خیر و شر، حق و باطل اور انسانیت و شیطانیت کے درمیان معرکہ جاری رہے گا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہم کس گروہ میں شامل ہیں، لوگوں پر ظلم کرنے اور انہیں ناامید کرنے والے گروہ میں یا مظلوموں کی ہمت بڑھانے اور انہیں حوصلہ دلانے والے گروہ میں!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply