تفکر و تدبر عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کے لغوی معنیٰ سوچ، بچار اور غور و فکر کرنے کے ہیں۔ تفکر و تدبر ایک ذہنی عمل ہے جس میں انسان اپنے تمام تر توہمات اور خیالات کو جھٹک کر کسی ایک خیال، نکتہ یا کسی مشاہدے کی گہرائی میں سفر کرتا اور اسی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے۔ تمام الہامی کتابوں میں اورقرآن مجید میں بالخصوص تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے جگہ جگہ انسان کو تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر غور کرے۔ قرآنِ مجید کا بنیادی موضوع ’’اِنسان‘‘ ہے، جسے سینکڑوں بار اِس اَمر کی دعوت دی گئی ہے کہ وہ اپنے گرد و پیش وُقوع پذیر ہونے والے حالات و واقعات اور حوادثِ عالم سے باخبر رہنے کے لئے غور و فکر اور تدبر و تفکر سے کام لے اور اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ شعور اور قوتِ مُشاہدہ کو بروئے کار لائے تاکہ کائنات کے مخفی و سربستہ راز اُس پر آشکار ہوسکیں۔قرآنِ مجید نے بندۂ مومن کی بنیادی صفات و شرائط کے ضمن میں جو اَوصاف ذِکر کئے ہیں اُن میں آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں تفکر کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔فرد پر یہ فرض عائد کیا گیا ہے ،یہ جاننے میں کوشاں ہو کہ اِس وُسعتِ اَفلاک کا نظام کن اُصول و ضوابط کے تحت کارفرما ہے اور پھر پلٹ کر اپنی بے وُقعتی کا اَندازہ کرے۔ جب وہ اِس وسیع و عریض کائنات میں اپنے مقام و مرتبہ کا تعین کرلے گا تو خودہی پکار اُٹھے گا ’’اے میرے ربّ! تو ہی میرا مولا ہے اور تو بے عیب ہے،حق یہی ہے کہ اِس وُسعتِ کائنات کو تیری ہی قوت وُجود بخشے ہوئے ہے اور تو نے یہ عالم بے تدبیر نہیں بنایا‘‘۔
غور و خوض اور تفکر و تدبر حکمِ خداوندی ہے، کیونکہ تفکر کے بغیر سوچ کے دروازے نہیں کھلتے اور اگر یہ دروازے مقفّل رہیں تو تاریخ کا سفر گویا رُک جاتا ہے اور اِرتقائے نسلِ اِنسانی کی تاریخ اندھیروں میں گم ہو جاتی ہے۔ مسلمانوں نے اپنے سفر کی اِبتدائی صدیوں میں تفکر و تدبر کے ذریعے سائنسی علوم میں نہ صرف بیش بہا اِضافے کئے بلکہ اِنسان کو قرآنی اَحکامات کی روشنی میں تسخیرِ کائنات کی ترغیب بھی دی۔ چنانچہ اُس دَور میں بعض حیران کن اِیجادات بھی عمل میں آئیں اور سائنسی علوم کو اَیسی ٹھوس بنیادیں فراہم ہوئیں جن پر آگے چل کر جدید سائنسی علوم کی بنیاد رکھی گئی ہے۔ علامہ اقبال بال جبریل میں لکھتے ہیں
ہرسینہ نشیمن نہیں جبریل امین کا
ہر فکر نہیں ظاہر فردوس کا صیاد
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خداداد سے روشن ہے زمانہ
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد!
تمام الہامی کتابوں میں اورقرآن مجید میں بالخصوص تفکر یا غور و فکر کو بہت اہمیت دی گئی ہے جگہ جگہ انسان کو تفکر اور تدبر کا حکم دیا گیا ہے کہ وہ آسمانوں اور زمین کی تخلیق اور اپنی تخلیق پر غور کرے۔فرمان الہیٰ ہے’’بے شک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقل سلیم والوں کے لئے (اﷲ کی قدرت کی) نشانیاں ہیں‘‘( آل عمران، 3 : 190)۔دراصل فکر انسانی میں ایسی قوت ادراک اور روشنی موجود ہے جو کسی ظاہر کے باطن کا، کسی حضور کے غیب کا مشاہدہ کر سکتی ہے اسی عمل کو تفکر کہتے ہیں۔ان سب حقائق کے باوجود یہ بات مسلمہ حیثیت رکھتی ہے کہ انسان کو اپنے رب کی رضا میں راضی ہونا ہونا پڑتا ہے۔ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا ۔ افسوس کہ ہم تمام تر سوچ و بچار اور تفکر کے باوجود اس حقیقت کو عملی صورت میں ڈھالنے میں بہت دیر لگا دیتے ہیں۔معروف ناول نگار فرحت اشتیاق اپنے ناول”وہ جو قرض رکھتے تھے جاں پر” میں لکھتی ہیں “زندگی میں ہمیشہ سب کچھ ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چاہ رہے ہیں, الله بھی وہی چاہے, ایسا ہونا ضروری تو نہیں، ہمیں الله کی رضا میں راضی رہنا ہے، اس کے فیصلوں کو قبول کرنا ہے، بغیر ضد کیے اور بغیر اس سے لڑے”۔
اب کچھ ذکر مراقبہ کا کرتے ہیں کہ مراقبہ غور و فکر اور تفکر و تدبر کی معراج کا نام ہے ۔ عبادات میں اللہ سے بات کی جاتی ہے اور اپنا رابطہ ازل سے جوڑا جاتا ہے مگر مراقبہ میں اپنے باطن کی ا تھا ہ گہرائیوں میں جا کر اپنے اللہ کو سنا جاتا ہے اور کائنات کی حقیقت سے نا صرف شناسا ہوا جاتا ہے بلکہ مشاہدۂ قدرت بھی کیا جاتا ہے۔ مراقبہ کا نصب العین (مقصد)صرف اور صرف آپ کے جسم، جذبات ،اور ذہن کو یکجا کرنا ہے اور اس اعلی درجے کی یکسوئی کا مقصد صرف اپنے باطن میں موجزن آگہی کے بحر بیکراں میں غوطہ زن ہونا ہے یہیں سے کشف و وجدان کے دھارے پھوٹتے ہیں ۔ اسطرح ایک انسان کا رابطہ کائنات کی اصل سے جڑ جاتا ہے اور علم و عر فان کے چشمے پھو ٹ پڑ تے ہیں ۔ کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسان پستی کے گرداب سے نکل کر ہستی کے نئے میدان میں آ جاتا ہے جہاں ہر طرف بہار ہی بہار ہے ۔بہار بھی ایسی کہ خزاں نہیں ہوتی اور سوچ انسانی آسمان کی بلندی کو چھوتی ہے ۔یہی زندگی کا موسم بہار ہے جس کے آ جانے کے بعد ہر طرف کامیابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور انسانی سوچ کا سفر ایک نئی سمت گامزن ہو جاتا ہے۔ جس کے سامنے ایک وسیع و عریض میدان عمل ہے اور یہاں کی سلطنت میں صرف آج کی حکمرانی جبکہ گذشتہ کل کی کسی تلخی کا دکھ نہیں اور آنے والے کل کی خوشیوں کا دور دورہ ہے۔یہاں لذت و سرور کا وہ سماں ہے جو دنیا کے کسی نشے میں نہیں ۔ اور خواب حقیقت کے روپ میں بدل جاتے ہیں جبکہ زندگی سوچوں کی تنگ و تاریک گلیوں میں دھکے کھانے کے بجائے روشن اور وسیع میدانوں میں سفر کرتی ہے۔اب اسکا سفر کوئی گندا جوہڑ نہیں کہ جس میں وہ غوطے کھائے بلکہ ایک بحربیکراں جس کے سفینے صرف کامیابی ،خوشحالی اور سکون کی منزل تک لے جاتے ہیں۔
مراقبہ کی انگریزی عام طور پر meditation کی جاتی ہے اور اگر اسی متبادل کو ہم پلہ برائے لفظِ مروجہ عربی ، فارسی اور اردو تسلیم کر لیا جائے تو پھر مراقبہ کی تعریف یوں کی جاسکتی ہے کہ “مراقبہ ایک ایسی عقلی تادیب کا نام ہے کہ جس میں کوئی شخصیت ماحول کے روابطِ حیات سے ماوراء ہو کر افکارِ عمیق کی حالت میں چلی جائے اور اندیشہ ہائے دوئی سے الگ ہوکر سکون و فہم کی جستجو کرے” یعنی یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ فکرِ آلودہ سے دور ہوکر فکرِ خالص کا حصول مراقبہ کہلاتا ہے۔ مراقبہ کو تاریخ اسلام کے پس منظر میں دیکھا جائے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِ حِرا میں عبادت اور غور وفکر مراقبہ کے زمرے میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ عبادت میں خشوع و خضوع ہی اصل میں درست طور پر وہ طریقۂ کار ہے کہ جس کی اسلام میں وضاحت ملتی ہے۔مدتوں سے لوگ مراقبہ کو ایک انتہائی پرا سرار اور مشکل موضوع سمجھتے رہے ہیں ہمیشہ بڑے بوڑھے اور فار غ لوگوں کو اس کا حقدار سمجھا جاتا رہا ہے ۔ ۔مراقبہ پر پوری دنیا میں سائنسی طریقہ کار کے تحت تجربات کر کے اخذ کر لیا ہے کہ اس عمل سے انسانی ذہن اور جسم پر انتہائی اعلی مثبت اثرات مرتب ہو تے ہیں جس میں تعلیم و عمر کی کوئی قید نہیں اب کوئی بوڑھا ہو یا جوان سب ہی مراقبہ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں مزید برآں اب تواسکول و کالج میں مراقبہ کی تعلیم کو ایک لازمی مضمون کی حیثیت حاصل ہوتی جا رہی ہے کم و بیش پوری دنیا میں مراقبہ کی تربیتی کلاسز کا اجراء ہو چکا ہے اعلی تعلیم یا فتہ ڈاکٹر اور صحت کے ادارے اپنے مریضوں کو روزانہ مراقبہ کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ مراقبہ جو پہلے وقتوں میں صرف مذہب کا حصہ سمجھا جاتا تھا اب دنیاوی پیش قدمی کے علاوہ روز مرہ مسائل کے حل کے لئے بھی مرکزی حیثیت اختیار کر گیا ہے آج پوری دنیا میں ذہنی دباؤ کو کم کرنے اور ذہنی سکون حاصل کرنے کے لئے مراقبہ کو مرکزی حیثیت حاصل ہو چکی ہے اور اس کو آج کے وقت میں انتہائی میسر آلہ قرار دے دیا گیا ہے جوں جوں معاشرہ میں اسکی آگاہی بڑھتی جائے گی نتیجہ میں انسانی بھائی چارہ اور عالمی اتحاد میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں