عمران خان کا قابل تحسین فیصلہ۔۔۔طاہر یسین طاہر

کہنے والوں کا کیا ہے؟ وہ کہتے رہیں گے اور تا دیر کہتے رہیں گے کہ عمران خان کو سیاست نہیں آتی۔ ہمارا سماجی رویہ بڑا جارحانہ ہے۔ ہم کسی شخص میں برائی تلاش کرنے نکلیں تو سارے جہان کی برائیاں اس میں جمع کر دیتے ہیں اور اگر کسی کو ہیرو تراشنے کا بیڑا اٹھا لیں تو رہے نام اللہ کا۔ ہم اس ابدی حقیقت کو بھول جاتے ہیں کہ لیڈر بھی بشری کمزوریوں کا مارا ہوا ہوتا ہے۔ نہ نواز شریف، نہ آصف زرداری، نہ عمران خان، نہ کوئی اور۔ سارے اس لئے سیاست کرتے ہیں کہ اقتدار حاصل کریں۔ کوئی مذہب کے نام پر اقتدار کی راہ ہموار کرتا نظر آتا ہے، تو کوئی بھٹو کے نام پر۔ کوئی ووٹ کی عزت کے نام پر نئے بیانیے کے ساتھ سرگرم ِ عمل ہے تو کوئی کرپشن کے خلاف جہاد کے نعرے کے ساتھ میدان صاف کر رہا ہے۔ سیاسیات کے طالب علم جانتے ہیں کہ مہذب معاشروں میں شخصیات کے بجائے نظریات اور منشور پہ ووٹ دیئے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں مگر طریقہ کار مختلف ہے۔ ہمارے ہاں ووٹ بیچے جاتے ہیں اور ووٹ خریدے جاتے ہیں۔ ووٹ کو عزت دو، کا نعرہ مستانہ بلند کرنے والے بھی اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے۔ پارلیمان کا زیریں ایوان ہو یا بالائی۔ حتی المقدور اس بات کو ممکن بنانا پورے معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ یہاں اہل اور صالح لوگ ہوں۔ بھلا چار چار کروڑ روپے کا ووٹ خرید کر سینیٹر بننے والوں سے ہم کیا توقع کرسکتے ہیں؟ اور چار چار کروڑ روپے میں ووٹ فروخت کرنے والے کس منہ سے خود کو عوام کا نمائندہ کہتے ہیں؟ کیا عوام کرپٹ ہیں؟ نہیں، کرپشن کی راہ دکھانے والے وہ طاقتور لوگ ہیں، جو ووٹ کے نام پر عوام کو دھوکہ دیتے اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ سیاست اب نظریات کے بجائے مفادات کی رکھوالی کا نام رہ گیا ہے۔

عمران خان کا فیصلہ تحسین کے لائق ہے۔ ہم جس سیاسی کلچر بلکہ نیم سیاسی کلچر کے بندے ہیں، یہاں تو کوئی اپنے کونسلر کو نوٹس نہیں کرتا۔ عمران نے جرات مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے 20 پارلیمنٹیرینز کو شوکاز نوٹس کرکے مثال قائم کر دی، بلکہ دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے پریشانی بھی بڑھا دی۔ یقیناً عمران خان دیگر جماعتوں کے ان نمائندگان کے نام بھی سامنے لائیں گے، جنھوں نے براہ راست یا بالواسطہ ووٹ خریدے یا بیچے۔ کیا خریدے ہوئے ووٹوں سے بننے والے سینیٹرز، چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ، قوم سے معافی مانگیں گے؟ تحقیقات ہوں گی، نئے زاویئے سامنے آئیں گے۔ 20 اراکین اسمبلی کو اگر عمران خان پارٹی سے نکال دیتے ہیں، جس کا قوی امکان ہے تو یہ لوگ پی ٹی آئی کے خلاف آمدہ انتخابات میں جارحانہ سیاسی سرگرمیوں کا مظاہرہ کریں گے۔ لیکن عمران خان نے ان خدشات کی پرواہ نہیں کی بلکہ تبدیلی کے عمل کی صحیح معنوں میں بنیاد رکھ دی ہے۔ تبدیلی نہ تو موٹر وے سے آتی ہے نہ میٹرو ٹرین سے۔ نہ جمہوریت بہترین انتقام سے اور نہ ہی اسلامی نظام کے نعرے سے۔ سماج کا بنیادی مسئلہ کرپشن ہے اور بدقسمتی سے اس کرپشن میں وہ افراد صف اول میں ہیں، جنھیں وائٹ کالر کریمنل کہا جاتا ہے۔ ہارس ٹریڈنگ یا فلور کراسنگ ہماری سیاسی تاریخ کا افسوس ناک حصہ ہے۔ یہاں میرٹ کے بجائے مفادات، برادری ازم اور خوشامدیوں کو نوازا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی میں بھی موسمی پرندوں کی کمی نہیں، خوشامدی موجود ہیں، مگر عمران خان نے اپنی بساط بھر کوشش سے ایک کرپشن فری جمہوری سسٹم لانچ کرنے کی عادلانہ کوشش کر رہے ہیں۔

اگرچہ پی ٹی آئی میں بھی حتمی رائے بلکہ فیصلہ عمران خان کا ہی ہوتا ہے، لیکن ہمیں بہتری کی امید بہرحال رکھنی چاہیے۔ عمران خان کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اصل تبدیلی یہی ہے، جس کی طرف انہوں نے اب قدم اٹھایا ہے۔ ورنہ کے پی کے، میں جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کوئی بڑی تبدیلی نہیں لا پائی۔ نہ ہی مدرسہ اکوڑہ خٹک کو 47 کروڑ دے کر کوئی بڑا “فتویٰ” لیا جا سکا۔ حتیٰ کہ کے پی کے میں تو پی ٹی آئی کے وزیراعلٰی پرویز خٹک پہ بھی کرپشن اور اقرباء پروری کے الزامات ہیں اور یہ الزام مخالفین کے بجائے خود پی ٹی آئی کے ممبران اور عہدیداران لگا رہے ہیں۔ اس حوالے سے عمران خان کی خاموشی یا شکایات سے درگذر کرنا بجائے خود ایک حیرت افروز بات ہے۔ عمران خان کا امتیاز یہ نہیں کہ انہوں نے سیاست کی کوئی نئی جہت یا رویہ متعارف کرایا۔ کرپشن کے بارے میں پہلے بھی معاشرہ آگاہ تھا، ہاں عمران خان نے کرپشن کے سرخیل سیاستدانوں کو نشانے پہ لیا اور پھر ان کا زبردست پیچھا کیا، یہاں تک کہ وہ اپنے حواس پہ قابو نہ رکھ پائے اور اداروں پہ چڑھ دوڑے۔ یہ اضطراب بجائے خود ملزمان کو سماج میں بے نقاب کئے جا رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ووٹ کو عزت کیسے دی جائے گی؟ جمہوریت کیسے انتقام لے گی؟ اور کس سے لے گی؟ اسلامی نظام کیسے؟ اور کس طرح نافذ ہو گا؟ اور کیا معاشرہ اس کے لئے تیار بھی ہے یا نہیں؟ اور اگر تیار ہے تو کیا وہ اسلامی نظام کے لئے تیار ہے یا فرقہ وارانہ فہم کے اطلاق کا حامی ہے؟ یہ سولات ابھی جواب طلب ہیں، مگر کرپشن کے خلاف سارا معاشرہ یک آواز و یکجان ہے۔ عمران خان کے پاس یہ بہترین وقت ہے کہ خود احتسابی کے جس عمل کا انہوں نے آغاز کیا، اسے تیز تر کر دیں۔ اس سے دوسری سیاسی جماعتوں پر دبائو بھی آئے گا اور ووٹ کی حرمت کے بیوپاریوں کا چہرہ بھی آشکار ہوگا۔ یہ وقت ہے کہ عمران خان موروثی سیاست اور نوٹوں سے اسمبلیوں میں پہنچنے کے منفی طریقہ کار کی حوصلہ شکنی کے لئے ووٹرز میں آگاہی پیدا کریں اور اسی کو اپنی اصل تبدیلی سمجھیں۔ عمران خان نے اپنے 20 اراکین کو شوکاز کرکے حقیقی تبدیلی کے میدان میں عملی قدم رکھ دیا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو، عمران خان پارٹی میں آنے والوں کا ماضی بھی دیکھ لیا کریں کہ وہ اپنے کام میں کس حد تک دیانت دار ہیں۔ اس وقت پی ٹی آئی میں درجنوں ایسے اراکین موجود ہیں، جو دوسری پارٹیوں سے آئے اور ان کی شہرت کوئی اچھی نہ تھی۔ اگر ووٹ بیچنے والے 20 اراکین قصور وار ہیں تو بے شک وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کے لئے بھی عمران خان کو میرٹ کا بہت خیال رکھنا چاہیے

Facebook Comments

طاہر یاسین طاہر
صحافی،کالم نگار،تجزیہ نگار،شاعر،اسلام آباد سے تعلق

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply