ٖٖوہ ایک پرانی،بدنما، کھردری اورگھسی ہوئی پولو کی گیند تھی، جو مینٹل پیس پر پائپوں کے برابر رکھی ہوئی تھی۔میراخدمتگار امام دین ان پائپوں کی صاف صفائی کر رہا تھا۔
’’کیاسرکار کو اس گیند کی ضرورت ہے؟‘‘امام دین نے مودبانہ انداز میں پوچھا۔
سرکارکے پاس اس کو رکھنے کیلئے کوئی مخصوص جگہ نہیں تھی، تاہم یہ پولوکی گیند ایک خدمتگار کے بھلاکیا کام آسکے گی؟
’’سرکار کی دعاؤں سے، میرا ایک چھوٹا سا بیٹا ہے۔ اس نے یہ گیند دیکھی ہے اور وہ اس سے کھیلنا چاہتا ہے۔ میں اسے اپنے لئے نہیں لیناچاہتا۔‘‘
ایک پل کیلئے بھی کوئی نہیں سوچ سکتا تھا کہ بھاری تن و توش کا عمر رسیدہ امام دین پولوکی گیند سے کھیلنا چاہے گا۔ وہ اس پرانی گیند کو لیکر ہال میں چلا گیا۔ہال سے مسرت بھری آوازیں، ننھے معصوم پیروں کی تھاپیں اورزمین پر لڑھکتی گیند کی دھم دھم سنائی دیں۔ واضح طور پر، دروازے کے باہرکھڑا وہ چھوٹالڑکااپنے اس انمول رتن کو پانے کا بے صبری سے انتظار کر رہا تھا۔ مگر اس نے یہ پولوکی گیند دیکھی کیسے؟
اگلے دن ،جب میں خلافِ معمول اپنے مقررہ وقت سے آدھا گھنٹے پہلے ہی دفتر سے لوٹ آیا تو مجھے ڈائننگ روم میں ایک ننھی سی ہستی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ میں نے دیکھا، وہ ایک چھوٹا،گگلو سا بچہ تھا، جس نے اتنی چھوٹی قمیض پہن رکھی تھی کہ وہ بمشکل ہی اسکے گول مٹول پیٹ کو آدھاڈھانک پارہی تھی۔ وہ منہ میں انگوٹھا دیئے، کمرے کے چاروں اطراف گھومتا ہوا، وہاں رکھے سازو سامان کا جائزہ لے رہا تھا۔ بلا شک و شبہ ، یہ وہی’’چھوٹا لڑکا‘‘ تھا۔
میرے کمرے میں اسکا کوئی کام نہیں تھا۔ مگر وہ اپنی دریافتوں میں ایسا محو تھا کہ اسے میرے دروازے میں کھڑے ہونے کا بھی کوئی احساس نہیں ہوا۔ میں کمرے میں گھسا، تو وہ اتنا گھبرا گیاکہ تقریباً بیہوش سا ہو گیا۔ وہ ہانپتا ہوا زمین پر ہی بیٹھ گیا۔ اسکی آنکھیں اور منہ پھیل گئے۔ میں جانتا تھا اب کیا ہونیوالا ہے، اسی لئے وہاں سے باہر بھاگا۔ تبھی پیچھے سے زوردار اندازمیں رونے کی آواز سنائی دی۔ وہ چیخ نوکروں کے کوارٹر تک اتنی تیزی سے پہنچی، کہ اتنی تیزی سے میرا کوئی حکم بھی نہیں پہنچ سکتا تھا۔ دس سیکنڈ میں ہی امام دین ڈائننگ روم میں پہنچ گیا۔ اور تبھی تیز چیخوں کی آواز سنائی دی۔ جب میں وہاں پہنچا تو امام دین اس ننھے شیطان کو ڈانٹ رہا تھا اور وہ ننھاشیطان اپنی قمیض کے زیادہ تر حصے کو رومال بنائے ہوئے تھا۔
امام دین بولا،’’یہ لڑکا بدمعاش ۔بہت بدمعاش ہے۔یقیناًیہ اپنی کرتوتوں کی وجہ سے کسی دن جیل خانے جائے گا۔ ’’ ننھے شیطان نے دوبارہ بلبلانا شروع کر دیا اور امام دین مجھ سے بار بار معافی مانگنے لگا۔
میں نے کہا،’’بچے سے کہہ دو، صاحب ناراض نہیں ہیں۔ اور اسے لے جاؤ!‘‘ امام دین نے میرامعافی فرمان اس ننھے خطار کار کو سنا دیا، جس نے اب تک اپنی پوری قمیض موڑکر گردن کے چاروں طرف لپیٹ لی تھی۔ اسکی تیز چیخیں اب سسکیوں میں بدل گئی تھیں۔ دونوں دروازے کی جانب بڑھے۔ امام دین نے جاتے جاتے کہا، ’’ا سکا نام محمد دین ہے۔ اور یہ بدمعاش ہے۔‘‘ جیسے نام بھی اسکے جرم کا ہی حصہ ہے۔ درپیش خطرہ ٹل جانے پرمحمد دین نے اپنے باپ کے بازوؤں میں ہی سر گھمایا اور کہا، ‘‘یہ سچ ہے کہ میرا نام محمد دین ہے، تاہب، لیکن میں بدمعاش نہیں ہوں، میں انسان ہوں۔‘‘
اس دن سے ہی میری اورمحمد دین کی شناسائی ہو گئی۔ اسکے بعد وہ کبھی میرے ڈائننگ روم میں نہیں آیا، مگر باغیچے کی غیر جانبدارجگہ پر ہم برابر ملتے تھے، یہ الگ بات تھی کہ ہماری گفتگو ،ا س کی جانب سے ’’تلام تاہب‘‘ اور میری جانب سے ’’سلام محمد دین‘‘ تک ہی محدود تھی۔ روز میرے دفترسے لوٹنے پر،چھوٹی سی سفیدقمیض پہنے ایک گول مٹول چھوٹا سا بدن، بیلوں سے ڈھنکی ہوئی لکڑی کی جعفری کے پیچھے سے ابھرتا تھا۔ روز ہی میں اپنے گھوڑے کو وہاں دھیما کر دیتا تھا، تاکہ اسکے سلام کے جواب میں دیا گیا میرا جواب بے توجہی سے دیاہوا نہ رہے یا ایسا نہ لگے کہ وہ مروت میں دیا گیا ہے۔
محمد دین کا کوئی سنگی ساتھی نہیں تھا۔ وہ کمپاؤنڈ میں ڈگمگاتا رہتاتھا۔ایک دن مجھے ارنڈی کی جھاڑیوں سے پرے، اس کی اسرار بھری دنیامیں، اسکی کاریگری کا کچھ نمونہ دکھائی دیا۔ اس نے پولو گیند کوزمین میں آدھا گاڑ دیا تھا اور اسکے چاروں اطراف گیندے کے چھہ پھول گولائی میں لگا دیئے تھے۔
اس گولے کے باہر ایک چوکورلکیر کھنچی ہوئی تھی۔لال اینٹوں اور چینی مٹی کے ٹکڑوں کو ایک کے بعد ایک لگاکر اور اسکے بھی چاروں جانب مٹی کا گھیرا بنایا ہوا تھا۔ رہٹ سے پانی کھینچنے والے بہشتی نے اس ننھے تخلیق کار کی حوصلہ افزائی کی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ یہ تو بچوں کا کھیل ہے۔ اس سے میرے باغیچے کی خوبصورتی کچھ زیادہ خراب نہیں ہوگی۔
خدا بہترجانتا ہے کہ بچے کی اس کاریگری کو بگاڑنے کا میرا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا۔ مگر، اس شام با غیچے میں ٹہلتے ہوئے انجانے ہی میں، میں نے اسے برباد کرڈالا۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ جان پاتا، میرے پیروں نے گیندے کے ان پھولوں، مٹی کے ڈھیر اورصابن کی ڈبیاؤں کے ان ٹکڑوں کو پوری طرح کچل دیاتھا،کچھ اس طرح کہ پھر سے اس گھروندے کی بحالی کی کوئی امید ہی نہیں رہ گئی تھی۔ اگلی صبح میں نے محمد دین کو اسکی اس تلف شدہ کائنات کے سامنے دھیمے دھیمے روتے پایا۔ کسی نے ظالمانہ اندازمیں اسے بتا دیا تھا کہ صاحب باغیچے کو بگاڑنے کی وجہ سے اس سے سخت ناراض ہیں۔ اور انہوں نے گالی دیتے ہوئے ان تمام لغویات کو تتر بترکر دیا۔محمد دین ایک گھنٹے تک اس گھروندے کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کی جدوجہد کرتا رہا اور اس شام جب میں دفترسے لوٹا تو اس نے آنسو بھرے چہرے کے ساتھ، معذرت خواہانہ انداز میں کہا،’’تلام، تاہب۔ ‘‘میری عاجلانہ بازپرش کے بعد امام دین نے محمد دین کو بتلایا کہ صاحب نے اسے کچھ بھی کرتے رہنے کی چھوٹ دے دی ہے۔ تب اس بچے نے گیندے کے پھولوں اورپولو کی گیند سے بنائے اپنے گھروندے کو پھر سے تلاش کرناشروع کر دیا۔
کچھ ماہ تک وہ گول مٹول، ننھا بچہ ارنڈی کی جھاڑیوں اور مٹی کے گھروندوں کی اس چھوٹی سی کائنات میں محو گردش رہا۔ وہ ہمیشہ بیرے کی جانب سے پھینکے جانے والے باسی پھولوں،چھوٹے چھوٹے، چکنے، گول پتھروں، کانچ کے ٹوٹے ٹکڑوں اور میرے مرغے کے جھڑے پروں سے پرشکوہ گھروندے بناتا اور سجاتا رہتا تھا۔ وہ ہمیشہ اکیلا ہی بھٹکتا رہتا تھا اور اپنے آپ میں ہی مگن رہتا تھا۔
ایک دن ایک بھڑکدار سی خوبصورت سیپ اسکے گھروندے کے قریب گرائی گئی۔ مجھے امید تھی کہ محمد دین اس سے کوئی غیر معمولی قسم کا گھروندہ بنائیگا۔ اور مجھے مایوسی نہیں ہوئی۔ تقریباً ایک گھنٹے تک وہ سنجیدگی سے اسے ہاتھ میں لیکر سوچتا رہا اور پھر وہ مسرت سے گنگنا اٹھا۔ اس نے مٹی کا گھروندہ بنانا شروع کیا۔ وہ حقیقت میں ایک بے مثال گھروندہ ہوتا۔ وہ لگ بھگ دو گز لمبا اور ایک گز چوڑا تھا۔ مگر وہ گھروندہ کبھی مکمل نہیں ہو پایا۔
اگلے دن میرے دفترسے لوٹنے پر نہ مجھے اس بیلوں بھری جعفری کے پاس محمد دین خود نظر آیا اور نہ ہی اس کا’’’تلام، تاہب‘‘ سننے کو ملا۔ میں اسکاعادی سا ہو گیا تھا۔لہذا اسکے نہ ہونے سے بے کل سا ہو گیا۔ اگلے دن امام دین نے بتایا کہ بچے کو تھوڑی حرارت ہے اور اسے کونین چاہئے۔ اسکے لئے دوا اور انگریز ڈاکٹر کا بندوبست کیا گیا۔
’’ا ن لونڈوں میں کوئی دم نہیں ہوتا۔‘‘ امام دین کے کوارٹر سے نکلتے ہوئے ڈاکٹر نے کہا۔
ایک ہفتے بعد، حالانکہ میں اس چیز سے بچنا چاہتا تھا۔ مجھے امام دین اپنے ایک دوست کے ساتھ مسلمانوں کے قبرستان کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ وہ اپنے بازوؤں میں سفید کپڑے میں لپٹے ننھے محمد دین کو لیے ہوئے تھا۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں