پشتون بیانیہ اور ریاستی عدم برداشت ۔۔ ایمل خٹک

پاکستانی ریاستی اداروں میں جمہوری حقوق اور عوامی تحریکوں کے بارے میں رویہ سخت اور عدم برداشت بڑھ رہا  ہے ۔ قمر جاوید باجوہ کا پشتون تحفظ تحریک کے حوالے سےحالیہ بیان اس عدم برداشت کا بین ثبوت ہے۔ اگر ایک طرف بعض تجزیہ نگاروں کے نزدیک یہ بیان ایک طرح سے پی ٹی ایم کے خلاف اعلان جنگ ہے تو دوسری طرف اس بیان سے ملک کے سنجیدہ حلقوں میں تشویش کی لہر  دوڑ گئی ہے ۔ ملک کے سنجیدہ حلقوں میں اس بیان کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا ۔ اور   ان حلقوں کو نوشتہ دیوار پڑھنے میں دیر نہیں لگی۔

اس بیان سے پشتون تحفظ موومنٹ کو کچھ نقصان ہوا یا نہیں مگر ایک بات تو طے ہے کہ اس بیان کے بعد پی ٹی ایم میں اندرون ملک اور بیرون ملک دلچسپی بڑھ گئی ہے ۔ ملکی اور غیرملکی اخبارات میں کئی خصوصی مضامین اور اداریے چھپنے لگے۔ ملکی میڈیا میں ریاستی ادروں کو پشتون نوجوانوں کے  غم و  غصہ اور جذبات کوسمجھنے اور راست اور انتہائی قدم اٹھانے سےگریز یا پشتونوں کو دیوار سے لگانے سے اجتناب کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے  انتہاپسند نعروں اور بیانات پر تنقید اور ان کو میانہ روی اختیار کرنے  کی تلقین کی گی ہے ۔ پی ٹی ایم کی سیاسی قبولیت اور حیثیت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ چاہے اچھے الفاظ میں ہو یا برے الفاظ میں مگر پی ٹی ایم ملکی سطع پر ڈسکورس یعنی مباحث کا حصہ بنتا جارہا ہے ۔ اسلام آباد میں ووٹ کو تحفظ دو کے حوالے سے منعقدہ حالیہ سیمینار میں پشتون تحفظ تحریک کا مثبت الفاظ میں ذکر ہوا۔

سب سے دلچسپ مضمون سابق آرمی چیف مرزا اسلم بیگ کا تھا جو اکثر و بیشتر سٹریٹیجک معاملات پر لکھتے رہتے ہیں ۔ ان کی بہت سی باتوں سے تو اختلاف کیا جاسکتا مگر پشتون تحفظ موومنٹ کے حوالے سے ریاستی شخصیات اور بٹ مین میڈیا یا گٹر میڈیا کے برعکس نسبتاً  الگ موقف اختیار کیا ہے۔ اسلم بیگ نے پشتون تحفظ تحریک کے ظہور کو خوش آئند قرار دیا ہے اور تحریک کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی تلقین کی ہے ۔ انہوں نے غیر متوقع طور پر افغان صدر کے پشتون لانگ مارچ کے حق میں بیانات کو جس کے بعد پاکستانی اسٹبلشمنٹ بوکھلاہٹ میں پی ٹی ایم کو ملک دشمن قوتوں کا آلہ کار اور غدار قرار دیتی ہے کا دفاع کیا ہے ۔

ملک کے سنجیدہ کے ساتھ ساتھ سیاسی اور کئی فوجی حلقوں میں بھی سخت ریاستی موقف کے بارے میں انتہائی تشویش پائی جاتی ہے ۔ بیگ صاحب کا مضمون بھی ان تحفظات کی عکاسی کرتی ہے ۔ اگرچہ غالب سوچ پی ٹی ایم کو آہنی ہاتھ سے ڈیل کرنےکا ہے مگر اس حوالے سے پالیسی ساز حلقوں میں اختلاف نظر پایاجاتاہے ۔ مخالف رائے رکھنے والوں کے نزدیک ملک مزید  داخلی فرنٹ کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا ۔ کوئی بھی سخت قدم دشمن قوتوں کے کام کو آسان اوران کو قدم جمانے کا موضوع فراہم کرے گا ۔ مزید یہ کہ ریاستی اداروں میں جو پہلے ہی فرقہ وارانہ اور لسانی بنیادوں پر تقسیم نظرآتی ہے صف بندی مزید گہری ہوجائیگی۔

اسٹبلشمنٹ کی بدحواسی، بوکھلاہٹ اور عدم برداشت کی وجوہات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ اس کی کئی وجوہات ہیں ۔ ایک تو اسٹبلشمنٹ کا پاور بیس دن بدن سکڑتا جارہا ہے۔ دوسرا اسٹبلشمنٹ کی جمہوری اور عوامی قوتوں کے خلاف سازشیں بے نقاب اور طریقہ واردات افشا ہوتی جارہی ہیں ۔ تیسرا اس کی جمہوریت دشمن اقدامات اور انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے بارے میں عوامی اگاہی بڑھتی جارہی ہے۔ اس طرح حکمران طبقات کے داخلی اختلافات اور چپقلشیں اقتدار کی راہداریوں اور بند کمروں سے باہر نکل رہی ہے ۔ ملی ٹینٹ ، ملٹری اور عدلیہ اتحاد یا ان کے  عوام دشمن اور جمہوریت دشمن اقدامات کی حقیقت طشت ازبام ہورہی ہے۔ اور اس پر عوامی تنقید بڑھتی جارہی ہے ۔ حکمران پنجابی اشرافیہ کی فوجی اور سیاسی حصے باہم متصادم نظر آرہے ہیں ۔ جس کی وجہ سے پہلی بار پنجاب میں عوامی سطع پر اینٹی اسٹبلشمنٹ جذبات پروان چڑھی۔

بہت سے حلقوں کو ماضی کے ذکر سے کوفت ہوتی ہے ۔ یاد ماضی عذاب سہی مگر قوموں سے حافظہ نہیں چھینا جاسکتا ۔ جب تاریخ سے نہیں سیکھا جاتا اور غلطیاں بار بار دہرائی جاتی ہیں  تو ماضی کے حوالے دینے پڑتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانی ریاستی ادارے ماضی سے سیکھتے نہیں اور باربار ایک جیسی غلطیاں دہراتے ہیں۔ بنگلہ دیش کی آزادی دشمن کی سازشوں سے زیادہ اپنوں کی ہٹ دھرمی اور عوامی لیگ کے راہنماؤں  کے ساتھ مذاکرات سے گریز اور ڈائیلاگ سے انکار کی وجہ سے ہوئی ۔ اگر عوامی خواہشات کا احترام کیا جاتا اور انتخابات کے بعد انتقال اقتدار میں پس و پیش سے کام نہیں لیا جاتا تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔

مسلم اقلیت کے حقوق کی پاسداری اور تحفظ کیلئے بنایا گیا ملک جلد ٹوٹ گیا کیونکہ اکثریت کے جائز سیاسی ، اقتصادی اور ثقافتی حقوق تسلیم کرنے سے انکار کیاگیا ۔ اکثریت یعنی بنگالی علیحدہ ہونے پر مجبور ہوئے ۔ تقسیم ہند کے بعد پاکستانی ریاست کو مذہبی تقدس کے جتنے معنی پہنائے گئے تھے وہ سارے غلط ثابت ہوئے ۔ ریاستی بیانیے غلط ثابت ہوئے اور مغربی پاکستان کی حاوی اسٹبلشمنٹ کی غلط اور ناعاقبت اندیش پالیسوں کی وجہ دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق ہوا۔

نفرت اور دشمنی کی بنیاد پر بنائے گئے ریاستی بیانیے قیام پاکستان سے لیکر اب تک قومی اتحاد اور یکجہتی کوفروغ دینے کی بجائے مزید بے اتفاقی اور مختلف قومیتوں ، لسانی گروپوں ،فرقوں ، مسلکوں اور علاقوں میں دوریاں اور نفرت کو جنم دے رہی ہے عجیب بات یہ ہے کہ سیاسی قوتوں کو تو دیوار سے لگایا جارہا ہے مگر عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کی باتیں ہورہی ہے ۔

حکمران اشرافیہ اور خاص کر پالیسی سازی کا لسانی ، مذہبی یا مسلکی اور نظریاتی بنیاد محدود ھوتی جارہی ہے ۔ جس کی وجہ سے ریاستی بیانیے ایک مخصوص لسانی گروپ ، فرقے اور کارپوریٹ مفاد کی ترجمانی کر رہی ہے اور ایکسکلوژن کا عمل تیزی سے جاری ہے ۔ مختلف لسانی گروپوں اور فرقوں کے ساتھ امتیازی سلوک بڑھ گیا ہے یا ان میں امتیاز یا احساس محرومی کا احساس بڑھ رہا ہے ۔ قومی سلامتی کے بھونڈے اور بیہودہ قسم کے تصورات اور پالیسیاں موجود ہے اور ان پالیسیوں کے فروغ کیلئے دو کارڈ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ایک مذہب اور دوسرا انڈیا دشمنی کا۔ اب نیا کارڈ سی پیک بھی آگیا ہے ۔ جو بھی انسانی حقوق اور سماجی انصاف کیلئے اور جمہوری اور قومی حقوق کیلئے آواز آٹھاتا ہے اس کو یا مذہب دشمن یا کافر یا انڈیا کا ایجنٹ اور اب سی پیک کے خلاف سازش قرار دیا جارہا ہے ۔

فرقہ وارانہ اور مسلکی سیاست میں ریاست کا پارٹی بننا ، عسکریت پسندی کو ایک پالیسی کے طور پر استعمال ، شدت پسند اور فرقہ پرست مذہبی قوتوں کی خوشنودی اور سی پیک جیسے منصوبوں میں ملک کے پسماندہ علاقوں کو نظرانداز کرنے سے پختونخوا ، سندھ اور بلوچستان حتی کہ گلگت اور بلتستان وغیرہ میں احساس محرومی اور بی چینی بڑھ رہی ہے ۔ جبکہ سندھ کے شہری علاقوں میں سیاسی انجیرنگ اور آئندہ انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چرانے کی منصوبہ بندی کی وجہ سے مہاجر عوام میں بھی غم وغصہ پایاجاتا ہے ۔ اور پاکستان کی مظلوم قومیتوں ، طبقات اور گروپوں میں شدت پسند خیالات کو شہہ مل رہی ہے ۔ بلوچ تو پہلے ہی سے مسلح مزاحمت کر رہے ھیں مگر ناعاقبت اندیش داخلی اور خارجی پالیسوں اور اقدامات کی وجہ سے اوروں کو بھی اس جانب دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

نیا پشتون بیانیہ عوام خاص کر شورش زدہ علاقوں کے پشتونوں کو درپیش مشکلات ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ان کے مطالبات کی ترجمانی کرتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ نیا پشتون بیانیہ پیش کرنے والے نوجوانوں کا لہجہ اور الفاظ انتہائی سخت ہیں ۔ مگر اس غم وغصہ اور جذباتیت کے پیچھے شورش زدہ علاقوں میں سالوں سے جاری تنگ نظر اور شدت پسند ایجنڈا کی تکمیل کیلئے خود ریاست کی پیدا کردہ عسکریت پسندوں کی عملداری اور فوجی آپریشنوں اور بعد میں ظلم و زیادتیاں ، ناروا سلوک اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں ، تلخ تجربات اور مشاہدات ہیں ۔ ان کو دبانے ، ڈرانے دھمکانے یا دھتکارنے کی بجائے ان سے بات چیت اور ان کے مسائل اور مطالبات کو حل کرنا ہے ۔ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی پالیسی کا نتیجہ یا نقصانات مملکت خداداکستان کی دولخت ہونے میں ایک دفعہ نکل چکا ہے ۔ ریاست کا شہریوں سے رویہ والدین جیسا ہونا چاہیے نہ کہ دشمنوں والا ۔ بچے ہمیشہ جذباتی اور ضدی ہوتے ہیں۔ اور لھجے میں کبھی کبھی باغیانہ پن بھی ہوتا ہے مگر ریاست ان کی ساتھ بیٹھ کر ان کی بات سن کر ان کو مطمئن کرنی کی کوشش کرتی ہے نہ کہ ان کو دھتکارتی یا دیوار سے لگانے کی کوشش کرتی ہے ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply