سوال کی موت ، گونگے کا خواب اور میں ۔۔۔

کچھ عرصے سے ہمارے بہت محترم استاد ، بھائی اور دوست ناصر علی زیدی صاحب کچھ بہترین اقتباسات اپنی فیس بک ٹائم لائن پر شیئر کر رہے تھے ۔ کتاب کا نام کبھی سوال کی موت ہوتا اور کبھی گونگے کا خواب ۔مجھے جاننے والے جانتے ہیں کہ کتاب مانگنے کے معاملے میں کس قدر خود غرض واقع ہوئی ہوں ۔میں لاہور والدہ سے ملنے گئی ہوئی تھی اور ناصر بھائی بھی لاہور ہوتے ہیں تو موقع کا فائدہ اٹھایا اور بلا جھجھک ایک دن ناصر بھائی سے ان کتابوں کی فرمائش کر ڈالی ۔انہوں نے فون کیا اور بتایا کہ ایک کتاب” گونگے کا خواب” اب تک چھپی نہیں اور” سوال کی موت” میں تم تک پہنچا دوں گا،بتانے لگے کہ یہ دونوں کتابیں طارق بلوچ صحرائی کی ہیں اور وہ کیا خوب لکھتے ہیں ۔مختصر یہ کہ کراچی واپسی سے ایک دن پہلے کتاب مجھ تک پہنچ گئی ۔۔۔۔طارق صحرائی صاحب نے کمال محبت سے اس پر دستخط کر دیے تھے اور میری کتاب دوستی کو خوب سراہا تھا ۔ کراچی آکر پہلا کام یہ کیا کہ انہیں فیس بک پر دوستی کی پیش کش کی اور شکریہ ادا کیا ۔کہنے لگے کہ” گونگے کا خواب “جیسے ہی چھپے گی ، تم تک پہنچ جائے گی ۔۔۔۔اور ایسے ہی ہوا ۔ابھی “موت کا سوال “پڑھ کر اس کا لطف ہی لیا جارہا تھا کہ” گونگے کا خواب” ہاتھ میں آگئی ۔
دونوں کتابیں سنگ میل پبلی کیشنز نے چھاپی ہیں اور دونوں کتابوں کے دیباچے ہم سب کی پیاری بانو آپا ( بانو قدسیہ ) نے لکھے ہیں ۔ آپا اب ہم میں نہیں رہیں تو یہ کتابیں اس لحاظ سے بھی اہم ہیں کہ ان میں آپا کی آخری دنوں میں لکھی دو تحریریں بطور دیباچہ شامل ہیں ۔”گونگے کا خواب “کےدیباچہ میں آپا ایک جگہ یوں رقمطراز ہیں کہ ” طارق بلوچ کی تحریروں میں ادبی قرینہ اور سلیقہ کے ساتھ ساتھ اصلاحی پہلو بھی نمایاں ہے مگر وہ کوئی طویل سفر طے کر کے یہاں تک نہیں پہنچا بلکہ اس نے تو آغاز ہی یہاں سے کیا ہے ۔ احمد رفیق اختر ، بابا عرفان الحق ، سرفراز شاہ اور ان جیسے بڑے لوگوں سے طارق بلوچ کا طرز سخن اس حوالے سے مختلف ہے کہ وہ اپنی فکر کو افسانوی لبادے میں پیش کرنے کا فن بخوبی جانتا ہے “۔ افسانوں پر مبنی ان کتابوں میں صحرائی صاحب ایک محب وطن کے طور پر ابھر کر سامنے آئے ہیں ،ان کے افسانوں میں پاکستان سے ان کی محبت جھلکتی ہے ،وہ پاکستان کے لئے اپنے بزرگوں کی دی ہوئی قربانیوں کا ذکر بار بار کرتے ہیں اور وطن کے لئے کچھ کر گزرنے پر زور دیتے ہیں ۔،وہ محبت کی بات کرتے ہیں ،رشتے نبھانے کی بات کرتے ہیں ، وہ قدرت کے مختلف رنگوں سے پیار کرتے ہیں، برگد کے پَیڑوں ، پھولوں، جگنوؤں اور تتلیوں کی بات کرتے ہیں ، ان کا دل پاکستان کے سیاسی حالات سے بوجھل محسوس ہوتا ہے،اپنے ایک افسانے” پیسہ اخبار” میں لکھتے ہیں کہ۔۔۔۔ ” ہم بحیثیت انسان اور بحیثیت قوم گم ہو چکے ہیں ، ایسا تعفن پھیلا ہے کہ اب تو قاتلوں سے بھی خون کی بو نہیں آتی “۔ایک اور افسانے” بحر مردار “میں قوم کی ذہنی کیفیت کو شعر کی صورت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ۔۔۔
میرے خمیر میں شامل ہے صدیوں کی غلامی
وگرنہ وقت تو ایسا ہے بغاوت کی جائے۔۔۔!
صحرائی صاحب جانتے ہیں کہ عزت دے کر ہی عزت کروائی جاتی ہے ۔ وہ بارہا اپنے افسانوں میں ہر رشتے کو عزت اور محبت دینے پر مُصر ہیں ۔ کہیں کہیں وہ اس فانی دنیا کی حقیقت بتاتے اور آخرت پر نظر رکھنے کی درخواست کرتے بھی نظر آتے ہیں ،اگر مجھ سے یہ سوال کیا جائے کہ” سوال کی موت ” اور”گونگے کا خواب ” میں میری پسندیدہ کتاب کون سی ہے تو میرا جواب ” سوال کی موت” ہوگا ۔ “سوال کی موت” میں موجود افسانے مختلف طرز سے لکھے گئے افسانے ہیں ۔ افسانہ “آخری بات “ہو یا” دھوپ میں بارش” ،” حاصل محبت” ہو یا” جوگی” ،محبت کی جو تعریف ،جو احساس ان افسانوں میں محسوس کیا جاسکتا ہے کہیں اور کہاں ۔۔۔۔ افسانے”برگد” میں طارق صحرائی صاحب نے اپنی ایک خوبصورت مختصر نظم شامل کی ہے، جو میری بھی پسندیدہ ہے ۔۔۔
نظم کا عنوان “بدل” ہے!
اے رب کائنات
اے ملک جزو کل
تیری اس مکمل دنیا میں
کچھ لوگوں کے
بدل کیوں نہیں ہوتے ؟؟
غرض یہ کہ” سوال کی موت ” کے تمام افسانوں میں صحرائی صاحب نے زندگی کے مختلف رنگ سمو دئیے ہیں جو قاری کو اس رنگین دنیا میں گم کر دیتے ہیں ۔۔ یہ کتاب بار بار پڑھنے کے لائق ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ” گونگے کا خواب” میں شامل افسانہ”بحر مردار” اور”قائد ہم شرمندہ ہیں” لفاظی اور کہانی کی بنت کے حوالے سے اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ اس کے علاوہ “گونگے کا خواب” اس لحاظ سے بھی انمول ہے کہ اس میں محترم ڈاکٹر عبد القدیر خان صاحب اور ڈاکٹر جاوید اقبال کے صحرائی صاحب کے نام لکھے خطوط بھی شامل ہیں ۔ جب میں نے طارق بلوچ صحرائی صاحب سے پوچھا کہ ان دونوں میں سے آپ کی پسندیدہ کتاب کون سی ہے تو پہلے کہنے لگے “اگر والدین سے سوال کیا جائے کہ آپکی اولاد میں سے آپ کو کون سا بچہ زیادہ پیارا ہے تو کیا جواب ہونا چاہیے”؟۔۔۔ لیکن پھر میرے اصرار پر انہوں نے بتایا کہ “سوال کی موت” ان کے دل کے زیادہ قریب ہے ۔میرا مشورہ ہے کہ اہلِ ذوق اور معیاری کتب بینی کے شوقین افرا د ان کتابوں کا مطالعہ ضرور کریں ۔

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply