تعلیم اور سکول انتظامیہ کی مفاد پرستی

صد یو ں سے کتا بیں بہتر ین دوست کا کام انجام دیتی آ رہی ہیں۔ کتابو ں کی بھی کئی اقسام ہوتی ہیں، جیسے کہانی، شعروشاعری ،سائنس ،طب،فکشن، غر ض ضرو رت کی تما م معلو ما ت آپ کو کتا بو ں میں مل جا تی ہیں۔ آج کل بک اسٹال پر ضرورت سے زیادہ ہجوم دیکھنے کو مل رہا ہے، نصا بی سر گرمیاں عرو ج پر ہیں ، اور سکولوں میں رزلٹ آنے کے باعث کتابوں کی طویل فہرست بچوں کےوالدین کے ہاتھو ں میں تھما دی گئی ہے جو کہ متوسط طبقے کے کندھوں پر پڑے بوجھ میں مزید اضافہ کے مترادف ہےجبکہ اسکول انتظامیہ اپنی جیبیں بھرنے کے انتظار میں ہے۔ اسکولنگ سسٹم سے منسلک ہو نا یا پھر پبلشر بننا ایک کا رو بار کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، ہر سال نصاب میں تبد یلیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسکول انتظا میہ کا مقصد تعلیم دینا نہیں بلکہ نوٹ چھا پنا رہ گیا ہے ۔جو پبلشر زیا دہ منافع دینے کی بات کرتا ہے اس سے معاہدہ کر لیا جاتا ہے ،چاہے کتابوں میں دیے جانے والا درس علمیت کے اعتبار سے معیاری ہو یا غیر معیاری۔
اسی طرح اب انہی اسکولوں کو بہترین تصور کیا جانے لگا ہے جن اسکولوں میں ان کے اپنے مونو گرام کی کا پیاں ملتی ہیں ۔کورس کی تما م کتا بیں بھی اسکولز کے اپنے ہی ایک اسٹال پر دستیا ب ہو تی ہیں۔اب آپ کے پاس کوئی نعم البدل بھی نہیں چارونا چار قرض میں ڈبکی لگانی پڑتی ہے ،اور متوسط گھرانوں میں جہاں اگر بچوں کی تعداد دو یا دو سے زیادہ ہے تو انہیں کتابیں خرید کر دینے کے بعد آپ کا سارا سال اس قرض کی اقساط چکانے میں ہی گزر جاتا ہے۔۔۔علم کے حصول کو وقت کے ساتھ ساتھ مشکل ترین بنایا جا رہا ہے،ہمارے ہاں بگاڑ تو ہر شعبے میں جی بھر کے موجود ہے آپ کسی بھی شعبے میں نظر ثانی کر کے دیکھ لیں شروع سے آخر تک بگاڑ ہی بگاڑ نظر آئے گا ۔آج ایک بک سٹال پر رش کی بدولت طویل انتظار کے دوران شور مچاتے بچے اور پریشان حال والدین کا ہجوم دیکھنے کو ملا،بیشتر والدین بچوں کو دلاسے دیتے نظر آئے اور باقی یہ سمجھاتے کہ ابھی صرف ضروری کتابیں لے لو،جو غیر ضروری ہیں وہ بعد میں لیں گے۔یہاں سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ نصابی ترجیحات کیا ہیں؟ ضروری کتابیں اور غیر ضروری کتابیں کونسی ہیں؟ ۔۔۔۔بچوں کے بستےانہی غیر ضروری کتابوں سے بھر دئیے جاتے ہیں ۔بنیادی علم دینے کی بجائے بس کاروبار چمکایا جا رہا ہے۔
یہا ں میں پڑھنے والوں سے اپنا تجربہ بھی بیان کرنا چاہوں گی کہ چونکہ میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوں ،مختلف اسکول کے بچوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں رابطے میں ہوتی ہوں، ہمارے یہاں بچوں کی اردو اور انگلش زبان میں بہت مسئلے ہیں ،بچہ لفظی جوڑ توڑ بھی ٹھیک سے نہیں سیکھ پاتا کہ اگلی کلاس میں بٹھا دیا جاتا ہے،ابھی بچہ اس ماحول سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کر ہی رہا ہوتا ہے کہ اس پر نئی کتابوں کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بچے کی علمی بنیاد ہی ٹھیک سے نہیں بن پاتی۔ اسکی سب سے بڑی وجہ میں والدین کو سمجھتی ہوں( ضروری نہیں ہے کہ آپ لوگ مجھ سے اتفاق کریں) آج والدین کے پاس وقت کی انتہائی کمی ہے،2،3 سال کے بچے کو اسکول میں داخل کروا کر یہ خیال کیا جاتا ہے کہ فرض پورا ہوا۔ اب بچہ اسکول انتظامیہ کی ذمہ داری ہے جبکہ بچے کو ابھی پینسل بھی پکڑنا نہیں آتی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری والدہ مجھے اسکول میں داخلے کے لیئے لے کر گئیں تو مجھے لکھنا پڑھنا آتا تھا، کیوں کہ والدین نے اسکو ل ایڈمیشن سے پہلے ٹیوشن بھیجنا شروع کر دیا تھا جہاں مجھے انگلش، اردو اور ناظرہ کی تعلیم دی جاتی تھی (اردو کا قاعدہ ) میں سمجھتی ہوں ایک بہترین کتاب ہے جس کی مدد سے آپ کے اسکول کے بچے اردو پڑھنے اور لکھنے میں طاق ہو سکتے ہیں لیکن آج ہمارے سلیبس میں ایسی کوئی کتاب شامل ہی نہیں ہے ، آج کے نوجوان کی املاء میں”ت“ اور ”ط“ کا فرق نظر نہیں آتا ۔
بات ہو رہی تھی ضروری اور غیر ضروری کتب کون سی ہو سکتی ہیں، ایک بچہ جو کہ دوسری یا تیسری جماعت کا طالب علم ہے جسے ٹھیک سے پڑھنا نہیں آتا اس کے لئے انگلش ناول کی کیا حقیقت ہو سکتی ہے ۔۔۔ ٹھیک اسی طرح ”ورک بک “ کے نام پہ مزید بوجھ بچوں کے کندھوں پر ڈال دیا جاتا ہے، ایک بچہ جو کہ صرف 10kg اٹھانے کے قابل ہوتا ہے اس پر 50kg کی بوری لاد دی جاتی ہے،ایسا کیوں؟۔۔۔ صرف اس لئے کہ اسکول نے ان کتابوں کو کورس میں شامل کیا ہوا ہے ،اس کے پیچھے بہت سی حقیقتیں پنہاں ہیں ۔ اس کا فائدہ کون اٹھا رہا ہے؟وہ پبلشرز جو پبلسٹی کرتے ہیں،یا اسکول انتظامیہ جنہیں بدلے میں کچھ نہ کچھ ضرور ملتا ہے اور نشانہ بنتے ہیں بچے اور ان کے مظلوم والدین جو صرف بہتر مستقبل کی تلاش میں اپنے بچوں کو مہنگی تعلیم مہیا کر رہے ہوتے ہیں، مخلص کون ہے کون نہیں یہ ایک بڑا پیچیدہ سا سوال ہے لیکن احتساب ضروری ہے۔استاد ،طالب علم اور والدین ایک تکون کی شکل میں ہیں ، جنہیں مل کر کام کرنا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں مر بع بننے کی ضرورت ہے ، چو تھا عمود اسکول انتظامیہ کا ہونا چاہیے، ضروری اور غیر ضرور ی کتابوں کی چھانٹی کر یں ،پلے گروپ کے طالب علم کو بنیادی تعلیم دینے کے بعد ہی اگلی جماعت میں پروموٹ کریں تاکہ جب وہ پہلی جماعت میں جائے تو اسے حروف کی پہچا ن ہو اور توڑ جوڑ سیکھ سکے، اسی طرح اگلی جماعت میں بھی انتظامیہ کی توجہ سکھانے کے عمل پر ہی مرکوز ہونی چاہیے نہ کہ بچوں پر صرف بلاوجہ کا بوجھ لادنے پر۔ اس طرح ہم بہتر نظامِ تعلیم کو فروغ دے سکتے ہیں ورنہ تو صرف فیس،یونیفارم، کتابوں کا خرچہ ہی پورا کرتے رہ جائیں گے۔غیر ضروری نصابی کتب کی فہرست طویل ہے ۔میں سوچ رہی ہو ں ۔۔۔ضروری ہے کہ آپ بھی سو چیے!

Facebook Comments

طاہرہ عالم
طاہرہ عالم شعبہ تدریس سےوابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شغف بھی رکھتی ہیں آپ پاکستان فیڈرل کونسل آف کالمسٹ سندھ کی جنرل سیکریٹری ہیں گھومنے پھرنے ، کتب بینی اور انٹرنیٹ کے استعمال کو بہترین مصرف سمجھتی ہیں اورزندگی میں کچھ نیا کرنے کو ترجیح دیتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply