عوامی شاعر۔۔عالی جی،رئیس امروہوی۔۔۔۔شکور پٹھان

ہمالیہ کی یہ وادی، گنگ و جمن، پدما، پنج دریا اور اباسین کی یہ سرزمین شاید ایشیا کا مردم خیز ترین خطہ ہے۔ کیسے کیسے گوہر آبدار، ایک سے بڑھ کر ایک باکمال لوگ اس زمین کی کوکھ نے جنم دیے۔ علم و ادب کی دنیا میں کیسے کیسے ہیرے موتی اس زمین نے اگلے ہیں۔ مہا کوی کالیداس، ٹیگور، بھگت کبیر، نذرالاسلام، غالب و اقبال۔، شاہ لطیف بھٹائی، بلھے شاہ، خوشحال خان خٹک، گل خان نصیر، کہاں تک سنوگے، کہاں تک سنائیں۔

اور سارے جہاں میں دھوم مچانے والی ، ہماری زبان اردو نے بھی یہیں جنم لیا۔
برصغیر میں اردو زبان و ادب کے سب سے بڑے مراکز تو بلاشبہ دلی اور لکھنو ہی ہیں، لیکن نوابین کی سرپرستی کے سبب حیدر آباد دکن، فورٹ ولیم کالج کی وجہ سے کلکتہ اور فلم نگری کے سبب بمبئی بھی اہل ہنر کی جولاں گاہ بنے رہے۔پھر ہما را شہر زندہ دلاں، لاہور  بھی کسی سے پیچھےنہیں۔ اقبال اور فیض جنمے تو سیالکوٹ میں لیکن بسیرا کیا اور نام پایا لاہور سے۔ اقبال تو اپنی فارسی شاعری کے سبب ایران میں ۔اقبال لاہوری، کے نام سے ہی جانے جاتے ہیں۔۔ پھر پطرس ، تاثیر، حفیظ، ندیم، انتظار حسین، صوفی تبسم، مہر و سالک، استاد دامن، منیر نیازی، ناصر کاظمی، حبیب جالب، احسان دانش اور نجانے کتنے ناموروں کے قدموں کے نشان اس لاہور کی مٹی پر ثبت ہیں۔پشاور نے بھی پطرس، فارغ بخاری، خاطر غزنوی اور فراز جےسے لعل اردو ادب کو دئیے۔

میرا شہر ان تمام شہروں کے مقابلے میں نوزائیدہ شہر ہے۔ اس کی اردو ادبی تاریخ بمشکل چھ یا سات دہائیوں پر ہی مشتمل ہے۔ لیکن کیسے کیسے صاحبان کمال نے میرے شہر کو اپنا مسکن بنایا۔ زندگی کے ہر شعبے میں اس نے ہراول کا کردار ادا کیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی، ڈاکٹر قدیر خان، پروفیسر اے بی اے حلیم، ڈاکٹر محمود حسین، سید سلیمان ندوی، مفتی محمد شفیع، مولانا احتشام الحق  تھانوی، علامہ رشید ترابی، علامہ ابن حسن جارچوی، جیسے فضلاٗ، سرجن جمعہ، سرجن ادیب رضوی، حکیم محمد سعید جیسے اطبا، عبدالستار ایدھی جیسا فرشتہ، صادقین،آزر ذوبی، گل جی جیسے چترکار، آغا حسن عابدی جیسا بینکار، مشتاق احمد یوسفی، ابن انشا اور ابن صفی جیسے قلمکار، معین اختر، طلعت حسین، ایس ایم سلیم جیسے فنکار۔ غرضیکہ، علم و ہنر، ادب، ثقافت، کھیل، سماجی خدمت، معیشت، دین و مذہب یا زندگی کا کوئی بھی شعبہ ہو۔ میرے شہر سے جو بھی آیا لاجواب آیا۔

شعرو ادب کی دنیا میں میں بھی میرا شہر کسی سے پیچھے نہیں رہا۔ شاعر انقلاب، حضرت جوش اور یکتائے زمانہ قرت العین حیدر نے بھی اسی شہر کو شرف سکونت بخشا(عیینی گو کہ بعد میں ہندوستان واپس چلی گئیں)۔ ادیبوں اور شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے جو یہاں قیام پذیر رہی۔ اگر صرف شاعروں کی بات کریں تو یہاں قمر جلالوی، سلیم احمد، فہمیدہ ریاض، افتخار عارف، ابن انشا ، بہزاد لکھنوی، ماہر القادری، فضل احمد کریم فضلی، مصطفےٰ زیدی، جون ایلیا، پروین شاکر، دلاور فگار، سید محمد جعفری، عبیداللہ علیم، پیرزادہ قاسم، زہرہ نگاہ، ادا جعفری، رئیس فروغ، قابل اجمیری، سید آل رضا، ہاشم رضا، محشر بدایونی، حمایت علی شاعر، محسن بھوپالی، سراج الدین ظفر، سرور بارہ بنکوی، مسرور انور، اسرار ناروی (ابن صفی) وحیدہ نسیم، رضی اختر شوق، صہبا اختر، سحر انصاری، شان الحق حقی، رعنا اکبر آبادی، دکھی پریم نگری، اقبال عظیم، انور شعور اور نجانے کتنے اور بڑے اور چھوٹے نام ہونگے جو اس ناچیز کے احاطہٗ یاد داشت سے باہر ہونگے۔ ان میں سے چند ایک کا ذکر میں اپنے پچھلے مضامین میں کرچکا ہوں۔ یہ تمام ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔
آج جن کا میں ذکر کر رہاہوں وہ میرے خیال میں عوامی مقبولیت میں سر فہرست ہیں۔ یہ دونوں ہستیاں نجانے کب سے اور کتنے پہلووٗں سے ہمارے درمیان موجود رہیں۔ جب سے ہوش سنبھالا انہیں کسی نہ کسی صورت اپنے درمیان پایا۔

ہشت پہلو!
عالی جی سے میرے ستارے کبھی نہیں ملے۔ آپ کہیں گے یہ کیا چھوٹا منہ بڑی بات۔ تم میں اور عالی جی میں کیا نسبت۔
بات یہ ہے کہ میں عالی جی کو کبھی کسی مشاعرے بہ نفس نفیس نہ سن سکا۔ ۔ 1974 میں کراچی میں کے جی اے گراؤنڈ  میں شاید پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا مشاعرہ منعقد ہوا جس میں، جوش، حفیظ، صوفی تبسم، ماہرالقادری، احسان دانش سمیت پاکستان کا ہر بڑا شاعر موجود تھا سوائے تین بڑے ناموں کے۔فیض صاحب غالباُ جلاوطنی کے سبب بیروت میں تھے۔ احمد فراز اپنے ایک شعر کی پاداش مین آرٹس کونسل کی سربراہی سے برطرف ہو کر زیر عتاب تھے اور عالی جی ان دنوں لندن میں تھے۔

دوسری بار دوبئی میں عالی جی کے ساتھ شام منائی جارہی تھی۔ منتظمین کو نجانے کس عقلمند نے یہ شام النصر لیژر لینڈ کے آئس رنک میں منعقد کرنے کا مشورہ دیا۔ آئس رنک کی برف دن ڈھلے ہی پگھلادی گئی تاکہ ٹھنڈک نکل جائے۔ ٹھنڈک گو کہ نکلی، لیکن پھر بھی کم نکلی۔ فرش کو خشک کرکے اس پر بڑے بڑے تختے بچھا کر نشست کا نتظام کیا گیا۔ حاضرین بار بار تقاضائے بشریت کے تحت اٹھ کر جاتے۔ یہ خاکسار زکام کا دائمی مریض ہے، چنانچہ جو چھینکیں شروع ہوئیں تو رکنے کا نام نہ لیں۔ اس محفل کے دولہا عالی جی تھے اور ان کا کلام سب سے آخر میں تھا۔ جب ضبط کی حدیں تمام ہوئیں تو خاکسار نے محفل کے اختتام سے بہت پہلے گھر کی راہ لی اور عالی جی کو سننے سے محروم رہا۔

عالی جی سے بہرحال ایک اور طور سے اور مختصر سی ملاقات ہوئی۔ یہ قصہ بھی سن لیں۔
میں بحرین سے چھٹیوں پر کراچی جارہا تھا۔ اسی پرواز سے عالی جی کا شیرخوار نواسہ اور بیٹی بھی جارہے تھے۔ میرے چچا مجھے رخصت کرنے ایر پورٹ آئے تھے۔ انکے ساتھ ہی عالی جی کے صاحبزادے، جنہیں میں اس وقت ذوالقرنین عالی کے نام سے جانتا تھا، بھی اپنی ہمشیرہ اور بھانجے کو رخصت کرنے کیلئے موجود تھے۔ میں یو بی ایل کی ملازمت چھوڑ چکا تھا اور ذوالقرنین(راجو جمیل) نئے نئے کراچی سے یو بی ایل میں آئے تھے۔
راجو صاحب کی بہن ایک دھان پان سی ، نازک سی خاتون تھیں، جبکہ گول مٹول صاحبزادے ماشا اللہ راجو کی بچپن کی تصویر تھے۔چچانے، جو راجو کے دوست تھے، میری ڈیوٹی لگائی کہ میں سفر میں بچے اور خاتون کا خیال رکھوں۔کراچی پہنچ کرخاتون نے تو سامان کی ٹرالی سنبھالی اور میں نے اپنا سامان اور منے میاں کو سنبھالا۔۔ خارجی دروازے کے باہر ہی عالی جی نواسے اور بیٹی کے منتظر تھے۔ میں  نے ان کی “امانتیں ” ان کے حوالے کیں۔ عالی جی نے ایک خفیف سی، متشکرانہ مسکراہٹ سے مجھے دیکھااور منے میاں کو مجھ سے لے لیا۔۔ نانا اور نواسے کے درمیان میں نے مخل ہونا مناسب نہ سمجھا اور عالی جی کو سلام کرکے اور اپنا سامان لے کر باہر آگیا۔

مرزا جمیل الدین احمد خان آف لوہارو۔ اور ہمارے آپ کے جمیل الدین عالی بلکہ عالی جی، والد کی نسبت سے مرزا غالب اور والدہ کی طرف سے خواجہ میر درد کے خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔

جمیل الدین عالی کو میں بطور شاعر جاننے سے پہلے روزنامہ جنگ میں(کبھی کبھار) پڑھتا تھا، جہاں وہ کبھی، دنیا مرے آگے، تو کبھی، تماشہ میرے آگے یا کبھی نقار خانے میں کے عنوان سے باقاعدگی سے اور نجانے کب سے لکھتے چلے آرہے تھے۔ انکی باتیں میری سمجھ سے بالاتر ہوتی تھیں۔ پھر سن 65 کی جنگ آئی اور، اے وطن کے سجیلے جوانوں، جیسے ہر دلعزیز نغمے سےمجھے پتہ چلا کہ یہ جمیل الدین عالی تو شاعر بھی ہیں۔اور پھر جب میرے شہر میں ٹی وی آیا اور ہم جیسے کوڑھ ذوقوں کو بھی مشاعرے وغیرہ دیکھنے کو  ملے تو  وہاں ایک منفرد ترین ترنم والے عالی جی سے شناسائی ہوئی۔ جب وہ دوہے سناتے تو انکی لہریں لیتی، کھنکھناتی آواز ایک سماں باندہ دیتی۔

سامنے بیٹھی سندر ناریں آپ طلب بن جاتی تھیں
پردوں سے فرمائش کے سو سو پرچے آتے تھے
ہندوستان سے آنے والے تحفوں میں لے جاتے تھے

یا
بیتے دنوں کی یاد ہے کیسی ناگن کی پھنکار
پہلا وار ہے زہر بھرا اور دوجا امرت دھار

اور جب ذرا پڑھنے لکھنے کا شوق ہوا تو جانا کہ عالی جی تو نجانے کیا کیا ہیں۔ بابائے اردو اور اردو کالج اور انجمن ترقی  اردو کے ساتھ ان کا نام سننے میں آتا۔ رائٹرز گلڈ جب شہاب صاحب اور قرات العین حیدر کے ساتھ ملکر قائم کی تو اسکے یہ کرتا دھرتا تھے۔ اسکندر مرزا اور ایوب دور میں شاید وزارت تجارت کے بڑے افسر تھے۔ نیشنل بنک آف پاکستان کے سینیئر نائب صدر اور نجانے کیا کیا تھے۔

کیا جانے یہ پیٹ کی آ گ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسے مہا کوی بھی ،بابوجی، کہلائے

یہی دوہے تھے جنہوں نے ایک زمانے کو اپنے جادو میں جکڑ رکھا تھا۔۔

کوئی کہے مجھے نانک پنتھی کوئی کبیر کا داس
یہ بھی ہے میرا مان بڑھانا، ہے اور کیا میرے پاس

لیکن عالی جی کا اصل عوامی جنم 71 کی جنگ کے بعد ہوا۔ اور پھر لاہور کی اسلامی کانفرنس کے بعد تو عالی جی ایک ہاؤس  ہولڈ ، نام بن گئے۔بچے بچے کی زبان پر ، ہم مصطفوی ہیں ، رہتا تھا۔ اور قومی نغموں کی ایک زنجیر ہے کہ چلی آتی ہے۔۔

جیوے جیوے پاکستان

جگ جگ جیوے میرا پیارا وطن

میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے،

ہم مائیں ہم بہنیں ہم بیٹیاں

اے دیس کی ہواوٗں سرحد کے پار جاؤ  (جنگی قیدیوں کیلئے)

اتنے بڑے جیون ساگر میں تو نے پاکستان دی

پاکستان کا قومی ترانہ بلاشبہ حفیظ جالندھری نے لکھا، لیکن عالی جی کا تو ہر ملی نغمہ، قومی ترانہ ہی بن گیا۔
اپنی ہشت پہلو شخصیت کی طرح عالی جی نے نجانے کتنے اعزاز حاصل کئے ہوئے ہیں۔ ہلال ،امتیاز، صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، آدم جی ادبی ایوارڈ، داؤد  ادبی ایوارڈ  اور بے شمار انعام و اکرام لیکن سب سے بڑھ کر عوامی چاہت اور محبت۔

عالی جی اب عمر کے اس حصے میں ہیں جہان توانائیاں ساتھ چھوڑ جاتی ہیں۔ اب سے کچھ عرصہ پہلے تک باقاعدہ لکھ رہے تھے لیکن انسان بہرحال انسان ہوتا ہے۔ اب انہیں آرام کی ضرورت ہے۔خدا انہیں صحت و تندرستی کے ساتھ ہمارے درمیان تا دیر رکھے اور شادو آباد رکھے۔

ایں خانہ ہمہ آفتاب است!
وہ بھی عجب دن تھے۔ میری عمر اس وقت بمشکل سات یا آٹھ برس ہوگی لیکن اخبار کا مطالعہ روز مرہ زندگی کا لازمی حصہ تھا۔ اصل شوق تو ٹارزن یا ،رپ کربی، وغیرہ کی تصویری کہانیاں پڑھنے کا ہوتا تھا۔ تیسری جماعت سے جنگ اخبار میں دو چیزیں پڑھے بغیر اخبار کا مطالعہ مکمل نہیں ہوتا تھا۔ ایک ابراہیم جلیس کا “وغیرہ وغیرہ” اور دوسرا رئیس امروہوی کا قطعہ۔ سمجھ تو دونوں کی نہیں آتی تھی لیکن پورے ادارتی صفحے پر یہی دو چیزیں میری توجہ اپنی طرف کھینچتی تھیں۔

کچھ شعراء کی پہچان کوئی خاص صنف ہوتی ہے۔ سودا اپنی قصیدہ نگاری سے جانے گئے تو مرثیہ نگاری انیس و دبیر پر  ختم ہوئی۔توایک نام ایسا بھی ہے جس نے اپنی قطعہ نگاری سے ایک ملک کی تاریخ مرتب کردی۔

سید محمد مہدی المعروف بہ رئیس امروہوی کو میں  نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، جنگ اخبار میں کہیں نہ کہیں ضرور دیکھا۔ رئیس صاحب کے بڑے بھائی، سید محمد تقی ، دہلی سے جنگ کے مدیر چلے آتے تھے۔ دوسرے بھائی جون ایلیا اپنی طرز کے معروف اور یکتا شاعر۔ رئیس صاحب کے خاندان کے تمام مرد شاعر تھے۔رئیس صاحب نے چالیس سال بلا ناغہ قطعہ نگاری کی۔ حالات حاضرہ پر ایسا جامع، بر محل اور برجستہ تبصرہ ہوتا گویا دریا کو کوزے میں بند کردیا ہو۔، میرے شہر، ملک یا دنیا میں ہونے والے ہر سیاسی، معاشرتی یا معا شی واقعات پر اگر اب کے قطعات کو جمع  کیا جائے تو ایک تاریخ مرتب ہو سکتی ہے۔ رئیس صاحب کے قطعات پانچ جلدوں میں محفوظ ہیں۔

1962 میں جب شہر کے بارہ طلبہ کی شہر بدری پر فرمائی۔۔۔
تم نے ثابت کیا عزم و عمل سے اپنے
زندگانی ہے حیات عملی أ زندہ باد
تم ہو ایثار و صداقت کا ہراول دستہ
طالبات و طلبہ  زندہ و پائندہ باد

رئیس صاحب کے قطعات سادہ اور عام فہم ہوتے۔ 1966 میں بھٹو صاحب نے ایوب خان کی حکومت سے استعفیٰ دیا۔

کوئی اس مسئلے میں کیا بتائے
رئیس امروہوی صاحب کی رائے
کوئی عہدے سے جاتا ہے تو جائے
کوئی عہدے پہ آتا ہے تو آئے!

1982 مین تین بڑے شاعر وفات پاگئے تو فرمایا۔۔
احسان و فراق و جوش تینوں
رخصت ہوئے آہ باری باری
آثار رئیس کہہ رہے ہیں
یہ سال ہے شاعروں پہ بھاری۔

قطعہ نگاری کے علاوہ رئیس صاحب نے غزلیں اور نظمیں بھی کہیں۔ آپکے مجموعہ کلام، الف، پس غبار، مثنوی لالہٗ صحرا وغیرہ شعری مجموعے ہیں۔

جنگ ہی میں رئیس صاحب کے کالم، نفسیات، مابعد النفسیات، روحانیات اور جنسیات پر بھی شائع ہوتے۔ جس دن گھر میں جنگ کا دارتی صفحہ پڑھنے نہ ملے ہم سمجھ جاتے آج رئیس صاحب نے جنسیات پر حاشیہ آرائی کی ہے( جو ہم نابالغوں کیلئے شجر ممنوعہ تھی) چنانچہ یہ صفحہ چھپا دیا گیا ہے۔ ان موضوعات پر ان کے کالم ، نظرے خوش گزرے، اور دیکھتا چلا گیا وغیرہ بڑے مقبول تھے۔ اس کے علاوہ جون صاحب کے ،انشاء ، اور عالمی ڈائجسٹ میں ان کی فکاہیہ تحاریر اپنے وقتوں میں بہت مقبول تھیں۔رئیس صاحب نے ایک سماجی ادارہ رئیس اکیڈمی بھی قائم کیا ہوا تھا۔ ان کی زندگی کے دو ادوار بڑے نمایاں تھے۔ایک تو 1965 میں صدر ایوب کی تقریر کے بعد کراچی ریڈیو سے رئیس صاحب کے نغمے نے حوصلوں کو جوان کیا۔۔
اللہ کے وعدے پہ مجاہد کو یقیں ہے
اب فتح مبیں فتح مبیں فتح مبیں ہے

پھر تو ہر روز رئیس صاحب کا کوئی نہ کوئی نغمہ نشر ہوتا جو جنگ کی صورتحال کا غماز ہوتا۔
،خطہء  لاہور تیرے جاں نثاروں کو سلام،
سیالکوٹ کے میدان کارزار کو دیکھ،

ایک جنگ سرحدوں پر ہمارے سپاہی لڑ رہے تھے اور دوسری جنگ رئیس صاحب، عالی جی، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، مسرور انور، مادام نور جہان، مہدی حسن اور دوسرے شاعر اور فنکار ریڈیو پر لڑ رہے تھے۔رئیس صاحب کا دوسرا دور شہرت گو کہ متنازعہ اور بحث طلب ہے کہ اسکے اثرات بہت دور رس اور اکثر کے خیال میں بے حد منفی مرتب ہوئے۔

1972 میں اس وقت کی صوبائی اسمبلی نے ایک بل کے ذریعے سندھی کو صوبے کی واحد سرکاری زبان قرار دیا۔ رئیس صاحب اور دیگر اردو بولنے والوں نے اسکی شدید مخالفت کی، قرارداد کے اگلے دن روزنامہ جنگ سیاہ حاشیے کے ساتھ شائع ہوا۔ اس تمام حاشیے میں رئیس صاحب کا ایک پرانا نوحہ” اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے” تواتر سے لکھا ہوا تھا۔ اس مصرعے نے گویا پورے شہری سندھ میں آگ سی لگادی۔ صوبے میں شدید لسانئ فسادات پھوٹ پڑے۔  برسوں ساتھ رہنے والے اردو اور سندھی بولنے والوں کے دلوں میں دراڑیں پڑگئیں۔ آخر حکومت نے سندھی کے ساتھ اردو کو بھی صوبے کی سرکاری زبان قرار دیا لیکن دلوں کے شیشے میں آیا ہوا بال یوں تو نہیں جاتا؟

رئیس صاحب اردو کے تو سپاہی تھے لیکن انہوں نے کبھی اپنی مسلکی وابستگی کو اپنی شناخت نہیں بنایا۔ وہ ہمیشہ عدم تشدد کے پرچارک رہے۔ تو پھر نجانے کیون مذہبی جنون کا شکار بنایا گیا۔اور کسی نا معلوم قاتل کی گولیوں سے رئیس صاحب کے ساتھ ہی اردو قطعہ نگاری کا ایک عہد بھی تمام ہوا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پس نوشت۔۔۔رئیس صاحب کے قطعات محترم عقیل عباس جعفری کی کتاب ” پاکستان کرونیکل” سے لئے گئے ہیں۔ جس کے لئے راقم الحروف عقیل عباس جعفری صاحب کا بے حد شکر گزار ہے۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply