پختون تحفظ تحریک کے روحِ رواں محسن داور کے مطابق، شمالی وزیرستان کے معروف شاعر اور پختون تحفظ موومنٹ کے سرگرم کارکن مرسلین شاہ میر کو 16 اپریل کی شب ان کے گھر تھرنول سے اٹھا لیا گیا اور اگلی صبح انہیں شدید تشدد کے بعد زخمی حالت میں خوشحال گڑھ پل ۔ کوہاٹ کے کنارے پھینک دیا گیا۔ ان کا موبائل فون اور میموری کارڈ بھی اغوا کار ہتھیا کر لے گئے۔
این ایس ایف پاکستان کے مرکزی صدر ساحِر آزاد پلیجو نے اِس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اپنا پروپیگنڈا فیل ہوتے دیکھ کر بوکھلا گئی ہے اور اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آئی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جب این ایس ایف پاکستان نے تحریک کے انقلابی رُخ کو دیکھتے ہوئے پی ٹی ایم کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو ریاست کو ایوب خان کا حشر یاد آگیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایوبی آمریت کے دور میں بھی انقلابی کارکنان کے ساتھ یہی بربریت برتی گئی تو کیا وجہ ہے کہ ہم یہ نہ کہیں کہ ملک میں مارشل لاء نہیں؟ اگر یہ وزیرِاعظم کٹھ پتلی نہیں، تو بتائے کہ بلوچِستان، سندھ، فاٹا، خیبرپختونخوا، گلگت بلتستان اور پنجاب میں لوگ لاپتہ کیوں ہو رہے ہیں؟
اگر صوبائی ادارے اپنا کام کر رہے ہیں تو کیوں ہر صوبے میں طالبِ علموں کو اپنے تعلیمی اداروں میں ناکوں اور بندوقوں کے سائے سے ہو کر گزرنا پڑتا ہے؟ اگر عدلیہ آزاد ہے تو بتائے کہ طیبہ پر تشدد کرنے والا جج اور اس کی بیوی سزا پانے کے باوجود کیوں آزاد ہیں، کِس طبقاتی مظہر کے تحت ان کی مدعیّان سے صلح ہو گئی؟؟
اِس موقع پر انہوں نے گردوپیش کی ٹیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ریاست کا پروردہ میڈیا جب لوگوں کو آدھا سچ بتا رہا تھا تو گردوپیش غالباً وہ واحد ادارہ تھا جِس نے پیشہ ورانہ صحافتی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے پورا سچ لِکھا اور لوگوں طیّبہ تشدد کیس کا پورا احوال بتایا۔ انہوں نے کہا کہ اِس دورِ ابتلا میں ایسی صحافت بیشک نعمتِ خداوندی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم جانتے ہیں کہ مرسلین شاہ میر کے لیئے کسی ایف آئی آر کا اندراج ہو بھی گیا تو ان ریاستی بالا دست قوتوں کو کوئی گرفتار نہیں کر سکے گا۔ ہم مرسلین شاہ میر کے لیئے سڑکوں پر پر امن احتجاج کے ذریعے انصاف مانگتے رہیں گے اور پی ٹی ایم کے کارکنان کو کسی جگہ پر بھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے اور نہ کمزور پڑنے دیں گے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں