تتھاگت نظم–17 (سلسلہ سوالوں کا ۔۔1)

پیش لفظ
کہا بدھ نے خود سے : مجھ کو۔ دن رہتے، شام پڑتے، سورج چھپتے، گاؤں گاؤں یاترا، ویاکھیان، اور آگے ، اور آگے۔ بھارت دیش بہت بڑا ہے، جیون بہت چھوٹا ہے، لیکن اگر ایک ہزار گاؤں میں بھی پہنچ پاؤں تو سمجھوں گا، میں سپھل ہو گیا۔ ایک گاؤں میں ایک سو لوگ بھی میری باتیں سن لیں تو میں ایک لاکھ لوگوں تک پہنچ سکوں گا۔ یہی اب میرا کام ہے ،فرض ہے ، زندگی بھر کا کرتویہ ہے۔ یہ تھا کپل وستو کے شہزادے، گوتم کا پہلا وعدہ … خود سے …اور دنیا سے۔ وہ جب اس راستے پر چلا تو چلتا ہی گیا۔اس کے ساتھ اس کا پہلا چیلا بھی تھا، جس کا نام آنند تھا۔ آنند نام کا یہ خوبرو نوجوان سانچی کے ایک متمول خاندان کا چشم و چراغ تھا، لیکن جب یہ زرد لباس پہن کر بدھ کا چیلا ہو گیا تو اپنی ساری زندگی اس نے بدھ کے دستِ راست کی طرح کاٹ دی۔ یہی آنند میرا ، یعنی ستیہ پال آنند کے خاندانی نام ’’آنند‘‘ کی بیخ وبُن کی ، ابویت کی، پہلی سیڑھی کا ذوی القربیٰ تھا۔ اسی کی نسب خویشی سے میرے جسم کا ہر ذرہ عبارت ہے۔ مکالمہ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ان نظموں کے اردو تراجم اس میں بالاقساط شائع ہو رہے ہیں۔ اردو کے غیر آگاہ قاری کے لیے یہ لکھنا بھی ضروری ہے کہ ’’تتھا گت‘‘، عرفِ عام میں، مہاتما بدھ کا ہی لقب تھا۔ یہ پالی زبان کا لفظ ہے جو نیپال اور ہندوستان کے درمیان ترائی کے علاقے کی بولی ہے۔ اس کا مطلب ہے۔ ’’ابھی آئے اور ابھی گئے‘‘۔ مہاتما بدھ گاؤں گاؤں گھوم کر اپنے ویا کھیان دیتے تھے۔ بولتے بولتے ایک گاؤں سے دوسرے کی طرف چلنے لگتے اور لوگوں کی بھیڑ ان کے عقب میں چلنے لگتی۔ آس پاس کے دیہات کے لوگ جب کچھ دیر سے کسی گاؤں پہنچتے تو پوچھتے کہ وہ کہاں ہیں، تو لوگ جواب دیتے۔ ’’تتھا گت‘‘، یعنی ابھی آئے تھے اور ابھی چلے گئے‘‘۔ یہی لقب ان کی ذات کے ساتھ منسوب ہو گیا۔ میں نے ’’لوک بولی‘‘ سے مستعار یہی نام اپنی نظموں کے لیے منتخب کیا۔ ستیہ پال آنند – –

Advertisements
julia rana solicitors

تتھاگت نظم —–17
سلسلہ سوالوں کا ۔۱
آنند : بھوج پتر پر کیوں لکھتے ہیں اپنے دھرم گرنتھ ہم سارے؟
تتھا گت: تاکہ آنے والی نسلیں
ان کو پڑھ کر
سیکھ سکیں وہ سب کچھ جو اُن کے پُرکھوں نے
سوچا، سمجھا اور سمویا تھا اپنی دِن چریا میں ۰روز کا معمول
آنند: لیکن گرو ور، یہ بتلائیں
کیا یہ حقیقت پر مبنی ہے؟
ہر آنے والا یُگ اپنے دور کی سچائی کو
اس سندَربھ۰ میں ہی رکھتا ہے ۰تناظر
جس میں وہ یُگ بیت رہا ہو
پچھلے یُگ کی سچائی کیا بدلے ہوئے ماحول میں
جھو ٹ نہیں ہو سکتی؟
تتھا گت: ہو سکتی ہے
لیکن جو یُگ بیت گیا ہے، اس کی حقیقت
اور نئے یُگ کی سچائی
آپس میں یوں جُڑی ہوئی ہیں
جیسے شاخ سے شاخ نکل کر
اونچی اُٹھ کر
دھوپ، ہوا اور بارش سے خود
اپنی غذا لینے کا آپ جتن کرتی ہے۔
پہلی شاخ پہ شایددھوپ نہ پڑتی ہو اب
اس کے پتے اب شاید جھڑتے جاتے ہوں
نئی شاخ جھُٹلاتی کب ہے
پچھلی شاخ کی سچائی کو؟
لیکن اس کا اپنی اصلیت کو تج۰ دینا ۰ترک کر دینا
بھوت کال۰ سے جُڑے ہی رہنا ۰ماضی
جیتے جی مرنے کی طرح ہے۔
آنند: کیا میں سمجھوں
بھوج پتر کی مہما ۰کیول اِتّہاس ہے ۰ تعریف و تفسیر ْ ۰۰ صرف تاریخ
یعنی اُس سے شکھشا لے کر اُس پرچلنا
اہم نہیں ہے؟
تتھا گت:ترک۰ کی بھول بھُلّیوں میں مت پڑو … ۰منطق
سنو اور سمجھو، بھکشو!
ماضی مر جاتا ہے لیکن
حال سے اس کا رشتہ
ایسے ہی رہتا ہے
جیسے بڑی شاخ کا چھوٹی ٹہنی سے تھا
بڑی شاخ کٹ جائے یا گر جائے اگر تو
چھوٹی شاخ بھی گر جائے گی!
آنند: تو پھر
بھوج پتر کی مہما اس سچائی کا مظہر ہے، جس میں
’کل ‘ جو تھا، وہ ’آج‘ بھی ہے، پر
’کل‘ کا ’آج‘ نہیں ہے!
تتھا گت: ترک ۰کی بھول بھلیوں میں ، بھکشو ۰منطق
تم اب بھی پڑے ہوئے ہو!

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply