کٹ ٹو دی سائز

’’ آپ کا قد کاٹھ ہمارے طے شدہ معیار سے اوپر نکلا جا رہا ہے ، اسے روکیں ورنہ ہم خود اسے کٹ ٹو دی سائز کر دیں گے‘‘۔۔۔یہ وہ بین السطور پیغام ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے بعد سے ہر سیاسی لیڈر کو کسی نہ کسی مرحلے پر بھیجا جاتا رہا اور آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا ۔کچھ نے خود کو طے شدہ معیار کے عین مطابق ڈھال لیا اور کچھ نے لیت و لعل سے کام لیا،جس نے پیغام نظرانداز کیا اس نے زندگی سے ہاتھ دھوئے یا اقتدار سے ۔ذوالفقار علی بھٹو کے دیوتا کے منصب پر فائز ہو جانے کے بعد سے یہ اصول خاکی کٹھ پتلی تماشا کے کرداروں کے انتخاب کا بنیادی معیار قرار پایا کہ ’’روبوٹ تیار کرو مگر اسے ایک حد سے زیادہ آزادی کا مظاہرہ نہ کرنے دو ‘‘۔۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان کے بہت سے بڑے سیاسی رہنما آرڈیننس فیکٹریوں سے اسمبل ہو کر نکلے ہیں اور وہ جو یہاں کے مینوفیکچرڈ نہیں تھے ان کو موڈیفائے یہاں لا کر کیا گیا ۔۔۔۔لیکن اس تمام پیشہ ورانہ مہارت اور احتیاط کے باوجود یہ خامی اپنی جگہ موجود رہی کہ یہ روبوٹ کچھ عرصے کے بعد خود سری کے مظاہرے پر اتر آتے ہیں اور ان کا قد کاٹھ طے شدہ معیار کی حدوں کو چھونے لگتا ہے ۔ بداخلاقی کی انتہا یہ کہ اپنے ہی خالق کو آنکھیں دکھانا شروع کر دیتے ہیں کہ کچھ انسانی خمیر تو بہر صورت موجود ہوتا ہی ہے ۔۔۔لیکن اس صورت میں کیا کرنا ہے یہ بھی ” اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر” میں درج ہے ۔ ایسی صورت میں دیگر روبوٹس کو گھمنڈی باغی کی سرکوبی پر مامور کر دیا جاتا ہے ۔ یکے بعد دیگرے وارننگ جاری کی جاتی ہیں، خبردار کیا جاتا ہے ، سمجھایا بجھایا بھی جاتا ہے لیکن جب ساری کاوشیں بے سود جاتی ہیں تو پھر وہی ہوتا ہے جو آج کل نواز شریف کے ساتھ ہو رہا ہے ۔دو بٹا تین یا تین بٹا دو کا ’’ وٹّا ‘‘ دکھا کے آخری وارننگ دی جا رہی ہے کہ” قدم بوسی کرلو”، اطاعت قبول کرلو اور خراج ادا کرتے رہو ، دو ماہ ہیں سوچنے کو۔۔۔۔ لیکن ایک نیا خطرہ اور بھی ہے ، اور یہ تمام اطاعت گزاروں کیلئے بھی ہے۔طے یہ پایا ہے کہ تمام بڑے قد کاٹھ والوں کو ایک ایک کر کے فارغ کر دیا جائے تا کہ کم از کم آئندہ بیس سال تک معاملات اس نہج تک دوبارہ نہ پہنچ پائیں کہ کوئی اس حد تک سیاسی طاقت حاصل کر لے جس قدر نواز شریف گینگ نے حاصل کر لی ہے اور اب جو ناک رگڑوانا ،لوہے کے چنے چبانا ثابت ہو رہا ہے ۔
فیصلہ یہ ہے کہ اگر دو ماہ کی مدت کے دوران معاملات طے نہیں پاتے تو نواز شریف کے بعد تینوں نامور سیاسی جماعتوں کی درجہ اول قیادت کو بھی فارغ کر دیا جائے ، بہ الفاظ دیگر ایم کیو ایم پر آزمودہ اور کامیاب مائنس ون فارمولے کا اطلاق”اکراس دی بورڈ”کر دیا جائے کہ فاروق ستار اور مصطفیٰ کمال جیسوں کو ہینڈل کرنا الطاف حسین کو ہینڈل کرنے سے بدرجہا آسان ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کے اندر عمران خان اپنی تمامتر فرمانبرداری کے باوجود باقاعدہ تسلیم شدہ اور “سرٹیفائیڈ چپڑقناتیئے” گردانے جاتے ہیں جب کہ زرداری اپنی تمامتر معاملہ فہمی اور مصلحت پسندی کے باوجود ناقابل اعتماد ۔۔۔ لہٰذا نچلے درجے کے روبوٹ لائے جائیں جن کو قد کاٹھ کے پیرامیٹرز تک پہنچتے بیس سال تو کم از کم لگ ہی جائیں ، پھر جب کی جب دیکھیں گے۔۔۔گو نواز گو کرنے والوں کو نوید ہو کہ اس کے بعد گو عمران گو اور گو زرداری گو بھی دور نہیں ۔ بڑا کانٹا نکل جانے دیں تو پھر بقایا تو بس یونہی چٹکی بجاتے نکل جائیں گے ۔ کیس سب کے خلاف تیار ہیں اور منصف منتظر ہیں کہ ۔۔۔”کب ہو ایک اشارہ۔۔۔حاضر حاضر قلم ہمارا”۔

Facebook Comments

فاروق احمد
کالم نگار ، پبلشر ، صنعتکار

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply