ہم آج بھی مصطفوی ہیں بس ہم کو نظامِ مصطفی لادو۔

اب یہ ہے ہمارا عوامی اسلامی ، مذہبی بیانیہ! علماء کی زبانی جہادی بیانیہ تو آپ نے سن ہی لیا۔ اب اس کی تہہ میں کیا پوشیدہ ہے؟
یہی کہ صاحب میں تو نماز ضرور پڑھوں بس ریاست کی دیر ہے کہ مجھے اس کا حکم دے، میں روزے رکھوں، زکواۃ ادا کروں، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھوں، سود کے کبھی قریب بھی نہ پھٹکوں، ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھوں( مسجد کے اطراف کی پراپرٹی کی قیمت گر جاتی ہے لاؤڈ سپیکر کے بے جا استعمال کی وجہ سے، ہمسائے کے حقوق! ذرا پھر سے دہرائیے،۔ ہمسائے کے حقوق!) میں ناپ تول میں کمی نہ کروں، غیر عورت پہ نظر نہ ڈالوں۔ میں یہ سب کچھ کرنے کو تیار ہوں کیونکہ میں تو الحمدللّٰہ مصطفوی ہوں لیکن سارا قصور اس بے غیرت ریاست کا ہے کہ نظام مصطفی نافذ نہیں کرتی۔ اگر ریاست نظام مصفی آج نافذ کردے تو کل سے میں یہ سب کچھ کرنے لگوں گا۔
کہیے کچھ مزا آیا؟ طبیعت صاف ہوئی؟ ان سے بندہ پوچھے " انھی دیا جے توں مصطفوی بن ای گیا ایں تے انتظار کاہدا؟ آج توُں ای عمل شروع کردے؟" لیکن یہ عوامی بیانیہ پیدا کون کررہا ہے؟
یہ وہ بیانیہ ہے جو ہر جمعہ کو جمعہ کا خطبہ سناتے ہمارے محلے کی مسجد کا مولوی عام آدمی کے ذہن میں بچپن سے ہی انڈیلنا شروع کردیتا ہے۔ اور وہ عقیدت کی وجہ سے یہ تصور کرنا شروع کردیتا ہے کہ میں تب درست ہونگا جب ریاست نظام مصطفی نافذ کرے گی۔ حقیقتاً یہ سراسر ملا کی خواہش ہے کہ جب تک اسے اقتدار نہیں ملتا ریاست ہی غلط ہے

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply