• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • دیوارِ گریہ کے آس پاس ،اسرائیل کا سفر نامہ۔۔۔چند اقتباسات/عبدالحنان ارشد

دیوارِ گریہ کے آس پاس ،اسرائیل کا سفر نامہ۔۔۔چند اقتباسات/عبدالحنان ارشد

یہ کتاب دو دوستوں کی مشترک کاوش ہے سرجن کاشف صاحب جو مسافر تھے دیوان صاحب جن کی یہ تحریر ہے۔کاشف صاحب نے یہ نوٹس انگریزی میں بذریعہ ای میل دیوان صاحب کو ارسال کیا انہوں نے انہیں اردو میں تحقیق و تدوین کے ساتھ سب سے پہلے وجود ڈاٹ کام پر کالموں کی صورت میں شائع کیا اس کے بعد یہ مضمون کی صورت میں اردو کے معتبر ادبی جریدے سویرا میں شائع کئیے گئے۔ بالاخر سلیم الرحمن صاحب کی تدوین کے بعد یہ پہلی دفع کتابی صورت میں چھپے یہ یاد رکھیں کہ اس کتاب کا انگریزی میں کوئی وجود نہیں ۔اس کا نام ،سرورق کے ڈئیزائن کا خیال اور والدین کے انتساب تک کے الفاظ اقبال دیوان صاحب کے طرز تحریر کے گواہ ہیں ۔سرورق پر پبلشرز ریاض چوھدری صاحب سے دیوان صاحب کا نام نہ دینے سے یہ غلط فہمی پھیلی کہ اس کتاب کو پہلے کاشف صاحب نے انگریزی زبان میں شائع کیا!یہ غلط فہمی دیوان صاحب کا اس کتاب میں مضموں” کیاکہے حال دل غریب جگر : پڑھ کر بھی دور ہوجاتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اسرائیل ایک ایسی سرزمین ہے جس کا جغرافیہ مختصر، تاریخ طویل اور فساد لامتناہی ہے۔
ڈیرھ ہزار سال ہونے کو آئے، اس کا ماضی خون میں لتھڑا ہوا، حال تصادم میں الجھا ہوا اور مستقبل غیر یقینی۔
حکومت نے اسرائیل کو “تین حصوں” میں تقسیم کر رکھا ہے۔
زون اے , زون بی, زون سی.
زون اے  فلسطینی علاقے جن میں مغربی کنارہ غزہ شامل ہیں۔ یہ علاقہ ایک بارڈر اور دیوار   سے احاطہ زنداں میں بدل دیا گیا ہے۔ باہر سے نہ کوئی اندر جا سکتا ہے اور نہ کوئی اندر سے باہر جا سکتا ہے۔
زون بی میں فلسطینی کام کے لیے تو آ سکتے ہیں، مگر قیام نہیں کر سکتے۔
زون سی  میں فلسطینیوں کا داخلہ یکسر ممنوع ہے۔ اس زون میں دارلخلافہ تل ابیب شامل ہے۔ مگر دس فیصد مسلمان بھی رہتے ہیں، وہ جافا میں رہتے ہیں۔

اسرائیل میں یہودیوں کے دو فرقے آباد ہیں۔یہود العرب( Sephardi Jews) اس میں اسپین اور عرب کے یہود شامل ہیں۔ دوسرے ( Ashkenazim  Jews) یہودی ہیں۔ جن کا تعلق یورپ اور روس سے ہے۔ ان دونوں فرقوں کے پادری بھی علیحدہ ہیں۔ یہود العرب کا حال خاصا مخدوش ہے۔ عرب ان یہود العرب کے معاملات میں قدرے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔جب کہ ( Ashkenazim Jews) صہونیت کے سب سے بڑے داعی ہیں، دنیا بھر میں ان کا ہی راج ہے۔اسرائیل میں شیکل کرنسی چلتی ہے۔

اصل عقیدت والا شہر یروشلم ہے۔ جسے تینوں بڑے مذاہب ادب اور عقیدت کا مقام مانتے ہیں۔ یروشلم میں تینوں بڑے مذاہب کی نشانیاں اور زیارتیں موجود ہیں۔ یروشلم کی تین بڑی مذہبی نشانیاں یہ ہیں۔
مسلمانوں کی مسجدِ اقصی، عیسائیوں کا کلیسا آلام اور یہودیوں کی دیوارِ گریہ۔ ان تینوں عقیدت کے مقامات کی نشاندہی کے لیے کہیں کوئی بورڈ نصب نہیں۔
یروشلم میں دمشق گیٹ سے چلتے جائیں تو ایک سب راہا آجاتا ہے۔ بائیں ہاتھ جائیں تو مسجدِاقصی آجاتی ہے، دائیں ہاتھ جائیں تو
کلیسا آلام اور سیدھے ہاتھ   دیوارِ گریہ   ہے۔یروشلم تل ابیب سے 85 کلومیڑ دور اور ایک ہزار (1000) میڑ اوپر واقعہ ہے۔
یہاں تاریخ گھاس، درخت، جھاڑیوں اور عربوں کے خون کی ہر دم تازہ نئی فصل ایک ساتھ اُگتی ہے۔ انسانی خون اور ہلاکت میں یہ ہریالی پھر بھی دل کو بھلی لگتی ہے۔
سبز بورڈ پر انگریزی، عربی، اور عبرانی میں
AL-Qudas-Sharif درج ہے۔

یروشلم(بمعنی گہوارہ امن) کا نام حضرت داؤد علیہ اسلام نے ایک چھوٹی سی بستی کو حضرت عیسی علیہ اسلام سے ایک ہزار سال پہلے فتح کرنے کے بعد رکھا تھا، اور اسے اپنا دارالحکومت بنایا تھا۔ اس شہر کا 23 مرتبہ محاصرہ، 52 مرتبہ فوج کشی اور 44 دفعہ قبضہ ہوا۔دمشق دروازے سے فاصلے پہ Cave of Zedekish ہے۔ یہ جگہ فری میسن کے لئے بہت اہم ہے۔ یہاں سے پتھر کھود کر ہیکل سلیمانی تعمیر ہوا تھا۔ قدیم فری میسن یہی اپنے خفیہ اجلاس منعقد کرتے تھے  اور سالانہ اجلاس بھی۔

جو سنہری گنبد والی تصویر اکثر مسجد اقصی سمجھ کر ہم لوگ اپنی فیسبک پر شئیر کرتے ہیں۔ وہ مسجد اقصی نہیں بلکہ قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) ہے۔
قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) سنہری گنبد اموی خلیفہ عبدالمالک نے سن 691ء میں تعمیر کرایا تھا۔ اس کا مقصد
مکہ المکرمہ میں اجتماع کو روکنا تھا۔یہ سنہری گنبد قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) عرب سے باہر مسلمانوں کی پہلی تعمیر شدہ عمارت ہے۔ یہاں سے غیر مسلم داخل نہیں ہو سکتے۔ اُن کے جانے کا راستہ مغربی دروازے سے دیوارِ گریہ کے نزدیک ہے، وہ بھی مخصوص وقت میں۔
یہودیوں کے ہاں بھی اِس مقام کی بہت اہمیت ہے۔ وہ اسے (Mount Moriah) کے نام سے پکارتے ہیں۔اسی سنہری گنبد قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) کے عین نیچے پتھریلی چٹان ہے، جہاں سے معراج کا سفر شروع ہوا تھا۔

مسجدِ اقصی میں داخل ہونے کے لیے  مختلف سکیورٹی حصار سے گزرنا پڑتا ہے۔ آخری سکیورٹی کا مرحلہ عرب مسلمانوں کے پاس ہے۔ اگر کوئی اسرائیلی سکیورٹی گارڈ کو دھوکا دے کر آ بھی جائے تو دین پر چند سوال کر لیے جاتے ہیں۔مسجد کے احاطے کا رقبہ 35 ایکٹر ہے۔ سامنے نگاہ کریں تو نگاہ مسجدِاقصی پر نہیں بلکہ  قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) پر پڑتی ہے۔
“اقصی القدیم”انبیاء کی مسجد کہلاتی ہے۔ یہاں حضرت خضر علیہ اسلام مغرب کی نماز پڑھنے جاتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ اسلام کا کنواں بھی ہے۔ادھر ہی چھوٹے چھوٹے کمرے ہیں جہاں امام غزالی نے ” احیاالعلوم” تخلیق کی تھی۔
مسجدِ براق جہاں اللہ کے نبی کا معراج سے پہلے براق باندھا گیا تھا۔ مسجدِ براق کو قدیم مسجدِاقصی میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر عثمانی خلافت میں دیوار کھینچ کر دونوں کو علیحدہ کر دیا گیا تھا۔

قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) کے گنبد کے اندر ہی ایک کنواں ہے، جسے “بیرالارواح” کہتے ہیں۔ یہودیوں کے عقیدے کے مطابق روزِ قیامت سب ارواح قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) والے اسی کنویں میں جمع کی جائیں گی۔
یہ کنواں ایک طرح کی غار ہے۔ اس کے فرش پر سجادے “جاء  نمازیں” موجود ہیں۔ اور ان جاء  نمازوں کے درمیان ایک بہت صاف دائرہ نما سوراخ ہے۔ یہ عین وہ مقام ہے جہاں سے معراج کا سفر شروع ہوا تھا، اور جو چٹان اوپر ہے وہ اس کنویں کی چھٹ ہے، یعنی قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) یہودیوں میں بھی قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) بہت متبرک گردانا جاتا ہے۔ یہودی کہتے ہیں دنیا کا مرکز اسرائیل ہے، اسرائیل کا مرکز یروشلم ہے اور یروشلم کا مرکز ( Temple of Mount) جس کا اپنا مرکزی مقام یہ قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) ہے۔ یعنی یہودیوں کا (Mount Moriah) اور یہ چٹان دنیا اور ماورائے دنیا کے درمیان رابطے کا مرکز ہے۔ اور اس مرکز کا ایک سوراخ ہے جہاں سے ہم مسلمان معراج پر تشریف لے جانے کا مانتے ہیں۔

یہودیوں کی ہیکل سلیمانی ( Temple of Zion) کی تعمیر کی پشت پر اقصی القدیم کی اور جدید کی بربادی اور ایک خفیہ خزانے کی تلاش ہے۔

خزانہ: حضرت سلیمان علیہ اسلام کے دور میں جادو اور فتنہ پرور علوم بابل اور نینوا تک تک جا پہنچے تھے، اور شیاطین کے پیروکار کو جادو سکھاتے تھے۔اللہ نے حضرت سلیمان علیہ اسلام کو حکم دیا ایسے تمام قدیم علوم کے خفیہ صحیفے اور ان کی معاونت میں استعمال اشیاء کو قبضے میں لے کر ان عاملوں وغیرہ کو پہلے توبہ کا موقع دیں۔ ورنہ بعد میں کڑی سزا دیں۔ اور حضرت سلیمان علیہ اسلام نے یہ تمام اشیاء بشمول خفیہ صحیفوں کے ایک جگہ اپنے محل میں دفنا دیا۔اب یہودی یہ اشیاء تلاش کرنا چاہتے ہیں۔اور یہودی بڑی عیاری سے قبتہ الصخرہ ( Dome of the Rock) کو بطور مسجدِاقصی پیش کرتے ہیں۔
بے شمار مسلمان جان نہیں پاتے، سنہری گنبد سے دور ہٹ کر چپ چاپ  کھڑی یہ سفید پلاسٹر والی اداس  سی ایک منزلہ عمارت ہی دراصل ان کا قبلہ اوّل ہے۔

یروشلم کی فتح کا جو معاہدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا چرچ کے پادری “Sophronius” سے ہوا تھا اسے “معاہدہ عمری” کہتے ہیں۔ اس کے گواہ سیدنا خالد بن ولید، سیدنا امیر معاویہ، سیدنا ابو عبیدہ ( اللہ سب سے راضی ہو) شامل تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ دس دن تک یہاں قیام پذیر رہے تھے۔ اور یہودیوں کو 200 سال بعد شہر میں داخلے اور عبادت کی اجازت دی گئی تھی۔ یروشلم 637 میں آزاد ہوا تھا۔یروشلم میں ایک جگہ ہے، جو جبل الزیتون کہلاتی ہے، جس کی یہودیوں اور عیسائیوں کے ہاں بہت اہمیت ہے۔یہودی کہتے ہیں روزِ قیامت یہودا(اللہ) اسی جبل الزیتون پر جلوہ افروز ہو گا۔ اور یہ پہاڑ دو ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے گا۔ اور یہودی یہاں دفن ہونا عین سعادت سمجھتے ہیں۔ اور یہاں کوئی ڈیڑھ لاکھ یہودی دفن ہیں۔
عیسائی کہتے ہیں حضرت عیسی علیہ اسلام اس ڈھلوان پر دوبارہ ظہور پذیر ہوں گے۔ اور یہی سے مشرقی دروازے یروشلم شہر میں داخل ہوں گے۔
تاریخ کے قدیم ترین زیتون کے درخت بھی اُدھر قریب ہی باغ(Garden of Gethsemane) میں واقع ہیں۔
ذرا فاصلے پر “Church of all Nation” یعنی کلیسا آلام ہے۔ جہاں بڑے پتھروں کے درمیان حضرت عیسی علیہ اسلام نے اپنی گرفتاری سے پہلے عبادت کی تھی۔
آگے “Church of Ascension” ہے اور عرب اسے کلیسا الصعود کہتے ہیں۔ یہاں چٹان کے بارے میں مشہور ہے
حضرت عیسی علیہ اسلام یہاں سے آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ چھوٹی سی عبادت گاہ “Aedicule” کو اسی چٹان پر اسی وجہ سے تعمیر کیا گیا ہے۔ جب صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو فتح کیا تھا تو اس کو مسجد میں بدل دیا تھا۔ غلطی کا احساس ہونے پر پرانی حیثیت پر بحال کر دیا تھا اور مسجد قریب خالی جگہ پر بنائی تھی۔

کلیسا کے پڑوس میں مقبرہ ہے۔ اس مقبرے پر تینوں مذاہب کا جھگڑا ہے۔ یہودی اسے  بنی اسرائیل کی خاتون جو نبی کے ہم منصب تھی اُس کا مقبرہ مانتے ہیں۔ عیسائی چھٹی صدی کی راہبہ جس نے عشق عیسی علیہ السلام میں دنیا تج دی تھی۔ اور یروشلم کے مسلمان اسے رابعہ شامی کا مقبرہ مانتے ہیں، جہاں ہر جمعرات ذکر کی محفل لگتی ہے۔یروشلم سے ہی ایک سڑک جیرکو، کو جاتی ہے، یہی سڑک آگے جا کر مکہ مکرمہ تک جاتی ہے۔اسرائیل میں جیرکو میں ہی حضرت موسی علیہ اسلام کا روزہ مبارک ہے۔
ایک زمانے تک فلسطینی مسلمان حضرت موسی علیہ اسلام کے مزار کی زیارت بطور تہوار جلوس کی صورت کرتے تھے۔ یہ رسم سلطان صلاح الدین ایوبی کی بیت المقدس کی فتوحات سے پڑی تھی۔
سارے فلسطین سے مسلمان ایسٹر سے ایک ہفتہ پہلے، جمعہ کو جھنڈے لہراتے اور جشن مناتے ہوئے یہاں آ جاتے تھے۔ جشن کا دورانیہ ایک ہفتہ ہوتا تھا۔ اور قیام و طعام کا ذمہ مرقد عالیہ پر حرم اشریف والے وقف کے ذمے ہوتا تھا۔؎

1920تک یہ رسم چلتی رہی۔ پھر زائرین کا اجتماع برطانوی تسلط کے خلاف اجتماعی مظاہرے کا روپ اختیار کر گیا۔ برطانیہ نے اس پر پابندی لگا دی تھی۔ برطانیہ کے ملک چھوڑنے پہ، یہ رسم دوبارہ چند سال امن افروز رہی۔ پھر میدان کارگزار بن گیا۔ کئی عرب اور یہودی ہلاک ہو گئے تھے۔ 1967ء میں اسرائیلی قبضہ کے بعد اجتماع پر پابندی لگ گئی تھی۔ اور یہ پابندی 1997ء تک جاری رہے۔
امین الحسینی حضرت موسی علیہ اسلام کے مزار کے متولی ہیں۔ سلطنتِ عثمانیہ کے مقامی حکمران نے 1800ء میں مزار کا انتظام و انصرام اس خاندان کی حوالے کہا تھا۔ ان کے پردادا یروشلم کے مئیر تھے۔

قمران کی غاروں میں ایک متنازع زخیرہ ملا ہے، جنھیں دنیا “Dead Sea Seroll” کے نام سے جانتی ئے۔ یہ متنازع اس لئے ہے کہ  دو طرح کی ارمنی ایک طرح کی لاطینی اور عربی زبان میں بھی موجود ہیں۔
بحیرِمردار بھی جیرکو کے پاس واقع ہے۔ یہ سطح سمندر سے 850 فٹ نیچے ہے۔ جیرکو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔ اس کا شمار A کیٹیگری میں ہوتا ہے۔جیرکو کا عربی نام اریحا بمعنی معطر کے ہیں۔ یہ شہر حضرت عیسی علیہ اسلام کی پیدائش سے نو ہزار سال پہلے سے آباد ہے۔
بحیرِمردار کو” Dead Sea” کہتے ہیں۔ یہ سمندر نہیں بڑی سی جھیل ہے۔ دنیا کا قدیم ترین آبی ذخیرہ جو سطح سمندر سے نچلی سطح پر ہے۔ اس کے اطراف میں نمک ہے۔ چشمے اور پہاڑوں سے بہتا پانی ادھر آتا ہے۔ شدید گرم موسم اور خشک ہوائیں اسے بخارات بنا کر اڑاتی رہتی ہیں۔ اس لئیے برومائید اور کلورین جیسے مادوں کی کیچڑ بن جاتی ہے۔ اس میں اتنی تفوذیت یعنی “Osmosis” ہوتی ہے جس کی وجہ سے اجسام ڈوبتے نہیں ہیں۔ اس کی یہ نمکیاتی ہیئت اسے کسی قسم کے کیے جاندار کے لیگ ناقابلِ نمو بنا دیتی ہے۔

یہودیوں کے ہاں یروشلم کا درجہ مکتہ المکرمہ کی طرح ہے، اسی طرح الخیل (ہیبرون) کو مدینہ طیبہ کی مانند سمجھا جاتا ہے۔ فلسطینی عرب اسے اسلام کا چوتھا اہم شہر مانتے ہیں۔ یعنی مکتہ المکرمہ، مدینہ طیبہ، یروشلم پھر ہیبرون(الخیل)۔ہیبرون 700 سال تک مسلمانوں کے زیرِ اثر رہا۔ 1967ء میں اسرائیل نے اسے اردن سے چھین لیا تھا۔ہیبرون کے معنی ہیں” دوستی، ملاپ”
ناروے کے شہر اوسلو میں 1994ء میں ہونے والے معاہدے کی رو سے اِس شہر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ H-1 فلسطین کے پاس ہے۔ H-2یہ اسرائیل کے پاس ہے۔ H-1میں تین لاکھ فلسطینی ہیں۔ H-2 میں 750 اسرائیلی اور تیس ہزار فلسطینی آباد ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

عبدالحنان ارشد
عبدالحنان نے فاسٹ یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس کی ڈگری حاصل کر رکھی ہے۔ ملک کے چند نامور ادیبوں و صحافیوں کے انٹرویوز کر چکے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ آپ سو لفظوں کی 100 سے زیادہ کہانیاں لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply