قندوز حملہ: ردِ عمل کیا ہونا چاہیے؟ ۔۔۔صاحبزادہ امانت رسول

قندوز میں ہونے والے ڈرون حملے کے نتیجے میں101حفاظ کرام شہید ہوئے ۔اس کے بعدمسلم دنیا میں شدید ردِعمل سامنے آیا اور امریکہ و یورپ پر شدید تنقید کی گئی۔ردِ عمل میں بہت سے مسلم والدین نے بچوں کوقرآن مجید حفظ کرانے کا عہد کیا ۔کئی ایسے والدین سے بھی رابطہ ہوا جنہوں نے باقاعدہ سکول سے اپنے بچوں کو اٹھا کر مدارس ومساجد میں حفظ کے لئیے داخل کرا یا ہے ۔
بچوں کے والدین کے جذبات قابل تحسین و تعریف ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جس قوم کے خلاف جذبات کے تحت بچوں کو حفظِ قرآن کے لیئے داخل کرا یا گیا ہے کیا اس طرح اس کا مقابلہ ممکن ہے ؟ حفاظ کرام کی شہادت کے ردِ عمل میں ہو نا یہ چا ہیئے تھا کہ والدین اپنے بچوں کو سائنس دان ،قانون دان،جدید مذہبی سکالر ،معیشت دان اور ماہر تعلیم بنانے کا ارادہ کرتے تا کہ مغرب کا مقابلہ انہی کے ہتھیار کے ذریعے سے کیا جائے۔

اگر والدین حفظ قر آن کا جذبہ رکھتے ہیں تو اس عظیم کام کے لیے وہ خود کو پیش کر سکتے ہیں ۔ میں نے ایسے کئی خوش نصیب والدین دیکھے ہیں جنہوں نے ادھیڑ عمری میں قرآن مجید حفظ کیا۔ مسلمانوں کے دورِعروج میں یورپ نے اپنی کتاب مقدس حفظ کر نے کے بجائے مسلمانوں میں جدید مروج علوم پہ مشتمل کتب و تحقیق کو اپنے ممالک میں لا کر ان پر کام کیا، کتب کے تراجم کیے گئے اور مزید ان پہ کام کا آغاز کیا گیا۔بنیادی طور پر یہ وہ رویہ ہے جو قوموں کو آگے لے کر جا تا اور اس قابل بنا تا ہے کہ وہ طاقتور قوم کے مقابل کھڑی ہو جا ئے ۔

بحیثیت مسلمان ہم اپنے معاشروں کا تنقیدی جائزہ لیں تو ہمیں قر آن مجید پڑھنے والوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی لیکن قر آن مجید کو سمجھنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ۔ان میں بھی وہ تعداد نہ ہونے کے برابر ہے جنہوں نے اپنے ما حول ،فرقہ اور جماعت سے بے نیاز ہو کر قرآن مجید کوسمجھا ہو۔مسلم معاشرے علمی واخلاقی زوال کی جس پستی کو چھو رہے ہیں وہ کسی داناسے پو شیدہ نہیں ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہماری سر زمین عظیم قانون دان،فقیہ ،سائنسدان ،فلاسفر اور ماہرین تعلیم پیدا کر نے سے بانجھ ہے ۔ایسا نہیں ہے کہ یہ بانجھ پن سالوں کا ہے بلکہ یہ صدیوں پہ محیط ہے،ہم جس قوم کے مقابل ردِ عمل میں جذباتی قدم اٹھاتے ہیں وہ قوم صدیوں سے ایسے بڑے لوگ پیدا کر رہی ہے اور اپنی ترقی وعروج سے لطف اندوز ہو رہی ہے ۔ان کے ہاں نظام تعلیم ہو یا نظام جمہوریت ،سائنسی ترقی ہو یا سیاسی استحکام ،نظام عدل ہو یا نظام معیشت ،اس نے ہر شعبے میں کمال ترقی ہی نہیں کی بلکہ انسانیت کو اس سے مستفید ہونے کے مواقع بھی فراہم کیے ہیں۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply