ریاستی خداؤں کے نام خلقت کا پیغام۔۔۔معاذ بن محمود

میڈیا میں منظور پشتین کو نہ ملنے والی کوریج سے یہ ثابت ہوچکا کہ مین سٹریم میڈیا آزاد ہرگز نہیں۔ میڈیا جب کسی طاقت کے زیراثر کام کرے تو عوام کی آواز نہیں بلکہ پراپیگنڈا مشین بن جاتا ہے۔ پراپیگنڈا کس نظریے کی ترویج کے لیے کوشاں ہے اس کا جواب آپ کو پراپیگنڈا سننے سے مل جائے گا۔ ہر شام سات بجتے ہی جمہوریت کی اکائیوں کو ایک دوسرے کے سامنے الزامات کی دھول اڑانے  کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پراپیگنڈا مشینیں خود انہی اکائیوں کو استعمال کرتے ہوئے عوام الناس کو یہ باور کراتی ہیں کہ ان سے بڑھ کر کرپٹ تو کوئی ہے ہی نہیں۔ ایسے میں قضاء اور جرنیلوں پہ حرف کو ملک دشمنی، غداری اور انصاف کے قتل سے تعبیر کر کے ثابت کیا جاتا ہے کہ پراپیگنڈا کس کے خلاف اور کس کے حق میں جاری ہے۔

یہ بات طے ہے کہ سیاستدان دودھ دھلے نہیں لیکن بات اگر انصاف کی ہو تو ہمیں مکمل حقیقت بیان کرنی پڑے گی۔ حقیقت یہ ہے کہ دودھ کا دھلا کوئی ایک ادارہ بھی نہیں۔ کرپشن نہ صرف سیاستدان بلکہ جج اور جرنیل بھی کرتے ہیں۔ کرپشن کو سو فیصد ختم کرنا محض یوٹوپیا میں ہی ممکن ہے تاہم آئین پہ اس کی روح کے مطابق عمل درآمد سو فیصد ممکن ہے۔ آئین پہ عمل درآمد کی مد میں کم سے کم یہی کر دیں کہ آئین سے غداری کرنے والے جرنیلوں، سیاستدانوں اور ججوں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کر دیں، مگر ایسا ہو تو کیسے؟ یہ خواہش پراپیگنڈے کے تحت پھیلائی جانے والے اسباق کے مکمل برخلاف جو ٹھہری۔ مسئلہ صرف کرپشن کا ہو تو چلو کم رو دھو کر خاموشی اختیار کر لیں، یہاں مسائل کچھ اور ہیں۔ یہاں مسئلہ ہے خود کو ریاستی خدا سمجھ لینے کا۔

کہتے ہیں زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔ یہ بات عام آدمی سمجھتا ہے۔ جو نہیں سمجھتے وہ ہیں خاص آدمی۔ زبان خلق بھلا ہے کیا؟ ہر پانچ سال بعد انتخابات میں اپنا حکمران چننے کا فیصلہ! لیکن خاص آدمی تو خود کو ریاست کا خدا سمجھتے ہیں۔ یہ خاص آدمی، یہ رب کے پراسرار بندے زبان خلق کو بلڈی سویلین کی جہالت بھری بکواس سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے لہذا اصل نقارہ خدا سننے سے معذور ہیں۔ نقارہ خدا کیا ہے؟ وہ نعرہ جسے دبانے کے لیے آپ نے متحدہ قومی موومنٹ کے حصے بخرے کر دیے وہی نعرہ آج ملک کے دوسرے کونے میں پہنچ چکا ہے۔

ریاستی فراعین آخر کیوں اپنے پراپیگنڈوں کے باوجود دہشت گردی کے پیچھے وردی کا تاثر ختم نہیں کروا سکے؟ آخر آج پھر وہی حالات کیوں ہیں جو ہر بار باوردی آمر کے جانے پہ ہوتے ہیں؟ آخر عوام کا ایک بڑا حصہ آپ وردی والوں کو ریاستی مسائل کی بڑی وجہ کیوں سمجھتا ہے؟ آخر کیوں آپ وردی والوں پہ تاثر ہے کہ آپ ماورائے عدالت، ماورائے آئین اور ماورائے پارلیمان ہیں؟ آج یہ وقت ایک بار پھر کیوں آن پہنچا کہ عوام کا ایک حصہ آپ کو بدمعاش سمجھتے آپ سے گھن کھا رہا ہے؟ وہ کیا مجبوری تھی جس کے تحت آپ نے ریاستی رٹ قائم کرنے کے لیے مولویوں کے ایک گروہ کو طالبانی سوچ رکھنے کے باوجود طالبان کو دیا جانے والا ردعمل نہ دیا؟ آخر کیوں آپ کا سول اداروں میں تصادم کروانے کا شوق ختم ہونے کو نہیں دے رہا؟ آخر کیوں آپ نے اکہتر کے سانحے سے کچھ نہیں سیکھا؟ وہ کیا وجہ ہے کہ احسان اللہ احسان کو بہنوئیوں جیسی عزت دی جارہی ہے جبکہ فاروق ستار کو گریبان سے پکڑ کر گرفتار کیا گیا؟ وہ کیا مسائل تھے جن کے حل کے لئے آپ کے بریگیڈئیر کو دھرنہ اراکین کو ہزار ہزار روپے دینے پڑے؟ کیا وجہ ہے کہ کل کو ہمارے خون کے پیاسے طالبان آج آپ کی چھتری تلے زندہ ہیں؟ آخر کیوں آج آپ کی ٹویٹس اور پریس کانفرنس پہ عوام آپ پہ جگتیں مارنے کو تیار ہیں؟ یہ نہج کیونکر پہنچی؟

آج منظور پشتین کا ایک بیان سنا جس میں جنوبی وزیرستان کے ایک گاؤں میں طالبان کمانڈروں کو پاک فوج کے زیر سایہ ہونے کی بات کی گئی۔ میں منظور پشتین کی بات پہ یقین نہیں کرنا چاہتا، آپ ان علاقوں تک میڈیا کی رسائی دے دیجیے تاکہ ہم آپ کی مان لیں۔ لیکن آپ یہ رسائی اپنے قابو میں رہنے والے میڈیا تک کو نہیں دے سکتے کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ میڈیا کے اندر بھی انسان ہیں اور انسانوں کے یہاں انسانیت کا پاس بہرحال رکھا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ پہاڑوں میں کھلائے جانے والے گل اگر سامنے آگئے تو ایک نہیں کئی منظور پشتین آپ کے خوف سے باہر نکل کر آپ کی خدائی کو چیلنج کر دیں گے۔ لیکن ایسا کب تک چلے گا؟ عوام پانی کی طرح اپنے جذبات کے اظہار کا راستہ تو ڈھونڈ ہی لے گی۔ کبھی آپ کے سکھائے دھرنوں کی شکل میں، کبھی سوشل میڈیا کی شکل میں۔

سوال یہ ہے کہ آپ آئین پاکستان کے ہوتے ہوئے بھی کب تک ریاستی خدا بنے ریاست کو الہامی پیغام رٹاتے رہیں گے؟ آپ کب تک کبھی اپنے پراکسی سیاستدانوں اور کبھی پراکسی ملاؤں کی شکل میں ہم پہ اپنی مرضی مسلط کرتے رہیں گے؟ آپ کب تک میڈیا کو پراپیگنڈا مشین بنا کر رکھیں گے؟

Advertisements
julia rana solicitors

ایک نہ ایک دن تو حقیقی آزادی کا سورج طلوع ہوکر رہے گا!

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply