کراچی فسادات اور سوالات

(مکالمہ کا اس تحریر سے اتفاق ضروری نہیں ہے، اگر کوئی صاحب جواب دینا چاہیں تو مکالمہ کے صفحات حاضر ہیں۔ ایڈیٹر)

گر جائزہ لینا فرقہ واریت کے زمرے میں نہیں آتا تو آئیے جائزہ لیتے ہیں۔۔
کراچی پھر شیعہ سنی مسئلے کی لپیٹ میں ہے- ہفتے کے دن چھ لوگ ٹارگٹ کلنگ میں مارے گئے۔سب کا تعلق ایک ہی جماعت سے تھا۔فطری طور شک کی انگلی مخالف جماعت اور فرقے کی طرف اٹھی اور کچھ گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ ان گرفتاریوں پر احتجاج نے آج پورا دن تشدد کا روپ دھارے رکھا۔کراچی کا گنجان آباد اور مواصلاتی اعتبار سے اہم ترین ٹائون “ملیر” بند رہا۔ پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام معطل رہا، ٹرین بھی روکی گئی، تعلیمی ادارے بند رہے، پولیس پر پتھرائو ہوا، ایک پولیس والا زخمی ہوا،شیلنگ ہوئی، گلیوں میں پولیس اور مظاہرین میں آنکھ مچولی ہوتی رہی اور آخری کوشش کے طور پر مذاکرات کیلئے بھیجے جانے والے ایس پی صاحب ناکام واپس لوٹ آئے۔
یہ سب ایک فرقے کا اپنے زعماء کی گرفتاریوں پر ردعمل تھا۔حالانکہ ان زعماء پر ابھی تک کوئی ایف آئی آر نہیں کٹی، انہیں باقاعدہ کسی کیس میں نامزد نہیں کیا گیا، اب تک میڈیا پر آنے اطلاعات سے بھی اشارے یہی مل رہے ہیں کہ انہیں کسی بڑے معاملے میں نہیں پھنسایا جارہا، اس کے باوجود ردعمل کی شدت ہے کہ کم ہونے کی بجائے بڑھتی جارہی ہے اور اسکا دائرہ بھی کراچی سے نکل کر پاکستان کے دوسرے علاقوں تک وسیع ہوتا جارہا ہے۔ شنید ہے کہ گلگت بلتستان بھی ہنگامہ آرائی کی لپیٹ میں ہیں۔
جبکہ دوسری طرف اسی دن کراچی شہر میں فریق مخالف کے بھی اسی درجے کے زعماء کو اٹھایا گیا ہے، ان کے مرکز پر بھی رینجر نے ریڈ کیا ہے، یہ فریق اکثریت میں ہے لیکن اسکی طرف سے ایسا کوئی بھی ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا، نہ کوئی احتجاج ہوا ہے نہ جلائو گھیرائو کی کوئی واردات۔

اب آئیے تھوڑا اس واقعے سے پہلے کے اعداد وشمار کا بھی جائزہ لیتے ہیں۔
شیعہ سنی فسادات کے حوالے سے دو مذہبی تنظیموں اور انکے دو ذیلی مسلح جتھوں کا نام پچھلے تیس سال سے پاکستان کا ہر شہری سنتا آرہا ہے۔ ان دونوں دھڑوں کے اب تک مارے جانے والے لوگوں کی تعداد تو لگ بھگ برابر ہی ہے البتہ اگر زعماء قائدین اور علماء کے اعداد وشمار پر نظر کی جائے تو اکثریتی طبقہ اس میدان میں کئی گنا زیادہ نقصان اٹھا چکا ہے۔ جب بھی اکثریت پر حملہ ہوا، اقلیتی فرقے کے افراد نامزد ہوئے اور جب اقلیت شکار ہوئی، اکثریت کے مسلح گروہ کا نام آیا۔ وہ لوگ کون تھے بچہ بچہ ان کے ناموں سے واقف ہے۔ دونوں مسلح گروہوں کے ذمہ داروں کی ایک بڑی تعداد جیلوں میں ڈالی گئی پھر انجام کیا ہوا؟۔۔

پاکستان میں نون لیگ کے پہلے دور اقتدار میں پولیس مقابلوں کی ایک نوع متعارف ہوئی جسے ” مبینہ” مقابلہ کہا جاتا ہے۔ یہ مقابلے اس ڈھائی سالہ دور اقتدار میں بکثرت ہوئے اور اب اس ٹرم کا جتنا عرصہ گذر چکا ہے اسے ان مقابلوں کا دور عروج کہا جاسکتا ہے۔ پولیس مجرموں کو گاڑی میں لے کر جارہی ہوتی ہے، “مبینہ” طور پر کچھ لوگ ان مجرموں کو چھڑانے کیلئے حملہ کردیتے ہیں، اس مقابلے میں مبینہ طور پر یہ تمام مجرم ان حملہ آوروں کی فائرنگ سے مارے جاتے ہیں۔ پولیس کا ان مقابلوں میں مبینہ طور پر نہ آج تک کوئی نقصان ہوا ہے اور نہ پولیس کی فائرنگ سے کوئی مجرم یا حملہ آور مارا گیا ہے۔ “اتفاقیہ” طور پر آپس میں انتہائی مماثل یہ “مبینہ” مقابلے تقریبا ہر ہفتے کا معمول ہیں اور اسے حسن اتفاق کا نام دیا جائے یا حسن ترتیب کا کہ یہ تمام مقابلے اکثریتی مسلح گروہ کے خلاف ہوئے ہیں، اقلیتی گروہ اب تک ان سے مکمل محفوظ رہا ہے- اکثریتی مسلح گروہ کے تمام نامی گرامی لوگ انہی “مبینہ”مقابلوں کی بھینٹ چڑھ چکے۔ اپنے لوگوں کے مسلسل مارے جانے پر اکثریتی طبقہ اس طرح سڑکوں پر نہیں نکلا اور نہ یہ آپا دھاپی مچائی جو اقلیتی گروہ نے دوچار لوگوں کے صرف پکڑے جانے پر مچا رکھی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

لیکن اس سب کے باوجود ہر جگہ مطعون ومطرود کون سا گروہ ہے؟ مظلوم کسے باور کیا جاتا ہے اور ظالم کون شمار ہوتا ہے؟۔۔اس مختصر سے جائزے کا اچھی طرح جائزہ لیجئے اعدادوشمار کو خوب پرکھئے اور پھر صرف ایک سوال کا جواب دیجئے۔ حکومت، سکیورٹی اداروں، میڈیا،سول سوسائٹی،دانشوران قوم، اہل قلم ،اہل دلیل اہل مکالمہ کا عمومی فیصلہ عمومی نظریہ اور عمومی سوچ ان دونوں گروہوں کی بابت کیا ہے؟ اور کیا وہ انصاف پر مبنی ہے؟۔۔

Facebook Comments

امتیاز خان
دین کا طالبعلم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply