پاکستانی طرز سیاست اور پانامہ کا منطقی انجام

پاکستانی طرز سیاست میں پانامہ اور اس جیسے لاتعداد طوفان اٹھتے رہتے ہیں۔ ملک کی 70 سالہ سیاسی تاریخ میں اس جیسے واقعات تاریخ کا ایک اہم حصہ بن چکے ہیں۔ آج تقریبا ہر پاکستانی سیاسی رہنما کسی نہ کسی طور پر اپنے ذاتی مفاد حاصل کرنے کیلئے مملکت خداد پاکستان کو مالی و فکری چُونا لگا کر اس مقام پر پہنچا ہے کہ ملک کے صف اول کے رہنماؤں میں اپنے آپ کو شمار کرسکے کیونکہ پاکستانی سیاسی رہنماؤں کو عوام کو رُجھانے اور ان کو اپنے دام فریب میں لانے کا فن شہید ملت لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد بذریعہ نوکر شاہی اور جاگیرداری نظام کے طفیل بہت جلد آگیا تھا اور پھر وہ اس فن میں اتنے طاق ہوگئے ہیں کہ عوام کو اپنی مرضی کے تابع کرسکیں ۔ پہلے پہل ایوب آمریت کی گود میں پلنے والے نام نہاد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو ایک ایسا لالی پاپ دیا جسکے اثرات آج بھی ملک کے بہت سے علاقوں میں جا بجا بکھرے نظر آتے ہیں۔( اگرچہ اس بات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے) مگر لمحہ فکریہ ہے کہ عوام کو سیاسی شعور دینے کی بات کرتے کرتے آخری دم تک قائد عوام (جو خود ایک جاگیردار گھرانے سے تعلق رکھتے تھے) اس لاچار عوام کو ایک بھی حق نہ دے سکے۔ اسکے بعد ایک اور آمر کے دور صدارت میں ایسے افراد کو منظور نظر بنایا گیا جن کا سیاست سے دور دور کا بھی واسطہ نہ تھا اور انکے ہر کام پر چشم پوشی کی گئی یہاں تک کہ آنے والے وقت میں انہی منظور نظر افراد کو آمر کی باقیات کے الفاظوں سے بھی نوازا گیا جس پر ان رہنماؤں نے فخر کا اظہار بلاواسطہ کئی بار عوام کے سامنے کیا۔ لامحالہ آمریت کی گود میں پلنے والے ان سیاسی رہنماؤں کی فکری و سیاسی سوچ بھی لاشعوری طور پر وہی رہی جو کہ ابتدائی تعلقات کی بنیاد بنی تھی۔ اسی سوچ و فکر نے ملک میں فرقہ ورانہ فساد کی ایسی بنیاد رکھی جس کو کم از کم اب ختم کرنا ان رہنماؤں کے بس کی بات نہیں ہے۔ ان سیاسی رہنماؤں نے ایک طرف فرقہ ورانہ سوچ کو تقویت دی تو دوسری جانب اپنے دونوں ہاتھوں سے اس ملک کے زر و زمین کو دونوں ہاتھوں سے خُوب لُوٹا جبکہ قوم انہی سیاسی رہنماؤں کے بچھائے گئے عصبیت و فرقہ واریت کے جال میں پھنستی چلی گئی۔قوم کی اجتماعی فکر و سوچ کو اتنے گہرے نشتر لگائے گئے کہ وہ اب جاں کُنی کی حالت میں سانس لے رہی ہے ۔ المیہ تو یہ ہے کہ ان تمام سیاسی رہنماؤں کے کالے کرتوت ہمیں اغیار نے نہاں کیئے تو بس ایک بھونچال سا ملک کی سیاسی سطح پر اُبھرا اور اسکے اثرات سے کوئی سیاسی کارکن لاتعلق نہیں رہ سکا۔ ان آمروں کی گود میں پلنے والے تمام سیاسی رہنماؤں نے اپنی بقا کیلئے ہر وہ ہتھکنڈہ استعمال کیا جس کا تصور جمہوریت میں کبھی بھی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اداروں کی توڑ پھوڑ اور اس میں اپنے من پسند افراد کی تعنیاتی اور اسکے ساتھ جمہوریت کو بچانے کے راگ الاپنے میں یکجائی ایسے عناصر ہیں جن کی توضیح کوئی بھی صاحب شعور سیاسی کارکن نہیں کر سکتا ہے۔ ایک طرف بحالی جمہوریت کی خاطر ایسے سیاسی ڈرامے جن کے کردار اور ڈائیلاگ بھی وقت کے ساتھ ساتھ بدل دئیے گئے اور اس طرح سے اپنے ذاتی مفاد کو ملک کے مفاد پر فوقیت دے کر اپنے مذموم مقاصد حاصل کیئے گئے۔
قوم اب پانامہ کا ڈرامہ بھی اپنی آنکھوں کےسامنے ہوتے ہوئے دیکھ رہی ہے اور قوم کو اسکا ادراک ہے کہ اس ڈرامے کا اختتام کن خطوط پر کیا جائیگا لیکن سُپریم کورٹ کے معزز ججوں نے اپنے پانامہ کیس کے فیصلے کی ابتدا جن لفظوں میں کی ہے بلاشبہ اسکو اگر حقیقت کی آنکھ سے دیکھا جائے تو حاصل جواب وہی ہےجس کی طرف معزز کورٹ نے نشاندہی کی ہے مگر سیاست کی اندھی تقلید میں گرفتار سیاسی رہنما اور ان کے کارکنان اپنے اپنے رہنماؤں کو ایسے صادق و امین بنانے کی سعی کر رہے ہیں گویا وہ اس کار خیر کے چشم دید گواہ ہوں۔ ایک جانب پورے خاندان کو مطعون کیا جارہا ہے تو دوسری جانب کبھی غیر ملکی خاتون کے تعلق سے وابستہ کہانیاں برسرعام لائی جارہی ہیں تو کبھی اثاثوں میں بلا مبالغہ کئی سو کروڑ کا اضافہ گفتگو کا ماحصل نظر آتا ہے۔ لیکن صد افسوس ہے کہ گفتگو کا معیاردونوں جانب سے نہایت ہی عامیانہ اور بلا تبصرہ ہے جسے سامعین کی خوشنودی کی خاطر ہر ایک پریس کانفرنس میں ببانگ دہل دُہرایا جاتا ہے اور بباطن یہ فکر و سوچ لی جاتی ہے کہ یہ پاکستانی سیاست کا زیور ہے نیز اسی سے عام عوام کو خوش کیا جاسکتا ہے۔ جب ملک کے سیاسی رہنماؤں کی ذہنی پستی کا یہ عالم ہو گا تو ذرا اس بات کا اندازہ لگا لیجئے کہ عام عوام کی سیاسی سوچ و فکر کیا کچھ ہوسکتی ہے اور اس کا میعار کیا ہوسکتا ہے۔ ہم جس معاشرہ کے قیدی ہیں وہاں پر کسی کی پگڑی اُچھال دینا اور اس کو سرعام رُسوا کردینا کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی ہے ۔ جب اس طرح کا معاشرہ ہو گا تو اس بات کو بھی ذہن نشین کرلینا چاہیئے کہ ہمارے سیاسی کارکنان پانامہ کے فیصلے پر اپنے ردعمل میں کیا کچھ نہیں کرسکتے اور آخر کار ان کے سیاسی رہنما اپنے مقاصد کے حُصول کیلئے اپنے کارکنان سے کن کن افعال کی توقع کر رہے ہیں۔ انجام کار اس سیاسی لڑائی(جسے میں ایک نورا کشتی سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں) آخر کار ملک کو ایک بار پھر بند گلی کی جانب لے جائیگی جہاں پر اس ملک پر حکمرانی کرنے کا خواب دیکھنے والے عناصر( جو آج بھی بباطن حکمرانی کر رہے ہیں) کو مداخلت کرنے
کا حق حاصل ہوجائیگا اور کہانی از سر نو دہرائی جائیگی ۔

Facebook Comments

ایاز خان دہلوی
سچائی کی تلاش میں مباحثہ سے زیادہ مکالمہ زندگی کا ماحصل ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply