شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا…

لفظ بھکاری مجھے کبھی بھی پسند نہیں رہا ہے. اس لفظ میں تحقیر کا ایک عنصر ہے جو غالب ہے. مرزا اسد اللہ غالب نے کہا تھا
میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسد
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا
جانے کیوں مجھے یہ خوف رہتا ہے کہ کوئی انسان کسی بھی وقت مفلسی کے اس مقام پر آ سکتا ہے کہ جب ہاتھ پھیلانا بقا کی واحد امید رہ جائے. سو اسی خوف کی وجہ سے سنگ اٹھانے سے پہلے سر یاد آ جاتا ہے.سڑکوں پر دست طلب دراز کرنے والوں کو میں ذاتی طور پر تین گروہوں میں بانٹتی ہوں.
ایک پیشہ ور ہیں. وہ مانگتے ہیں کیونکہ وہ آن جاب ہوتے ہیں. ایک ایسی معاشی صورتحال جس میں اچھے پڑھے لکھے لوگ بھی معمولی معمولی نوکریوں کے پیچھے جوتیاں چٹخاتے پھرتےہیں وہاں یہ غیر ہنرمند اور غیر تعلیم یافتہ لوگ کیسے مجرم ٹھہرائے جا سکتے ہیں؟ دہشت گردی کی کئی وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تو ہے کہ حورانِ جنت کی امید کے ساتھ ساتھ جان کا معاوضہ بھی نقد ادا ہوتا ہے. اور رشتوں کو بلکتے دیکھنے والے اس یکمشت ادائیگی کو بھی غنیمت جان لیتے ہیں. میرے دفتر اور رہائش میں طویل فاصلے کی وجہ سے مسافت میری روز کی ساتھی ہے. اور روز کے کم از کم ڈیڑھ سے دو گھنٹے انہیں راستوں کی نذر ہو جاتے ہیں. شاید اس وجہ سے میں ان پیشہ ور بھکاریوں کو پہچان لیتی ہوں. یا شاید ان کہ پہچان اس قدر مشکل بھی نہیں. ان کے بارے میں میں نے طے کر رکھا ہے ان کو نہیں دینا. ہم اسرائیل ،ناروے ،ڈنمارک کو معاشی نقصان پہنچا کے توڑنے کے خواب دیکھتے ہیں. میں خواب بھی اوقات میں رہ کے دیکھتی ہوں. اس لیے میں ان پیشہ وروں کے نیٹ ورک کو معاشی نقصان پہنچانے کا خواب دیکھنے پر ہی اکتفا کر لیتی ہوں.
دوسرا گروہ خواجہ سراؤں کا ہے. لوگ ان کو انجانے خوف کی وجہ سے دیتے یا رحم کی. مجھے ویسے یہ پیارے لگتے ہیں. بلکہ اب کے ساتھ تو کچھ ایسے قصے ہو جاتے کہ دیر تک ہنسی کا سامان مہیا ہو جاتاہے. کچھ وقت پہلے کی بات ہے کہ ایک میں اے ٹی ایم کی تلاش میں نکلی تھی اور پرس میں سوائے پلاسٹک منی کے کچھ نہ تھا. مزید یہ کہ کسی بات پر مزاج برہم تھے. اشارہ بند ہوا تو خواجہ سرا آ گیا اور گاڑی سے لگتے ہی بولا "اللہ میری باجی دی مراد پوری کرے سو روپیے دے." مرادوں کی برآوری سے مایوس باجی نے ڈیش بورڈ دیکھا تو دس روپے نظر آئے. اسے دئیے مگر وہ بضد تھا نہیں سو روپیہ ہی لینا. زچ ہو کے میں نے کہا لینا ہے تو ٹھیک ورنہ میں واپس لے رہی. اس سے پہلے کہ اس کا انکار زبان سے نکلتا، اس کا ساتھی آیا اور بولا "باجی ایہدر پھڑاؤ. ایہہ پاگل اے. جا میری پین خوش رہ" اور ساتھ ہی اپنے ساتھی کو بولا "چپ کر. اے جانن آلی اے". اگلے کئی گھنٹے میں اپنی پبلک ریلیشننگ پر ناز کر کے شرمندہ ہوتی رہی.
پھر ایک تیسرا گروہ ہے. یہ مساکین ہیں. سڑک کنارے خاموش بیٹھے یا گاڑیوں کے کپڑے بیچتے یہ بوڑھے لوگ ہیں اکثر. کسی وقت میں سوچتی ہوں اس عمر میں کیا چیز ان کو گھر سے اٹھا لاتی ہے. ان کی آنکھوں میں جھانکیں تو اپنا آپ مجرم لگتا ہے. جس عمر میں بھیڑیا نیک ہو جاتا ہے اس عمر میں بھی ان پر زمانے کی تلخی کم نہیں ہوتی. کسی کی مسواک، کسی کا گاڑی کا کپڑا، کسی کا غبارہ اور کسی کا کھلونا دیکھ کر سوچتی ہوں جتنا اسے بیچ کے پورے ماہ میں کماتا ہو گا اتنا تو کسی امیر خاندان کا بچہ ایک ہینگ آؤٹ میں اڑا دیتا ہے. ہم سفید پوشوں کے اپنے مسائل ہیں. غریب ہمیں امیر سمجھتے ہیں اور ان کے ساتھ ہم رہنا نہیں چاہتے. امیر ہمیں کچھ نہ سمجھیں اس ذلت سے بچنے کو ہم خود کو امیر دکھانا چاہتے ہیں. سر چھپائیں تو پیر برہنہ ہو جاتے ہیں اور پیر چھپائیں تو سر کی چادر اتر جاتی ہے. ایسے میں ہم کبھی اس قابل نہیں ہو پاتے کہ اپنے سوا کسی کا سوچیں. گاڑی کا کپڑا، کھلونا، مسواک کبھی کبھی تو خریدی جا سکتی. روز خرید کے ان کو کہاں پھینکیں.
آج کسی سے اسی کا ذکر کیا تو کہنے لگے آسان ہے. میرے ایک پرانے دوست کی ایک ادا مجھے بہت پسند تھی . تھے موصوف گنجے مگر گاڑی چلاتے وقت جس چوراہے پر بھی انہیں کنگھی بیچنے والا ملتا اس سے کنگھی ضرور خریدتے تھے ،اور جب ان کے پاس ڈیڑھ دو درجن کنگھیاں جمع ہو جاتی تو بھیک مانگنے والے کسی لڑکے کو یہ سمجھا کر دے دیتے کہ ایک کنگھی اتنے کی بییچنا جو پیسے ملیں اس میں اتنے پیسے تمہارے مگر شرط یہ ہے کہ باقی اتنے پیسوں کی نئی کنگھیاں خرید کر ضرور بیچنا…ہم کب تک حالات کے بدلنے کے لیے نظام اور حکمرانوں کے منتظر رہیں گے؟ کیوں نہ ہم خود چراغ بننا شروع کر دیں تاکہ اندھیروں کے خلاف مزاحمت شروع ہو جائے. اگرچہ سورج اور دئیے کا مقابلہ نہیں ہوتا لیکن رات کی تاریکی میں فقط ایک چراغ سے ملنے والا سکھ سورج کے نصیب میں نہیں آ سکتا ہے.
پس لفظ: کچھ ساتھیوں کا کہنا ہوتاہے کہ سڑک پر بھیک دینے والے پیسے کسی ادارے کو دے دئیے جائیں. گزارش ہے کہ مساکین کی ایک بڑی تعداد کسی ادارے سے منسلک نہیں. اس لیے ایسے مساکین تک جانے کے لیے اصولوں سے ہٹ کے سوچیے. کم از کم تب تک جب تک پاکستان میں اصول کی حکمرانی نہ ہو جائے.

Facebook Comments

سعدیہ سلیم بٹ
کیہ جاناں میں کون او بلھیا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply