لڑکا ہوا نہ لڑکی، بلکہ جی ٹی آئی!

چینی مصنوعات ہماری مارکیٹوں میں عموما ً دستیاب اور سستے داموں مل جاتی ہیں۔ اس لیے چائنہ مارکیٹ کے صارفین کم بجٹ میں اچھی خاصی شاپنگ تو کر لیتے ہیں لیکن پروڈکٹس کی پائیداری کے بارے میں اکثر کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں، ایسا ہی کچھ حال ہمارے وزیراعظم صاحب کا ہے کہ منتخب تو ہو جاتے ہیں لیکن پانچ سال چلیں گے یا پہلے ہی پنکچر ہو جائیں کچھ نہیں کہا جا سکتا، دوبار تجربہ فیل ہونے کے بعد تیسری بار بھی جاتے جاتے رہ گئے۔ فیصلہ حسب توقع رہا۔۔ کہتے ہیں” کسی کو سلجھا نہ سکو تو مزید الجھا دو” ایسا ہی کچھ کیا عدالت عالیہ نے بھی۔۔۔۔اتنا انتظار کروانے کے بعد بھی نہ “لڑکا” ہوا نہ” لڑکی” بلکہ جی آئی ٹی نے جنم لیا، بہر کیف عزت چاہے نہ بچی پر شیر کی کرسی تو بچ گئی! وزیر اعظم کے پاس اخلاقی طور پر وزیر اعظم رہنے کا جواز نہیں رہا۔ ایک شخص کو آپ بد دیانت اور لٹیرا کہتے ہیں اور چور بازاری ثابت کرنے کے لیے ملکی عدالت عالیہ تک لے جاتے ہیں کہ یہ فلاں شخص ڈاکو ہے، اس نے عوام کو لوٹا ہے، اس کے بعدبھی آپ اخلاقیات کی بات کرتے ہیں۔۔۔؟ اجی کمال کرتے ہیں! یہی ہوتی ہیں سیاسی اخلاقیات۔۔ نہ آپ کا بلا اصلی ہے اور نہ ان کا شیر! ویسے آپ کو بھی اخلاقی طور پر بولنے کا کوئی حق نہیں رہا۔۔ کیوں کہ آپ عدلیہ کو کوئی ٹھوس ثبوت اور شواہد مہیا نہ کر سکے۔ پرانے اخبارات میں پکوڑے بکتے ہیں، عدالتوں میں فیصلے اخبارات کے تراشوں پر نہیں دیے جاتے۔ سسٹم کو آپ نے ٹریننگ ٹرپ سمجھ رکھا ہے یا ٹور میچ!
آپ کی پی ٹی آئی سے آشنائی سے قبل ہمارا واسطہ بھی ایک پی ٹی آئی سے رہا لیکن وہ ہمارے اسکول میں physical training instructor تھے، نام تو شاید ان کا خالد تھا لیکن پورا اسکول انہیں پی ٹی آئی ہی کہتا تھا، دکھنے میں سر سید احمد خان جیسے لیکن منصف تھے اور نہ ہی مفکر و مجدد۔۔ بھلے آدمی تھے! اللہ تعالی ان کی مغفرت فرمائے۔ آپ بھی ان ہی کے کردار میں اچھے لگتے ہیں، ویسے زمبابوے بورڈ میں ایک عدد کوچ کی سیٹ خالی ہے! قسمت آزمائی کر لیں. حسب توقع آج شام سات بجے عالیجاہ قوم سے مخاطب ہوں گے اور اپنی صفائی پیش کریں گے ، شروعات کچھ اس طرح سے ہو گی” میرے عزیز ہم وطنو! جیسا کہ آپ جانتے ہیں میری زندگی ایک کھلی کتاب ہے ۔۔۔۔۔”پھر وہی پرانی کہانیاں، الزامات، صفائیاں اور وعدے۔۔۔ بھئی! کھلی کتاب بار بار پڑھ کر سنانے کی کیا ضرورت ہے،ویسے یہ داستاں بارہا کہہ کر بھی ان کہی رہتی ہے۔بچت مبارک ہو صاحب لیکن یہ مت بھولیے کہ “پکچر ابھی باقی ہے”۔”سیر کا سوا سیر” تو سنا ہو گا، شاید آئندہ دنوں میں بدل کر”شیر کا سوا شیر” بن جائے (اپریل 20)۔قوم منتظر رہی لیکن صاحب نہ صبح آئے نہ شام آئے۔۔ شاید ابتدائی طور پر فیصلہ اپنی قانونی فتح سمجھ بیٹھے ہوں ،بعد ازاں مشیروں کے سمجھانے سے فیصلہ بدل لیا ہو۔متحدہ اپوزیشن بھی مٹھائیاں بانٹتی اور مکے لہر کر اپنی “اخلاقی فتح” مناتی رہی لیکن جلد ہی احتجاج کی کال دے دی، پہلے پہل شاید دونوں ہی کو سمجھ نہیں آیا کہ کون جیتا اور ہارا کون! امپائر میچ ڈرا دیکھنا چاہتا ہے یا فیصلہ کن، کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔فیصلہ شاید ایک تیسرے فریق اور خاموش کردار کے حق میں آیا ہے جنہوں نے کچھ عرصہ قبل کہا تھا کہ پانامہ کیس میں وقت ضائع کیا جا رہا ہے، کوئی قابل ذکر فیصلہ نہیں آئے گا۔اب دیکھنا ہے کہ اس بار وزیراعظم اپنے اوریجنل ہونے کا ثبوت دیتے ہیں یا پھر چینی پروڈکٹس کی طرح ایکسپائری ڈیٹ سے پہلے ہی پنکچر!

Facebook Comments

عبدالقدوس قاضی
اپنا لکھا مجھے معیوب لگے ۔ ۔ ۔ ۔ وقت لکھے گا تعارف میرا ۔ ۔ ۔ !

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply