جنوبی پنجاب صوبے کا لوٹا محاذ۔۔۔شاہد یوسف خان

 جنوبی  پنجاب کے خطے کی پسماندہ عوام تو اچانک جھوم اٹھی ہے جب سے سُنا ہے کہ ہمارے خطے کے  مہان قسم کے سیاستدان  جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے اچانک سے متحرک ہوگئے ہیں۔ یقین جانیے کہ  جذباتی کیفیت ہے کہ   اب صوبہ بن  جائے گا اور جنوبی پنجاب کی عوام اپنے آزاد صوبے میں آزاد سانسیں لے کر ترقیوں کی نئی معراج کو پہنچیں گی۔ آخر کیوں نہیں، اس بار تو آٹھ نو سیاستدان جو مختلف پارٹیوں سے  ہیں اتحاد کی نئی لڑی میں پروئے نظر آئے ہیں۔

کمال بات تو یہ ہے کہ  ان  آٹھ دس لیڈرز  نے کئی مرتبہ ممبران پارلیمنٹ رہتے ہوئے بھی اسمبلی میں کیا کسی بھی پلیٹ  فارم پر صوبہ جنوبی پنجاب بنانے کے لئے کبھی ایک لفظ بھی بولا ؟۔۔  ۔یاد    ماضی  رہنے دیں، ان حالیہ پانچ سالوں کو ہی لے لیجیے یقین جانیے ان  لیڈران نے عوام سے ِگھن کھائے   رکھی۔  کہاں رہے کوئی سدھ بُدھ نہیں تھی، کبھی اخبار کی تصویروں  میں نظر آتے کہ کسی خاص مہربان کی شادی بیاہ کی تقریبات پر شان و شوکت سے آئے ہوتے ہیں  اور سیدھے سادے لوگ ان کی سیلفی نما بلائیں لے رہے ہوتے ہیں۔   گزشتہ روز کی پریس کانفرنس تو مجھے انقلاب لگ رہی تھی۔

اگر آپ کو یاد ہو    مشرف حکومت جاتے ہی صوبہ جنوبی پنجاب کے نعرے پیپلزپارٹی اور دیگر سیاستدانوں نے لگائے تھے لیکن  صوبہ جنوبی پنجاب سے زیادہ مضبوط تحریک صوبہ بہاولپور کی تحریک تھی جنہیں سابق وزیر محمد علی درانی صاحب نے لیڈ کیا تھا اور وہ تحریک گزشتہ الیکشن تک بڑے زور و شور سے چلتی رہی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ باقی کوئی صوبہ بنے نہ بنے لیکن بہاولپور صوبہ تو بن کر ہی رہے گا۔۔۔ بس الیکشن مکمل ہوا  اُس کے بعد تو ہمیں معلوم بھی نہیں  کہ محمد علی دُرانی صاحب کی تحریک اللہ کو پیاری ہوچکُی ہے یا وہ  خود ۔۔ اللہ بھلا کرے ان کا   کمان سے نکلے تیر کی طرح شارٹ ہوئے پھر کبھی زیارت   نصیب نہ ہوئی!

نئے  صوبہ  جنوبی پنجاب محاذ کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 6 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان صوبائی اسمبلی نے عام انتخابات سے قبل پارٹی چھوڑنے اور اسمبلیوں سے بھی مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ لاہور میں مسلم لیگ (ن) کے منحرف رکن خسرو بختیار کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران ان تمام ارکان نے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان کیا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت سابق وزیراعظم  میر بلخ شیر مزاری کریں گے جبکہ ان کے علاوہ دیگر منحرف ارکان اس کا حصہ ہوں گے۔ مستعفی ہونے والے ارکان قومی اسمبلی میں خسرو بختیار، اصغر علی شاہ، طاہر اقبال چوہدری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری جبکہ صوبائی اسمبلی سے سمیرا خان اور نصراللہ دریشک شامل ہیں اس کے علاوہ متوقع طور پر کھوسہ فیملی  اور دیگر  منجھے ہوئے سیاستدان بھی شامل ہو جائیں گے۔  ان ناموں کو غور سے دوبارہ پڑھ لیجیے ان میں  اکثریت  ان کی  ہے  جو الا ماشاءاللہ  ہر حکومت کا حصہ رہے ہیں، ناقدین تو انہیں لوٹا تک بھی کہہ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر تو یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ لوٹے چلے صوبہ بنانے۔

سوال تو یہ بھی ذہن میں آتا ہے کہ اگر جنوبی پنجاب کی عوام پسماندگی اور غربت میں ہے، جنوبی پنجاب کو بجٹ  ملتا  ہے  تو کہاں  چلا جاتا ہے ؟عوام کو کیوں نہیں ملتا؟ تو  مذکورہ  ہستیاں ہی درست رہنمائی فرمائیں کہ انہوں نے اس بجٹ کے لیے ،  خطے کی پسماندگی کے لیے پارلیمنٹ میں کبھی آواز بُلند کی ہے یا کبھی خطے کی گرمی   سردی میں لوگوں کے ساتھ وقت گزارا ہے؟ اپنے بچے تو داخل کرادیے ، لاہور کے ایل جی ایس ، ایچی سن کالج، دارالحکومت کے انگریزی میڈیم اداروں کا تو ہم نام لکھنا بھول جاتے ہیں  فیسیں ان کی اتنی کہ ایک غریب  کُنبے کا مہینے بھر کا خرچہ ایک بچے کی فیس برابر ہوتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جنوبی پنجاب میں ہمیشہ ہی ان سرداروں، جاگیراروں، چوہدریوں اور مخدوموں کی   چوہدراہٹ اور سرداری رہی ہے۔  دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ تمام حضرات ہر حکومت میں  اپنے نظریات سمیت گھُس جاتے ہیں،  نظریات ہوں تو۔۔۔ پھر پورے پانچ سال گزر جاتے ہیں، کوئی  عوام کے لیے کام نہیں ۔۔ الیکشن کا موسم آتا ہے نئی انقلابی  کھیپ یا کمپین کے ساتھ اچانک نمودار ہوتے ہیں اور منظر مسیحائی پیش کرنے لگتے ہیں۔   لیکن  پس پردہ ایجنڈا کیا ہے۔ وہ بھی ایک تسلسل لگ رہا ہے جیسا کہ ایم کیو ایم کے حصے بخرے ہوئے ، بلوچستان میں اچانک تبدیلیاں رونما ہوئیں،  مسلم لیگ ن کے لیے بھی ویسا کچھ انتطام کیا جا رہا ہے جیسا کہ ایم کیو ایم کے ساتھ کیا گیا۔  اب یہ  صوبہ محاذ تحریک بھی صرف الیکشن تک کے لیے ہے ورنہ ان حضرات کے تلوں میں تیل کم اور زہر زیادہ ہے!

Facebook Comments

شاہد یوسف خان
علم کی تلاش میں سرگرداں شاہد یوسف خان ایم اے سیاسیات اور صحافت مکمل کر چُکے ہیں ۔ سیاسی و سماجی موضوعات پر سوالات کرتے رہتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply