چلتے چلتے۔۔۔مبشر علی زیدی

اپریل کا دوسرا ہفتہ ہے لیکن واشنگٹن سے سردی جانے کا نام نہیں لے رہی۔ کل بارش ہوئی اور ہفتے کو کچھ دیر روئی کی دھول جیسی برفباری بھی۔ آج صبح درجہ حرارت دو ڈگری تھا اور فیل لائیک صفر۔ آج کل درجہ حرارت کم لوگ جاننا چاہتے ہیں۔ فیل لائیک دیکھتے ہیں اور وہی محسوس کرتے ہیں۔
سچ یہ ہے کہ مجھے ٹھنڈ اچھی لگ رہی ہے۔ کراچی میں سردی بھی کم پڑتی ہے اور بارش بھی کم ہوتی ہے۔ ہوتی ہے تو رحمت نہیں، زحمت بن جاتی ہے۔ ایک خاص بات یہ کہ کراچی میں مجھے گرمیوں میں بھی نزلہ ہوجاتا تھا۔ سردیوں میں کبھی زکام، کبھی بخار اور اکثر سر درد۔ یہاں تین مہینے ہوگئے لیکن سردی نے بیمار نہیں کیا۔ اس لیے بھی یہ موسم اچھا لگ رہا ہے۔
صبح صفر ڈگری میں ایک سیاہ فام نوجوان ریلوے اسٹیشن کے باہر کھڑا مفت اخبار تقسیم کررہا تھا۔ میں اسے روز دیکھتا ہوں۔ وہ کوئی رضاکار نہیں، اسے اس کام کے پیسے ملتے ہیں۔
واشنگٹن پوسٹ کی قیمت دو ڈالر ہے۔ لیکن وہ ایکسپریس کے نام سے ایک ٹیبلائیڈ بھی چھاپتا ہے۔ اس میں تمام اہم لیکن مختصر خبریں ہوتی ہیں۔ جو ٹیبلائیڈ پڑھ لے اسے خبریں جاننے کے لیے واشنگٹن پوسٹ خریدنے کی ضرورت نہیں۔ پھر بڑا اخبار ٹیبلائیڈ کیوں چھاپتا ہے؟ اور اسے مفت کیوں تقسیم کرتا ہے؟ اس لیے کہ اس میں اشتہار ہوتے ہیں۔ اشتہار ہی اخبار چلاتے ہیں۔
لوگ خبریں پڑھتے ہیں، تصویریں دیکھتے ہیں، میں اشتہار بھی غور سے دیکھتا ہوں۔ ایڈ ایجنسی میں کام کیے پندرہ سولہ سال ہوگئے لیکن اشتہار بازی سے دلچسپی برقرار ہے۔ اس کی بہت سی کتابیں میرے پاس ہیں بلکہ دنیا بھر میں پرنٹ، ریڈیو، ٹی وی اور ویب کے جن اشتہاروں کو ایوارڈ ملتے ہیں، ان کی  بہت سی کتابیں بھی ہیں۔ ایکسپریس دیکھ کر اشتہار بازی کا ایک نیا آئیڈیا ملا ہے۔ لیکن وہ یہاں لکھنے کا نہیں۔ بزنس سیکرٹ ہے۔ کیا پتا کبھی ایڈ ایجنسی میں کام کرنا پڑجائے۔
میں بچپن سے آئیڈیاز تخلیق کررہا ہوں۔ لیکن اسکول اور دفتر میں بہت آئیڈیاز دے کر دیکھ لیا۔ یہاں کوئی نیا خیال پسند نہیں کرتا۔ لے دے کر ایک سو لفظوں کی کہانی کا آئیڈیا بڑی مشکل سے چلا ہے۔ کچھ آئیڈیے بڑھاپے کے لیے سنبھال لیے ہیں۔
ہمارے ایک ماموں کہتے تھے کہ آئیڈیاز والا دماغ ٹکسال کی طرح ہوتا ہے، اشرفیاں ڈھالتا رہتا ہے۔ میں کہتا تھا، ماموں! کچھ ٹکسالیں صرف کھوٹے سکے ڈھالتی ہیں۔
لیجیے، ٹرین کا سفر ختم ہوا اور اخبار بھی۔ عوامی مقامات پر دو طرح کے کوڑے دان ہوتے ہیں۔ ایک بوتلوں کے لیے۔ دوسرا باقی ہر طرح کے کچرے کے لیے۔ لیکن ریلوے اسٹیشن پر ایک اور ڈبا بھی رکھا ہوتا ہے۔ اس پر لکھا ہوتا ہے، اخبار اس میں ڈالیں۔ لوگ ٹرین پر چڑھتے ہوئے ٹیبلائیڈ لے لیتے ہیں اور ٹرین سے اتر کے اس ڈبے میں ڈال دیتے ہیں۔ ردی کون گھر لے کر جائے۔
آج ایکسپریس کی ٹاپ اسٹوری زکربرگ کی واشنگٹن آمد ہے۔ فیس بک کا بانی کانگریس میں پیش ہورہا ہے اور صارفین کی معلومات بیچنے پر معافی مانگنے آیا ہے۔ جی چاہا کہ اس کا حوصلہ بڑھانے کو کیپٹل ہل جاؤں۔ لیکن میں آج کچھ مصروف ہوں۔ زکربرگ کو چاہیے کہ وہ سماعت سے نمٹ کر ادھر آجائے۔ میرا دفتر کانگریس بلڈنگ کے بالکل ساتھ ہے۔ آتے جاتے وزیر مشیر سڑکوں پر چلتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جب کوئی شخص حج عمرے پر جاتا ہے تو لوگ رشک سے کہتے ہیں، ’’خدا سے اس شخص کی محبت سچی ہے۔ اسے خدا کے گھر سے، بلاوا آگیا۔‘‘
دوستو! دنیا کا سب سے عظیم کتب خانہ یعنی لائبریری آف کانگریس مجھ سے چار قدم کے فاصلے پر ہے۔ کتابوں سے میری محبت سچی ہے۔

Facebook Comments

مبشر علی زیدی
سنجیدہ چہرے اور شرارتی آنکھوں والے مبشر زیدی سو لفظوں میں کتاب کا علم سمو دینے کا ہنر جانتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply