پاکستانی کی دو رُخی سیاست۔۔۔رانا ازی

ان دنوں لوٹا کریسی اور پارٹی بدلنے پر بہت بحثیں   ہو رہی ہیں سوچا میں بھی اپنی ناقص عقل کے مطابق تھوڑا سا حصہ ڈال دوں۔ میرا مقصد یہاں خان صاحب یا تحریکِ انصاف کی وکالت کرنا نہیں ہے ۔ ہو سکتا ہے کُچھ پیپلزپارٹی کے ایسے ارکان جن کا ماضی داغ دار یا کرپشن کے چھینٹوں سے بھرا ہو مجھے ذاتی طور پر اُن کی تحریک انصاف چلی شفاف چلی میں شمولیت نا پسند ہو ۔ لیکن اس بوسیدہ، مفاد پرست اور ڈنڈے سوٹے کی سیاست میں ایک عام آدمی کی پسند نا پسند معنی ہی کیا رکھتی ہے؟ صرف پاکستان ہی نہیں برِصغیر پاک و ہند کی سیاست کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں یہاں ایک پارٹی سے دوسری پارٹی میں جانا اتنا ہی آسان ہے جیسے بندہ اسلام آباد سے منہ اٹھا کر لاہور چلا جائے اور لاہور سے ٹُھڈےّ کھا کر کراچی جا نکلے۔ عمران خان نے پیپلزپارٹی کے الیکٹیبل کو اپنے سائے میں لے کر غلط کیا یا درست اسکا جواب تو میرے پاس نہیں ہے، یہ تو  خان صاحب یا آنے والا وقت ہی بتا سکتا ہے ۔ جب یہ لوگ پی ٹی آئی میں کرپشن کریں گے تب اعتراض بنتا ہے۔

پاکستان کا ماضی ٹھیک کرنے کی ذمہ داری اکیلے خان یا پی ٹی آئی نے نہیں لی ہوئی اُس نے ہمیشہ مستقبل کی ہی بات کی ہے۔ ماضی کے حالات یا سکینڈل کا  ذمہ دار عمران نہیں جو اقتدار میں ہی نہیں رہا بلکہ وہ جماعتیں ہیں جو این آر او اور مفاہمت کی آڑ میں اقتدار کے مزے لیتے رہے   ہیں اور ایک دوسرے کے سہولت کار رہے ہیں ۔اگر مستقبل میں یہ لوگ تحریک انصاف کے پرچم تلے کُچھ کرتے ہیں تو اِن سے پہلے پِھر خان صاحب کو پکڑنا چاہیے کہ خان صاحب ذرا آجائیں میدان میں، سڑکوں پر تو آپ بہت آتے تھے۔ اب مسلم لیگ ن کو بھی اعتراض کرنے سے پہلے اپنے قائد میاں نوازشریف صاحب کے سیاسی کیریئر پر نظر مار  ڈال  چاہیے ۔ تحریکِ انصاف کو کچھ ارکان کی شمولیت پر برا بھلا کہنے سے پہلے اپنی جماعت کے ماضی اور اداؤں پر نظرِ ثانی کر لینی چاہیے ۔ ایک کام پر تنقید کرتا وہ بندہ ہی اچھا لگتا ہے جو خود اس تنقید والے کام کے دائرہ کار میں نہ آتا ہو ورنہ اندھی تقلید یا دوہرے معیار میں تو جو مرضی راگ الاپتے رہیں اس سے حقیقتیں کب بدلتی ہیں۔۔

اب ذرا میاں صاحب کی اپنی تبدیلیاں اور پارٹی بدلنے کی تاریخ ملاحظہ کریں۔۔ ارکان کی بات تو بعد میں کرتا ہوں۔ میاں نوازشریف صاحب نے 1979 میں تحریک استقلال میں شمولیت اختیار کی۔ 1981 میں ضیاءالحق کی کابینہ میں وزیر خزانہ بنے۔ 1985 جونیجو لیگ میں شامل ہوئے اور وزیر اعلی پنجاب بنے۔ 1988 میں آئی جے آئی میں شامل ہوئے اور ایک دفعہ پھر وزیر اعلی پنجاب بنے۔ 1990 میں آئی جے آئی سے الیکشن لڑا اور وزیر اعظم بنے۔ 1993 میں آئی جے آئی توڑ کر اپنی مسلم لیگ بنا لی جس کا نام اپنے نام کی مناسبت سے نون رکھا۔ 1997 میں اس جماعت کے پلیٹ فارم سے خود وزیر اعظم بنے۔ اور بھائی کو    وزیر اعلی پنجاب بنایا۔ 1999 میں اپنی جماعت کو بے یارو مددگار چھوڑ کر مشرف سے ایک معاہدے کے تحت قائدِ محترم جدہ روانہ ہوگئے ۔ اب آدھی موجودہ نُون لیگ کی کابینہ انہی افراد پر مشتمل ہے جن کو مسلم لیگ ن غیر آئینی، آمرانہ، غاصبانہ اور پتہ نہیں کیا   کیا کہا کرتی تھی ۔

Advertisements
julia rana solicitors

آپ کو برِصغیر میں کوئی ایک ایسی جماعت نہیں ملے گی جو اپنی اصلیت پر موجود ہو ۔ اگر ہوتی تو سیاسی موت کے طور پر ہوتی ۔ ہر جماعت میں ادھر اُدھر کے لوگ ضرور ملیں گے ۔ یہ سیاسی نظام کا ڈھانچہ ہی ایسا ہے حتی کہ قائدِ اعظم محمد علی جناح (ر) بھی 1906 سے 1914 تک انڈین نیشنل کانگریس کے ممبر رہے 1947 تک آل انڈیا مسلم لیگ میں رہے اور 1947 تا 1948 تک مسلم لیگ میں رہے ۔ پارٹی بدلنا مسئلہ نہیں ہے لیکن اپنے کرپشن زدہ ماضی یا غلط گُڈوِل کو نئی پارٹی میں جا کر نہ بدلنا ضرور لمحہ فکریہ ہے۔ نئے شامل ہونے والے لوگوں کے لیے بھی اور تحریکِ انصاف کے لیے بھی ۔ اگر یہ لوگ اپنے طور طریقے یا عادتیں نہیں بدلیں گے تو یہ خود خان صاحب کے سیاسی کیریئر پر سب سے بڑا سوالیہ نشان ہوگا اور انصاف اپنی موت آپ مر جائے گا اور  شاید تحریک انصاف بھی ۔

Facebook Comments

رانا ازی
رانا محمد افضل بھلوال سرگودہا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply