تین فلمیں، تین کہانیاں

مرشدی مشتاق احمد یوسفی نے فرمایا کہ آج کل لوگ کسی کتاب کو تب تک قابل ذکر نہیں سمجھتے جب تک کہ اس پر فلم نہ بن جائے اور فلم دیکھ لینے کے بعد ناول پڑھنا بے معنی ہے۔ یہ فرمان بیشک سچ ہے لیکن اگر آپ دونوں(ناول اور اس پر مبنی فلم) سے حظ اٹھا چکیں تو ایک موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ یہ سادی سی بات تو ہم سا کم علم بھی جانتا ہے کہ کتاب اور فلم بالکل علیحدہ خصوصیات کے حامل ذرائع ابلاغ ہیں۔ اپنی حدود کے اندر یہ جدا گا نہ فوائد اور کمزوریاں رکھتے ہیں۔ سو موازنہ اس بات کا نہیں ہے کہ کتاب کے صفحے اور فلم کے پردے میں سے جیت کس کی ہوئی ، بلکہ قصہ یہ سمجھ لیں کہ کس چشمے سے کیا مٹھاس ملی۔ یہاں تین ناول اور ان پر بننے وا لی تین فلموں کا ذکر ہے، جن سے ہم جیسے ایک عام قاری اور فلم بین نے بارہا لطف اٹھایا۔ یہ ضرور عرض کریں گے کہ فلم یا ناول میں سے ہمیں کس نے زیادہ متاثر کیا۔ آپ دوستوں کو اختلاف کاحق بہرحال ہے۔
The Godfather by Mario Puzo
ماریو پوزو کا شہرہ آفاق ناول،امریکی مافیا فیملی پر لکھی گئی کہانی، جس کا سر براہ بِیٹو کورلیون (گاڈ فادر) نام کا ایک جہاں دیدہ شخص ہے۔ ناول نیو یارک شہر میں مافیا فیملیز کی آپس میں علاقائی اور کاروباری برتری کی لڑائیوں کے دوران کورلیون فیملی میں آتے بحران او ر قیادت کی تبدیلیوں سے متعلق ہے۔ اس کہانی میں آپ کو کئی یادگار کردار اور خوبصورت جملے ملتے ہیں۔ ناول میں مصنف کو یہ موقع ملتا ہے کہ بڑی تفصیل کے ساتھ کرداروں کی ذہنی کشمکش اور رویے بیان کر سکے۔ لہجے کی تبدیلی، نظروں کی جانچ، گردن کی ابھرتی رگ،تنے اعصاب، طنزیہ مسکراہٹ، سازش بھری سرگوشی، شاباشی کی تھپکی، غرض کہ ایک ایک تفصیل اور اس پر متضاد بغیر کسی وعظ کے دنیاوی فراست کے باریک نکات۔ فلسفہ جھاڑے بغیر حکمت بولنا بھی ماریو پوزو کا کمال ہے۔ سسپنس سے بھر پور کہانی نت نئے موڑ لیتی، رواں رہتی ہے۔ ایک نشست میں یہ ضغیم ناول مکمل کرناآسان تو نہیں لیکن قاری تب تک پڑھتا رہتا ہے جب تک کہ آنکھیں دکھنے نہ آجائیں۔ پڑھنے والے کی ایسی یکسو خود فراموشی مصنف کے لیے شاید سب سے بڑا خراج ہے۔ اطالوی فنکار اپنے تراشے مجسموں کے لیے مشہور ہیں۔ اگر ماریو پوزو کا گاڈ فادر بھی ایک مجسمہ ہے تو اس میں ڈائریکٹر کپولا اور اس سے بڑھ کے عظیم فنکار مارلن برانڈو نے جان دالی ہ ے۔ خصوصاً برانڈو نے تو سونے پہ سہاگہ کر دیا۔ گاڈ فادر کی دھیمی بیٹھی ہوئی آواز، اپنی تیسری انگلی کی نوک سے اپنا رخسار کھجانا، اطالوی لا پرواہی سے کندھے اچکانا (سچ کہیے ، دماغ میں تصویر بنی؟)، یہ سب برانڈوکا جینئیس تھا۔ اگر یہ فلم نہ بنتی تو اس ناول کے قاری کے تخیل میں ڈان کورلیون کا نجانے کیسا خاکہ ہوتا لیکن اب اگر اس ناول پر کوئی نئی فلم بن بھی جائے ، تب بھی گاڈفادر برانڈو ہی رہے گا۔اس فلم کی دوسری بڑی پرفارمنس ایل پچینو نے دی۔ وہ مہیب اور خاموش کاروباری سفاکی، جو ماریو پوزو نے ناول میں ڈان کورلیونی کے بیٹے مائیکل کے کردار میں ڈالی، اس کی بہترین عکاسی ایل پچینونے کی۔ اس کے سیاہ بال اور چمکتی آنکھیں مائیکل کے کردار کی پراسراریت کو بڑھاتی ہیں۔ جمی ہوئی ٹھوڑی اس کے عزم کا پتہ دیتی ہے۔ ناول جتنی تفصیل نہ سہی لیکن جتنا دکھایا، وہ ایک جہاں نما ہے۔گاڈ فادر فلم کے قوس قزح رنگوں اورگاڈفادر ناول کے چو مکھی سیاہ لفظوں میں سے کسی ایک کا انتخاب تقریباً نا ممکن ہے لیکن برانڈو اور ایل پچینو فلم کو جتواتے ہیں جیسے ریس میں ایک گھوڑا دوسرے گھوڑے سے گردن کے فرق سے جیت جائے۔
The Day of the Jackal by Fredrieck Forsyth
فارسائتھ کا پہلا تھرلر ناول، جس کا سسپنس ایسا ہے کہ اگر مصنف کا اندازِ بیان اتنا خوبصورت نہ ہو تو قاری بے صبری میں صفحے پلٹ کر آگے نکل جائے۔ کہانی کا مرکزی کردار ایک ہٹ مین ہے، جسے فرانس کی ایک کالعدم سیاسی تنظیم نے صدر ڈیگال کو قتل کرنے کے لیے چنا ہے۔اس سازش کی خبر فرانس کی خفیہ پولیس کو ہو جاتی ہے لیکن چوہے بلی کی دوڑ اس بات سے شروع ہوتی ہے کہ پولیس کو ہٹ مین کا نام، حلیہ، ہتھیار اور قتل کا پلان وغیرہ کچھ بھی نہیں معلوم۔ صرف یہ معلوم ہے کہ ایک حملہ آور آ رہا ہے۔ ناول میں اس سب کے مساوی اس پراسرار ہٹ مین کو اس کام کی تیاری میں مصروف دکھایا جاتا ہے کہ کیسے حملہ آور ایک جعلی شناخت حاصل کرتا ہے، اپنے پلان کے مطابق ایک مخصوص شکل کے ہتھیار کی تیاری اور فرانس میں صدر پر حملہ آور ہونے کے لیے مقام کا انتخاب کرتا ہے۔ اس سب کے ساتھ ساتھ کیسے سکاٹ لینڈ یارڈ اور فرنچ پولیس کا ایک قابل افسر کیسے ایک ایک قدم قاتل کے قریب پہنچتے جاتے ہیں۔ شاید ہمارا فطری تعصب ہمیں یہاں ناول کی یک طرفہ برتری دکھاتا لیکن فلم میں ایڈورڈ فاکس کی بے مثال اداکاری کے باعث یہ ممکن نہیں۔ اداکاری کے علاوہ بھی فاکس کے چہرے پر موجود پیشہ وارانہ درشتگی کا تاثراپنے آپ میں ایک کمال ہے۔ شیکسپئیر نے جولئیس سیزر کے ساتھی” کاسیئس” کے متعلق کہا تھا کہ وہ ایک فاقہ زدہ اور بھوکا چہرہ رکھتا ہے، وہ سوچتا بھی بہت ہے اور ایسے افراد خطرناک ہوتے ہیں۔ سو ان جملوں پر فاکس کا حلیہ درست بیٹھتا ہے۔حملہ آور کا کردار ادا کرتا فاکس کہانی کا ہیرو تو نہیں ہے لیکن ایسا اینٹی ہیرو ضرور ہے جو ہیرو کو پس پشت ڈال دے۔ اس ناول پر مبنی یہ فلم اپنی روانی کے باوجود ایک ڈاکومنٹری کی طرح مفصل ہے۔ پیچیدہ پلاٹ اور اس کے کئی چھوٹے جزو کہانی کو ایک ریس کے جیسی فضاء میں تبدیل کر دیتاہے۔ ناول میں آپ اس سے ایسے سطر بہ سطر محظوظ ہوتے ہیں جیسی چائے کی چسکی، اس ذائقے کی طوالت کو بڑھاتی ہے۔ فلم اس تجربے کو آبشار کی روانی جیسے تیز گزارتی ہے۔ دونوں کا اپنا اپنا لطف ہے لیکن فلم میں سوائے فاکس کے ہمیں کسی کا نام تک نہیں یاد، سو یہاں ناول زیادہ کامران ہے۔
Rita Hayworth and Shawshank Redemption by Stephen King
سٹیفن کنگ کا ناولٹ ایک ایسے سونے کی کان جیسے مجموعے میں سے ہے جس میں کُل چار ناولٹ ہیں۔ چاروں کہانیاں چہار چمن اور ان چار میں سے تین پر بہترین فلمیں بھی بن چکیں ہیں لیکن اس مجموعے کا بادشاہ یہ ناولٹ ہے۔ ایک ایسے شخص”اینڈی” کی کہانی جسے عدالت اپنی بیوی اور ایک شخص کے قتل کے الزام میں عمر قید سناتی ہے۔ اینڈی جیل جانے سے پہلے ایک بینکر تھا ۔ اپنی اس پیشہ ورانہ مہارت کی بدولت جیل میں اسکی دوستیاں بھی ہوتی ہیں اور اس کو جیلر کے دفتر تک رسائی بھی ملتی ہے۔ اس جیل کا وارڈن ایک کرپٹ لیکن بظاہر مذہبی نسان ہے۔ اینڈی کو اس کے بینکنگ تجربہ کی وجہ سے اپنا کالا دھن چھپانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ اینڈی کے دوستوں میں سے ایک ریڈ ہے، جو جیل میں باہر سے چھوٹی موٹی بے ضرر اشیاء جیسے سگریٹ، چیونگم وغیرہ سمگل کرواتا ہے۔ اینڈی اپنے لیے ریڈ سے ایک چھوٹی سی ہتھوڑی منگواتا ہے کہ فارغ اوقات میں کچھ چھوٹے پتھروں کو تراش کر شطرنج کے مہرے بنا سکے۔ ریڈ کو اینڈی کی نیت پر شک گزرتا ہے لیکن بالشت بھرہتھوڑی کا سائز دیکھ کر مطمئن ہو جاتا ہے۔ آگے کیا ہوتا ہے۔۔ میں سپائلر نہیں دینا چاہتا۔فلم اور ناولٹ دونوں سے بڑھ کے ہے کہانی اور پیغام۔ آرٹ کی اقسام کو زندگی کی تلخیوں سے فرار بھی کہا جاتا ہے۔ اس ناولٹ اور اس فلم کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہے۔ بقول اینڈی، جینے میں مصروف رہیے یا مرنے میں مشغول لیکن فرق یہ ہے کہ اس کہانی میں سکھایا گیا فرار دراصل اپنی مشکل سے ایسے بھاگنا ہے جیسے آپ اپنے زورِ بازو سے اپنی ناؤ کھینچتے ہوئے منجدھار سے دور لے آئیں۔ چرچل نے کہا تھا اگر آپ مشکلات سے گزر رہے ہیں تو رکیے مت، گزرتے جایئے۔ سرنگ کے کنارے پر روشنی ہے۔
نادانستہ سپائلرز کے لیے معذرت۔

Facebook Comments

کاشف محمود
طالب علم ہونا باعث افتخار ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply