• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (قسط اول)

معیشت کے گورکھ دھندے اور حکومتی کارکردگی! (قسط اول)

تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر، بیرونی قرضے آسمان سےباتیں کرنے لگے، حکومت نے پھر خسارے کا بجٹ پیش کردیا، زر مبادلہ کے ذخائر تاریخ کی بلند ترین سطح پر، ہرفرد اتنے کروڑ کا مقروض وغیرہ وغیرہ۔ یہ وہ جملے ہیں جو ہم آئے روز میڈیا پر سنتے ہیں۔ “الف “سے لے کر “ی” تک ہر دانشور یہی راگ الاپ رہا ہوتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ کہیں کوئی ادارہ کچھ اعداد و شمار جاری کرتا ہے، نیوز چینلز کے ڈیسک پر بیٹھے کچھ نابغے اس لائن کو پک کر کے اپنے نیوز اینکرز کو فارورڈ کردیتے ہیں اور یہ نیوز اینکرز ان 3،2 سطروں کو طوطے کی طرح دہرائے چلے جاتے ہیں جب تک کہ ان کا حلق خشک نہیں ہوجاتا۔ چونکہ ہمارے میڈیا میں متعلقہ امور کے ماہرین کو بھرتی کرنے جیسی بدعت ابھی رواج نہیں پا سکی ہے اس لئے لائن پک کرنے والے نیوزڈیسک اہلکار سے لے کر اس پر ماہرانہ تبصرہ کرتے اینکرز تک، کسی کو بھی کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کیا بول رہا ہے، اس کے کیا معنیٰ ہیں،جس بات پر وہ تبصرہ فرما رہا ہے اس کی وجوہات کیا ہیں او ر پھر اس کے دور رس اثرات کیا ہوسکتے ہیں۔ نیوز شو اینکرز کی موجودہ لاٹ میں سے غالباً صرف ایک شاہزیب خانزادہ ہی ہیں جو اقتصادیات اور مالیات کے حوالے سے تعلیمی پس منظر رکھتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود ان کے قول کے مطابق انہیں بزنس کی تعلیم حاصل کرنے کا خیال تب آیا جب وہ ایک نجی بزنس ٹی وی چینل پر کسی پروگرام کے اینکر بن چکے تھے!
خیر! بات ہورہی تھی کہ معیشت اور اقتصادی اشاریوں کے حوالے سے ہمارے مجموعی رویے کیسے تشکیل پاتے ہیں۔ ہمارے عوام اور اکثر اوقات خواص کی بھی اقتصادی معلوما ت کا ماخذ محض الیکٹرانک میڈیا اور پھر اسی کے زیر اثر سوشل میڈیا ہوتاہے۔ کچھ آئن سٹائن قسم کے افراد جو زیم ٹی وی، لکیر اور سیاست ڈاٹ پی کے جیسی ویب سائٹس چلاتے ہیں، رات ٹی وی پر دیکھے گئے ٹاک شوز سے اخذ کردہ معلومات پر اپنی ذہانت کا تڑکا لگا کر ایسی ایسی پوسٹس تشکیل دیتے ہیں کہ بابائے معیشت ایڈم سمتھ اور بابائے سوشلزم کارل مارکس بھی عش عش کر اٹھیں(یا سر پکڑ کر بیٹھ جائیں)۔کسی بھی مضمون پر رائے زنی کے لئے اس کی مناسب معلومات ہونا کس قدر ضروری ہے، یہ واضح کرنے کی ضرورت نہیں۔ کسی چیز کی بابت معلومات نہ ہونا بھی بذات خود کوئی بڑا قابل اعتراض مسئلہ نہیں۔ مسئلہ تب شروع ہوتا ہے جب بغیر کسی معلومات کے ہم الٹی سیدھی چیزوں کو نہ صرف آگے بڑھادیتے ہیں بلکہ حقائق کو بھی اپنی ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالنے کی کوشش میں لگ جاتے ہیں۔ نتیجہ اس کا یہ نکلتا ہے کہ اپنی رائے کی درستگی کے زعم میں معلومات کے حصول کی خواہش ہی ختم ہوکر رہ جاتی ہے۔ کتابیں پڑھنا تو کب کاہمارے قومی مزاج سے خارج ہوچکا، اب تو انٹرنیٹ پر بھی سارا وقت ادھر ادھرسے اپنی پسند کے اسکرین شاٹس ڈھونڈ کر شیئر کرنے میں ضائع ہونے لگا ہے۔ بہر حال انور لودھی جیسے لوگوں کے تشکیل دیئے گئے سکرین شاٹس حکومت کی اقتصادی کارکردگی جانچنے کا کوئی پیمانہ نہیں، اس کے لئے آپ کو اقتصادی و معاشی اعداد و شمار کو کھنگالنا ہوگا اور اس کام کے لئے اقتصادیات و مالیات کی چند بنیادی باتوں کا علم ہونا اشد ضرور ی ہے۔
جب ہم کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی مالیاتی اور اقتصادی کارکردگی اچھی ہے ، یا کم از کم گزشتہ حکومت سے اچھی ہے تو اس دعوے کی بنیاد درحقیقت کچھ اعداد وشمار ہیں، جو اگر ٹھیک طرح سے سمجھ لیئے جائیں تو کسی دوسرے کی محتاجی کے بجائے آپ خود اپنی آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں، کیونکہ اس کے لئے درکار تمام معلومات و اعداد وشمار انٹرنیٹ پر باآسانی دستیاب ہیں۔
سب سے پہلے بات کرتے ہیں تجارتی خسارے کی جس کا غلغلہ گزشتہ کچھ دنوں میں سب سے زیادہ رہا کہ تجارتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلندترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔ بلاشبہ یہ بات درست ہے مگر صورتحال کی سنگینی کا اندازہ صرف تجارتی خسارے کے حجم سے نہیں کیا جاسکتا۔ اسٹیٹ بینک کے تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کی پہلی تین سہ ماہیوں میں اب تک کا کل تجارتی خسارہ تقریبا 15.5 ارب ڈالر ہے جو سال کے آخر تک 20.5 ارب ڈالر تک پہنچنے کا امکان ہے۔ سب سے پہلی بات جو دیکھنے والی ہے وہ یہ ہے کہ خسارے میں اضافے کی شرح کیا ہے؟ دوسرا آہم پہلو اس اضافہ کی وجوہات جاننا ہے ۔پاکستان کا مجموعی تجارتی خسارہ گزشتہ مالی سال میں 18.5 ارب ڈالر تھا، یوں اس سال اس میں ارب ڈالر کا یا تقریباً 11 فیصد کا اضافہ متوقع ہے۔ اس اضافہ میں644 ملین ڈالر تیل کی عالمی قیمتوں اور ان کی کھپت بڑھنے کی وجہ سے شامل ہوئے ہیں۔ پاکستان کی کل درآمدات کا 23 فیصد پیٹرولیم مصنوعات پر مبنی ہے ، یعنی یہ ایک ایسا فیکٹر ہے جس سے قلیل مدتی بنیادوں پر چھٹکارا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ گزشتہ مالی سال کی بہ نسبت اس سال تیل کی عالمی قیمتوں میں 8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ دوسرا بلکہ سب سے آہم عنصر ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں کمی ہے۔ پاکستان کی ٹیکسٹائل مصنوعات کی برآمدات میں تقریباً 2 ارب ڈالر کی کمی متوقع ہے، جس میں اضافہ کے لئے حکومت کی جانب سے مراعاتی پیکج پہلے ہی دیا جاچکا ہے۔ اسی طرح پلانٹ اینڈ مشینری کی مد میں تقریباً 500 ملین ڈالر کی اضافی درآمدات متوقع ہیں۔
پاکستان جیسی معیشت میں ادائیگیوں کے توازن کو مثبت رکھنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ ہماری درآمدات کا 50 فیصد ان اشیاء پر مشتمل ہے جن کی فی الوقت مقامی وسائل سے دستیابی ممکن نہیں ، جیسے کہ پٹرولیم مصنوعات جو کہ کل درآمدات کا ایک چوتھائی ہیں۔ پھر اس تجارتی خسارے کا نصف صرف چین کے ساتھ تجارت کی وجہ سے ہے اور یہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ دنیا میں بہت ہی کم ممالک ایسے ہیں جن کا چین کے ساتھ ادائیگیوں کا توازن مثبت ہو۔ بھارت ہم سے کئی گنا بڑی معیشت ہونے کے باوجود ایسی ہی صورتحال کا شکار ہے، جس کا تجارتی خسارہ 10 ارب ڈالر سے زائد اور کرنٹ اکاؤنٹ میزانیہ منفی 8 ارب ڈالر ہے ۔ ہماری طرح ان کا بھی تجارتی خسارہ بیرون ملک سےترسیلات زراور بلاواسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری سے پورا ہوتا ہے۔ بہرحال، تھر کول منصوبوں کی تکمیل کے بعد امید ہے کہ پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں نمایاں کمی آئے گی جس سے ہماری پیداواری لاگت کم ہوگی اور یوں بین الاقوامی منڈی میں ہم بہتر مسابقت کر سکیں گے۔ فی الوقت ہمارا تجارتی خسارہ ’’خطرناک حدوں ‘‘ کو نہیں چھو رہا کیونکہ ترسیلات زر اور بلا واسطہ غیر ملکی سرمایہ کاری ادائیگیوں کے توازن کو کافی حدتک سہارا دے رہی ہیں۔ 20ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کے مقابلے میں ترسیلات اور سرمایہ کاری کا حجم بھی کم وبیش اتنا ہی ہے جس کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر مستحکم ہیں۔ ہاں اس سے ایک نکتہ مزید یہ نکلتا ہے کہ ان 19 ارب ڈالر کی ترسیلات زر میں سے تقریباً 12.5 ارب ڈالر سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستوں سے آتے ہیں، سو ’’ہمسایوں‘‘ کے ساتھ تعلقات کی قیمت بھی اسی تناظر میں طے کیے جانا ضروری ہے! مزید یہ کہ گرتی ہوئی برآمدات کے پیش نظر روپے پر سے دباؤ کم کرنے کے لئے اس کی قدر میں کچھ کمی کرنا بھی ناگزیر ہے، مگر چونکہ میڈیا کی تعلیمات کے مطابق یہ بہت بڑا گناہ ہے، اس لئے حکومتوں کے لئے یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، حالانکہ یہ وقت اس کام کے لئے نہایت مناسب ہے کیونکہ افراط زر کی شرح طے شدہ اہداف سے کم ہی ہے۔ سو اس وقت روپے کی ڈیویلیویشن کا فائدہ اٹھا کر اپنی پیداواری لاگت کو مسابقتی بنا کر برآمدات میں اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ (جاری ہے)

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply