ستاروں سے آگے جہاں۔۔محمد شاہزیب صدیقی/آخری حصہ

شاید جے بی ایس ہیلڈین نے ٹھیک ہی کہا تھا :”یہ کائنات اتنی پرسرار نہیں جتنا تم سوچتے ہو بلکہ یہ اس سے کہیں زیادہ پرسرار ہے جتنا تم سوچ سکتے ہو”۔ آج سے 30 سال پہلے تک بیگ کرنچ نظریے کو سائنسدانوں کے نزدیک اہمیت حاصل تھی۔ بیگ کرنچ نظریے کے تحت ہماری کائنات بیگ بینگ سے وجود میں آئی ہے جس کی وجہ سے تمام کہکشائیں انتہائی تیزی سے دور ہورہی ہیں سو ایک وقت آئے گا جب ان کہکشاؤں کی رفتار آہستہ ہوجائے گی ، اسی دوران کہکشاؤں کی کشش ثقل دیگر کہکشاؤں کو کھینچے گی اور پھر یہ واپس پلٹیں گی  اور اُسی ایک نقطے میں پوری کائنات دوبارہ بند ہوجائے گی جہاں سے اس کی شروعات ہوئی تھی۔

بیگ کرنچ کے نظریے کو کچھ سائنسدانوں نے وسعت دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ ہماری کائنات پہلے بھی بیگ بینگ اور بیگ کرنچ جیسے واقعات کا سامنا کرچکی ہے اور اب یہی چکر بار بار دہراتی رہے گی، ہم بھی اسی چکر کا ایک حصہ ہیں۔ بیگ کرنچ کے نظریے کے بعد سائنسدانوں کو لگا کہ شاید ہم نے کائنات کے متعلق بہت کچھ جان لیا ہے، حتیٰ کہ شروعات بھی اور ممکنہ اختتام بھی، لیکن پھر 1990ء میں کچھ سائنسدانوں نے ہماری کائنات میں پھیلی Cosmic Microwave Background Radiations پر تحقیقات کیں جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ ہماری کائنات کے پھیلنے کی رفتار سست نہیں ہورہی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ ہوتی جارہی ہے ،

یہ بھی پڑھیں : ستاروں سے آگے جہاں۔۔محمد شاہزیب صدیقی/قسط1

یہ بہت ہی حیران کردینے والا انکشاف تھاکیونکہ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کہکشاؤں کی کشش ثقل کے باعث کائنات کے پھیلنے کی رفتار سست ہوجانی چاہیے تھی، لیکن جدید تحقیقات اس کا رد کرتی دِکھائی دے رہی تھیں سو خیال یہ ظاہر کیا گیا کہ ہماری کائنات کو پھیلانے میں کسی اور ان دیکھی قوت کا بھی ہاتھ ہے جسے بعد ازاں 1998ء میں تاریک توانائی یا ڈارک انرجی کا نام دیا گیا۔

انتہائی محتاط اندازے اور 2013ء کی پلانک سیٹلائیٹ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کو پرکھنے کے بعد اب ہم جانتے ہیں کہ ہماری کائنات 4 یا 5 فیصد نظر آنے والے مادے جبکہ 26 فیصد نظر نہ آنے والے مادے پر مشتمل ہے(جسے ڈارک میٹرنام دیا گیا، حصہ اول میں ہم نے اس متعلق تفصیلاً پڑھا ہے) اور 69 فیصد حصہ ڈارک انرجی پر مشتمل ہے۔ مادے اور ڈارک میٹر کے برعکس ڈارک انرجی پوری کائنات میں پھیلی ہوئی اور ہماری کائنات کو ہر لمحہ پھیلاتی جارہی ہے۔

تاریک توانائی کے متعلق ہمیں ٹھوس شہادتیں چند عرصہ پہلے میسر آئیں مگر سو سال پہلے نظریہ اضافت کی تکمیل کے دوران آئن سٹائن نے کاسمولوجیکل کانسٹنٹ نامی term کو متعارف کروایا تھا، کیونکہ آئن سٹائن کا خیال تھا کہ ہماری کائنات میں کشش ثقل سے الٹ بھی کوئی قوت ہونی چاہیے اگر یہ الٹ قوت نہ ہوتو کشش ثقل کی قوت تمام کائنات کو واپس کھینچ لیتی،مگر فلکیات کے میدان میں ہونے والی بعد کی تحقیقات سے آئن سٹائن کو یوں لگاکہ شاید وہ کچھ غلط کر بیٹھا ہے سو اس نے اس term کو biggest blunder (عظیم غلطی) کہہ کر نظریہ اضافت سے نکال دیا ،لیکن کسی کو کیا معلوم تھا کہ آئن سٹائن جس کو blunderکہہ کر پچھتا رہے ہیں اور اپنی غلطی سمجھ رہے ہیں چند عشروں بعد سائنسدان اسی کو تاریک توانائی کہہ کائنات کی سب سے بڑی طاقت قرار دیں گے ۔

1990ء میں CMBR کے ذریعے سائنسدانوں کو تھوڑا بہت ڈارک انرجی کے متعلق معلومات تو ملنا شروع ہوگئیں مگر اس کا بہت واضح ثبوت 1998ء میں سائنسدانوں کو اس وقت ملا جب انہوں سپرنووا کا مشاہدہ کیا۔ سپرنووا اس دھماکے کو کہا جاتا ہے جب کوئی ستارہ اپنی عمر پوری کرنے کے بعد دھماکے سے پھٹ جاتا ہے۔ یاد رہے کہ ہمیں ستاروں سے آنے والی روشنی کے ذریعے ان کی دوری اور رفتار معلوم ہوتی ہے۔جب کائنات کے دُور دراز محلّوں میں ہونے والے عظیم دھماکوں (سپرنووا) کے متعلق ڈیٹا اکٹھا کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ہم جن ستاروں کو قریب سمجھ رہے تھے اُن کے پھٹنے سے پیدا ہونے والی روشنی انتہائی مدھم ہے جس کا مطلب ہے کہ ہم چیزوں کو جتنا دور سمجھ رہے ہیں وہ وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ تیزی کے ساتھ ہم سے دور ہوتی جارہی ہیں جو کہ کسی مخالف قوت کے بغیرممکن ہی نہیں ۔

بعدازاں 2011ء میں سپرنووا کے تجربات کرنے والے اِن سائنسدانوں کو اِن کی اس دریافت پر نوبل پرائزبھی دیا گیا۔1998ء کے بعد کئی تحقیقات میں CMB ریڈیشنز کے درجہ حرارت میں فرق کے ذریعے بھی ڈارک انرجی کو نوٹ کیا گیا۔ 2011ء میں آسٹریلیا کے فلکیاتی ماہرین نے 2 لاکھ کہکشاؤں سے آنے والی روشنی کے ذریعے ڈارک انرجی کے متعلق معلومات حاصل کیں۔اسی طرح 2013ء میں پلانک سیٹلائیٹ نے CMB ریڈیشنز پر تحقیق کرکے کائنات میں مادہ، تاریک مادہ اور تاریک توانائی کے تناسب کے حوالے سے معلومات دیں۔

یہ حیرت انگیز امر ہے کہ ہم اس کائنات میں رہتے ہوئے بھی صرف 4 فیصدی حصے کو دیکھ پا رہے ہیں اور بقیہ 96 فیصد کائنات ہماری نظروں سے اوجھل رہتے ہوئے ہمیں اپنا احساس کروارہی ہے مگر پھر بھی ہم اس کو دیکھ نہیں پارہے۔ سائنسدانوں کو اندازہ ہوچکا ہے کہ تاریک توانائی کو لیبارٹری میںdetect کرنا ناممکن ہےلیکن بڑے پیمانے پر یہ اپنا اثر واضح طور پر دِکھا رہی ہے۔

ایک یہ خیال بھی ظاہر کیا جارہا ہےکہ ڈارک انرجی ہوسکتا ہے کہ کشش ثقل کی ہی ایک دوسری قسم ہو جو کشش ثقل سے الٹ کام کررہی ہو۔یہ ڈارک انرجی ہی ہے جو ہماری پرسرار کائنات کی تاریکی میں ہر لمحہ اضافہ کرتی جارہی ہے، اندازہ یہ بھی ظاہر کیا جاتا ہے کہ ڈارک انرجی نے 5 ارب سال پہلے زور پکڑنا شروع کیا اس سے پہلے تمام کہکشائیں قریب تھیں سو کشش ثقل زیادہ غالب تھی۔آج ہم جانتے ہیں کہ ہمارا سورج ہماری کہکشاں ملکی وے کا ایک ستارہ ہے اور ملکی وے میں سورج جیسے یا اس سے کئی گنا بڑے تقریباً 400 ارب ستارے موجود ہیں، جیسے یہ تمام ستارے مل کر ہماری کہکشاں ملکی وے بناتے ہیں۔ ویسے ہی ہماری کہکشاں اور دیگر نزدیک کی کہکشائیں ملکر لوکل گروپ بناتی ہیں۔

ہمارے لوکل گروپ میں 54کہکشائیں موجود ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ کشش ثقل کی وجہ سے بندھی ہوئی ہیں۔ ہمیں موجودہ تیز ترین ٹیکنالوجی کے ہوتے ہوئے صرف اپنی کہکشاں سے نکلنے کے لئے 2.3 ارب سال چاہیے۔ ڈارک انرجی کی بدولت ہمارے لوکل گروپ سے باہر موجود کہکشائیں ہم سے ہر لمحہ دُورسے دُور ہوتی جارہی ہیں اور یہ فاصلہ آنے والے اربوں سالوں میں بے انتہاء ہوچکا ہوگا،اتنا زیادہ کہ شاید لوکل گروپ سے باہر موجود کہکشاؤں سے آنے والی روشنی بھی ہم نہ دیکھ پائیں، سو آنے والے کچھ ارب سالوں میں”اگر” انسان موجود ہوئے تو ان کے لئے کائنات کچھ اور طرح کی ہوگی ، کیونکہ دیگر کہکشاؤں کے دور چلے جانے کے باعث اُس وقت لوکل گروپ میں موجود 54کہکشاؤں کے علاوہ ہمیں کائنات میں شاید ہی کوئی کہکشاں دِکھائی دے، سو وہ آج ہونے والی تحقیقات کی بدولت ہی شاید جان پائیں کہ ہماری کائنات میں 54 کہکشاؤں کے علاوہ بھی کھربوں کہکشائیں موجود ہیں اور وہ بہت دُور جاچکی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

اُس وقت انسان “اگر” موجود ہوئے تو جدید ترین ٹیکنالوجی ہونے کے باوجود شاید اِس “لوکل گروپ” میں ہی قید رہیں اور اِس سے باہر نہ نکل پائیں۔ کیسا عجیب احساسِ تنہائی ہوگا؟ کبھی سوچئے گا۔۔ واقعی “کائنات ہماری سوچ سے بھی زیادہ پرسرار ہے”

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply