پانامہ فیصلہ : فاتح کون؟ مریم نواز یا شیخ رشید

پانامہ کیس کا فیصلہ آ چکا ہے- ہر جماعت فیصلے کو اپنی فتح اور مخالف کی شکست قرار دے کر مٹھائیاں تقسیم کر رہی ہے اور میڈیا پر خود ساختہ ماہرین اپنی اپنی سیاسی وابستگیوں کے مطابق ایسے تبصرے کر رہے ہیں جن سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مکمل عدالتی فیصلہ پڑھنے کی تکلیف ہی نہیں کی – ایسے ماہرین کی جہالت پر طبیعت بیزار ہوئی تو سوچا کہ کیوں نہ خود ہی مکمل فیصلہ پڑھ لیا جائے تاکہ معلوم تو ہو کہ کس کی ہار ہوئی اور کس کی جیت ۔۔تو صاحبو ہم ابھی ابھی مکمل فیصلے کے ساڑھے پانچ سو صفحات پڑھ کر بیٹھے ہیں جس کے بعد ہمارا تاثر کچھ یوں ہے کہ اگر اس فیصلے کو کسی کی واضح فتح کہا جا سکتا ہے تو وہ مریم نواز ہیں اور اگر یہ کسی کی واضح شکست ہے تو وہ شیخ رشید ہیں- مریم نواز نے کسی بھی غیر ملکی جائیداد کی ملکیت اور نواز شریف کے زیر کفالت ہونے سے انکار کیا تھا – عدالت نے ان کے موقف سے مجموعی طور پر اتفاق کرتے ہوئے انہیں جے آئی ٹی کی تحقیقات میں شامل نہیں کیا اور اس مقدمے کی حد تک انہیں کلین چٹ مل گئی ہے – دوسری طرف شیخ رشید صاحب اپنے مقدمے کو”شارٹ اینڈ سویٹ” کہتے تھے اور ان کا موقف یہ تھا کہ نواز شریف نے2011کے ٹیکس ڈیکلریشن میں مریم نواز کو اپنے زیر کفالت ظاہر کیا تھا لیکن کاغذات نامزدگی میں ایسا ظاہر نہیں کیا، اس لئیے وہ نااہل ہو گئے ہیں- عدالت نے شیخ صاحب کے اس موقف کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے ۔
نواز شریف اور ان کے صاحبزادے اس فیصلے کو نہ تو اپنی فتح کہہ سکتے ہیں نہ یہ ان کی شکست ہے- ان پر بیرون ملک جائیداد کے سلسلے میں لگائے گئے الزامات نہ تو مسترد کیئے گئے ہیں نہ ہی انہیں قبول کیا گیا ہے- انھیں نااہل قرار دینے کی اقلیتی رائے ایک دھچکا ضرور ہے لیکن اہمیت اکثریتی فیصلے کی ہی ہوتی ہے اور وہ ان کے خلاف نہیں آیا – بنیادی طور پر عدالت نے دستیاب شواہد کو ناکافی قرار دیتے ہوئے ان کی بنا پر کسی قسم کا حتمی فیصلہ کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے اور اسی لئیے ایک نئے خصوصی بنچ کی زیر نگرانی جے آئی ٹی کی تحقیقات کی سفارش کی ہے- ایسی ہی تحقیقات کا عندیہ عدالت عظمیٰ نے پچھلے نومبر میں بھی دیا تھا جسے نواز شریف نے تو قبول کر لیا تھا لیکن عمران خان نے سختی سے انکار کرتے ہوئے عدالت سے دستیاب شواہد کی بنیاد پر ہی فیصلہ سنانے کا مطالبہ کیا تھا- اس موجودہ فیصلے میں یہ مطالبہ مسترد کر دیا گیا ہے اور معاملات پانچ ماہ پرانی پوزیشن پر واپس چلے گئے ہیں- اب جے آئی ٹی کے ذریعہ تفتیش ہو گی اور اس کی نگرانی چیف جسٹس کی طرف سے تشکیل دیا گیا ایک نیا بنچ کرے گا- جے آئی ٹی کی طرف سے جو بھی سفارش آئی اس کی روشنی میں نواز شریف کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کرنے یا نہ کرنے اور ایسی کسی کارروائی کا طریقہ کار طے کرنے کا فیصلہ بھی نیا بنچ ہی کرے گا- لہٰذا قصہ مختصر ہم گھوم پھر کر وہیں آ نکلے ہیں جہاں نومبر میں کھڑے تھے-اس وقت جو لوگ مزید تحقیقات کو غیر ضروری کہہ کر مخالفت کر رہے تھے اب وہ پانچ ماہ بعد اسی کا خیر مقدم کر رہے ہیں یہ تو تھا قانونی فیصلہ لیکن سیاست کی بات الگ ہے- ویسے بھی عدالتی فیصلوں میں کچھ بھی کہا جائے، ہر فریق اسے اپنی اخلاقی فتح قرار دے کر سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہی ہے اور اب بھی یہی ہو رہا ہے- چنانچہ جب تک میڈیا کے ہاتھ ریٹنگ بڑھانے والا کوئی نیا موضوع نہیں آ جاتا فریقین کے دعوؤں کو برداشت کیجئیے۔

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply