وزیر خارجہ میولود چاوش اولو نے امریکہ کے66 برسوں سے ترکی کے اتحادی ہونے کے باوجود اس کے علیحدگی پسند تنظیم PKK/وائے پی جی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر ایک بار پھر نکتہ چینی کی۔
چاوش اولو نے امریکن فارن پالیسی جریدے میں تحریر کردہ ایک کالم میں ترک مسلح افواج کے عفرین میں شاخ زیتون آپریشن کی اہمیت اور امریکی انتظامیہ کی حکمت عملی پر اپنے جائزے پیش کیے۔
انہوں نے اس بات کا دفاع کیا ہے کہ یہ کاروائی ہر چیز سے قبل دہشت گردوں کے ترکی کے رہائشی علاقوں پر دہشت گرد حملوں کے خلاف ایک جائز مزاحمت ہے۔
انہوں نے اس جانب توجہ مبذول کرائی ہے کہ ترکی کے آپریشن کوغیر حق بجانب ٹہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کا ہمیں اندازہ ہے، شہریوں کو کم سے کم نقصان پہنچنے والا یہ آپریشن دنیا بھر کے لیے ایک کامیاب آپریشن کی حیثیت رکھتا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ میں سمجھتا ہوں کہ واے پی جی کی ترجیح ، ان پر اعتماد کرنا بذات خود ایک احمقانہ حرکت ہے ۔ لیکن میں بڑے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ترکی ، داعش کو دوبارہ منظم ہونے کی اجازت نہیں دے گا اور اس معاملے میں یہ امریکہ کے ساتھ مل کر کاروائیاں کرے گا۔
لیکن امریکہ کے ساتھ تنازعات کا ایک اہم عنصر واشنگٹن انتظامیہ کی جانب سے PKK/وائے پی جی کے ماضی کے باوجود اسے فوجیوں کی حیثیت دیتے ہوئے انہیں مسلح کرنے پر مبنی ہے۔
امریکہ نے اپنی اقدار اور دہشت گردوں کے واحد ہدف ترکی کے ساتھ 66 سالہ ماضی کے باوجود دہشت گردوں کے ساتھ ایکا کرتے ہوئے مخالف طبقوں کے ہاتھوں کو مضبوط کیا ہے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں