بیٹی ہی بوجھ کیوں ہے

ہمارے ہاں جب بیٹی کی شادی کی باری آتی ہے عموماً تو یہ سوچا جاتا ہے کہ یہ بوجھ اب سر سے اتر ہی جائے تو اچھا ہے اور بیٹے کی شادی خوب چاؤ چونچلوں سے کی جاتی ہے، خوبصورت بہو جو کہ خوب سیرت ،گھر داری ما ہر ہونے کے ساتھ ساتھ نوکری بھی کرتی ہو تو سونے پر سہاگہ ہی ہوتا ہے۔۔مانا کہ ایک بندے کی کمائی سے گھر نہیں چلتا ،یہ بھی مانتا ہوں کہ نوکری کرنے میں کوئی حرج نہیں بلکہ آج کل تو یہ ضروری ہے،لیکن ڈیمانڈ کرنا کون سی اخلاقیات میں آتا ہے؟ اگر کوئی آپ کے سامنے یہ ڈیمانڈ رکھے تو آپ یہی کہیں گے کہ ہماری بیٹی کمانے کے لیے نہیں گھر بسانے جا رہی ہے۔ جو خود کے لیے برا سمجھتے ہو ، وہ دوسرے کی جھولی میں کیوں ڈالتے ہو۔صرف بیٹی ہی بوجھ کیوں ہے؟ نکاح سے پہلے اگر بیٹی کی رضا مندی پوچھ لی جائے تو بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں، جو لڑکی اپنا دل مار کر دوسرو ں کی مرضی سے شادی کرتی ہے وہ جسمانی آسودگی تو دے سکتی ہے لیکن ذہنی سکون نہیں ۔ اگر لڑکی کہیں شادی کی خواہش ظاہر کرے تو اس میں خاندان کی عزت مٹی میں کیسے مِل رہی ہوتی ہے؟ ایسے ہی انا پرست لوگ جب بچیوں کو جائز حقوق نہیں دیتے تو پھر اکثر اوقات انہی بچیوں کا نفس انہیں بغاوت پر قائل کر لیتا ہے۔
ہمارے ہاں کم مایہ ،شریف انسان کو رشتہ دینے کے مقابلے میں ب ےجوڑ شادی کو بہتر تصور کیا جاتا ہے۔زمانے کے ساتھ مرد و عورت کی ترجیحات بدل چکی ہیں آج کا انسان یہ حق مکمل طور پر چاہتا ہے کہ وہ اپنے جیون ساتھ کا انتخاب کرے ، اگر یہ انتخاب ایک جائز اور شرعی حدود میں دے دیا جائے تو یقین مانیے عزت بالکل بھی مٹی میں نہیں رلتی۔ ہر انسان میں نفسانی خواہشات پائی جاتی ہیں جن کا احترم ضروری ہے ،جنہیں جائز حد فراہم کرنا ضروری ہے، مثال کے طور پر آج کے زمانے میں بیس پچیس سالہ لڑکے کی شادی اگر کسی پچاس سالہ خاتون سے کر دی جائے تو کیا وہ اپنی ضرورت پوری کر پائے گا ؟ یقیناً نہیں کیوں کہ اس کی عمر کے تقاضے اور ہیں، ایسے ہی کسی جواں سالہ لڑکی کی شادی کسی پچاس سالہ آدمی سے کر دی جائے تو مرد پر تو یہ جملہ کہ”کسی کافر کو جیسے جنت مل جائے” صادق آتا ہے۔لیکن جناب پیسہ دیکھ کر کسی کے جذبات نہ روندیں، معاشرے میں بڑھتی اخلاقی پستی کی وجہ آپ خود ہیں ،آپ کے خود ساختہ قوانین ہیں ۔کیا ہمارے ہاں بیٹی اتنی سستی ہے کہ دشمنی مٹانے کے لیے بطور نکاح پیش کر دی جائے ،خاندان میں رشتہ داری بچانی ہے تو بیٹی ایک بہترین حل ہے ،جانتے بھی ہو وٹہ سٹہ کی شادی جس سے مذہب بھی سختی سے منع کرتا ہے ، کتنی زندگیاں برباد کرتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل میری ایک خاتون سے بات ہوئی جن کے گھر والوں نے ان کی بڑی بہن کی شادی وٹہ سٹہ میں کی، اب ہوا یہ کہ خاتون کی بھابی جن کی ان کے بھائی سے لو میرج بھی تھی مطالبہ زور پکڑتا گیا کہ علیحدہ گھر چاہیے، مجھ سے تمہاری بیمار ماں نہیں سمبھالی جاتی، اس بات کو لے کر محبت کو کچرے کے ڈبے میں ڈالا گیا اور صاف مطالبہ ہوا الگ گھر لو یا طلاق دو، اب جس کے سر پر سارے گھر کی ذمہ داری ہو وہ یہ مطالبہ کیسے پورا کرے ۔۔بہرحال خاتون نے طلاق لے لی اور واپس میکے جا کر اپنے دکھ درد کچھ اس طرح بیان کیے کہ اپنی بھابی یعنی شوہر کی بہن کو بھی طلاق دلوائی۔ ایسے کئی واقعات ہر روز ہی سننے کو ملتے ہیں ، گر کوئی سمجھے تو سمجھ دار نہ بن جائے۔ آپ کی بیٹیاں آپ کے گھر کی رونق ہیں،محض اپنی جھوٹی انا کی خاطر ان کے چہروں سے یہ رونق مت چھینیے ۔ان کی آنکھوں میں بھی دیکھو کتنے خواب سانس لیتے ہیں، کتنی حسرتیں ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہیں، یہ بیٹیاں اللہ کا خاص تحفہ ہیں، تمہارے گھر کی رحمت ہیں ،انہیں کسی ایسے انسان کے حوالے مت کیجئے جو انہیں صرف استعمال کی چیز سمجھے ،اپنی شہزادیوں کے لیے وحشی کا انتخاب مت کیجئے۔

Facebook Comments

علی حسین
منٹو نہیں ،منٹو جیسا ہوں ،معاشرے کو کپڑے پہنانے کی کوشش نہیں کرتا!

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply