قندوز بمقابلہ کابل۔۔حمزہ ملک

دل بوجھل ہے پلکیں تر ہیں۔ کل قندوز میں جو فرعونیت کا کھیل رچایا گیا اس کے بعد ایک حساس دل دنیاوی سرو سامانیوں سے جی نہیں بہلا سکتا۔ یہ تو معصوم کلیاں تھیں جنہیں سفاکی سے مسل دیا گیا۔ جن سے جینے کا حق چھین لیا گیا۔ جو ابھی کھل بھی نہ پائیں تھیں انہیں روند دیا گیا۔
ہم دیکھ رہے ہیں کہ اس واقعے کو لے کر فیس بک پر دو گروپ بن چکے ہیں ایک کے نالے عرش پار جا رہے ہیں تو دوسرا اس کو کسی حد تک درست ہی سمجھ رہا ہے۔ موخر الذکر کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہاں طالبان کی موجودگی ہی اس درندگی کا باعث تھی۔ یہ بات ایک لحظے کو مان لی جائے بلکہ بات درست ہے ماننی ہی چاہیے ، طالبان واقعی وہاں موجود تھے اور افغانستان کے مدارس میں ان کا جس قدر ہولڈ ہے تو یہ بعید از قیاس بھی نہیں لیکن اس کے باوجود کچھ طالبان کی خاطر اتنی بے قصور جانوں کا ضیاع اس قدر نفرت انگیز ہے کہ الفاظ کی کڑواہٹ بھی جواب دے جاتی ہے۔ سننے میں آیا ہے اقوام متحدہ نے اس واقعے پر ایکشن لیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ ترجیحی بنیادوں پر اس مسئلے کو غیر جانب دارانہ طور پر حل کیا جائے تاکہ معصوم زندگیوں کو تلف کرنے کا یہ خونی ناٹک جلد اپنے انجام کو پہنچے۔

یہ بات تو ہوئی اس واقعے کی لیکن اب ذرا کچھ رویوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
جو لوگ اس واقعے  کو ایک حد تک درست سمجھتے ہیں معصوم بچوں کی   ہلاکت کے وہ بھی خلاف ہیں اور اس کو ایک غلط اقدام گردان رہے ہیں لیکن جو اس واقعے کو لے کر شکوؤں کی سوز خوانیاں کر رہے ہیں ہم فی الحال ان سے مخاطب ہیں۔ معصوم بچوں کے لیے ہمارا دل بھی غمگین ہے بلکہ صرف انہیں بچوں پر کیا اکتفا دنیا بھر میں بے قصور جانوں کے ضیاع پر ایک حساس آدمی دل گرفتہ ہوتا ہے۔ ایسے ہی کچھ بے قصور ہمیں بھی یاد آرہے ہیں۔ اسی افغانستان کی سرزمین میں قندوز سے کچھ دو سو میل کے فاصلے پر کابل واقع ہے۔

آج سے کچھ دس بارہ دن قبل وہاں پر طالبان نے خود کش حملہ کیا اور نئے سال کی خوشیاں منانے والے قریب تیس لوگوں کے چیتھڑے اڑ گئے جبکہ اس سے دوگنی تعداد زخمیوں کی تھی۔ حضور والا یہ بھی انسان تھے۔ان کا بھی کوئی قصور نہیں تھا۔ ان کے خاندان والوں نے بھی ان کو لے کر کئی سپنے سجائے تھے جو ہمیشہ کے لیے بے تعبیر رہ گئے۔ ان کی  بیویاں بھی بیوہ اور اولادیں یتیم ہوئی ہیں۔ یہاں بھی ماؤں کی کوکھ ویران ہوئی ہے۔ لیکن ان کے لیے آپ کا قلم میز پر ہی دھرا رہا۔ ایک لفظ بھی ان کے لیے آپ نے کہا نہ لکھا۔ شاید اس لیے کہ یہ مخالف عقیدے کے لوگ تھے اور مخالف عقیدے والے تو انسان نہیں ہوتے نا۔ وہ تو پیدا ہی اسی لیے ہوتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں مریں۔ لیکن یہ بات ہمیں ہضم نہیں ہوتی جناب کیونکہ شومئی قسمت کہ ہم بھی ان میں شامل ہیں جنہیں قسمت نے حساس دل دے کر زندگی کی سزا دی ہے۔ ہمیں جہاں ان معصوم بچوں کا دکھ ہے تو وہاں نوروز منانے والے ان بے قصوروں کے لیے بھی دل خون کے آنسو روتا ہے۔ آپ سے التجا بس اس قدر ہے کہ خدارا نفرت و مسلک کا درس دینا اب بند کیجیے۔ انسانی جان کی اہمیت جانیے۔ بقول میر:
مت سہل اسے جانو، پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں

Advertisements
julia rana solicitors

حضور تمام انسان یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔ کوئی عقیدے کی بنیاد پر کسی سے بڑھ نہیں جاتا۔ نہ ہی کسی خاص مسلک سے تعلق آپ کو ان کے قتل عام کے اجازت دیتا ہے۔ انسان کو انسان ہی جانیے اور دنیا میں محبت اور رواداری کو فروغ دیجیے اس سے پہلے کہ یہ دنیا راکھ کا ڈھیر ہو جائے خدارا سنبھل جائیے۔
ہم ایک پوسٹ پڑھ رہے تھے جہاں ایک جناب کہہ رہے تھے کہ وہ لوگوں کو یہ نہیں کہتے کہ ان بچوں کی خاطر امریکہ سے لڑیں وہ بس یہ کہنا چاہتے ہیں ان لوگوں کو پہچانیں جو آج خاموش ہیں لیکن کل کسی اور ملک میں حملہ ہوا تو یہ لوگ گھروں سے باہر کل آئیں گے۔ یہی منافقین ہیں معاشرے کے اصل مجرم۔ تو اب ہم صرف اتنا پوچھنا چاہتے ہیں کہ اس کسوٹی پر آپ کو پرکھ کر ہم آپ کو بھی منافق اور معاشرے کا اصل مجرم سمجھ سکتے ہیں۔ کوئی فتویٰ تو نہیں لگے گا نا؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply