انسانی جان کی حرمت کا پاس ۔۔۔ڈاکٹر عرفان شہزاد

انسانی جان کی حرمت کا پاس، حقیقت ہے کہ ہمارے سماج سمیت دنیا بھر بلک تاریخ کے کسی دور میں بھی صحیح معنوں میں کہیں نہیں پایا  جاتا۔ خدا کا ارشاد کہ جس نے ناحق ایک انسان کو قتل کیا، اس نے پوری انسانیت کو قتل کیا، اس جیسا مہیب ارشاد ایک کلیشے بن کر رہ گیا ہے۔ ساری انسانیت کے قتل پر ہمارا جو رد عمل ہو سکتا ہے، اس کا تصور کیجیے، یہی تصور ایک خون ناحق پر ہمارا ہونا چاہیے تھا۔

وہ ظالم تو رہے ایک طرف، جو انسانوں کا قتل اپنی درندگی کی پیاس مٹانے کے لیے کرتے ہیں، ان کی مذمت تو سبھی کرتےہیں، لیکن یہاں اس مضمون میں میرا ہدف تنقید انسانیت اور انسانی اقدار کے وہ پرچارک ہیں جو رہنما ہیں اپنے ادنی اور خود ساختہ بلند مقاصد کی خاطر اپنے پیروکاروں کی جانیں ایسے قربان کرواتے ہیں جیسے یہ ان کا ادھار تھا جسے ان سے وصول کرنا ان کا حق تھا۔ ان رائیگاں قربانیوں پر ان مذہبی اور سیاسی رہنماؤں کے ماتم اور مذمت کے پیچھے ان کا اطمینان قلب جھلکتا ان کے چہروں سے دکھائی دیتا ہے، ایک سرشاری کی کیفیت ان میں نظر آتی ہے، جانوں کے اس ضیاع کو شہادت جیسا مقدس لقب عطا کرکے، وہ دوسرے کارکنوں اور پیروکاروں کے لیے مزید ترغیب کا انتظام کرتے ہیں۔

یہ رہنما پہلے ایک بت تراشتے ہیں، پھر اس استھان پر اپنے پیروکاروں کو قربان کرتے ہیں۔ یہ سب ان کا ذاتی ایجنڈا ہوتا ہے جسے یہ قوم کا ایجنڈا باور کرا دیتے ہیں، پھر اس راہ میں جان دینا شہادت بنا دیتے ہیں۔ خدا کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں، اس لیے ان کے لیے خدا کے دین کے مقدس تصورات استعمال کرنا اپنی حد سے تجاوز ہے۔

ان بتوں میں سے ایک بت قومیت کے نام سے تشکیل دیا گیا۔ عام لوگوں کو باور کرایا گیا کہ ان پر ان کے ہم نسل، ہم وطن لوگوں کی حکمرانی بہت ہی ضروری قسم کی چیز ہے، غیر قوم حکمران ہوگی تو یہ غلامی ہو گی، لیکن ہم وطن حکمران ہوں گے تو یہ غلامی نہیں ہوگی۔ عوام نے یہ پوچھے بغیر کہ غیر قوم کے زیر حکومت رہنا اگر غلامی ہے تو اپنوں کے زیرِ حکومت رہنا غلامی کیوں نہیں، اور اگر اپنوں کے زیر حکومت رہنا غلامی نہیں تو غیر قوم کے زیر حکومت رہنا  غلامی کیوں ہے، اور وہ اپنی جانوں کے نذرانے لے کر غیر قوموں کی بندوقوں کے آگے کھڑے اور ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے۔ پھر جب غیر ان کو چھوڑ کر اپنے ملک چلے گئے تو یہ روزی روٹی کی خاطر جو ان کے ہم قوم رہنما انھیں مناسب طور پر نہیں دے رہے تھے، اپنا ملک چھوڑ کر ان غیر قوموں کے ملک میں جا کر بسنے اور ان کے زیر حکومت یا زیرِ غلامی رہنے کے اعزاز کو حاصل کرنے کے لیے مرے جانے لگے۔ عوام نے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اگر حکومت ان کے ہم نسلوں کے ہاتھ میں آجائے گی تو کیا ہو جائے گا۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ انبیا بھی غیر قوموں کےزیر حکومت رہے۔ حضرت یوسف مصر کے بادشاہ کے زیر حکومت رہے۔ قرآن میں سورہ یوسف میں لکھا ہے کہ وہ بادشاہ کے قانون کے خلاف کوئی اقدام نہیں کر سکتے تھے۔ تو کیا یہ غلامی تھی؟

ہم نے تو دیکھا کہ غیر قوم کی تعریف پھر غیر زبان اور غیر مذہب کی تعریف میں سمٹ آئی۔ ایک بار پھر انسانوں سے کہا گیا کہ اپنی جانوں کو سستا کرو، غیر زبان اور غیر مذہب کی حکمرانی بھی دراصل غلامی ہے، ہم مذہب اور ہم زبان کی غلامی اختیار کرو جو غلامی نہیں ہوتی۔ لوگ پھر جانیں دینے چل پڑے، پھر نہیں پوچھا کہ ہم مذہب اور ہم زبان کی حکومت مل جائے گی تو اس سے کیا ہو جائے گا؟ کہا گیا کہ غیر قوم، غیر مذہب، اور غیر زبان والے تمھارا استحصال کرتے ہیں، لیکن یہ نہیں پوچھا گیا کہ ہم قوم، ہم زبان اور ہم مذہب استحصال نہیں کریں گے، اس کی ضمانت کہاں ہے؟ کہا گیا کہ غیر تمھارے حقوق نہیں دیں گے۔ غریب نے پوچھا ہی نہیں کہ کون سے حقوق۔ روزی روٹی تو اسے خود پیدا کرنی تھی، نماز اور مورتی پوجا، حج اور گنگا یاترا، مندر اور مسجد جانے کی اجازت تو سب دے رہے تھے، تو کون سے حقوق تھے جو غیر نے نہیں دینے تھے۔

کہا گیا کہ دراصل پارلیمنٹ میں تمھاری نمائندگی مناسب تعداد میں نہیں ہو سکے گی۔ تو غریب سمجھا نہیں کہ یہ اس کا مسئلہ نہیں تھا، پارلیمنٹ کی نمائندگی کا ڈھونگ اقتدار کے حصول کے لیے اشرافیہ کا بنایا ہوا ہتھکنڈا تھا۔ انھیں اپنے اقتدار کے لیے اپنا مسئلہ عام آدمی کا مسئلہ بنانا پڑا تھا اور عام آدمی نے خوامخواہ اپنے ہم قوم، ہم مذہب، ہم زبان اور اب ہم مسلک اشراف اپنی خون کی ندی میں بہا کر، اپنی لاش کے کاندھوں پر بیٹھا کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا کر خود پھر اپنے حقوق کے حصول کے لیے لائن میں کھڑا ہوگیا۔ عام آدمی نے اپنا اتنا سارا قتل محض اس لیے کرایا کہ اس کا استحصال غیر نہیں اپنا ہم قوم، ہم مذہب اور ہم زبان کر سکے۔ اس نے سمجھا ہی نہیں یہ جنگ اس کی تھی ہی نہیں جس کے لیے اس کا خون مانگا گیا تھا۔ منگل پانڈے، بھگت سنگھ، اشفاق، ان سے پہلے اور ان کے بعد آج تک یہ سب حریت کے لڑاکے اپنی نہیں اپنے اشراف کی جنگ اپنے خرچ اور اپنے جان کے خرچ پر لڑ رہے ہیں۔ وہ ایک کی غلامی سے نکل کر دوسرے کی غلامی میں جانے کے مر رہے ہیں۔

انیسویں صدی سے قومیت کے نام سے شروع ہونے والی یہ حماقت تاحال جاری ہے، اور انسانی جانوں کو اس بت کے چرنوں میں آئے دن بڑے فخر سے قربان کیا جاتاہے۔ انیسویں صدی سے پہلے انسانی جانوں کی قربانی اس لیے مانگی جاتی تھی کہ بادشاہ کا موڈ بن جاتا تھا کہ وہ اپنے ملک سے نکل کر دیگر علاقوں کو فتح کرے۔ کیوں؟ کبھی تو اس کا سبب بھوک، اور وسائل سے محرومی ہوتی تھی، گویا منظم ڈاکے کی یہ شکل تھی، جس کے لیے لوگ دوسروں سے ان کی روزی روٹی چھیننے کے لیے ان پر حملہ کرتے اور یوں اپنی جانیں دیتے اور ان کی جانیں لیتے، اور کبھی اس کی وجہ محض اپنی قوم کی ناموری ہوتی تھی کہ ہمارے بادشاہ نے اتنا علاقہ فتح کیا، اتنا خراج وصول کیا۔ اس کے لیے سپاہی اپنی ماں، بہن، بھائیوں، بیوی، بچوں اور دوستوں کے پیارے رشتے چھوڑ کر، اپنی جان دے کر انھیں دائمی جدائی کا دکھ دینے چل پڑتا تھا۔ اس حماقت کو بہادری کا خطاب دیا جاتاتھا، جس طرح آج اسے شہادت کا نام دیا جاتا ہے۔ سماج کی ذہنی تربیت ایسے کی جاتی تھی کہ مائیں بھی فخر سے اپنے بچوں کو ان کے باپ کی بے شعور قربانی کی داستان کو بہادری کا نام دے کر سناتیں، اور بچے بھی تمنا کرتے کہ وہ بھی اسی راستے پر چلیں۔ یوں بادشاہوں کو اپنی بے مقصد فتوحات کے لیے تازہ خون مسلسل مہیا ہوتا رہتا تھا۔

یہی سلسلہ ناموں کی تبدیلی سے اب بھی جاری ہے۔ مرنا اتنا مقدس بنا دیا گیا کہ لوگ تمنا کرتے ہیں کہ کسی شہید کے ماں باپ کہلوائیں۔ وہ یہ لیکن بھول جاتے ہیں   کہ شہید ہونے سے پہلے ان کے فرزند کو کسی دوسرے کی ماں کو اس کے بیٹے کی جدائی، اس کی بیوی کو بیوگی اور اس کے معصوم بچوں کو یتیمی کے داغ دینے ہوں گے، اور نفرت کی آگ اپنے خون سے بھڑکانی ہوگی، جس کے شعلوں میں نئی نسل پھر جان دینے کے لیے تیار کی جائے گی۔

جنگ ہو یا احتجاج اگر اس کی وجہ کوئی حقیقی تسلیم شدہ اخلاقی اصول نہ ہو، تو ایسی مہمات میں ضائع ہونے والی  جانوں کا وبال رہنماؤں کی گردن پر ہے اور ایسی حماقت کو شہادت قرار دینا اس بربریت پر پردہ ڈالنے کے مترادف ہے۔

غیروں کی حکومت کو غلامی باور کرا کر انسانوں کے خون بہانے کی ہر رہنما نے حوصلہ افزائی کی۔ مہاتما گاندھی اس میں کچھ بہتر تھے، کہ وہ عدم تشدد کے قائل تھے، اس لیے ان کے طریقہ احتجاج میں انسانی جانوں کے قتل کرنے کے لیے حکومت کے پاس اخلاقی جواز نہیں بن سکتا تھا، مگر لوگوں کو غیر قوم کی حکومت سے نکال کر، ہم نسل اور ہم وطنوں کے زیر حکومت لانا کوئی اتنا بڑا انسانی مسئلہ نہیں تھا کہ نہتے لوگوں کو ڈنڈوں اور بندوقوں کے آگے ڈال دیا جاتا۔ غریب جو انگریز کے دور میں بھاڑ جھونکتا تھا اس نے اپنے ہم قوم، ہم مذہب، ہم زبان کے زیر حکومت بھی بھاڑ ہی جھونکنا تھا۔

قومیت کی بنیاد پرجمہوری جہدوجہد کے پیچھے بھی دراصل اپنےہم قوموں کا سیاسی یا روحانی حکمران بننے کا خواب پنہاں ہوتا ہے۔ جمہوریت کے دور سے پہلے یہ مقصد اپنے قبیلے اپنی قوم کی تلواروں کی طاقت سے حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، جمہوریت میں یہ ان کے ووٹ سے حاصل کرنے کی کوشش ہے۔ جس طرح اس وقت کے رہنماؤں کا ایک ذاتی ایجنڈا ہوتا تھا جس کی خاطر عام آدمی کا جانیں دینا عبث تھا، اسی طرح آج کسی کے اقتدار کی خاطر جانیں دینا عبث ہے۔ یہاں جدوجہد کی نفی ہرگز نہیں کی جارہی، اگر کسی کو شوق ہے کہ حکومت میں اپنی جلد کے رنگ والے لوگوں کو بیٹھا دیکھے، کسی دوسرے کو شوق ہے کہ وہ اپنے ہم زبان کو ایوان اقتدر میں براجمان دیکھے، چاہے وہ وہاں بیٹھ کر انگریزی میں خطاب کرے، اور اسی طرح کسی کو شوق ہے کہ وہ اپنے ہم مذہب ہی نہیں بلکہ ہم مسلک کو حکومت چلاتے دیکھے تو وہ شوق سے کرے یہ جدوجہد، مگر اس کے لیے انسانی جان کی قربانی مانگنا، اور ایسے حالات پیدا کرنا کہ انسانی جانیں ضائع ہو کر رہیں اس کا کیا جواز ہے۔

یہ جو اسلام کے نمائندوں کو اقتدار میں لانے کے لیے جانوں کی قربانیاں مانگتے ہیں، وہ بتائیں کہ اس کی کیا ضمانت ہے کہ یہ نمائندے کرپشن نہیں کریں گے؟ اسلامی نظام قانون میں بے انصافی نہیں کریں گے، اپنا ضمیر نہیں بیچیں گے؟ جب اس سب کی کوئی ضمانت نہیں تو یہ پیغمبرانہ شان سے اپنے پیروکاروں کی  قربانی کیسے مانگ سکتے ہیں۔ یہ صرف کوشش کر سکتے ہیں اور بس۔ انسانی جان اس سے بہت بلند ہے کہ موہوم مقاصد میں ضائع کی جائے۔ مگر رہنماؤں کو اس کی ذرہ برابر بھی پروا نہیں ہوتی۔ وہ ان ضائع ہونے والی جانوں پر مزید سیاست کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر کبھی پشمان نہیں ہوتے کہ ان کے کارکنوں، پیروکاروں کو اپنی جانیں نہیں دینی چاہیں تھیں، وہ بس اس بات کی مذمت کرتے ہیں کہ اہل اقتدار نے ان کی قتل کیوں کیا۔ جان لینے پر ظالم کی مذمت تو کی جائے لیکن اپنی جان یوں ہتھیلی پر سجا کر بندوق کے آگے رکھنے والے کو کس بات کی شاباش دی جائے؟ وہ جان دے کس لیے رہا ہے؟ محض اس لیے کہ اس کی پارٹی کا رہنما اقتدار میں آجائے؟ کیا یہ خد اکا حکم ہے یا رسول کا فرمان؟ وہ آ بھی گیا تو کیا ہو جائے گا؟ یہی وہ سوال ہے جو کبھی نہیں پوچھا گیا ، اور بڑی بڑی تحریکیں برپا کر دیں گئیں اور لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگ مروا دیے گئے۔

انسانی جان تو کیا کسی جانور کی جان بھی صرف اس کے خالق کی حکم پر ہی لی یا دی جا سکتی ہے۔ ہم جانوروں پر بھی خدا کا نام لیے بغیر اس کی جان نہیں لے سکتے، یہ ہم اس لیے کرتے ہیں کہ خود کو باور کرائیں کہ اس کی جان خدا کی اجازت سے لی گئی ہے۔ اور یہاں معاملہ انسانی جان کا ہے۔ جس کی حرمت تمام انسانیت کی جان کے برابر ہے۔ اس کی جان ہم خدا کے حکم اور اس کے اصولوں کے بغیر کیسے لے سکتے ہیں۔ وہ ظالم جو سیاسی اور مذہبی رہنماؤں کی برین واشنگ کے شکار انسانوں کی جان لیتے ہیں، وہ تو ظالم ہیں ہی، لیکن درحقیقت یہ سیاسی اور مذہبی رہنما ہی ہیں اپنے کارکنون کا پیروکاروں کے پہلے اور حقیقی قاتل ہیں۔

انسانی جان کی ارزانی کی حالت دیکھیے کہ کبھی ایک انچ زمین کو بچانے کے لیے انسانی خون پانی کی طرح بہایا جاتا ہے، اور پھر معلوم ہوتا ہے کہ حاکم نے ایک دستخط کر کے وہ زمین خود ہی دشمن کے حوالے کر دی۔ ایک مذہبی رہنما کے گھر کے آگے لگی رکاوٹیں ہٹانے پر ان کے پیروکاروں نے اپنی جانیں وار دیں۔ بعد میں وہ رکاوٹیں عدالتی حکم پر ہٹا دی گئیں۔ ان مظلوموں کا مقدمہ لڑنے کے لیے پورا ملک کئی بار یرغمال بنایا گیا، لیکن ایک بار بھی اس رہنما یا کسی اور کی زبان پر یہ نہیں آیا کہ رکاوٹیں ہٹانا غلط تھا یا درست یہ بتاؤ کہ کیا یہ اتنی بڑی بات تھی کہ انسان مروا دیے جاتے؟ بات بات پر ایسی جانثاری کی تربیت دینے والا ان مقتولین کا پہلا قاتل ہے۔

ایک سیاسی پارٹی کے سربراہ نے ایک احتجاجی دھرنے کے دوران اسلام آبادم میں ایک چوک سے دوسرے چوک تک جانے کی ضد میں اپنے کارکنوں کو بے دریغ مروایا تھا، لیکن پھر اس نے سوچا کہ نہیں پہلے والی جگہ ہی ٹھیک تھی، اور وہ واپس اسی جگہ آ گئے اور پھر دھرنے ہی سے واپس آگئے۔ اب وہ انسانی جانیں جو پارٹی سربراہ کے تخیل کی بھینٹ چڑھیں، ان کا کیا ہوا؟ ان کا رائیگاں خون کس کے سر ہے؟ یہ سوال کبھی اٹھتا ہی نہیں۔ انھین شہید قرار دے کر دامن جھاڑ کر ہھر ایک نئی مہم جوئی شروع ہو جاتی ہے پھر خون کے نذرانے مانگے جاتے ہیں۔ کارکنو ں کا ہر بار وہ حال ہوتا ہے کہ

آواز دے کے چھپ گئی ہر بار زندگی

ہم ایسے سادہ دل تھے کہ ہر بار آگئے

ان گولی چلانے والوں کی درندگی میں تو کوئی شبہ نہیں ان کی مذمت تو مشرق سے لے کر مغرب تک سب نے کی، لیکن اپنے جانثاروں کو ایسی بے جا جانثاری کی تربیت دینے والوں کے چہرے پر ندامت کی کبھی ایک شکن تک دیکھنے میں نہیں آئی، انھوں نے کبھی نہیں کہا کہ اس بات پر جان دینے کی کیا ضرورت تھی۔ لیکن نہیں، یہ لاشیں ان کی سیاسی شہرت کے لیے زینے کا کام دیتی ہیں۔ اس بنا پر وہ ان رائیگاں قربانیوں کو شہادت قرار دیتے ہیں، ان بے شعور جانوں کی اتنی عزت و تکریم کی جاتی ہے کہ دوسرے لوگ تمنا کرنے لگتے ہیں کوئی موقع آئے اور وہ بھی اس بلند منصب پر فائز ہوں۔ یہ بالکل وہی برین واشنگ ہے جو کبھی بادشاہ اپنی بے مقصد اور غیر اخلاقی جنگوں کے لیے مرنے والے اپنی سپاہیوں کی موت کو گلوریفائی کر کے کیا کرتے تھے کہ تاکہ انھیں اپنے ایجنڈوں کے لیے تازہ خون ملتا رہے، یہی سلسلہ بالالفاظ دیگر، بصورت دیگر آج بھی جاری ہے۔

غور کیجیے ہر جماعت، ہر ملک، جان نثاری کے لیے ذہن سازی کرتے ہیں ،اس کے لیے ان کے نعرے اور نغمے دیکھیے، جن میں وہ یوں بے فائدہ مرنے کوکس قدر پر عظمت بناتے ہیں۔ مثلا:

سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

دیکھنا ہے زور کتنا بازوئے قاتل میں ہے

سینے پہ گولی کھائیں گے

پاکستان بنائیں گے

قائد تیرا ایک اشارہ

حاضر حاضر لہو ہمارا

چیف تیرے جانثار

بے شمار بے شمار

جوانیاں لٹائیں گے

انقلاب لائیں گے

یہ بازی خون کی بازی ہے یہ بازی تم ہی ہارو گے

ہر گھر سے بھٹو نکلے گا تم کتنے بھٹو مارو گے

چڑیا نل میں باز لڑاواں

گدڑاں توں میں شیر بناواں

سوا لکھ سے اک لڑاواں

تب گوبند سنگھ نام دھراواں

(میں چڑیا کو باز سے لڑا دوں، گیدڑوں کو شیر بنا دوں، ایک آدمی کو سوا لاکھ لشکر سے لڑا دوں، تب کہوں کہ ہاں میرا نام گوبند سنگھ ہے)

یعنی وہی

اٹھا ساقیا پردہ اس راز سے

لڑا دے ممولے کو شہباز سے

اور

کافر ہے تو شمشیر پہ کرتا ہے بھروسہ

مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی

اسلامی تاریخ میں میرے محدود مطالعے میں دو ایسے بے مثال کردار ہیں جن کے ہاں انسانی جان کے تقدس کا وہی احساس جو خدا کی کتاب اور انسان کی فطرت کی آواز ہے، بہت نمایاں ہو کر سامنے آیا ہے۔ وہ دو لوگ حضرت حسن اور حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہما ہیں۔ حضرت حسن، عہد علی رضی اللہ عنہ سے جاری جنگوں کے نتائج دیکھ چکے تھے، اپنے عہد حکومت میں انھیں اپنی اور اپنے مخالف کی قوت کا اندازہ بھی تھا۔ وہ جانتے تھے کہ اقتدار ہمیشہ طاقت ور کے ہاتھ میں رہا ہے۔ پہلے یہ زیادہ جنگی طاقت رکھنے والے حاصل کر لیا کرتے تھے ،اور جمہوریت میں بھی یہ اسے ہی حاصل ہوتا ہے جس کے پاس ووٹ کی زیادہ طاقت ہوتی ہے۔ یعنی اصول اب بھی یہی ہے۔ حضرت حسن نے دستیاب حالات میں اقتدار پر طاقت ور کے حق حکمرانی کو تسلیم کیا۔ بے فائدہ جنگ کرنے کو عبث جانا۔ جو نتیجہ لڑ کر نکلنا تھا وہ انھوں نے بغیر لڑے ہو جانے دیا۔ لیکن اس برتر بصیرت کو اس وقت ان کے پیروکار بھی نہ سمجھ سکے کہ حضرت حسن نے ان کی جانوں سے کس بے مقصد کشت وخون سے بچایا ہے۔ لیکن اقتدار کے ہوس میں انسانی جانوں کی پامالی کو عام سی بات سمجھنے والے عراقیوں نے حضرت حسن کو ذلیل کیا۔ مسجد میں ان کے پاوں کے نیچے سے مصلیء نماز کھینچ لیا، برا بھلا کہا۔ مگر حضرت حسن نے ان نا سمجھوں کو کوئی جواب نہ دیا۔ یہ برتر شعور و بصیرت ہر کسی کا نصیب کہاں تھا۔

حضرت حسن کا فیصلہ تو طاقت و کمزوری کے درست مطالعہ کے بعد درست فیصلہ تھا، حضرت عثمان کا معاملہ تو اس سے بھی آگے کا ہے۔ پوری انسانی تاریخ میں انسانی جان کی عظمت و احساس کی اس سے بڑھ کر کوئی مثال ملنا میرا خیال ہے کہ مشکل ہے۔ خلیفہ وقت نے، تمام طاقت کا اختیار رکھتے ہوئے بھی چند باغیوں کے ہاتھوں محض اس لیے اپنی جان دینا گوارا کر لیا کہ ان اپنی ذات کا تحفظ و بقا ان کے لیے اتنا اہم نہیں تھا کہ وہ اس کے لیے انسانی خون کو بہانے کی اجازت دے دیتے۔ یہ ہابیل کی سرشت تھی۔ ہابیل جانتا تھا کہ قابیل اسے قتل کر دے گا، قابیل کھلی دھمکی دے چکا تھا۔ پھر ہابیل اس کے ہاتھوں قتل ہو گیا مگر حفظ ماتقدم کے طور پر قابیل کو قتل نہیں کیا۔ حضرت عثمان نے اختیار رکھتے ہوئے مظلومانہ قتل ہو جانا گوارا کر لیا مگر اپنی جان کو اتنا قیمتی سمجھا نہ ایسا بنا کر پیش کیا اور نہ لوگوں کو ابھارار کہ ان کی حفاظت کے  لیے لوگ اپنی جانیں لٹا دیں اگرچہ وہ ایسا کرنے کے لیے بے تاب تھے، مگر آپ نے اجازت نہ دی، اور یہاں ایک عام سا لیڈر اپنے ہم وطنوں، ہم قوم اور کارکنوں کو اپنی جان کے لیے یا اپنے مذہبی یا سیاسی ایجنڈے کے لیے جانیں قربان کرانا گویا شرط وفادار سمجھتا ہے۔ انسانی جان کی حرمت و پاس کا یہ فقید المثال مظاہر ہ انسانیت کے ماتھے کا وہ جھومر ہے جس پر خالق کائنات کو بھی فخر ہوگا۔ اس آئینے میں ہر چھوٹے موٹے افسر سے لے کر بڑے بڑے رہنماؤں کا کردار ناپیے جو اپنی بے مقصد قسم کی جان کی حفاظت اور اپنے نام نہاد سیاسی اور مذہبی ایجنڈوں کے لیے انسانی جانیں ضائع کرانے پر تیار رہتے ہیں، اور جب وہ ضائع ہو جاتی ہیں تو ان کے قتل کو قابل فخر قربانیاں بنا دیتے ہیں یوں وہ مسلسل قتل انسانی کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔

کسی رہنما کو اگر کہا جاتا ہے کہ سکیورٹی کے خطرات ہیں، جلسہ نہ کیجیے، تو یہ لوگ اپنے لیے سکیورٹی کے مکمل انتظامات کر لینے کے بعد اپنے پیروکاروں کا لہو گرماتے ہیں کہ چاہے کچھ بھی ہو، جلسہ ہو کر رہے گا۔ پھر جب کوئی دھماکا یا فائرنگ وغیرہ ہو جاتی ہے تو ان کی سیاست مزید چمک اٹھتی ہے، حکمرانوں کے خوب لتے لیے جاتے ہیں لیکن کہیں ایک بار بھی کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ جلسہ نہ ہوتا یا موخر ہو جاتا تو کیا ہو جاتا؟ کیا آپ پر بزدلی کا الزام لگ جاتا؟ مگر یہ بہادری تو آپ نے اپنے کارکنوں کے عدم تحفظ کی بل بوتے پر دکھائی ہے۔ آپ تو مقدور بھر محفوظ رہنے کو کوشش کرتے ہیں۔ کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ یہ جلسہ انسانی جان سے بڑا کیوں تھا؟ یہی سوال نہ پوچھنے کی بنا پر انسانی جانوں کی پروا کیے بغیر بڑی بڑی تحریکیں برپا کر دی جاتی ہیں اور لوگ مروا کر بجائے شرمندگی کے فخر کیا جاتا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم دنیا میں زندہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔ مرنا مجبوری یا ناگریر تقاضے کے بنا روا نہیں۔ شہادت اتنا سستا منصب نہیں کہ ہر بے شعور قربانی کو اس کا مسحق قرار دے دیا جائے۔ انسان کی قدر کیجیے۔ زندگی کی قدر کیجیے۔

Facebook Comments

عرفان شہزاد
میں اپنی ذاتی ذندگی میں بہت ایڈونچر پسند ہوں۔ تبلیغی جماعت، مولوی حضرات، پروفیسر حضرات، ان سب کے ساتھ کام کیا ہے۔ حفظ کی کلاس پڑھائی ہے، کالجوں میں انگلش پڑھائی ہے۔ یونیورسٹیوں کے سیمنارز میں اردو انگریزی میں تحقیقی مقالات پڑھے ہیں۔ ایم اے اسلامیات اور ایم اے انگریزی کیے۔ پھر اسلامیات میں پی ایچ ڈی کی۔ اب صرف دو چیزیں ہی اصلا پڑھتا ہوں قرآن اور سماج۔ زمانہ طالب علمی میں صلح جو ہونے کے باوجود کلاس کے ہر بد معاش لڑکے سے میری لڑائی ہو ہی جاتی تھی کیونکہ بدمعاشی میں ایک حد سے زیادہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ یہی حالت نوکری کے دوران بھی رہی۔ میں نے رومانویت سے حقیقت کا سفر بہت تکلیف سے طے کیا ہے۔ اپنے آئیڈیل اور ہیرو کے تصور کے ساتھ زندگی گزارنا بہت مسحور کن اورپھر وہ وقت آیا کہ شخصیات کے سہارے ایک ایک کر کے چھوٹتے چلے گئے۔پھر میں، میں بن گیا۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply