مفتی ممتاز حسین 11 ستمبر1905ءبمقام بٹالہ (ضلع گورداسپور) پنجاب میں مفتی محمد حسین کے ہاں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم امرتسر ، میانوالی ، ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں پائی، میٹر ک ڈیرہ غازی خان سے اور ایف اے امرتسر سے کیا۔ اسلامیہ کالج لاہور سے بی ۔ اے کرنے کے بعد سنٹرل ٹیچرز ٹریننگ کالج میں داخلہ لیا۔ جہاں سے ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد محکمہ تعلیم پنجاب کے سینئر انگلش ٹیچر کے طور تعیناتی ہوئی۔ راشد سے ملاقات میں لکھنے کی تحریک پیدا ہوئی۔ پہلے دو مضامین رسالہ ”نخلستان“ لاہور میں شائع ہوئے۔ میں بطور اسٹاف آرٹسٹ اسکرپٹ رائٹر آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ منسلک ہوگئے۔ کچھ عرصے تک فلمی صنعت سے بھی وابستہ رہے۔ قیام پاکستان کے بعد لاہور آئے ۔کئی رسالہ کے ساتھ وابستہ رہے۔ پاکستان ائیر فورس کے سائیکالوجسٹ بھی رہے۔ کچھ عرصے تک ریڈیو کشمیر کے ساتھ وابستہ رہے۔ میں ان کا تبادلہ ڈائریکٹر وزارتِ اطلاعات ، راولپنڈی کر دیا گیا۔ ریٹائرمنٹ تک اسی محکمے سے وابستہ رہے۔
ان کا پہلا افسانہ ”جھکی جھکی آنکھیں“ ادبی دنیا لاہور میں شائع ہوااوراس طرح وہ مفتی ممتاز حسین سے ممتاز مفتی بن گئے۔ ان کے کئی افسانوی مجموعے شائع ہوئے جن میں ان کہی ، گہماگہمی ، چپ ، روغنی پتلے، سمے کا بندھن اور اسمارائیں شامل ہیں۔علی پور کا ایلی اور الکھ نگری سوانحی ناول میں شمار ہو تے ہیں۔ جبکہ ہند یاترا ، لبیک جیسے سفر نامے بھی تحریر کیے اورخاکہ نگاری میں اوکھے لوگ ، پیاز کے چھلکے جیسی کتابوں کے خالق ہیں۔
ممتاز مفتی کے افسانوں کا جائزہ لینے سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ دراصل جنس اور نفسیات یہی دو موضوع ان کے بنیادی موضوعات ہیں وہ اس اعتبار سے اپنے دور کے ان اولین افسانہ نگاروں میںسے ہے جنہوں نے انسانی زندگی کے ایک انجانے پہلو کو متعارف کرایا۔ موضوع کا یہ نیا پن بجائے خود اردو ادب کے قارئین کے لیے ایک پرکشش بات تھی۔ ممتاز مفتی کی بدولت نفس شعر اور تحت الشعور سے پیدا شدہ مسائل اور تحلیلی نفسی ادب کا موضوع بنے یہ دور وہ تھا کہ فرائڈ ہمارے یہاں نیا نیا دریافت ہوا تھا اور شعور ِ ذات کا چسکا نیا نیا پڑا تھا۔ جدید انقلابی دور میں جنسی ، اشتراکی اور معاشی فلسفے کا طرح طرح سے چرچا تھا ۔ مفتی نے نفسیات انسانی کو فرائیڈ اور اس کے معاصرین کے حوالے سے سمجھا اور اس دریافت کو اپنی سرزمین میں رائج کرنے کی ٹھانی ۔ یہ بڑاکٹھن کام تھا کہ نفسیاتی الجھنوں اور جنسی مسائل کو ادب کا موضوع بنانے میں یہ خطرہ ہوتا ہے کہ وہ مسئلے کہیں کیس ہسٹری بن کر رہیں جائیں۔ ادب کا موضوع بننے کے لیے ضروری ہے کہ نفسیاتی مسئلے کو ذہنی معالج کی آنکھ سے نہیں بلکہ احساس کی آنکھ سے دیکھا جائے اور پھرنفسیاتی مسئلے سے پیدا ہونے والے اثرات کو اس نظر سے دیکھا جائے کہ انہوںنے کردار کی تعمیر یا تخریب میں کیا رول ادا کیا؟ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ممتاز مفتی نے اردو افسانے میں نفسیاتی مسائل کو معالج کی آنکھ سے نہیں ادیب اور فنکار کی آنکھ سے دیکھنے کی کوشش کی اور اپنے کئی افسانوں کو ”کیس ہسٹری“ بننے سے بچا لیا۔بقول نصرت منیر شیخ
دفتروں کے بابو ، بستی کے مزدور ، فیکٹری میں کام کاج کرنے والے ، چھابڑی والے پان فروش ،سیٹھ اور نچلے درمیانے طبقے کے سبھی لوگ اپنے جنسیاتی ، نفسیاتی مسائل لے کر مفتی کے پاس آتے ہیں ۔ وہ انہیں دیکھتا ہے غور کرتا ہے اور ان کے دلوں کی دھڑکن کو لفظوں میں بند کر دیتا ہے ۔ یہ کردار بے خوف اپنے ذہن اور جسم کا بوجھ اتارتے ہیں۔ مفتی اس بوجھ کی کیفیات کو وضاحت سے بیان کرتا ہے ۔ جزئیات کی تفصیل سے اسے پرلطف اورپر کشش بناتا ہے ۔ لیکن اس فضا میں ان کی نفسیاتی الجھنیں ایک سطح پر محض نفسیاتی الجھنیں لگتی ہیں مگر دوسری سطح پر ان پر کہانی کا شبہ ہونے لگتا ہے۔“(۱
اردوافسانے میں نفسیات ، تحلیل نفسی ، لاشعور کے گورکھ دھندے کی اولین اینٹ رکھنے والے اس افسانہ نگار کو پڑھتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ کونسے محرکات تھے جن کی بدولت ان کے ہاں جنس اور نفسیات نے بنیادی حیثیت حاصل کی۔ اس لیے ان کے ذہنی ارتقاءاور تخلیق کے لاشعوری محرکات کو سمجھنے کے لیے ان کی ابتدائی زندگی کی طرف رجوع کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ کیونکہ اسی کے ذریعے سے ہم ان کا تحلیل نفسی کرکے ان کے لاشعور تک رسائی کو ممکن بنا سکتے ہیں۔ کسی بھی ادیب کی تحلیل نفسی میں خود نوشت سوانح عمری مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ذریعے سےہم ان عوامل کی نشاندہی کرسکتے ہیں جو کہ کسی بھی شخصیت کی تعمیر میںاہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ممتاز مفتی کے سوانحی ناول ”علی پور کا ایلی“ کے مطالعے سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کی زندگی میں جنس کی اہمیت کی بنیادی وجہ کیا تھی۔
ممتاز مفتی دراصل ایک ایسے بچے کی مکمل تصویر تھے جس پر بلوغت سے پہلے ہی بہت سے پردے اٹھا دئیے گئے تھے۔ باپ کے کرتوتوں کا اثر بچے کے معصوم ذہن پر بہت گہرا ہوتا ہے۔مفتی کا باپ گھاٹ گھاٹ کا پانی سب کے سا منے پینے والا شخص ہے ۔ جس کا کام ناقابلِ تسخیر قلعے تسخیر کرنا ہے۔ ممتاز مفتی چھوٹی عمر میں اپنے باپ کی رنگ رلیوں کا مشاہدہ کرتا ہے۔وہ دن جو کہ بچوں کے کھیلنے کے دن ہوتے ہیںان دنوں میں ممتاز مفتی پر ایک انجانی دنیا کے پردے کھلتے جاتے ہیں۔ اس طرح وقت کے ساتھ ساتھ جنس ان کے لاشعور کاایک ایسا جزو بن جاتا ہے جس سے ان کا چھٹکارا ناممکن نظرآتا ہے۔ یہی جنسیت آگے چل کر ان کے افسانوں کا موضوع بنتی ہے۔
ممتاز مفتی کے افسانوں میں نوخیز ، شرماتی لجاتی لڑکیوں کے کردار بہتات سے نہیں ملتے بلکہ ان کے ہاں زیادہ تر ایسی عورتوں کے کردار ہمیں نظرآتے ہیں جو کہ جیتی جاگتی ، جذبات سے لبریز جذبوں سے معمور ہوتی ہیں۔ جن کو بدمعاش عورتیں کہا جاتا ہے۔ اس کی وجہ بھی اس کے باپ کے معاشقے ہیں ۔ صفیہ ،خانم ، استانی،کورجتنی بھی عورتوں سے ان کے والد کا تعلق رہا ان میں سے زیادہ تر ایسی عورتیں تھیں جن میں یہ تمام خصوصیات موجود تھیں۔ ممتاز مفتی بھی ان سے متاثر ہوئے اور یہ پھر آگے چل کر لاشعوری طور پر ان کی تخلیق میں بھی یہی رنگ نظرآتا ہے۔ممتاز مفتی کا سادی سے دوری اور شہزاد کی طرف جھکاؤ بھی دراصل اسی سبب سے ہوا۔ بقول منشایاد
ممتاز مفتی جس عورت کو اپنے افسانوں میں لاتے ہیں وہ جیتی جاگتی ، جذبات سے لبریز جذبوں سے معمور ہوتی ہے اوراس کا رویہ نہایت فطری ہوتا ہے۔ ”پھر پتہ نہیں کیا ہوا رقت ختم ہو گئی دل میں اک جنون سا اٹھا کہ کسی کی ہو جاؤں کسی ایک کی تن من دھن سے اسی کی ہو جاؤں ہورہوں وہ آئے تواس کے جوتے اتاروں پنکھا کروں ، پاؤں دابوں ، سر میں تیل مالش کروں ، اس کے لیے پکاؤں ، میز لگاؤں ، برتن رکھوں ، اس کی بنیانیں دھوؤں ، کپڑے استری کروں آرسی کا کول بناؤں پھر سرہانے کھڑی رہوں کہ کب جاگے کب پانی مانگے۔“(۲
اسی طرح جن بچوں کو ماں کی محبت بچپن میں نہیں ملتی ان کے ہاں بھی بڑے ہوکر پختہ عمر عورتوں میں دلچسپی لینا ایک لازمی امر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شدید جنسی جنون رکھنے والے افراد کے خیال میں ان کے جنون کو اگر کوئی برداشت کر سکتا ہے ۔ یا ان کو ہر طرح سے کوئی مطمئن کر سکتا ہے تو وہ صرف بڑی عمر کی عورتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ ممتاز مفتی کے ہاں بھی کچھ ایسا ہی ہے اسے بچپن ہی سے ماں کی محبت نہ مل سکی۔ اس کے علاوہ اپنے باپ کی جنسی زندگی کا اثر بھی ایک شدید جنسی جذبے کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔ ایسے میں شہزاد جیسی عورت سے لگاؤ اور اس سے شادی کرنا کسی بھی اچھنبے یا حیرانگی کی بات نہیں ہے۔
اسی طرح ممتاز مفتی کو ہمیشہ سے اپنے باپ سے نفرت رہی ۔ جب کہ اس کے مقابلے میں وہ اپنی ماں سے شدید محبت کرتا تھا۔ باپ سے نفرت کی وجہ اس کا اپنے بیٹے سے خراب رویہ بھی ہوسکتا ہے لیکن یہاں پر ایڈی پس کمپلیکس کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
ممتاز مفتی شکل و صورت اور جسمانی ڈیل ڈول کے حوالے سے ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہے۔ پچپن ہی سے ان میں یہ احساس کمتری شدیدتر تھا۔ جس کے سبب ابتداءمیں وہ صنف نازک کے قرب سے بھی محروم رہے۔ لیکن بعد میں یہی احساس کمتری کچھ اس طرح سے احساس برتری میں تبدیل ہواکہ اس نے شہزاد جیسی عورت جو کہ کئی بچوں کی ماں تھی اس کو اپنے ساتھ بھگا لے جانے میں بھی کوئی جھجھک محسوس نہیں کی ۔ کیوں کہ وہ دکھانا چاہتا تھا کہ مجھ جیسے مرد میں بھی اتنی کشش ضرور موجود ہے کہ ایک خوبصورت اور شادی شدہ عورت بھی میری گروید ہو سکتی ہے اور میری خاطر اپنا گھر بار چھوڑ سکتی ہے۔ یوں عورت اور اس کی نفسیات کو اپنا موضوع بنانا بھی ان کی اسی احساسِ کمتری کا شاخسانہ نظرآتا ہے۔ یعنی ذکر عیش بھی نصف عیش کے برابر تصور کیا جاتا ہے۔ جس چیز کا حصول ممکن نہیں کم از کم اس کے ذکر سے ہی لوگوں کو یہ باور کرا دینا کہ عام سی شکل و صورت کے باجود میں اس صنف کو بہت نزدیک سے جانتا ہوں۔
انسان کی اپنی کچھ جبلتیں ہیں جن کو تہذیب اورتمدن نے لاشعور کا حصہ بنا دیا ہے۔ ممتاز مفتی کے ہاں بھی جب جنس کی جبلت سر اٹھاتی ہے تو اسے ایک طرف معاشرہ اوردوسری طرف اس کا اپنا باپ دبانے کی کوشش کرتا ہے۔ جس کا شدید ردعمل ہوتا ہے۔ اس طرح سے اس کے ذہن میں معاشرے او راس کی روایات سے بغاوت کا عنصرپیدا ہوتاہے۔ جو کہ ان کی زندگی اور تخلیق دونوں میں نمایاں ہے۔ کئی بچوںکی ماں کو بھگا کر لے جانا معاشرے اور روایت سے بغاوت نہیں تو اور کیا ہے۔ اس طرح سے جنس جیسے ممنوعہ موضوع کو اپنی تخلیق کا حصہ بنانا بھی معاشرے سے بغاوت ہے۔ اسی طرح عام مذہبی سوچ سے بغاوت کرکے خانہ کعبہ کا کوٹھا کہہ دینا۔ یہ سب وہ حوالے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ بچپن میں ان کی جبلتوں کے راستے میں جو بھی رکاوٹ آئی اس کے ردعمل کے طور ان میں عام روش سے ہٹ کر چلنے اور معاشرتی اور روایتی اقدار سے روگردانی اور بغاوت کا رویہ ملتا ہے۔
ممتاز مفتی کو ماں اور باپ دونوں کا پیار نہ مل سکتا۔ جس کے وجہ سے وہ احساس کمتری کا شکار ہوئے اور یہی احساس کمتری آخر تک ان کا پیچھا کرتی رہی ۔اپنی سوانح میں انہوں نے کئی جگہوں پر اس کا اظہار کیا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف یہ تھا کہ لوگ انکے ساتھ ہمدردی کریں ۔کیونکہ جن لوگوں کو ماں پاپ کا پیار نہیں ملتا وہ دوسروں کی تسلی ، محبت اور حوصلے کے زیر اثر زندگی گزارنا چاہتے ہیں۔ بقول آغا بابر
”بچپن کمزور گزرے تو یہ کمزوری پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ باپ کا پیار نہ ملے ۔ ماں دکھیا ہو ۔ یہ بھجاوے عمر بھر کا روگ بن جاتے ہیں۔ پیار سے ترسے ہوئے لوگ کس کس طرح سے پیار کا ایک حرف تمنا سننے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ ایک ذراسی شاباشی کے لیے تن من لٹائے دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی رات رات بھر جاگتا اور لکھتا پھر بھی وہ اندر والا راضی نہ ہوتا تھا کہ میں وہ ہوں جس کو آپ نے کبھی اچھا نہ جانا ۔ میں وہ ہوں جس کے باپ نے میری ماں سے اچھا سلوک نہ کیا۔“(۳
اس کے علاوہ جن بچوں کو والدین کا پیار نہیں ملتا اوربچپن میں ان کی بات کو اہمیت نہیں دی جاتی ۔ بڑے ہو کر ایسے بچے اپنے آپ کو منوانے اور اپنی اہمیت جتانے کے لیے اپنے آپ کو دوسروں سے منفرد بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ممتاز مفتی کا بچپن چونکہ اس طرح سے گزرا ہے کہ والدین کی طرف سے انھیں وہ اہمیت اور توجہ نہیں ملی جس کے وہ حقدار تھے۔ اس لیے آگے چل کر ان کے ہاں ایک انفرادی سوچ اور اپنی اہمیت دوسروں پر ثابت کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ خواہ یہ انفرادیت قدرت اللہ شہاب کو صوفی بنانے کے حوالے سے ہو یا خانہ کعبہ کو کوٹھا کہنے کے حوالے سے ہو وہ کسی نہ کسی طرح سب سے الگ اورمختلف بات کرکے لوگوں کی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہی توجہ جس سے بچپن میں وہ محروم رہے ہیں۔وہ ایسی بات کر تے تھے کہ لوگ سن کر ٹھٹھک جائیں۔ اس قسم کے لوگ ہمیشہ اپنی اہمیت جتا کر پاپولر بننے کی شدید خواہش بھی رکھتے ہیں۔ ان کی شخصیت کے اس رخ کے بارے میں آغا بابر لکھتے ہیں
ان کو عمر بھر پاپولر بننے کا بڑا شوق رہا ۔ عمر بھر باپو بنتے اور باپو کہلائے جانے کی ازحد تمنا رہی۔ ایسا باپو جو گاندھی کی طرح خوبصورت خوبرو لڑکیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کرچلے ۔ چاروں اوٹ مہاتما کی طرح نصیحتیں بکھیرتا پھرے۔ چاروں طرف سے پرنامیں سمیٹتا چلے۔ لوگ پاؤں چھوئیں ۔ مشورے مانگیں مشکلوں کا حل پوچھنے آئیں۔ بیبیاں آئیں۔ بے بے آئیں۔ بابے آئیں ۔ ان کو اس طرح مزہ آتا تھا۔ ان کے اندر کی خشکی دور ہوتی تھی ۔ ان کو لذت ملتی تھی ۔ رہابشکیں یہ ادیب بھی کتنے سرے بے سرے سنبھلے بے سنبھلے ہوتے ہیں۔ بخشیں کو جان بوجھ کر بشکیں لکھنے میں مجھے مزہ آرہا ہے۔ مفتی صاحب نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ بات ایسی کرو کہ سننے والا ٹھٹھک جائے ۔ کسی لڑکی کو طلاق ہو جاتی تو کہتے ”چل اچھا ہوا ۔ شکر ہے اس بیہودہ آدمی سے چھٹکارا ملا۔ تو فکر نہ کر ۔ فکر کرے تو اللہ کرے ۔ توکیوں کرے۔“(۴)
ممتاز مفتی ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے استاد کے بیٹے تھے۔ ایسے طبقے کے لاشعور میں آگے بڑھنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔ متوسط طبقے کے لوگ اعلیٰ طبقے یعنی اشرافیہ میں شمولیت کے لیے کوئی بھی قیمت دینے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ممتاز مفتی کا قدرت اللہ شہاب کی طرف جھکاؤ بھی اسی نفسیاتی نکتے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ جس کے لیے خود مفتی نے جنسی کے موضوع سے ہٹ کر تصوف کا چولا پہنا۔ بقول آغا بابر
اس وقت کے ہندوستان کے تمدن میں صرف ایک با مرتبہ افسر سب کا مائی باپ تھا۔ جس گھر میں کوئی افسرانہ خو بو نہ ہوئی ، جس گھر میں کوئی با مرتبہ افسر نہ ہوا ، جس گھر میں سرکاری عہدے کی رس جس نہ ہوتی وہ گھر عام نگاہوں میں ”ایویں “ ہی سمجھا جاتا تھا۔ مفتی صاحب کا گھرانہ افسرانہ خو بو سے خالی تھا۔ باپ صرف اسکول ماسٹر اور پھر کثیر الاولاد ۔ باپ کی مخالفت اور انتقام کا جذبہ مفتی صاحب کے اندر بچپن سے پرورش پانے لگاتھا۔ ایک دن سول سروس کے افسر شہاب صاحب مفتی صاحب سے ملے تو بڑی عزت سے ملے ۔ کہاں میں کہاں یہ مقام اللہ اللہ ۔ شہاب کا سروس کے عہدے اور مرتبے کی نسبت سے صاحب بہادروں میں شماری سرکاری حلقوں میں بہادری کا روپ تولا تو اندر سے پولا ۔ کان پر قلم رکھنے والا کلف لگا منشی ۔ اندر قدرت الٰہی کی وہی تقسیم سر میں بکھیڑا دل رنگین ، ادھر کی چاش ادھر کی جھونک۔ نرم نرم گھیگھلا گھیگھلا پھولا پھولا قدرت اللہ شہاب گدگداسا ایک جاپانی باوا۔ محبت کرنے والی اپنائیت میں رچا ہوا ، مفتی صاحب نے باپ کا متبادل بنانے میں قطعاً دیر نہ کی۔۔۔جس گھر میں کوئی افسرانہ خو بو نہ ہو جہاں کوئی با مرتبہ افسر نہ ہو وہ گھر سونا سونا ہوتا ہے۔ صدر ایوب خاں کا دست راست ان کی مصاحبت مدام کا افسر اعلیٰ جب ان کے گھر میں اجلال فرماتا تو کمرے خوشبوؤں سے گھر جاتے ۔ اللہ میاں کا بھیجا غنی باپ جدھر سے گزرتا نگہت گل اس کے استقبال کو پہلے پہنچی ہوتی ۔“(۵
اردو کے ایک بڑے افسانہ نگار کی حیثیت سے ممتاز مفتی کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ کوئی بھی بڑا تخلیق کار ہو اس میں ابنارملٹی کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے۔ ممتاز مفتی کی شخصیت اور نفسیات کا مطالعہ کرنے سے ہمیں ان کی شخصیت میں ابنارملٹی کا بھی پتہ چلتا ہے۔
حوالہ جات
۱۔نصرت منیر مضمون مفتی کے افسانے مشمولہ ماہنامہ سپوتنک ممتاز مفتی ایک مطالعہ جنوری 2005
۲۔منشایاد مضمون ممتاز مفتی بحیثیت افسانہ نگار مشمولہ ماہنامہ سپوتنک جنوری2005ء
۳۔آغا بابر مضمون ممتاز مفتی مشمولہ سپوتنک لاہور جنوری2005
۴۔ایضاً
۵۔ایضاً
Facebook Comments
یہ جو حوالہ جات ہیں یہ کتا ہیں ہیں آ پ کے پاس pdfمیں اگر ہیں تو بڑی مہر با نی اس نمبر پر بھیج دیں