مشعال خان، سیکیولرازم اور ملائیت

مشعال خان کے سفاکانہ قتل کے بعد سے اگر، مگر، چونکہ، چنانچہ کر کے اس کے قتل کو ڈھکے چھپے انداز سے جائز قرار دینے والوں کی جانب سے متواتر یہ کہا جا رہا ہے کہ مشعال خان کا قتل کرنے والے کسی مدرسے کے نہیں بلکہ ایک “سیکیولر” یونیورسٹی کے طلباء تھے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسلمان شانِ رسالت کے معاملے میں بہت حساس ہیں۔ اس بات کا مطلب کیا ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ مشعال کے وحشیانہ قتل میں ملوث طلباء “سیکیولر” تھے اور تویین رسالت کے معاملے پر “سیکیولر” اور “غیر سیکیولر” مسلمانوں کے جذبات اور ردعمل ایک جیسے ہوتے ہیں؟
کسی مدرسے کے بارے میں ایسا واقعہ کیوں سننے میں نہیں آتا جس میں کسی طالبِ علم پر توہینِ رسالت کا الزام لگا ہو اور اسے مورائے عدالت بیدردی سے قتل کیا گیا ہو؟ ایسا کوئی واقعہ تو معلوم نہیں البتہ یہ ضرور ہوا کہ ایک ملاء پر توہین کا الزام لگا اور اس کی پٹائی ہوئی تو دوسرا ملاء روتے ہوئے اس کی گستاخی کو معاف کرنے کی درخواست کرتا پایا گیا۔ ہر سیکیولر اور بہت سے لبرلوں نے گستاخی کے ملزم ملاء پر تشدد کی مذمت کی تھی۔ مشعال کے معاملے میں بہت سے روش خیال اور ترقی پسند مسلمانوں نے اس کے بہیمانہ قتل کی شدید ترین مذمت کی اور قاتلوں کو سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ اور تو اور بہت سے ملاؤں نے بھی جن سے اس بات کی توقع بالکل نہ تھی، عوامی غیض و غضب سے گھبرا کر اس قتل کی مذمت کی اور کہا کہ توہینِ رسالت کے تحت کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ تو کیا یہ مسلمان مسلمان نہیں اور توہین رسالت کے حوالے سے جذبات و احساسات نہیں رکھتے؟ کیا ان کا نکاح بھی اسی طرح “فسخ” ہو چکا ہے جس طرح مشعال کے جنازے میں شریک ہونے والے مسلمانوں کا نکاح مقامی ملاء نے فتوی دے کر فسخ کردیا تھا؟
بات یہ ہے کہ کوئی بھی مسلمان یا کسی مدرسے کا طالبِ علم اپنی تعلیم و تربیت کے سبب تویینِ رسالت کے ارتکاب کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی تعلیم گاہ “سیکیولر” ہو، اپنے طلباء کو سیکیولر تعلیم و تربیت دیتی ہو اور وہاں کے طالبِ علم بھی واقعی سیکیولر ہوں تو یہ ممکن نہیں کہ وہ توہینِ رسالت کی محض ایک افواہ پر کسی طالبِ علم کو درندوں کی طرح سفاکی سے قتل کر کے اس کی لاش کی بے حرمتی کریں۔ یہ عمل سیکیولر اقدار و رویے کے ہی منافی ہے۔ مشعال خان کا قتل خود اس بات کے کھوکھلے پن کا ثبوت ہے کہ ولی خان یونیورسٹی ایک سیکیولر تعلیم گاہ ہے اور اس کے طلباء سیکیولر ہیں۔
ولی خان یونیورسٹی بھلے ہی ایک تعلیمی ادارے کے طور پر اپنے مقاصد میں بظاہر سیکیولر ہو لیکن وہاں تعلیم حاصل کرنے والے بہت سے طلباء غیر سیکیولر اور انتہا پسندی اور شدت پسندی میں مبتلا ہیں۔ کیا کسی مدرسے کے طالبِ علم کو مدرسے میں مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ سیکیولر رہنے یا سیکیولر خیالات کا اظہار کرنے کی اجازت ہے؟ ولی خان یونیورسٹی اس لحاظ سے تو کسی مدرسے سے ممتاز ٹہرتی ہے کہ ایک سیکیولر تعلیمی ادارہ ہونے کے باوجود وہاں مذہبی عقائد رکھنے کی آزادی ہے۔ ملائیت بھلے اس جھوٹ کا پرچار کرے کہ سیکیولرازم کا مطلب دین و مذہب کی مخالفت ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ سیکیولرازم ہر شخص کے مذہبی حقوق اور مذہبی عقائد کی آزادی کو تسلیم کرتا ہے۔ مشعال کے قتل سے یہ واضح ہے کہ اس “سیکیولر” تعلیم گاہ کوایسے مدرسے میں بدل دیا گیا ہے جہاں سیکیولر خیالات رکھنے اور ان کا اظہار کرنے کی سزا موت ہے۔
مذہبی انتہا پسندی کے زریعے ہونے والے اس قتل کو سیکیولرازم کے کھاتے میں ڈالنے کی یا مذہبی انتہا پسند قاتلوں کو “سیکیولر” ثابت کرنے کے لیے یہ ملائیت ذدہ منافقانہ ذہنیت کی ایک نہایت بھونڈی کوشش ہے۔ مشعال خان کے سفاکانہ قتل نے معاشرے کے لیے ملائیت کے خطرناک نتائج اور سیکیولرازم کی شدید ضرورت کو بالکل واضح کر دیا ہے۔

Facebook Comments

شاداب مرتضی
قاری اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply