اخروٹ، ایجبسٹن سے ڈی چوک تک۔۔شکور پٹھان

کالج کا پہلا سال تھا۔ امتحان کی تیاری زور وں  پر تھی کہ ہماری کرکٹ ٹیم انگلستان جا پہنچی۔ زندگی میں جو مسائل خود پیدا کردہ ہیں اس میں کرکٹ کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے۔ بھلا کرکٹ ہورہی ہو اور وہ بھی انگلینڈ کے خلاف ، انگلینڈ میں، جسے ہمیشہ ایک خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ ایسے میں بھلا پڑھائی کی طرف دھیان کیسے دیا جائے۔
سونے پر سہاگہ یہ کہ اپنے کراچی کا ایک دبلا پتلا، معنّک نوجوان جو بیٹنگ کریز پر آیا تو جانے کا نام ہی نہ لیتا تھا۔ اپنے دوسرے ہی میچ میں اور انگلستان کے خلاف پہلے میچ میں پچاس رنز، پھر سو رنز، پھر ڈیڑھ سو، پھر دو سو، ہوتے ہوتے اس نوجوان نے ۲۷۴ رنز بناڈالے۔ اس بہتی گنگا میں مشتاْق محمد اور آصف اقبال جیسے کھلاڑیوں نے بھی ہاتھ دھوئےاور سنچریاں بناڈالیں۔ لیکن ہر زبان پر چرچا صرف اس چشمہ پہنے ہوئے نوجوان کا تھا جس کا نام ۔ظہیر عباس تھا۔ اس نوجوان نے آتے ہی دنیا کو بتادیا کہ ظہیر عباس ہونا کیا معنی رکھتا ہے۔
اسی ٹیم میں ایک انیس سالہ خوبصورت سا نوجوان بالر بھی تھا۔ لیکن ظہیر کے چراغ کے سامنے سارے ستارے دھندلاگئے تھے۔ظہیر کے علاوہ اس میچ کی یاد اگر ہے تو وسیم باری کے وہ کیچز ہیں جو انہوں نے چیتے کی طرح لپک اور جھپٹ کر پہلی اور دوسری سلپ کے درمیان لیے۔ آصف مسعود کی نو وکٹیں بھی لوگوں کو یاد رہیں۔ رہا یہ نوجوان تو اس کی کارکردگی بھی ایسی نہیں تھی کہ کوئی توجہ دیتا۔ کریلا اور اوپر سے نیم چڑھا، یہ نوجوان ٹیم میں شامل سینئیر کھلاڑی ماجد خان اور ایک سابق کپتان اور بااثر کھلاڑی جاوید برکی کا عم زاد بھی تھا۔ کہنے والوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے۔ ایک تو بری کارکردگی پھر سینیر کھلاڑیوں سے رشتہ داری۔ یہ خبر عام ہوگئی کہ یہ سفارشی کھلاڑی ہے۔
ایجبسٹن ٹسٹ کا غیر اہم کھلاڑی جس کی ٹیم میں موجودگی کا کسی نے بھی نوٹس نہیں لیا۔

1974 میں پاکستان نے دوبارہ انگلستان کا دورہ کیا۔ پہلے ٹیسٹ میچ میں ٹیم بیٹنگ کررہی تھی۔ پلئیرز گیلری میں ایک چھوٹی چھوٹی سی آنکھوں والا انگریز نما نوجوان نظر آرہا تھا۔ ہم ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ میرے ایک دوست نے بتایا کہ اس کا نام عمران خان ہے۔ یاد آیا کہ یہ پہلے بھی ایک بار پاکستان ٹیم کے ساتھ تھا۔ یہ نوجوان آکسفورڈ میں تعلیم حاصل کررہا تھا اور اس کی ٹیم میں نمایاں کارنامے انجام دے رہا تھا۔ اسے بھی پاکستانی ٹیم میں شامل کیا گیا تھا۔ ساتویں آٹھویں نمبر پر بیٹنگ کرتے ہوئے اس نے پچیس تیس رنز تو بنائے لیکن بالنگ میں کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ اور آصف مسعود،سرفراز نواز جیسے بلند قامت اور مردانہ وجاہت کے حامل بالرز کی موجودگی میں بھلا کون اس نوخیز لڑکے پر توجہ دیتا۔
پھر کچھ عرصہ کے لئے میرا کرکٹ ہی کیا ملکی حالات و واقعات سے رابطہ ہی ٹوٹ گیا۔ میں تلاش روزگار میں پردیس چلا گیا۔ ان دنوں آج کی طرح  ذرائع ابلاغ کی فروانی نہیں تھی۔ پاکستانی اخبارات بھی ایک ہفتہ پرانے ملتے۔ ریڈیو سننے کی فرصت نہ ہوتی۔ ٹی وی پر کوئی خبر نہ ہوتی البتہ کوئی بڑی خبر جو عموماً بری خبر ثابت ہوتی وہ کبھی کبھار سننے  کو مل جاتی، جیسے میں نے بحرین ٹی وی پر پاکستان سے متعلق پہلی خبر، ضیاءالحق کے مارشل لاء نافذ کرنے کی دیکھی۔
لیکن جنہیں دلچسپی ہوتی وہ اپنے متعلقہ شعبے کی خبروں سے باخبر رہتے۔ ایسے ہی کرکٹ کے شوقین ایک دوست نے یہ خبر دی کہ سڈنی میں پاکستان نے آسٹریلیا کو شکست دیدی اور یہ کہ آسٹریلیا کی تباہی میں عمران خان کی بارہ وکٹوں کا کمال تھا۔ یہ شاید ۱۹۷۷ کی بات تھی۔
اور شاید یہیں سے پاکستانی ٹیم کو سنجیدگی سے لیا جانے لگا۔ ویسٹ انڈیز اور آسٹریلیا کے بعد پاکستان کو تیسری مضبوط ترین ٹیم مانا جانے لگا۔
ظہیر، ماجد، صادق، مشتاق، میانداد، آصف اقبال وسیم راجہ جیسے بیٹسمین۔ عمران، سرفراز، اقبال قاسم جیسے بولر اور وسیم باری جیسا وکٹ کیپر ،، یہ سب کسی بھی ٹیم سے کسی درجہ کم نہ تھے۔

اسی دوران ہمارے روایتی حریف بھارت نے سترہ اٹھارہ سال کے بعد پاکستان کا دورہ کیا۔ میں ان دنوں سعودی عرب میں ہوا کررہا تھا۔ یاد پڑتا ہے ایک فیصلہ کن مرحلہ پر عمران خان کی بولنگ اتنی جارحانہ اور تہلکہ خیز تھی کہ کمنٹری باکس میں بیٹھے ہوئے لالہ امرناتھ اور عمر قریشی کو مشہور زمانہ محمد نثار کی یاد آرہی تھی اور دونوں کا اس پر اتفاق تھا کہ عمران اس وقت نثار سے بھی تیز گیند کرا رہا ہے۔ اور جب بھارتی کھلاڑی مہندر امرناتھ آؤٹ ہو کر پویلین واپس لوٹے تو لالہ امرناتھ جی نے سکھ کا سانس لیا۔ مہندر ، لالہ جی کا بیٹا تھا اور اس وقت لالہ جی اسے کھلاڑی نہیں بلکہ بیٹے کی نظر سے دیکھ رہے تھے جو صحیح سلامت واپس آگیا تھا۔ لالہ امرناتھ نے اس کا برملا اظہار کمنٹری میں کیا تھا۔
اور اب عمران کا دور شروع ہوگیا تھا جس نے اپنی تیز رفتار ی اور مہارت سے دنیا کی مضبوط ترین بیٹنگ لائن   کے پرخچے اڑا دیے  تھے۔ جہاں کہیں وہ کھیلتا تماشائیوں کا محبوب ہوتا۔ کھیل کے شوقین تو اس کے کھیل کی وجہ سے اسے پسند کرتے تھے۔ وہ صرف گیندبازی ہی نہیں بلکہ ایک جارحانہ بلے باز اور آل راؤنڈر کی حیثیت سے مشہور ہورہا تھا۔ اس دور میں نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی، انگلستان کے آئن بو تھم اور بھارت کے کپیل دیو کے نام کے ڈنکے بج رہے تھے لیکن جب کبھی یہ عمران کے مدمقابل ہوئے، ان میں سے کوئی بھی اس کا مقابلہ نہ کرسکا۔ عمران تماشائیوں اور شائقین کے دلوں کی دھڑکن تھا۔ صنف نازک تو اس پر صدقے واری جاتیں۔

پاکستان نے آصف اقبال کی قیادت میں بھارت کا جوابی دورہ کیا اور حسب توقع یہ اتنا کامیاب دورہ نہیں تھا۔ اور جب ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ ہو تو جتنے منہ اتنی باتیں ہوتی ہیں۔ چند ایک میچوں میں خراب فیلڈنگ پر طنز کرتے ہوئے ہمارے ملک کے مشہور کمپئر انور مقصود نے چوٹ کی کہ ہمارے کھلاڑی میچ کے دوران دن میں کیچ ‘ مس’ کرتے ہیں اور رات کو پارٹیوں میں ‘ مس’ کو کیچ کرتے ہیں۔ یہ بات عمران پر درست ثابت نہیں ہوتی ۔ اسے تو ‘ مسیں ‘ کیچ کرتی تھیں۔ کبھی سنا کہ  زینت امان اس پر لٹو ہوگئی ہے تو کبھی سننے میں آتا کہ ریکھااس پر دل ہار بیٹھی ہے۔
آکسفورڈ کی تعلیم اور کاؤنٹی کرکٹ کے دوران اس کی رہائش انگلستان میں رہتی تھی۔ پھر وہ پاکستان کا کپتان بھی بن گیا۔ کاؤنٹی کرکٹ کا ہردلعزیز کھلاڑی تو وہ تھا ہی اور اسکے حلقہ احباب میں انگلستان کی اشرافیہ بھی شامل تھی اور کئی مشہور خواتین کے ساتھ اس کے قصے مشہور ہوئے جن میں مشہور مصورہ ایماسرجنٹ، متمول سوشیلائٹ سیتا وائٹ جیسی خواتین کے نام سننے میں آتے۔ وہ شہزادی ڈائنا کے ذاتی دوستوں میں شامل تھا۔ یہ بھی سنا کہ مشہور گھڑ دوڑ ‘ ڈربی’ کے دوران ایک مرتبہ شاہی خیمے میں داخل ہوتے ہوئے اس کے سر سے ریس کورس کے تماشائیوں کا مخصوص ہیٹ گر گیا تو شہزادی ڈائنا نے جھک کر وہ ہیٹ اٹھا کر اس کے حوالے کیا۔
بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اس میں شک نہیں کہ وہ ہر طبقے کی خواتین کے خوابوں کا شہزادہ تھا۔

یاد پڑتا ہے ان دنوں مشہور فیشن میگزین ” ووگ”(Vogue) نے مردوں کے سامان زیبائش کے لئے خصوصی شمارہ شائع کیا جس کے سرورق پر عمران خان کی ایک نہایت ہی خوبصورت تصویر تھی۔ اندر کے صفحات میں باکسر محمد علی، تیراک مارک اسپٹز، باسکٹ بال کے کھلاڑی کریم عبدالجبار وغیرہ کی تصویریں تھیں۔
اس کے دل میں جو بات سماجاتی پھر وہ اسے پورا کرنے کے لئے اپنی جان ایک کردیتا۔ اس کی خواہش تھی کی انگلستان کو انگلستان میں اور بھارت کو اس کی اپنی سرزمین پر شکست دے۔ اور اس نے یہ سب کر دکھایا۔
قدرت بہت کم لوگوں پر اس طرح اپنی فیاضی نچھاور کرتی ہے۔ عمران خان ایک کھاتے پیتے گھرانے کا چشم وچراغ تھا۔ ایچیسن کالج اور آکسفورڈ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ، شکل وصورت اور وجاہت میں قدرت کی صناعی کا شاہکار اور سب سے بڑھ کر اپنے شعبے میں بے انتہا کامیاب۔
صورت، دولت، شہرت ، عزت کیا نہیں تھا جو اسے ملا اور خوب ملا۔ اس پر وہ کبھی اتراتا نہیں تھا لیکن طبعا” شرمیلا اور کم گو تھا جسے لوگ اس کے مغرور مزاجی پر محمول کرتے۔یہ ساری صفات شاید اسے ایک مشہور پلے بوائے اور دل پھینک سوشیلائٹ میں تبدیل کر دیتیں۔ لیکن قدرت نے اس کے لئے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔

وہ شاید یونہی فتوحات سمیٹتا اور شہرت کماتا رہتا اور اسے زندگی میں کسی کمی کا احساس نہ ہوتا کہ تقدیر نے اسے اپنی زندگی کے پہلے بڑے دکھ سے روشناس کرایا۔ اس کی ماں کینسر کی موذی بیماری کا شکار ہوکر اس دنیا سے چل بسیں۔
اور یہاں سے ایک نئے عمران خان کا جنم ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ دنیا کی ہر نعمت میسر ہونے کے باوجود میری ماں کے علاج کے لئے اس ملک میں کچھ نہیں تھا۔ تو وہ جن کے پاس کچھ نہیں ہے وہ کس قدر بے بس ہوتے ہوں گے۔
اور اس طرح وہی سوچتے ہیں جن کے دل سونے کے ہوتے ہیں ، جنھیں قدرت کچھ خاص کاموں کے لئے چن لیتی ہے۔ اس نے فیصلہ کرلیا کہ میرے ملک کی دوسری مائیں اور کینسر کے مریض اس بے کسی اور بے بسی کا شکار نہیں ہوں گے۔ اس نے کینسر کے علاج کے لئے ایک مثالی ہسپتال بنانے کا فیصلہ کرلیا۔
اس کا دل و دماغ اب صرف ایک ہی بات سوچتا کہ یہ اسپتال کیسے تعمیرہو۔ نیت صاف ہو تو منزل آسان ہوتی ہے اور جو کمر ہمت باندھ لیتے ہیں ان کے لئے راستے خود بخود کھلتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا خلوص ، اپنے مقصد سے لگن روز روشن کی طرح واضح تھا۔ نہ صرف حکومت وقت، قوم، ساتھی کھلاڑیوں نے بلکہ دنیا بھر کے لوگوں نے اس کا ساتھ دیا کیونکہ انہیں اس کی لگن اور دیانت کا یقین تھا۔ اسے کسی بھی میچ میں کوئی انعام ملتا وہ اسے اسپتال کے فنڈ میں ڈال دیتا۔ دنیا بھر میں کانسرٹ، اسپیشل ڈنر، ثقافتی شوز، غرضیکہ ہر طریقہ اپنایا جس سے اس کام کے لئے پیسہ مل سکے۔ لوگوں کے سامنے زکواة، خیرات اور عطیات کے لئے ہاتھ پھیلائے۔ اس کے ساتھی کھلاڑیوں ، فنکاروں اور سماجی شخصیات نے اس کا بھر پور ساتھ دیا۔ کبھی نصرت فتح علی اس کے ساتھ یورپ اور امریکہ کا دورہ کرتے۔ کبھی دلیپ کمار اس کے  لئے پاکستان آتے، کبھی ملکہ ترنم نورجہاں اور بھارتی فنکار مل کر اس کے لئےشوز کرتے تو کبھی لندن میں امیتابھ بچن لوگوں سے مدد کی اپیل کرتے۔ اور یہ سب اس کی سحرانگیز شخصیت کا کرشمہ تھا۔ اب اس کے دل و دماغ پر کوئی چیز تھی تو وہ یہ اسپتال تھا۔

اس دوران آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ میں کرکٹ کے عالمی مقابلے کا میلہ سجا۔ عمران ایک اوسط درجے کی ٹیم لے کر میدان میں اترا۔ اس کا سب سے بڑا اثاثہ یعنی وسیم اور وقار کی جوڑی نامکمل تھی۔ وقار زخمی تھا، اسی طرح عامر سہیل اور سعید انور کی کامیاب جوڑی بھی سعید انور کی غیر موجودگی کی وجہ سے نامکمل تھی۔ اس کی ٹیم کی ریڑھ کی ہڈی ، جاوید میانداد عالمی کپ میں شامل ہونے والا آخری کھلاڑی تھا جو ایک زخمی کمر لئے ہوئے عمران کے شانہ بشانہ لڑ رہا تھا اور خود عمران درد رفع کرنے کے انجیکشن لے رہا تھا۔
ابتدا ہی سے کئی دھچکوں کا سامنا کرنے کے باوجود ٹیم فائنل میں پہنچ گئی۔ نیوزی لینڈ جس نے سیمی فائنل میں ہم سے شکست کھائی تھی اس کے کپتان مارٹن کرو نے کہا کہ عمران کرکٹ نہیں کھیل رہا، ایک مقصد کے لئے جہاد کررہا ہے اور اسے اب کوئی نہیں روک سکتا۔ اور آخری مقابلے میں جس طرح عمران ، جاوید کے ساتھ بیٹنگ کررہا تھا تو یوں لگتا تھا کہ وہ اپنی زندگی کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اللہ نے اس کے جذبے کو سرخرو کیا۔
تمام ٹیم جشن منا رہی تھی۔ آنے والے دنوں کے خواب دیکھ رہی تھی جہاں انعام واکرام ان کے منتظر تھے۔ وہ اپنے گھر بنتے دیکھ رہے تھے، کہ عمران فتح کا انعام، ورلڈ کپ لینے اسٹیج پر پہنچا۔ یہ فتح پوری ٹیم کی جیت تھی۔ اس میں وسیم اکرم، انضمام، عامر سہیل، اعجاز احمد، عاقب جاوید، مشتاق احمد اور دوسروں نے بھی برابر کا حصہ ڈالا تھا۔
کپتان خان کے دل و دماغ  پر لیکن صرف اور صرف اس کا اسپتال تھا۔ فتح کی تقریر میں اس نے اپنی ٹیم کے ایک بھی کھلاڑی کا ذکر نہیں کیا. اس نے اسپتال کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کی. یہاں سے اس کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ابھر کر سامنے آیا کہ اس کا ذہن جب ایک چیز کے بارے میں سوچتا ہے توآس پاس کی ساری کھڑکیاں بند کردیتاہے. اس ریل کی مانند جو صرف ایک ہی پٹڑی پر چلتی ہے.

عالمی کپ اس کے سفر کی ابتدا تھی. اس نے کھیل کو خیرباد کہا اور تن من سے اپنے اسپتال کے مشن میں جت گیا اور آخر ایک دن اس نے اپنے خواب کی تعبیر پا ہی لی.
یہاں وہ زندگی کے ایک اور رخ سے آشنا ہوا.
اسے اپنے لوگوں میں ایک واضح طبقاتی فرق نظر آیا. اسـکے اسپتال کے لیے غریب، مزدور، اور پچھڑے ہوئے لوگوں نے بھی دل وجان سے مدد کی. لیکن ان بےچاروں کا کوئی پرسان حال نہیں. ملک چلانے میں ان کا کوئی کردار نہیں. قانون اور انصاف صرف بالائی طبقوں کے لیے تھا. غریب کے لیے اس ملک میں کچھ نہیں.
ان کی مدد کرنا چاہیے. ایک ہسپتال یا ایک تعلیمی ادارہ بنانے سے ان کی قسمت نہیں بدل سکتی. اس گلے سڑے نظام کو بدلنا چاہیے جہاں’جاگیردار، وڈیرے اور خائن اور لٹیری اشرافیہ باری بدل بدل کر اس ملک اور عوام کا خون چوستے ہیں. بظاہر یہ دائیں اور بائیں میں بٹے ہوئے لیکن یہ سب ایک ہی نسل کے لوگ ہیں. صرف نمبروں کا فرق ہوتا ہے اور یہ کبھی قاف،  کبھی پ اور کبھی نون کے نام سے حکومت کرتےہیں. اور اس دوران جس قدر نوچ کھسوٹ کرسکتے ہیں، کرکے، پردیس جا بیٹھتے ہیں جہاں ان کی اصل نال گڑی ہوئی ہے. جہاں ان کی اور ان کی اولادوں کی جائیدادیں ہیں اور جہاں سے کبھی کبھار حکومت کرنے یہ پاکستان بھی آتے رہتے ہیں.
یوں لگتا تھا قوم کو ان کو بھگتنے کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہے اور یہ پیر تسمہ پا بنے ہمیشہ ہمارے سروں پر سوار رہیں گے۔ان کا علاج انہی کے شعبے میں داخل ہو کر کیا جا سکتا ہے۔

اس نے سیاست میں داخل ہونے کا فیصلہ کر لیا۔ یہ ایک پر خطر راہ تھی۔ کوئلوں کی اس دلالی میں ہاتھوں کا اجلا رکھنا آسان نہیں۔ یہاں ایک تنی ہوئی  رسی پر چلنا ہے جس کے نیچے گہری کھائی ہے۔ بہت کم ہی ہیں جو یہاں  سے نیک نام ہو کر نکلے ہیں۔ لیکن اسے تو خطروں کو دعوت دینے کی عادت تھی۔ ہار اور جیت تو کبھی اس کے سر پر سوار نہیں ہوئے۔ کرکٹ میں بھی اس کا قول تھا کہ مقابلے میں جانے سے پہلے شکست کا خوف دل سے نکال دو اور اپنی بھر پور صلاحیت سے مقابلہ کرو۔ پھر ہار اور جیت کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔
سیاست لیکن اس کی طبیعت سے لگا و نہیں کھاتی تھی۔ اس میں مردم شناسی، موقع محل کا انتخاب، جوڑ توڑ اور بے انتہا لچک کی ضرورت ہوتی ہے۔
کسی کام میں لگن اور یکسوئی ایک بہت بڑی خوبی سمجھی جاتی ہے۔ یہ صفت اس میں کچھ زیادہ ہی سرایت کر گئی ہے۔ اس کا دماغ جس بات پر اٹک جائے پھر اس کے علاوہ کچھ نہیں سوچتا۔ جس طرح اخروٹ کے اندر کا پھل باہر کے سخت خول میں مقید ہوتا ہے، اسے باہر کی ہوا نہیں لگتی اسی طرح اس   پٹھان کے پوت کے دماغ میں جو بات بیٹھ جائے اس پر کلام نرم و نازک بے اثر ہوتا ہے۔
لیکن کرکٹ میں اس کے کارناموں، شوکت خانم اسپتال اور سب سے بڑھ کر اس کی حب الوطنی   اور کم از کم مالی معاملات میں اس کا بے داغ ماضی اسے دوسروں سے ممتاز کرتا تھا۔ لوگوں کو اس کے خلوص اور سچائی کا یقین تھا۔ اس کی دعوت کو پذیرائی ملی لیکن ویسی نہیں  جیسی وہ خود سمجھتا تھا۔
1996 میں اس نے پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی۔ اسے مخلص اور پڑھے لکھے لوگوں کا ساتھ بھی ملا۔ معراج محمد خان جیسے جمہوریت اور انصاف پسند، نسیم زہرا جیسی سمجھدار صحافی اور حفیظ اللہ خان نیازی جیسے مخلص لوگ اور انعام اللہ خان جیسے کارکن اسے ملے۔

اس کی سیاسی تحریک ایک سست رفتار سے چل رہی تھی جو اس کی سیمابی طبیعت کو موافق نہیں تھی۔ اس کی طبیعت میں جلد بازی کا عنصر بھی بے حد نمایاں ہے۔ اسی جلد بازی نے اسے جنرل مشرف کا بدنام زمانہ ریفرینڈم کی حمایت پر اکسایا۔ جس کا اسے بہت بعد میں احساس ہوا اور وہ خود بھی خجالت کا شکار ہوا۔ لیکن شاید اس کے دل کے نہاں خانے میں کہیں آمریت کے لئے نرم گوشہ موجود تھا۔ کر کٹ بھی اس نے کپتان بننے کے بعد مکمل آمرانہ طور پر کھیلی تھی۔ ٹیم کا انتخاب اس کی مرضی کا ہوتا۔ اسے کسی حد تک اس وجہ سے کامیابی بھی ملی۔ لیکن کرکٹ میں اس کی کامیابی کی ایک بڑی وجہ اس کا نا ئب جاوید میانداد بھی تھا۔ جاوید جیسا زیرک ، شاطر اور کھیل کی نزاکت کو سمجھنے والا، حالات کی درست جانچ کرنا اور ان سے نبٹنے کا طریق کار اور اس پر عمل کرنے میں اس کا ثانی شاید ہی کوئی کھلاڑی ہوا ہو۔ کئی بار وہ عمران کے فیصلوں کے آڑے آیا اور عمران نے اس کے مشورے پر عمل کرکے کامیابی پائی۔ اس کی مثالیں دینے بیٹھوں تو ایک الگ مضمون بن جائے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ اسے میاںداد جیسا ساتھی ملا اور دونوں نے ایک دوسرے کی قدر کی۔

سیاست میں لیکن عمران کا رویہ مختلف تھا۔ اپنی آمرانہ سوچ کے باعث اس کے قریبی ساتھی اس سے دور ہوتے چلے گئے۔ اسے بہترین لوگ ملے لیکن اس نے ان کی قدر نہ کی جس کی دو بڑی مثالیں، جسٹس وجیہہ الدین اور جاوید ھاشمی ہیں۔
پاکستان کے فرسودہ اور گھسے پٹے سیاسی نظام، اور بار بار کے آزمائے ہوئے، لالچی اور خود غرض سیاستدانوں سے بیزار عوام کو عمران کی صورت میں ایک نجات دہندہ نظر آیا۔ جس کا ماضی کسی بھی قسم کی بدعنوانی سے پاک تھا اور جس نے قوم سے کچھ لیا نہیں تھا، نہ ملک کو لوٹا تھا بلکہ اس نے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی جیسے تحفے دیے  تھے۔ جس کی قیادت میں پاکستان نے عالمی کپ جیتا تھا۔ نوجوان تو اس کے گرویدہ تھے ہی۔ صنف نازک کے خوابوں کا وہ شہزادہ تھا۔ اب سیاست سے بیزار عوام کو بھی اس میں ایک مخلص رہنما نظر آنے لگا۔ اس کی مقبولیت جسے اس کے مقابل اہمیت نہیں دیتے تھے، دن بدن بڑھتی چلی گئی۔
اور اس کا سب سے بڑا مظاہرہ تیس اکتوبر دو ہزار گیارہ میں دیکھنے میں آیا جب اس نے مینار پاکستان کے سائے میں تاریخ کا ایک بہت بڑا جلسہ کرڈالا۔۔شاید یہ پہلا موقع تھا کہ اس کے مخالف اس سے چوکنا ہوئے۔ پرویز رشید جیسے جہاندیدہ سیاستدان بھی اس کے جلسے کی کامیابی کو تسلیم کرنے کے بجائے آئیں بائیں شائیں کرنے لگے اور اسے چند ہزار کا جلسہ قرار دے کر اپنی اندرونی چوٹوں کو سہلاتے رہے۔

قوم کو تو جیسے ایک واضح متبادل مل گیا۔ سیاسی تجزیہ نگاروں نے اسے سنجیدگی سے اہمیت دی۔ یوں لگنے لگا جیسے اب اس گلی سڑی قیادت سے نجات کا وقت قریب آگیا ہے اور وہ نجات دہندہ مل گیا ہے قوم جس کی برسوں سے تلاش میں تھی۔ عوام کو امید کی کرن نظر آنے لگی جیسے ایک نئے انقلاب کی نوید مل گئی ہو۔ تبدیلی کی ہوا چلنے کو ہےاور جوں انتخابات کا وقت قریب ااتا رہا اس کی مقبولیت آسمانوں کو چھونے لگی۔ اور عوام اس کے جھنڈے تلے آتے گئے۔
مجھے سیاست کی بالکل سمجھ نہیں۔ اس کے اتار چڑھاو اور جوڑ توڑ میری موٹی عقل سے بالا ہیں۔ لیکن میری ایک عام آدمی کی سوچ یہ کہتی ہے کہ تیس اکتوبر کا جلسہ جہاں خان کو بلندیوں پر لے گیا، وہیں سے اس کی سیاست کا بیڑا غرق ہونا شروع ہوا۔
اس کے اخروٹ صفت دماغ میں یہ بات بیٹھ گئی کہ قاٗئداعظم کے بعد اس قوم کو اگر کوئی رہنما ملا ہے تو وہ، وہ خود ہے اور اس کی شخصیت میں ذوالفقار علی بھٹو سے بڑھ کر جاذبیت ہے اور اب اسے کوئی ملک کا آئندہ وزیراعظم بننے سے نہیں روک سکتا۔
نرگسیت اور خود پسندی کے مارے خان کو شاید سیاست کے اور وہ بھی پاکستان کی سیاست کے زمینی حقائق کی آگاہی نہیں تھی۔ خان کی مقبولیت اورتحریک انصاف کی کامیابی کی امید نے ہمارے جغادری، کہنہ مشق لیکن موقع پرست اور ابن الوقت سیاستدانوں کو اس کی جھولی میں لا گرایا۔ وہ خان جس کی سیاست کا نشانہ یہ بدبودار قسم کے جاگیردارانہ، سرمایادارنہ ذہنیت کے سیاستدان تھے۔ انہیں انتخاب میں کامیابی کی ضمانت سمجھنے لگا اور آگے بڑھ کر انہیں گلے لگاتا گیا کہ اس کی جماعت میں اس کے بعد یہی لوگ کرتا دھرتا بنتے گئے۔ خان جن کے خلاف تبدیلی کی بات کرتا وہی اس کے داٗئیں بائیں نظر آتے۔ عوام کو لیکن ان باتوں کا دماغ کہاں، وہ تو تبدیلی کے خوشگوار خواب میں ڈوبے ہوئے اس کے ساتھ آتے چلے گئے۔

جیسا کہ میں نے کہا ، یہ پاکستان ہے، یہاں کی سیاسی حرکیات برطانیہ اور دوسری ترقی یافتہ، جمہوری ممالک سے مختلف ہیں۔ یہاں ووٹ ڈالنے والا، امیدوار کی جماعت، اس کے منشور، اسکے ماضی یا حال سے مطلب نہیں رکھتا۔ اس کے پیش نظر عموماـ امیدوار کی ذات، برادری اور یہ کہ وہ اس کے لئے کس قدر کارآمد ثابت ہوسکتا ہے۔ وہ جو کبھی دلاور فگار نے کہا تھا
کسی نے مکان دلایا ہے
کسی نے مرغی کھلائی ہے
میں اپنا ووٹ کس کو دوں
اور وہ جو سالہا سال سے سیاست کرتے آئے تھے ، جانتے تھے کہ ووٹر کا رخ اپنی جانب کیسے موڑا جاتا ہے۔ ادھر خان صاحب نے عین الیکشن کے سال میں اپنی جماعت میں انتخابات کا ڈول ڈالا اور ان کی جماعت اندرونی سیاست اور توڑ پھوڑ کا شکار ہونے لگی۔ کریلا اوپر سے نیم چڑھا، ٹکٹوں کی تقسیم نے اس کی سیاست کا کچا پن ثابت کردیا اور ایسے لوگوں کو ٹکت دئے گئے جن کو شاید اپنے گھر سے بھی ووٹ نہ ملتے۔
الیکشن سے پہلے سارے ملک میں خصوصاً  شہری حلقوں میں خان کا ڈنکا بجا ہوا تھا۔ مجھے سن ستر کے انتخابات یاد آئے جب مغربی پاکستان میں کہا جا رہا تھا کہ اصل مقابلہ جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی میں ہوگا اور مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی ، عوامی لیگ کے مقابل ہوگی۔ کم از کم کراچی میں تو ہمیں یقین تھا کہ جماعت اسلامی پکا پکا الیکشن جیتے گی۔ مجھے یاد ہے جماعت کے اخبار ۔جسارت ـ نے دن کے ایک بجے ضمیمہ جاری کیا جس میں چیخ چیخ کر اعلان کیا جارہا تھا  کہ جماعت غیر معمولی کامیابی حاصل کررہی ہے۔

شام کو میں نے پہلا نتیجہ سنا جو مشرقی پاکستان سے تھا جہاں عوامی لیگ کے امیدوار نے ڈھائی تین لاکھ ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی اور اس کے قریبی ترین حریف پروفیسر غلام اعظم جو مشرقی پاکستان کے جماعت کے امیر تھے، نے تیس پینتیس ہزار ووٹ لئے تھے۔یہ پہلا جھٹکا تھا، لیکن مغربی پاکستان میں بھی صورتحال کچھ مختلف نہ تھی۔
تحریک انصاف کے ساتھ بھی یہی ہوا ۔ انہیں ستائیس اٹھائیس نشستیں ہی ملیں جو کہ تیسرے نمبر پر تھیں۔ مسلم لیگ نواز نے واضح کامیابی حاصل کی تھی۔ تحریک کے کارکن تو صدمے میں تھے ہی لیکن خان کا تو جیسے دماغ ہی الٹ گیا تھا۔ اس نے دہائی مچانی شروع کردی کہ الیکشن میں بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اور وہ ان انتخابات کو نہیں مانتا ۔
اب اسے ہروہ شخص، جماعت، اخبار، تجزیہ کار، ٹی وی چینل اپنا دشمن نظر آتا جس پر اسے شک ہوتا کہ وہ اس دھاندلی میں شامل ہے۔لیکن چند باتیں مجھ موٹی عقل والے کی سمجھ میں نہ آتیں۔

ہمارے ملک کے انتخابی نظام اور اس کی خامیوں اور خرابیوں میں ہر گز دو رائے نہیں ہیں۔ اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دوسرے انتخابات کی طرح اس میں بھی دھاندلی، دھونس، بے ایمانی اپنے عروج پر تھی جس کے مظاہر جگہ جگہ دیکھنے میں آئے اور اس میں بھی شک نہیں کہ یہ کوئی آزادانہ اور شفاف انتخابات نہ تھے۔
خان نے سارا الزام الیکشن جیتنے والے اور ہونے والے وزیر اعظم نواز شریف پر لگایا۔ ساتھ ہی اس نے ایک اخبار، ایک ٹی وی چینل، ایک تجزیہ کار کو اس کا ذمہ دار قراد دیا کہ وہ بھی نواز شریف کی اس ساز باز میں شریک تھے۔
میری موٹی عقل میں البتہ یہ بات نہیں سماتی تھی کہ الیکشن کروانا تو الیکشن کمیشن کی ذمہ داری تھی نہ کہ نواز شریف کی۔ اور یہ کہ کوئی ٹی وی چینل ، یا اخبار یا صحافی کس طرح الیکشن کے نتائج بدل سکتا ہے۔
خان کو یہ شکست ہضم نہیں ہورہی تھی۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر سوفیصد صاف اورشفاف انتخابات ہوتے تو بھی اس کی جماعت حکومت نہیں بنا سکتی تھی کہ اس نے اسمبلی کی کل نشستوں سے نصف پر بھی امیدوار کھڑے نہیں کئے تھے۔ پھر جس کینڈے کے امیدوار اس نے میدان میں لائے ان کی اکثریت کونسلر کا نتخاب جیتنے کے بھی لائق نہیں تھی۔ اس کا سارا زور پنجاب اور خیبر پختونخوا  میں تھا، کراچی میں اس کا کام نہ ہونے کے برابر تھا پھر بھی اس کی امید سے بہت زیادہ ووٹ مل گئے، لیکن اندروں سندھ اور بلوچستان میں تو وہ نہ ہونے کے برابر تھے۔ سارے اعداد وشمار کئے جاتے تو اس کی پارٹی بہترین کارکردگی دکھانے کے باوجود بہت سے بہت مخلوط  حکونت بناسکتئ تھی اور اس کے لئے اسے مسلم لیگ یا پیپلز پارٹی میں سے کسی ایک سے ملنا پڑتا اور یہ وہ پارٹیاں ہیں جن کے خلاف اس نے یہ سارا منڈپ سجا رکھا تھ۔

اسے بہرحال کے پی کے میں حکومت بنانے کا موقع مل گیا۔ قومی اسمبلی میں بھی وہ تیسری بڑی جماعت کا سربراہ تھا۔ وہ چاہتا تو خیبر میں حکومت و سیادست کی بہترین مثال قائم کرتا اور قومی اسمبلی میں دوسری اپوزیشن جماعتوں سے مل کر اس انتخابی نطام کی صفائی کا کام کرتا لیکن اس نے صرف اور صرف احتجاج اور رونے پیٹنے کا راستہ اختیار کیا۔
سال بھر بعد اسے یاد آیا کہ الیکشن میں اس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اور نواز شریف اس کا تنہا ذمہ دار ہے اور اس کو حکومت سے ہٹانا ضروری ہے۔ اب اس کی سوئی صرف نواز شریف سے نجات حاصل کرنے پر اٹکی ہوئی تھی ۔ اور اس کے لئے کچھ بڑا کام کرنا ضروری تھا۔

اس نے دھرنے کا اعلان کیا۔ یوں لگتا تھا کہ اب تاج اچھالے جائیں گے اور تخت گرائے جائیں گے۔ اس نے ایک لاکھ موٹر سائیکلوں کا جلوس   لے کر لاہور سے اسلام آباد جانے کا اعلان کیا۔ دوسری جانب کینیڈا سے آئے ہوئے ایک عالم دین کو بھی خیال آیا کہ ملک تباہی کے نزدیک پہنچ گیا ہے اور ریاست کو بچانے کے لئے سیاستدانوں سے چھٹکارہ حاصل کرنا ضروری ہے۔
اب اللہ ہی جانے کہ یہ خیال کس کا تھا اور اسے سوچتا کون تھا۔ خان صاحب اور علامہ صاحب نے دارالحکومت میں آمنے سامنے اپنے شامیانے سجائے اور عوام الناس کو ایک تماشا مل گیا۔ روزانہ گو نواز گو کھیلا جانے لگا۔ ہر روزحکومت گرنے اور جشن منانے کی تاریخ دی جاتی۔ یہ سب باتیں یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے مجھ سے زیادہ یہ آپ کو یاد ہوگا۔

سیاست کے نئے انداز اور طور طریقے سامنے آرہے تھے۔ زبان بگڑی سو بگڑی خبر لیجئے دہن بگڑا کے مصداق سیاست میں ایک نئے لہجے نے جگہ لی اور مخالف کو اوئے توئے سے مخاطب کیا جانے لگا۔ خان پر ایک وحشت سوار تھی ۔ اس نے قسم کھائی کہ نواز شریف کا استعفا لیے بغیر وہ واپس نہیں جائے گا۔ دوسری جانب علامہ صاحب کبھی کفن پہنتے ، کبھی قبریں کھودتے اور کبھی نواز شریف کی موت کا اعلان فرماتے۔ قوم کو بھی ایک کھیل مل گیا تھا۔ لوگ باگ شام کو فارغ ہو کر ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے، جہاں خان صاحب کی زور خطابت کے ساتھ ان کے معتمد خصوصی شیخ رشید کی عالمانہ پیشن گوئیاں تماشائیوں کا لہو گرماتیں۔ خان صاحب روز کسی نادیدہ ہستی کی جنبش انگشت کی نوید دیتے اور جشن منانے کا وقت مقرر کرتے۔ کبھی شاہد آفریدی کو آواز دیتے کبھی سر پر سے گذرتے ہوئے ہوائی جہاز سے التجا کرتے کہ یار خدا کے واسطے نواز شریف کو لیجا۔ یہ وہی شرمیلا سا عمران خان تھا جو اپنی تعریفیں سن کر سر جھکا لیا کرتا تھا اب اسے اپنے آپ میں نیلسن منڈیلا اور مہاتیر مہمند نظر آتے ۔ وہ بار بار حوالہ دیتا کہ جب میں کپتان تھا اور جب میں نے ورلڈ کپ جیتا تو یوں لگتا کہ ورلڈ کپ میں صرف وہی اکیلا کھیلا تھا۔ میانداد، وسیم اکرم اور انضمام وغیرہ کا تو کوئی کردار ہی نہیں تھا۔
اور میں یہ سوچتا تھا کہ نواز شریف کے استعفا کے بعد کیا ہوگا۔ کیا اس کی جماعت کسی اور کو اپنا وزیر اعظم نہیں بنائے گی۔ اس سے خان کو کیا حاصل ہوگا، یا پھر اسمبلی تحلیل ہوجائے گی تو کیا خان صاحب کو حکومت بنانے کی دعوت دی جائے گی اور وہ اپنی تیس نشستوں کے ساتھ وزیراعظم بن جائیں گے۔ ان کی روز کی گلفشانیوں اور شعلہ بیانیوں سے تو یوں لگتا تھاکہ اب بس کچھ ہی دنوں میں وہ شیروانی زیب تن کرکے قوم سے خطاب فرمارہے ہونگے۔ ہر روز تقریر میں ہوتا کہ ہماری حکومت آئے گی تو یہ ہوگا اور وہ ہوگا اور ہم یہ کریں گے اور وہ کریں گے۔ اور میں یہ سوچتا رہتا کہ ان کی حکومت آئے گی تو کیسے۔ کیا جنرل صاحب ان سے دست بستہ درخواست کریں گے کہ لیجئے حضور یہ چابی سنبھالئے اور اوئے نواز شریف تو اپنے گھر جا۔

اور خان صاحب نے یہ کبھی نہ بتایا کہ ان کی حکومت آئے گی تو وہ سب کچھ کریں گے تو کیسے کریں گے۔ دھرنا تو اپنے منطقی انجام کو پہنچا یعنی کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے۔ پھر جب الیکشن کمیشن نے ان کے مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے دھاندلی کی تحقیقات کے لئے خان صاحب سے شواہد طلب کئے تو فرمایا گیا کہ انہیں وقت دیا جائے، گویا کہ دھاندلی کے ثبوت ان کے پاس بھی نہیں تھے۔
یہاں حکومت کی حمایت یا خان صاحب پر تنقید مقصود نہیں ، صرف خان کی سیمابی طبیعت کا حال بتا نا تھا۔ اور اس دکھ کا اظہار ہے کہ ایک بہترین شخص ، جس سے قوم نے بے تحاشا امیدیں وابستہ کر لی ہیں اپنے آپ کو کیسے ضائع کر رہاہے۔ اس نے اپنے خیرخواہوں کو اپنے سے دورکردیا اور خوشامدیوں کو سرپر بٹھایا۔
دھرنے کے بعد خان کی سیاست کو ایک اور موقع ملا نواز شریف سے حساب چکانے کا اور وہ تھا پانامہ کا مقدمہ۔ خان کے وکیلوں نے بہرحال بہت کمزور بنیادوں پر مقدمے کی پیروی کی۔ یہ تو نواز شریف اور ان کے نورتن وزراٗ تھے جنہوں نے اوندھے سیدھے بیانات دے کر اپنے خلاف ثبوت خود ہی مہیا کردیے ۔ اس مقدمے کا جو بھی انجام ہو، خان کو اس سے کیا حاصل ہوگا یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ایک بات ماننا پڑے گی کہ اس نے بار بار چورچور کا شور مچا کر عوام الناس کو چوروں کا چہرہ دکھا دیا۔ اب وہ چاہے مقدمے جیتتے رہیں ، رہا ہوتے رہیں، سروں پر تاج سجاتے رہیں، ان کی اصلیت لوگوں کے سامنے آگئی ہے اور آج نہیں تو کل دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ضرور ہوگا اور اس میں سب سے بڑا کردار اس خان کا ہوگا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان کی سیاست بے تکی، اس کی تقریر مغز سے خالی، کانوں کا کچا اور مردم شناسی کی صلاحیت سے محروم، اس کا دماغ صرف ایک پٹڑی پر چلتا ہے، وہ مخالفت میں اندھا ہوجاتا ہے۔ سیاسی مخالفت کو اس نے دشمنی میں بدل دیا ہے۔ اس کی ایک نہیں سو باتوں سے اختلاف کیا جاسکتا ہے۔ لیکن وہ عوام کے سروں پرزمانوں سے سوار، ان مفاد پرست، خودغرض، حریص، لٹیرے اور بدبودار سیاستدانوں سے نجات دلا سکتا ہے لیکن اس کا سب سے بڑا دشمن کوئی اور نہیں وہ خود ہے جو اپنے آپ کو گنوا رہا ہے، ضائع کر رہا ہے۔ قوم نے اس سے بہت امیدیں وابستہ کی تھیں ۔ وہ اب بھی ان امیدوں پر پورا اترسکتا ہے ، بس ذرا اس اخروٹ مزاجی سے چھٹکارہ حاصل کرلے، اپنے سر سے خبط عظمت کا بھوت اتارے۔
خان واقعی خان ہے۔ وہ ایک بہترین انسان ہے لیکن اس  سے زیادہ بہترین بن سکتا ہے۔ اس کا قوم پر قرض ہے کہ قوم نے اس سے محبت کی تھی۔ قوم کو اس میں امید کی کرن نظر آئی تھی ۔ اس نے یہ قرض لوٹانا ہے۔ قوم کو مایوسی سے نکالنا ہے ۔ بس وہ اپنے اخروٹ کے خول سے باہر آئے اور اپنے آس پاس کے پھٹیچر اور ریلو کٹوں سے جان چھڑائے اور اپنی انانیت اور خودپسندی کو ترک کرے۔ قوم اس سے اب بھی مایوس نہیں ہے۔
خان تم بھی قوم کو مایوس نہ کرنا۔

Facebook Comments

شکور پٹھان
محترم شکور پٹھان شارجہ میں مقیم اور بزنس مینیجمنٹ سے وابستہ ہیں۔ آپ کا علمی اور ادبی کام مختلف اخبارات و رسائل میں چھپ چکا ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply