گونگے سنّاٹے۔۔دیپک بُدکی

یہ ایک سچّی کہانی ہے مگر میری گزارش ہے کہ ان کرداروں کو آپ ڈھونڈنے نہیں نکلنا کیونکہ اب وہ وہاں پر نہیں رہتے ہیں۔ نہ جانے ٹرانسفر ہو کر کہاں چلے گئے۔ منوہر کھرے کام تو کسی اور سنٹرل دفتر میں کرتا تھا مگر عبوری طور پر رہتا تھا کسی اور محکمے کے گیسٹ ہاؤس میں۔ یہ ساری مہربانی اس کے دوست دامودر پٹیل کی تھی جو دوسرے محکمے میں ڈائریکٹر تھا اور گیسٹ ہاؤس کا انصرام اس کے پاس تھا۔ دامودر پٹیل نے اسے گیسٹ ہاؤس میں رہنے کی اجازت دی تھی حالاں کہ قانوناً یہ جائز نہیں تھا۔ خیر قانون بنتا ہی ہے خلاف ورزی کرنے کے لیے۔ کچھ افسر ایسے ہوتے ہیں کہ انھیں حکم عدولی میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ پٹیل نے زندگی میں جیو اور جینے دو کی پالیسی اپنائی تھی۔ خود بھی کھاتا تھا، افسروں کو بھی کھلاتا تھا اور ماتحتوں کو کھانے کے مواقع فراہم کرتا تھا۔ یہی وجہ تھی کسی نے کبھی انگلی نہیں اٹھائی۔ منوہر کھرے نے بھی یہی طور طریقے اپنائے تھے۔ اس کی شخصیت میں کچھ عجیب سی مقناطیسی کشش تھی جس کے سبب وہ اجنبیوں کو منٹوں میں دوست بنا لیتا تھا۔ اور یہ دوستی کا جال ہر سٹیشن کے ساتھ بڑھتا ہی چلا جا رہا تھا۔ منوہر اور دامودر میں گاڑھی چھنتی تھی۔ ان کی دوستی کا راز چند ہی دنوں میں مجھے معلوم ہوا۔ دونوں رنگ رسیا قسم کے آدمی تھے۔ اکثر شراب اور شباب کی پارٹیوں میں اکٹھے شریک ہو جاتے۔ پارٹی کے بعد معشوقاؤں کو اپنے ساتھ لے جاتے اور اکثر رات میں بستر بدل جاتے۔ بزرگوں نے سچ کہا ہے کہ شراب اور شباب کی دوستی بہت گہری ہوتی ہے۔ سو وہ بھی ایک دوسرے کے لیے جان چھڑکتے تھے۔

دامودر پٹیل کی ان پڑھ بیوی گاؤں میں رہتی تھی۔ ادھیڑ عمر کی ہو جانے کے باوجود گھونگھٹ میں رہنا پسند کرتی تھی۔ ہفتے کے اخیر میں دامودر اس کے پاس حاضری دے آتا جسے وہ بھگوان کا آشیربادسمجھ لیتی تھی۔ اس کے برعکس منوہر کھرے کی بیوی بہت ہی روشن خیال قسم کی عورت تھی۔ ممبئی میں الگ فلیٹ میں رہتی تھی۔ اکثر قمیص اور جینز پہنتی تھی جو اس کے فربہ جسم کو اور بھی نمایاں کر دیتا تھا۔ کچھ ایکسپورٹ کا کام کرتی تھی اور دنیا کے دور دراز ممالک میں اکیلی گھوما کرتی تھی۔ بہن نیوزی لینڈ میں تھی، کبھی کبھار مہینہ بھر وہاں گزار آتی۔ دونوں میاں بیوی ایک دوسرے سے بے نیاز اپنی ہی دنیا میں مست رہتے تھے۔ جب بھی کبھی ملتے، ایک دوسرے کو ٹینشن دے کر جاتے۔ ایک جوان لڑکی چندریکا تھی جو باپ کے پاس رہتی تھی کیونکہ ماں کا کہیں کوئی ٹھکانہ نہ تھا، کب ہندستان میں رہے گی اور کب کسی اور ملک میں ہو گی۔ ممبئی میں اکیلے دن گزارنا اور وہ بھی جوان لڑکی کا بہت مشکل تھا۔

میں سامنے دوسرے گیسٹ ہاؤس میں رہتا تھا۔ کبھی کبھار صبح دفتر کے لیے نکل جاتا تو چندریکا کے درشن ہو جاتے۔ وہ اپنے کالج کے لیے جا رہی ہوتی۔ وہ نظریں جھکا لیتی اور جلدی سے کھسک کر سیڑھیاں اتر جاتی۔ اس کے چہرے پر نہ جانے کیوں اداسی سی چھائی رہتی تھی۔ پڑوسی ہونے کے ناتے میں نے کئی بار ہیلو کہا مگر اس نے میرے ہیلو کا جواب کبھی بھی نہ دیا۔ یہ اس کا غرور نہیں تھا بلکہ مجھے اس کے اندر کچھ خلا سا نظر آ رہا تھا جس کو پورا کرنے کے لیے اس نے خاموشی اوڑھ رکھی تھی۔

ایک روز اچانک ہنگامہ بر پا ہو گیا۔ سامنے گیسٹ ہاؤس سے بہت شور و غل سنائی دے رہا تھا۔ میں نے جونہی اپنا صدر دروازہ کھو لا سامنے والے گیسٹ ہاؤس سے منوہر کھرے کی نوکرانی دوڑتی ہوئی میرے گیسٹ ہاؤس میں پناہ لینے کے لیے گھس گئی۔ وہ رو رہی تھی اور مجھ سے التجا کر رہی تھی۔ ’’ سر مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ سر مجھے بچاؤ۔۔ ۔۔ ۔ یہ عورت مجھے مار ڈالے گی۔۔ ۔۔ سر مجھے بچاؤ۔ ‘‘اس کے تعاقب میں منوہر کھرے کی ہٹی کٹی بیوی، جو شاید اسی روز وارد ہوئی تھی، میرے گیسٹ ہاؤس کے اندر گھس گئی۔ نہ اجازت لی اور نہ ہیلو کہا۔ ہاتھ میں بانس کا ڈنڈا تھا۔ وہ نوکرانی کو مارنے لگی مگر میں دونوں کے درمیان کھڑا ہو کر اس کو بچانے کی کوشش کرنے لگا۔ مسز کھرے خشمگیں آواز میں چلانے لگی۔ ’’لیو ہَر۔۔ ۔ لیو ہَر۔۔ ۔ شی اِز اے بِچ۔۔ ۔ آپ اس کو چھوڑ دو۔۔ ۔ آپ کو معلوم نہیں۔۔ ۔ یہ منوہر کے ساتھ سوتی ہے۔ میری سوتن بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ شی از اے بچ۔۔ ۔۔ بلڈی بِچ۔۔ ۔ !‘‘

میں راستے سے نہیں ہٹا اور اس کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے لگا۔ پھر بھی اس کا فتور کم نہیں  ہو رہا تھا۔ اس درمیان منوہر کھرے بھی کمرے کے اندر آ گیا اور اپنی بیوی سے مخاطب ہوا۔ ’’اب اسے چھوڑ بھی دو۔ چلو میں اس کو نکال کر کل سے کسی اور کو کام پر رکھ لوں گا۔ ‘‘

دریں اثنا نوکرانی سہمی سہمی ایک کونے میں جا کھڑی ہوئی۔ میں نے دونوں میاں بیوی کو صوفے پر بٹھایا اور ان سے پوچھا۔ ’’ اس عورت نے کیا غلطی کی کہ آپ لوگ اس کی جان کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ؟‘‘

مسز کھرے، جو ڈبلیو ڈبلیو ایف کی پہلوان جیسی لگ رہی تھی، سامنے صوفے پر بیٹھ گئی اور اس سے قدرے ہٹ کر اس کا مریل سا شوہر بیٹھ گیا۔ اس کے بعد مسز کھرے مجھ سے کہنے لگی۔ ’’ یو نو، دِس لیڈی از اے ویمپ۔ اس نے میرے شوہر کو اپنے وَش میں کر لیا ہے۔ یہ نہ صرف اس کا کھانا بناتی ہے بلکہ اس کا بستر بھی گرم کرتی ہے۔ میں نے کتنی بار منوہر کو ٹوکا مگر وہ مانتا ہی نہیں ہے۔ اس کو چینج کرنے کے لیے راضی ہی نہیں ہوتا۔ اس کو دفتر میں کیژول مزدور لگا رکھا ہے، تنخواہ وہاں سے ملتی ہے جبکہ یہاں پر اس کے ساتھ گلچھرے اڑاتا ہے۔ شیم لیس گائے۔ ‘‘

’’آپ کو کیسے معلوم کہ یہ اس کے ساتھ سوتی ہے ؟ ہو سکتا ہے آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہو۔ ‘‘ میں نے پوچھا۔

’’ اوہ نو، ڈونٹ تھنک آئی ایم دیٹ نائیو۔ مجھے سب کچھ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کیا  ہو رہا ہے۔ میں یہاں کی پل پل کی خبر رکھتی ہوں۔ رات کو یہ اس کو شراب پلا کر اپنے بستر میں سلاتا ہے۔ چھی، سی وہاٹ اے چوائس ہی ہیز۔ ‘‘

’’ آپ یہاں اپنے شوہر کے ساتھ کیوں نہیں رہتیں ؟آخر اس کی بھی تو کچھ ضروریات ہیں۔ آپ کے آنے سے اس کی تشنگی دور ہو جائے گی۔ پھر وہ کسی دوسری کے پاس کیوں چلا جائے گا؟‘‘

’’ اوہ نو۔ ہاؤ از اِٹ پوسبل؟ میں ممبئی کے بغیر کہیں اور رہنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ وہاں میرا بزنس چلتا ہے۔ میرا فرینڈ سرکل ہے۔ یہاں آ کر کیا کروں گی؟ ممبئی میں میرا بہت اچھا فلیٹ ہے۔ کبھی آ کر دیکھ لینا۔ میں کاندی وَلی میں رہتی ہوں۔ ‘‘

’’ ہاں ضرور جب کبھی میں ممبئی آ جاؤں گا آپ سے ضرور ملوں گا۔ اپنا ایڈریس دے دیجیے گا۔‘‘

’’ یس وہائی ناٹ۔ منوہر سے میرا ایڈریس لے لینا۔ ‘‘

منوہر کھرے کا چہرہ دفعتاً اتر گیا۔ اسے لگا جیسے دوسرے ہی روز میں ممبئی کی ٹکٹ لے کر مسز کھرے کے پاس جانے والا ہوں۔ وہ اپنی بیوی کی بات کاٹ کر بولا۔ ’’ آپ ممبئی جانے میں ان سے ملنے کی کوشش نہ کریں۔ یہ تو وہاں ہوتی ہی نہیں ہے۔ کبھی بہن کے پاس نیوزی لینڈ چلی جاتی ہے، کبھی کسی اور رشتے دار کے پاس جاتی ہے یا پھر غیر ممالک کی سیاحت پر ہوتی ہے۔ ممبئی میں اس کا ملنا بہت مشکل ہے۔ ‘‘

منوہر کھرے کے لہجے سے معلوم  ہو رہا تھا کہ مجھے ملی یہ دعوت اس کو اچھی نہیں لگی۔ یا تو اسے یہ خدشہ تھا کہ میں اس کی بیوی کو پھانس نہ لوں یا پھر مجھے اس کی اصلیت معلوم نہ ہو جائے۔ اس کے برعکس مجھے ان دونوں کی زندگی پر ترس آ رہا تھا۔ انھیں فردا کی فکر ہی نہ تھی۔ چند لمحاتی مسرتوں کے لیے انھوں نے اپنی جوان بیٹی کو بَلی چڑھایا تھا۔ انسان جب اپنی جبلی خواہشوں کا غلام بن جاتا ہے تو اپنے مستقبل کو بھی گروی رکھ لیتا ہے۔ میرے اندر جذبات کا ایک طوفان سا اُمڈ آیا اور مجھ سے رہا نہ گیا۔ مسز کھرے سے مخاطب ہوا۔ ’’ یہ بتائے کہ آپ اپنی بیٹی کو اپنے پاس کیوں نہیں رکھتے ؟ آپ ماں ہیں۔ یہ آپ کا فرض بنتا ہے۔ ‘‘

’’ اوہ، اٹ اِز اِمپوسبل۔ میں ممبئی میں کم ہی رہتی ہوں۔ پھر اس کی تعلیم کی طرف کون دھیان دے گا۔ یہاں اس کی سبھی ضروریات میسر رہتی ہیں۔ ‘‘

’’ضروریات۔۔ ۔ !‘‘ میرے ذہن میں ایک کوندا سا لپکا۔ ’’ایک معصوم جوان لڑکی کی ضروریات اس کا اوباش باپ میسر رکھتا ہے۔۔ ۔۔ لیکن ماں اپنی بلوریں دنیا کو تج نہیں سکتی۔ ماں کا کام تھا حیض کی مانند اس کو بدن سے خارج کرنا، سو اس نے کر دیا۔ اب وہ جانے اور اس کا باپ۔ ‘‘ مسز کھرے کی باتیں سن کر مجھے جنون سا طاری ہو گیا۔ اس نے میری نظروں میں ماں کا رتبہ کھو دیا تھا۔ مجھ سے رہا نہ گیا، اس لیے بول اٹھا۔ ’’کیا آپ کو یقین ہے کہ باپ اور بیٹی میں ناجائز تعلقات نہیں ہیں ؟مجھے شک  ہو رہا ہے کہ باپ بیٹی کے ساتھ بد فعلیاں کرنے کا مرتکب ہے۔ ‘‘

انسانی جذبات اس قدر مشتعل ہو سکتے ہیں مجھے گماں بھی نہ تھا۔ وقتی جنون میں مبتلا ہو کر میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے تھے مگر مجھے اس کا احساس بعد میں ہوا کہ اگر یہ بات صحیح نہ ہو تی تو میرا کیا حشر ہوا ہوتا! چندریکا کا باپ مجھے قتل بھی کر سکتا تھا۔ پھر ایسا مخدوش اور گھناؤنا الزام ثابت کرنا مشکل بھی تو تھا۔ مگر کمان سے نکلا ہوا تیر اور منہ سے نکلی ہوئی بات واپس نہیں آتی۔ اس لیے میں من ہی من میں دعا کرنے لگا کہ بات طول نہ پکڑے بلکہ جلدی سے دب جائے۔

مسز کھرے کی بھنویں تن گئیں۔ وہ تلملا اٹھی۔ ’’ ہاں آپ صحیح فرما رہے ہیں۔ چندریکا نے کئی بار مجھے اس بارے میں ٹیلی فون پر بتایا کہ یہاں پاپا شام کو شراب پی کر بہک جاتے ہیں۔۔ ۔۔ ۔ میں یہاں رہنا نہیں چاہتی ہوں۔۔ ۔ مجھے واپس ممبئی لے جاؤ۔۔ ۔۔ ۔ ‘‘ شرم کے مارے وہ آگے وضاحت نہیں کر سکی۔

’’ جب آپ کو یہ سب کچھ معلوم ہے، پھر بھی آپ نے اپنی بچی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ اسے اپنے پاس نہیں بلایا۔ تعجب کی بات ہے۔ اس کے برعکس آپ کو یہ فکر لگی ہوئی ہے کہ آپ کا شوہر نوکرانی کے ساتھ ہم بستر ہوتا ہے۔ مجھے آپ کے اس رویے پر افسوس ہو رہا ہے۔ آپ کی ترجیحات پر حیرت  ہو رہی ہے، مسز کھرے۔ ‘ ‘

منوہر کھرے جو اب تک خاموش تھا، اپنے آپ کا دفاع کرنے لگا۔ ’’ نو، نو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ کبھی کبھار میں اپنی بیٹی کو جنسی تربیت دیتا ہوں تاکہ مستقبل میں وہ ازدواجی زندگی کے لیے تیار ہو جائے۔ ‘‘

اس کی بات سن کر مجھے ہزار وولٹ کا جھٹکا لگا۔ ’’ ایک باپ اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تربیت دے رہا ہے۔ یہ کس صحیفے میں لکھا ہوا ہے۔ ماں اپنی بیٹی کو ازدواجی زندگی کے لیے تیار کرے، یہ تو میں نے سن لیا تھا مگر باپ اپنی بیٹی کو سیکس سے متعارف کرائے، یہ تو میں نے پہلی بار سن لیا۔ ‘‘

مسز کھرے بپھر گئی۔ وہ اپنے شوہر کے ساتھ پھر سے الجھ گئی مگر شوہر اپنی بات پر ڈٹا رہا۔ میں نے بات کاٹنا ہی مناسب سمجھا۔ اس لیے نوکرانی کو ہدایت دینے لگا۔ ’’ دیکھو تم رات بھر یہیں ڈرائنگ روم میں سو جاؤ اور صبح ہوتے ہی اپنے گھر چلی جانا۔ سمجھی ۔ ابھی تم اپنے لیے کچن میں دو چار روٹی بنا لو۔ فرِج میں کچھ سبزی پڑی ہوئی ہے اس کے ساتھ کھا لینا۔ ‘‘

اس کے بعد میں مسز کھرے کی جانب مڑا۔ ’’ آپ کب ممبئی جا رہی ہیں ؟‘‘

’’ کل رات کو راجدھانی سے جا رہی ہوں۔ یہاں آ کر ہر بار میرا موڈ خراب ہو جاتا ہے۔ ‘‘

’’ ٹھیک ہے۔ اب آپ لوگ جا کر سوجائیے اور نوکرانی کی فکر مت کیجیے۔ ہاں اپنی بیٹی کی فکر کرنا آپ کا فرض بنتا ہے۔ بہتر یہ ہے کہ آپ اس کو اپنے ساتھ ہی لے جائیں۔ ‘‘

اور پھر اگلا دن گزر گیا اور رات کے تین بجے وہ راجدھانی سے روانہ ہو گئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوسرے روز جب میں صبح سویرے دفتر کے لیے نکل پڑا، میرے سامنے چندریکا حسب معمول کتابیں بغل میں دبائے کالج جانے کے لیے سیڑھیاں اتر رہی تھی۔ اس کا چہرہ معمول کی طرح مجروح و مضروب لگ رہا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply