ظلمتیں کس حساب میں لکھوں؟

ایک طبقہ یہ سمجھتا ہے کہ سارے مسائل کی جڑ ہمارے بددیانت حکمران ہیں تو ایک طبقہ فوج کو تمام مسائل کا قصوروار قرار دیتا ہے۔ کوئی یہ سمجھتا ہے کہ نظامِ عدل کے رکھوالے اگر ظالموں کے بجائے مظلوموں کا ساتھ دیتے تو آج اس ملک کے حالات کا نقشہ ہی اور ہوتا۔ کسی پنجابی سے پوچھیں تو اُسے اپنے علاوہ سب بےوقوف اور ناقابلِ اعتبار نظر آتے ہیں۔ سندھی، سرائیکیوں، بلوچوں اور پشتونوں کی آنکھوں میں پنجابی ایک استحصالی قوت کے طور پر کھٹکتے ہیں۔
کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس ملک میں فساد کا منبع و محور مذہبی طبقہ ہے تو کچھ لوگ لبرل اور سیکولر لوگوں کو یہود و نصاریٰ کا ایجنٹ سمجھ کر اس ملک کے وجود کا دشمن سمجھتے ہیں۔ استاد طالبِ علموں کو کوستا نظر آتا ہے تو طالبِ علم استاد کو۔ ماں باپ اولاد کی احسان فراموشی کا رونا روتے نظر آتے ہیں تو اولاد اُن کے جذباتی استحصال کا۔ مرد عورتوں کو مسائل کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے نظر آتے ہیں تو عورتیں مردوں کو۔
کبھی کبھی میں یہ سوچنے لگتا ہوں کہ کیا باہمی بےاعتباری کے جذبات سے پُر اور باہمی حرمت کی اقدار سے عاری اتنی منقسم قوم بھی کبھی تاریخِ انسانی میں آئی ہو گی؟
بنگالیوں کی قربانی دے کر ہم نے شکر ادا کیا کہ اصل پاکستان بچ گیا۔ پھر پاکستان کو بچانے کے لیے ہم نے بلوچوں، مہاجروں، سندھیوں، پشتونوں اور اب جنوبی پنجاب کے باسیوں کی قربانیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کیا۔ یقیناً اِن قربانیوں کی بدولت الحمداللٰہ پاکستان آج بھی قائم و دائم ہے۔ لیکن کیا کسی نے کبھی اِس طرف بھی توجہ کی کہ ہم میں بحیثیت قوم پاکستانیت کتنی باقی رہی ہے؟
اگر ہماری یکجہتی کی علامت مذہب تھا تو اپنے مذہبی رویوں کی بدولت ہم اسے بھی متنازعہ بنا چکے۔ اسی طرح اگر ہماری یکجہتی کی علامت وطن تھا تو اپر پنجاب کے علاوہ باقی حصوں کےلوگوں کے قومی جذبات کا ذکر میں اوپر کر چکا۔ لیکن اگر ذرا زیادہ گہرائی میں جا کے دیکھیں تو ہمارے درمیان اب انسانیت کا جزبہ بھی قدرِ مشترک نہیں رہا۔ یہاں آبادیوں کی آبادیاں جلا دی جاتی ہیں، عورتوں کو زندہ درگور کر دیا جاتا ہے، بچوں کو بیچ چوراہے بے دردی سے مار کر کھمبوں سے لٹکا دیا جاتا ہے لیکن عوام کا جزبہِ انسانیت ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ لوگوں کے لیے وہ منظر محض ایک تفریح کی حیثیت رکھتا ہے۔ ہماری انسانی پستی کا ایک تازہ منظر آج ہم نے خیبر پختونخوا کی ایک یونیورسٹی میں دیکھا۔ جہاں اعلیٰ تدریس کے اداروں کا حال یہ ہو کہ وہاں سرِعام ایک گروہ کسی طالبِ علم کو انتہائی سفاک انداز میں مار ڈالے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے باقی طلبہ اُس منظر کو محض ایک تماشہ سمجھ کر اپنے موبائل فونز سے اُس منظر کی وڈیو بنا رہے ہوں تو قوم کے باقی طبقات کی انسانی نفسیات کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔
دل دہل جاتا ہے یہ سوچ کر بھی کہ اُس بچے کے ماں باپ پر کیا بیتی ہو گی اپنے بچے کے بہیمانہ قتل کا وہ منظر دیکھ کر۔ ریاست کو چاہیئے کہ قانون کی عملداری کو یقینی بنائے اور سزاوار لوگوں کو قرار واقعی سزا دے کر قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی پروان چڑھتی روایت کا قلع قمع کرے۔ لیکن ایسے انسانیت سوز واقعات کا ذمہ دار صرف ریاست کو ہی نہیں گردانا جانا چاہیئے۔ ہمیں اپنی معاشرتی نفسیات کے گریبان میں بھی جھانک کے دیکھنا چاہیئے۔ ایسے سفاک رویے معاشرتی نفسیات کے بیج سے ہی پروان چڑھتے ہیں۔ آخر تو اُن سفاک قاتلوں کے بھی خاندان ہوں گے۔ آخر تو خاندان کے ادارے نے بھی اُن کی ذہن سازی اور تربیت سازی میں اپنا کچھ کردار ادا کیا ہو گا۔ ان کے مذہبی، ثقافتی اور تعلیمی اداروں نے بھی انسان دشمنی کے اس بیج کو تناور درخت بنانے میں اپنا کوئی حصہ ڈالا ہو گا۔
گذشتہ ستر سال کی محنت سے اگر ہم نے کچھ سیکھا ہے تو وہ یہ سیکھا ہے کہ اپنے مخالف کو ہی ہمیشہ موردِ الزام ٹھراٶ اور اس سے زندگی کا حق چھین لو۔ یہی ہمارا اصل قومی بیانیہ ہے جو ہم نے ان ستر سال میں پروان چڑھایا ہے۔ ہمارے پیارے نبیؐ نے تو جان کی حرمت کو کعبہ سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ اور آج ہم اپنی جاہلیت پر نبیؐ کی محبت کا غلاف چڑھا کے اپنے نبیؐ کی ہی حرمت اور عزت کو پامال کر رہے ہیں اپنے عمل سے۔
بحیثیت قوم ہم تباہی کی جس نہج پر پہنچ گئے ہیں تو اس آنے والی تباہی سے بچنے کا حل اور تقاضہ یہ ہے کہ ہم اپنے اس نفرت اور بداعتمادی کے بیانیہ کو ترک کریں اور ایک دوسرے کے بارے میں اپنے تعصبات اور نفرتوں کو ختم کر کے باہمی الفت، اعتماد، حرمتِ جان اور ایک دوسرے کو اپنے ہی جیسا عزت دار سمجھنے کی اقدار کو پروان چڑھائیں۔
؎ سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply