گستاخی مذہب اور جذبات کی لاقانونیت

گذشتہ روز بربریت کا اندوہناک واقعہ ہوا، چشم بینا سے گردش کرتے مناظر کے مشاہدے نے کچھ لوگوں کے آتشی جذبات کو تسکین پہنچائی ہوگی، بعض دور اندیشوں کو فکر فردا میں مبتلا کیا ہوگا، ان میں ایسے بھی ہونگے جن کے سامنے (یہ بھی ایک واقعہ کا مصداق بن کر) بھول بھلیوں میں گم ہوجائے گا۔
یہ واقعات معاشرے میں غیر معمولی نہیں ہیں، مگر کیمرے کے محفوظ کردہ لمحات عام آدمی کو حیرت زدہ کرتے ہیں، خون کھول جاتا ہے کہ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں؟ سوالات کا تانتا لگ جاتا ہے؟ اکیسویں صدی کا مہذب جانور جذبات کے کے فریب میں انسانیت دکھا رہا ہے۔
سوال یہ کہ ایسے دہشت ناک واقعات کیوں ہوتے ہیں؟ ؟ آخر ان غیر قانونی اقدامات کو کیسے روکا جاسکتا ہے؟
اصولی طورپرجواب چند سطری ہے، ایک مسلمان کے لئے نبی علیہ الصلوة والسلام کی ذاتِ والا صفات سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوسکتا، قرآن وسنت کی روشنی میں نبی ﷺ کی اتباع ہی محبت کی دلیل ہے، محبت کا تقاضا ہے کہ ایمان وفائے عہد کی قوت دے، ایمانداری کو شیوہ بنائے، اخلاقی برائیوں سے محفوظ کرے ، برصغیر میں اس محبت کی طویل تاریخ رقم ہے جسے نہ جھٹلایا جاسکتا ہے نہ بھلایا۔ اب جبکہ ایک ریاست جس میں 96 فیصد مسلمان بستے ہیں، اور اکثریت کی دین سے وابستگی علم کے بجائے جذبات پر قائم ہے، وہاں ایسے واقعات رونما ہونا کوئی غیر معمولی نہیں، ایسے نیک جذبات قابل ستائش ، ایسی محبت قابل تقلید، لیکن جذبات بےلگام ہیں، تربیت کی چھلنی سے گذرے بنا غیر متوازن غیر معتدل رہتے ہیں، غصہ، کینہ، نفرت جیسے مظاہر غیر متوازن جذبات کی نمایاں جھلک ہے۔ دین سے علمی و شعوری تعلق ان آتشی جذبات کو خاموش کرتی ہے۔ تزکیہ نفس جذبات کے اعتدال ہی کا نام ہے۔ حقیقی Education عقل و جذبات کی جنگ میں توازن پیدا کرتی ہے۔ پھر نہ کوئی سرپھرا توہین رسالت کا تصور کرتا ہے، اور نہ عقیدت کی رو بہہ کر دھاوا بولا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا اہم سبب حکومتی نااہلی ہے، لاقانونیت اسی لاپرواہی کی وجہ سے فروغ پائی ، ظاہرہے جب فیصلے حکومت نہیں کرے گی، تو سڑکوں پر عدالتیں قائم ہونگی، اور ہاتھوں ہاتھ الزام، جرم،قتل کے واقعات رونما ہونگے۔ ہمیں اندازہ ہی نہیں کہ پستی کے کس قعر میں گرتے جارہے ہیں، عوام اور حکومت کی ناگفتہ بہ اقدامات نے بحیثیت قوم تیسری دنیا کے باسیوں سے بھی نیچے گرادیاہے، اور ساری دنیا میں اسلام کو بدگمان کرنے کی خدمت انجام دی ہے۔ رسول اللہ ﷺ کوکسی صحابی نے مشورہ دیا کہ ان منافقین کا قلعہ قمع فرمادیجئے، منافقین زبانی کلمہ گو تھے لیکن اندر ہی اندر اسلام کے خلاف چالیں بناتے تھے مگر آپﷺ مسترد فرمادیا کہ کل کو لوگ یہ نہ بولیں اپنے ہی لوگوں کو قتل کردیا ۔ داعش جیسا دہشت گرد رویہ اسلام کا امیج بین الاقوامی سطح پر خراب کرررہا ہے ۔ اور کچھ دوسرے زاویے سے مذہب کو دانستہ یا نادانستہ طور پر بدنام کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ کسی ایک کو قصوروار نہیں ٹہرایا جاسکتا،ہر عہدے کےکچھ تقاضے ہیں، انسانی عہدہ اخلاق سے لاپرواہ ہوا، اور انتظامی عہدہ قانون کی بالاستی سے نالاں، جبکہ حکومت اقدامات سے کوری، ہر زاویہ متزلزل ہے ، سارےکنارہ مخدوش ہیں، ملحد کی نفسیات میں رد عمل کی شدت، مذہبی کی کیفیات میں جذبات کا بہاؤ، سنجیدگی و تحمل نے کہیں اور آشیانہ بنالیا۔ ان سب حقائق کے سامنے یہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ ہم مجموعی لحاظ سے انحطاط کی جانب گامزن ہے ۔
الفاظ نہیں بیان درد کو میرے
شاید حس تمہاری بھی مردہ ہے

Facebook Comments

عمر خالد
ستاروں کے جھرمٹ میں ایک ذرہ بے نشان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply