اب بتائیں یہ بھی عشق رسول ہے!

ممتاز قادری کیس میں میں نے جو موقف اپنایا( کہ پاکستان میں توہین رسالت کے مرتکب کے لیے سزائے موت کا قانون موجود ہے، اور اس کے مطابق ملزم کے مجرم ثابت ہونے پر سزائے موت صرف عدالت ہی دے سکتی ہے) اور اس موقف پر جو تفصیلی دلائل پیش کیے تھے ،ان میں اس امر پر خصوصی توجہ دی تھی کہ اگر توہین کے الزام پر ہر کوئی خود عدالت لگا کر فیصلہ کرنے اور اس پر سزا نافذ کرنے لگے گا ،تو سوسائٹی میں انارکی پھیلنے کا خدشہ ہے، یار لوگ اس کو مان کر نہیں دیتے تھے، کہ نہیں نہیں یہ معاملہ ایسا نہیں!اب بتائیں عبدالولی خان یونی ورسٹی میں کیا ہوا! جہاں کچھ لوگوں نے توہین کے الزام پر نوجوان کو تشدد کر کے جان سے مار ڈالا، اور بعض خبروں کے مطابق اس کی لاش کو بھی گھسیٹا اور روندا ! میرا نہیں خیال کہ ممتاز قادری کیس میں میرے موقف کے ناقدین میں سے بھی کوئی معقول آدمی عبدالولی خاں یونی ورسٹی میں نوجوان کے ماورائے عدالت قتل کو جائز قرار دے !کسی اور سوسائٹی اور کسی اور قسم کے حالات میں تو شاید کسی ماورائے عدالت اقدام کے حق میں شاید کوئی دلائل دے بھی لے، لیکن ہماری سوسائٹی اور اس میں جاری و ساری انتہائی خطرناک ہیجانی اور فرقہ وارانہ ذہنیت کے پیش نظراس نوع کے ماورائے عدالت اقدام کے حق میں دلائل دینا سوسائٹی کو خود کشی کی طرف دھکیلنا ہے، اور تو اور ان "کلغی" والے دانشوروں اور علما کے رویے کو دیکھ کر ہی اس سوسائٹی کی مذہبی میچورٹی کا اندازہ لگا لیجیے ، جو جھٹ سے ایسے نفسیاتی کیسوں کو مذہبی حمیت اور عشق رسول ﷺ سے جوڑ دیتے ہیں۔

Facebook Comments

ڈاکٹر شہباز منج
استاذ (شعبۂ علومِ اسلامیہ) یونی ورسٹی آف سرگودھا،سرگودھا، پاکستان۔ دل چسپی کے موضوعات: اسلام ، استشراق، ادبیات ، فرقہ ورانہ ہم آہنگی اور اس سے متعلق مسائل،سماجی حرکیات اور ان کا اسلامی تناظر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply