مشال کو ہم سب نے مارا ہے

مشال مر گیا اور ہم سب کو جیتے جی مار گیا۔ دل پر بوجھ ہے کہ بڑھتا جا رہا ہے۔ دوسروں کی تو بات چھوڑئیے، خود پر سے اعتماد جاتا رہا ہے۔ صوابی کے اس حسین و جمیل نوجوان کا جنازہ فقط ایک مقتول کا جنازہ نہیں تھا بلکہ پوری انسانیت کا جنازہ تھا۔ جس جرم کی سزا اسے سنائی گئی وہ تاحال ثابت نہیں ہوا۔ اگر اسے ناکردہ گناہی کی سزا ملی ہے تو اس بہیمانہ کارروائی کے پیچھے کون ہے۔ اس کارروائی کے پیچھے ہم سب ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک اس قتل کا برابری شریک ہے۔ ایسے کسی بھی واقعہ پر ہم میں سے اکثریت ایک دھڑے پر ہو جاتی ہے۔یا تو ہم یکسر مخالفت کرتے ہیں یا مکمل حمایت کرتے ہوئے ظالم یا مظلوم ایک کےساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔
خیر الامور کا فرمان شاید ہمارے لئے ہی تھا جس میں میانہ روی اور غیر جانبداری کا درس ہے مگر ہم دائیں اور بائیں کے چکر سے نکلیں تو اس طرف دھیان جائے ۔وہ پچاس درندے جنہوں نے دن دیہاڑے ایک معصوم پر ظلم و بربریت کے وہ پہاڑ ڈھائے جو بیان کرنے کے لائق نہیں، وہ ہمارے ہی معاشرے کی اکثریتی سوچ کے غماز ہیں۔بنیادی طور پر اس لہو کی لہر کے ذمہ دار تین طبقات ہیں۔اول وہ جاہل عوام جو اس مذموم عمل کا ارتکاب کرتی ہے اور اس جنونی ذہنیت کی حامل ہے۔اور اس ذہنیت کے پیچھے دو عوامل کارفرما ہیں۔ مذہب کی غلط تشریحات پر مبنی انتہا پسند راہنماوں کے نفرت انگیز بیانات و تقاریر اور سوشل میڈیا کے ملحدین کی انتہائی اخلاق سے گری ہوئی ابحاث۔ پاکستانی فری تھنکرز، بھینسا اور موچی جیسے لفظی بارود سے بھرے کارخانے وہ بنیادی محرکات ہیں جو ایک عام مسلمان اور بالخصوص طالب علم کو اشتعال انگیزی پر مجبور کرتے ہیں۔ اکابرین دین اور انبیاء کے متعلق انتہائی بازاری زبان کا استعمال سوشل میڈیا کے ان گروپس میں معمول ہے۔جعلی اکاونٹ بنا کر یہ فاشسٹ شعائر اسلام کی دھجیاں اڑاتے ہیں تو مسلمان کا خون کھولتا ہے۔
دوسری طرف شدت پسند مولوی ہیں جو اشتعال انگیزی میں کوئی کسر روا نہیں سمجھتے۔نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ شدت پسندی کے اس تصادم میں بے گناہ افراد عوام کے ذہنوں میں موجود گھٹن اور وحشت کا سامنا بنتے ہیں۔ سید امجد حسین اور ایاز نظامی جیسے افراد سوشل میڈیا پر مسلمین کے جذبات سے کھیلتے ہیں تو مولوی خادم رضوی، اوریا مقبول جان اور عامر لیاقت جیسے افراد معصوم شہریوں پر بے بنیاد الزام لگا کر ان کی زندگیاں اجیرن بناتے ہیں۔ ریاستی ادارے نا تو شدت پسند ملحدین کو لگام ڈالتے ہیں نا ہی مذہبی شدت پسندوں کو نکیل ڈالتے ہیں۔اس شدت پسندی کے کھیل میں ملاوں کا ستایا فردملحدوں کی گود میں گر کر ان کی بولی بولتا ہے تو ملحدوں کی بدتمیزیوں سے تنگ امن پسند مسلمان قانون ہاتھ میں لینے کی کوشش کرتا ہے۔نتیجہ کے طور پر سلمان حیدر اور مشال جیسے نگینے عوام کی نظر میں مجرم بن جاتے ہیں۔ ہمیں واقعات کو ایک آنکھ سے دیکھنے کی بجائے تصویر کے دونوں رخ دیکھنا ہوں گے۔جب تک ہماری ریاست ان شدت پسند ملحدین اور جنونیت سے بھرے مذہبی پیشواوں کو نکیل نہیں ڈالے گی، ممتاز قادری نکلتے رہیں گے، مشال مرتے رہیں گے، ہم کڑھتے رہیں گے اور وحشت اپنا کھیل کھیلتی رہے گی۔

Facebook Comments

نعیم حيدر
سوچنے، محسوس کرنے، جاننے اور جستجو کےخبط میں مبتلا ایک طالبِ علم ۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply