تاریخ ، عوام اور بیانیے کی حجامت۔۔ابو بکر

اس حقیقت کو فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ کالونیل راج ایک صدی سے بھی زیادہ عرصہ تک ہم پر مسلط رہا ہے۔ہم نے انہی سے آزادی حاصل کی اور آزادی کی میراث بھی انہی سے پائی۔ کالونیل راج کا بنیادی مقصد برصغیر کی لوٹ کھسوٹ تھا اور اس مقصد کے لیے ہر ممکن طریقہ اختیار کیا گیا۔منافع بڑھانے کی خاطر برصغیر کے صدیوں پرانے معاشرے کی بنیادیں ہی بدل دی گئیں بالکل اسی طرح جیسے کسی پرانے مکان کی قیمت اور کرایہ بڑھانے کے لیے اس پر نیا روغن پھیرا جاتا ہے ، بعض دیواریں گرا دی جاتی ہیں اور نئی جگہوں سے دروازے نکال لیے جاتے ہیں۔اس خرابی کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ برصغیر جدید عہد میں داخل ہو گیا۔ کالونیل ازم اور جدیدیت کا باہمی تعلق ایک پیچیدہ معاملہ ہے جس کی گنجائش فی الوقت نہیں۔ یہاں صرف اس بات کو دہرانا مقصود ہے کہ قابض انگریز کالونیل حکمرانوں کا برصغیر سے پہلا رشتہ لوٹ کھسوٹ کا تھا۔

جو ریاست انہوں نے یہاں تشکیل دی وہ اسی مقصد کے تحفظ کی ضامن تھی۔ جب یورپ میں جاگیرداری ختم کی جارہی تھی تو برصغیر میں جاگیرداری کو ازسر نو متعارف کرایا گیا۔ برصغیر کے سماج کو قدیم اور فرسودہ رہنے دیا گیا لیکن اپنے منافع اور اقتدار کے لیے تمام جدید ذرائع استعمال کیے گئے۔ ریل کے وسیع نیٹ ورک کے ذریعے ملک کو آپس میں جوڑا گیا۔ اسی طرح ایک عظیم نہری نظام تعمیر کیا گیا۔اس کالونیل ریاست کے روزمرہ معاملات انگریز بیوروکریسی چلاتی تھی جو انگلستان سے بھرتی ہوتی تھی۔یہ بیوروکریسی عملاً حکمران تھی۔ جاگیردار اس ریاست کا مقامی دلال تھا جس کے مفادات کالونیل حکمرانوں کی اطاعت سے جڑے ہوئے تھے۔ ریاست کے تحفظ کی آخری اور مضبوط ترین دیوار رائل انڈین آرمی تھی۔ فوج کے تمام بڑے عہدے انگریزوں کے پاس تھے۔ اگرچہ کئی لاکھ گورا سپاہی بھی فوج میں موجود تھے لیکن اکثریت مقامی لوگوں کی تھی جنہیں اسی ملک سے بھرتی کیا گیا تھا تاکہ اس ملک کو غلام رکھا جا سکے۔

جس طرح جاگیرادی نظام تشکیل دیتے ہوئے انگریزوں نے مارشل قوموں کی پالیسی اپنائی اسی طرح فوج میں بھی مقامی لوگوں کو ایک منظم انداز سے شامل کیا گیا۔ مارشل قوموں کی پالیسی یہاں بھی نظر آتی ہے۔ مارشل قوموں سے مراد وہ مقامی قبائل اور برادریاں ہیں جو انگریزوں کے خیال میں زیادہ قابل تھے۔انہیں زمینداری کے لائق اور اچھا لڑاکا سمجھا جاتا تھا۔ مارشل قوموں کے جاگیرداروں کو اعزازی عہدے اور خطابات بھی دئیے گئے۔ عام سپاہیوں کو بھی زمینیں الاٹ کی جاتیں تاکہ ان کے مفادات ریاست سے جڑے رہیں۔ دوسری طرف برصغیر کا معاشرہ ابھی فرسودہ حالت میں ہی تھا۔ کالونیل دور میں اس معاشرے کے قدیم تضادات اور بھی خطرناک ہوگئے۔ ہندو مسلم مسئلہ بھی انہی میں سے ایک تھا۔ تحریک آزادی کی سیاسی جدوجہد میں قیادت اور کارکن اسی معاشرے سے اٹھ کر آئے تھے۔ برصغیر کی وسیع آبادی کا سیاسی و سماجی شعور ابھی نہایت خام حالت میں تھا۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب برطانیہ کی کالونیل سلطنت کو زوال آنا یقینی ہو گیا تو اسی بہانے برصغیر نے بھی آزادی حاصل کر لی۔

پاکستان نے آزادی کے وقت جو ریاست میراث میں پائی اس میں بیوروکریسی اور فوج اسی کالونیل نظام کے نقشے پر قائم تھی۔ معاشرہ ابھی جاگیرداری ، شہری سرمایہ دار اور مارشل قوموں کے نوابوں کے زیراثر تھا۔ مسلم لیگ کے سیاسی بحران کی وجہ سے قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں ہی محسوس ہونے لگا کہ مقامی سیاسی قوتیں اس ریاست کو سنبھال نہ سکیں گی۔ کالونیل حکمران کے چلے جانے کے بعد بیوروکریسی اور فوج کے سر سے بھی پرانے آقا تو رخصت ہو گئے لیکن کوئی نیا مالک نہ آیا۔ اس صورتحال میں بیوروکریسی اور فوج نے اپنے مفادات براہ راست ریاست سے جوڑ لیے اور اس کو چلانے کے نام پر اس پر قابض ہوتے گئے۔آزادی سے پہلے ریاست کا سارا منافع کالونیل حکمران لے جاتا تھا لیکن اب وہ یہ منافع اسی کو جانا تھا جو کالونیل حکمرانوں کے بعد یہاں کا مالک بنتا۔ سیاسی قیادت جاگیرادی معاشرے ، نوابوں اور شہری تاجر طبقہ سے آتی تھی۔ یہ طبقات آزادی سے پہلے بھی انگریزوں کے وفادار رہے تھے اور آزادی کے بعد بھی ان کا مطمع نظر یہی تھا کہ کسی طرح معاشرے کو اسی جامد حالت میں رکھا جائے جس سے اقتدار میں ان کا حصہ برقرار رہے۔ کالونیل حکمرانوں کے قائم کردہ جاگیرداری نظام کو قائم رہنے دیا گیا۔ زرعی رقبے کی منصفانہ تقسیم نہ ہونے کی وجہ ملک کا دیہی طبقہ جو اکثریت پر مبنی تھا اسی قدیم حالت میں قائم رہا۔ قیام پاکستان کے بعد سے ہی مذہبی جنونیت کو فروغ دیا گیا تاکہ عوام ان حقیقی سوالات کی طرف توجہ ہی نہ دے سکیں ۔ قرارداد مقاصد اس کا آغاز ہے جس میں عوامی انصاف اور فلاح کی طرف کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ سیاسی قیادت چونکہ بلاشرکت غیرے حکومت کی اہل نہ بن سکی لہذا بیوروکریسی اور فوج کے ساتھ ایک غیر اعلانیہ اشتراک میں آ گئی۔ اقتدار اب تین طبقات میں بٹ گیا۔

فوج چونکہ شروع سے ہی مضبوط تھی لہذا اس کا حصہ اور طاقت بڑھتی چلی گئی۔ مسئلہ کشمیر کے باعث بھارت سے دشمنی بڑھتی گئی اور اس دشمنی سے دونوں طرف اپنے مفادات حاصل کیے گئے۔ ہماری طرف یہ مفادات کچھ زیادہ تھے۔ بھارت دشمنی نے ایک طویل عرصہ سے فوج اور عوام کو ہم قدم رکھا ہے۔ شاید اسی وجہ سے یہ دشمنی بڑے منظم انداز سے قائم رکھی گئی بلکہ بڑھائی گئی۔ عالمی سطح پر فوج نے بھارت دشمنی کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے اپنا کردار قائم رکھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عالمی برادی کے ساتھ معاملات میں بھی فوج ہی حرف آخر رہی۔ گویا یہاں کا اصل اقتدار بھی ان کے پاس ہی ہے۔ اپنے قیام سے لیکر آج تک پاکستان اسی راستے پر آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ صورتحال اصولی پر وہی ہے لیکن زیادہ پیچیدہ ہو چکی ہے۔ ملک میں جاری موجودہ سیاسی بحران کی جڑیں کالونیل دور کے اثرات سے جوڑنا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہ اس معاشرے کی حقیقی تاریخ ہے۔

یہ سوچنا اہم ہے کہ ہمیں کیا کرنا چائیے۔ ہمیں اپنے حالات کو کالونیل تاریخ اور اس کے اثرات سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ان ممالک کو بھی سامنے رکھنا چائیے جو ہماری طرح ہی کالونیل جبر کا شکار رہے ہیں۔ مذہبی جنونیت اور اسلامی شدت پسندی کے فروغ کی وجوہات کو بھی اس سارے تناظر سے جوڑنے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی ممالک کی مجموعی تصویر سامنے ہونی چائیے اور غور کرنا چائیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک میں ریاستی انتظام اسی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ کب اور کیوں ان ممالک میں مذہبی شدت کو بڑھاوا دیا جاتا ہے اور حکمران طبقات میں سے کون اس کا ذمہ دار ہے۔ بیوروکریسی اور فوج کی طرح ہی ہماری سیاسی قیادت کو بھی اسی پیمانے پر تولا جانا چاہیے۔

ہماری سیاسی جماعتیں جس معاشرے سے اٹھتی ہیں وہ معاشرہ کس قسم کے لوگوں پر قائم ہے اور ان کی قیادت کن کے پاس ہے۔ ان جماعتوں کی تاریخ کیا ہے اور ان کا منشور اور حکمت علمی کن مفادات کے لیے بنائی گئی ہے۔ سیاسی عمل میں عوامی شمولیت کس قدر ہے اور کس طرح ہے اس بات کو بھی دیکھا جانا چائیے۔ اگر سیاسی جماعتیں اور قیادت بھی کالونیل دور کے وفادار نوابوں، جاگیرداروں اور شہری تاجروں پر مشتمل ہے تو ہمیں یہ جان لینا چائیے کہ یہ طبقات عالمی طاقتوں کے طفیلیے رہ کر صرف اپنے مفادات کے لیے کام کرتے ہیں۔ کالونیل اور مابعد کالونیل انداز سے دیکھا جائے تو اقتدار چاہے فوج کے پاس ہو یا اس سیاسی قیادت کے پاس عوام کا مقدر وہی ہے۔
لیکن کیا عوام اپنا مقدر بدل سکتے ہیں ؟

ایسے بنیادی سولات سے نظر چرائی جا سکتی ہے اور نسبتاً کم شدید یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا مقدر بدلنے کی کوئی کوشش یا جدوجہد کی جا سکتی ہے۔ بدلے یا بگڑے یہ الگ بات سہی ، البتہ اس کوشش کی صورت کیا ہو۔ یہ موضوع ایک الگ معاملہ ہے جس گنجائش بھی فی الوقت نہیں۔ البتہ اس پر سوچنا نہایت اہم ہے۔

ہمارے یہاں بیانیے ، بیانیے کی جو تکرار سننے میں آتی ہے اسی بھی اس تناظر میں دیکھنا نہایت ضروری ہے۔ کالونیل اقتدار اور آزادی کے بعد اس نظام کے تسلسل کی مجموعی صورتحال میں آج کا کونسا بیانیہ کہاں کھڑا ہے اور عوامی انصاف اور فلاح سے اس کا تعلق کیا ہے۔

پس نوشت کے طور پر یہ عرض ہے کہ موجودہ سیاسی بحران اور اس میں ایک دوسرے سے متصادم قوتیں ، ان کے بیانیے اور ان بیانیوں پر پرجوش ہوئے عوامی کارکن مسئلہ کو اس گہرائی تک نہیں دیکھتے۔ چاہے وہ فوج کے حمایتی ہوں یا سیاسی جماعتوں کے پرستار۔

کہتے ہیں کہ ایک عمر رسیدہ یہودی ربی نے جوان لڑکی سے دوسری شادی رچا لی۔ جب وہ اپنی جوان بیوی کے پاس جاتا تو وہ اس کی داڑھی سے سفید بال اکھاڑتی رہتی تاکہ ربی جوان نظر آئے۔ اسی طرح جب وہ اپنی بوڑھی بیوی کے پاس جاتا تو اس کی داڑھی سے کالے بال اکھاڑنے لگتی تاکہ ربی بھی بوڑھا نظر آئے۔ دونوں بیویوں کے اس جھگڑے میں ایک دن وہ بھی آیا جب ربی کی داڑھی مکمل صاف ہو چکی تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہی حال پاکستان کے ان سوتن گروہوں کا ہے جو بیانیہ ، بیانیہ کی رٹ لگائے باہمی بحث میں مصروف رہتے ہیں۔ دونوں کی خواہش یہی ہے کہ ملک کا نظام ان کی خواہش کے مطابق نظر آئے۔ ایک گروہ کے نزدیک پاکستان سول سپریمیسی اور ووٹ کی طاقت کا پاکستان ہونا چائیے۔ دوسرے کی مرضی یہ ہے کہ پاکستان سے بدعنوانی اور کرپشن کا خاتمہ ہوجائے۔ ان دونوں کی نیک نیتی پر شک نہ بھی کیا جائے تو بھی یہ بات سامنے کی ہے کہ اس باہمی لڑائی میں پاکستان کا حال ربی کی داڑھی سے کچھ زیادہ مختلف نہ ہوگا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply