بھارت پر فوجی بالادستی کی ڈاکٹرائن۔۔طارق احمد

اس ڈاکٹرائن کی بنیاد اس تصور پر رکھی گئی  کہ مسلمانوں نے چونکہ 800 سال تک ہندوستان پر حکومت کی ہے۔ چنانچہ پاکستان جو کہ ایک اسلامی ریاست ہے۔ یہاں کے مسلمان آج بھی ہندوستان کے اوپر عسکری اور فوجی برتری کے اہل ہیں۔ اور ہمارا ایک فوجی بھارت کے دس فوجیوں کے برابر ہے۔ اس اسلامی جہادی اور عسکری تصور کی کامیابی کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا گیا۔ جس میں ہندوستان اور اسلام کی تواریخ سے اسلامی مجاہدوں کے رومان پرور امیج کو گلوری فائی  کیا گیا۔ بھارت کو ایک ایسا دشمن سمجھا گیا۔ جو پاکستان کی تخلیق کے خلاف ہے اور موقع پاتے ہی پاکستان کے وجود کو مٹا دے گا۔ اس تصور کو کشمیر کی جنگ اور کشمیر کے تنازع سے توانائی ملتی رہی۔ اور دو قومی نظریہ پاکستان کے وجود کا لازمی حصہ بن گیا۔ بھارت کے ساتھ مخاصمت نے پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسیوں کو متاثر کیا اور پاکستان کی سماجی اور معاشی اور فوجی ترقی پر اس کے اثرات مرتب ہوئے۔ بھارت پر برتری کے اس تصور کو پہلے 1965 کی جنگ اور پھر 1971 کی جنگ میں شدید ضرب لگی۔ پاکستان دولخت ہو گیا۔ اور اندرا گاندھی نے اعلان کیا۔ اس نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے۔

بھارت کے ساتھ دشمنی نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کو پرو امریکہ بنا دیا۔ جس کا آغاز وزیر اعظم لیاقت علی خان کے مئی 1950 میں امریکہ کے دورے سے ہوا۔ حالانکہ روس اس سے قبل لیاقت علی خان کو دورہ روس کی دعوت دے چکا تھا۔ لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر لیاقت علی خان امریکی یاترا پر چلے گئے۔ کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ ملک غلام محمد اور سیکرٹری ڈیفنس سکندر مرزا نے لیاقت علی خان کو انفلوئنس کیا۔ 1951 میں جنرل ایوب پاکستان کی فوج کے کمانڈر انچیف بن گئے۔ ایوب خان ایک جونیئر جرنیل تھے۔ اور ایک خیال کے مطابق انہیں  سکندر مرزا کی سفارش پر پہلا پاکستانی سپہ سالار مقرر کیا گیا۔ لیاقت علی خان نے جس پرو امریکی خارجہ پالیسی کا آغاز کیا تھا۔ آنے والے سالوں میں اس میں شدت آ گئی ۔ پاکستان کولڈ وار کا حصہ بن گیا۔

نیٹو اور سینٹو جیسے روس مخالف معاہدوں میں شمولیت اختیار کی گئی ۔ اور جنرل ایوب کے دور میں پشاور کے قریب بڈھ بیر کا فضائی اڈا امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ کے ساتھ اس سانجھے داری کے نتیجے میں پاکستان کو بے بہا امریکی فوجی اور مالی امداد حاصل رہی۔ پالیسی یہ تھی، ضرورت پڑنے پر اس فوجی امداد کو بھارت کے خلاف استعمال کیا جائے  گا۔ اور جس کا آغاز  آپریشن  جبرالٹر کی شکل میں کشمیر میں کیا گیا۔ اس امریکی مالی امداد کی وجہ سے پاکستان کی معاشی ترقی بھی ہوئی  ۔لیکن روس ہمارا دشمن بن گیا۔ جس نے 1965 اور 1971 کی جنگوں میں کھل کر بھارت کی مدد کی۔ جبکہ ہم ساتویں امریکی بحری بیڑے کا انتظار ہی کرتے رہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

امریکی موقف یہ تھا  کہ وہ پاکستان کی مدد کولڈ وار کا ساتھی ہونے کی وجہ سے کر رہا ہے۔ نہ کہ بھارت کے خلاف۔ جبکہ ہم اس کولڈ وار کا حصہ بنے  ہی بھارت کی وجہ سے تھے۔ مسلسل فوجی آمریت کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی کا آغاز ہوا۔
1971 تک بھارت پر سپریمیسی کی ڈاکٹرائن دم توڑ گئی ۔ یہ معلوم ہو گیا، امریکہ پر انحصار نہیں کیا جا سکتا  اور یہ کہ روائتی ہتھیاروں سے بھارت کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا  اور نہ ہی بھارت کے ساتھ روایتی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ چناچہ ذوالفقار علی بھٹو نے جنگی توازن قائم رکھنے کے لیے ایٹمی پروگرام پر عمل شروع کیا۔ روس کے ساتھ از سر نو تعلقات استوار کیے گئے۔ پاکستان اسٹیل مل جس کا ایک ثبوت تھا۔ اسلامی یکجہتی کے لیے اسلامی کانفرنس کروائی گئی۔ تاکہ امریکہ پر انحصار کم کیا جا سکے۔ اور عرب ملکوں سے تیل کو بطور ہتھیار استعمال کروایا گیا۔ افغانستان میں تزویراتی گہرائی کا تصور معرض وجود میں آیا۔ اور افغان مجاہدین تیار کروائے گئے۔ یہ ایک طرح سے 1971 تک کی تمام پالیسیوں کی الٹ سمت میں چلنا تھا۔

Facebook Comments

طارق احمد
طارق احمد ماہر تعلیم اور سینیئر کالم نویس ہیں۔ آپ آجکل برطانیہ میں مقیم ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”بھارت پر فوجی بالادستی کی ڈاکٹرائن۔۔طارق احمد

Leave a Reply