اُمت ِسید لولاک سے خوف آتا ہے

خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں پیش آنے والے سانحہ پر جتنا افسوس کیا جائے،کم ہے۔ ہم افسوس کے علاوہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔ ہم نے کبھی اپنی قوم کی تربیت کا سنجیدگی سے سوچا ہی نہیں، نہ ہی اسے تہذیب سے جینے کے ڈھنگ سکھائے۔ یہی وجہ ہے کہ جس کا جی چاہتا ہے دوسرے کو مرتد،گستاخ، خارجی اور واجب القتل قرار دے کر خود ہی عدالت لگاتا ہے اور خود ہی قتل کا فیصلہ صادر کر دیتا ہے،مگر حیرت اس بات پر ہےکہ اس قوم کے لکھنےوالے، بولنے والے،علماء اور دانشور سنجیدگی سے کبھی اِس کو موضوع بحث نہیں بناتے۔مزید براں بہت سے ایسے بھی ہیں جن کے نزدیک اسلام امن کا نہیں بلکہ غیرت کا درس دیتا ہے، چنانچہ وہ اپنے اشار ہ ء ابرو سے جس کے متعلق موت کا فیصلہ صادر فرماتے ہیں اُس کی گردن ناپ لی جاتی ہے۔ اِن سے کوئی پوچھےکہ اپنے آخری خطبہ میں رسالت مآبﷺ نے جس چیز کو کعبہ سے بھی محترم قرار دیا تھا وہ لوگوں کی جان ، مال، عزت اور آبرو ہی تھی۔پیغمبرﷺ نے اس پر بھی سخت وعید سنائی کہ” خبردار! کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف کسی ہتھیار سے بھی اشارہ نہ کرے مبادا کہ جہنم میں جا گرے”۔جس نبی کی توہین کی آڑ لے کرصاحبانِ جبہ و دستار لوگوں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں، کیا اُس کی رحمت، شفقت، نرمی، بلندیِ اخلاق اورخوش خلقی کے تمام نمونے فراموش کر گئے؟
سُنیے! سیدنا انس رض بیان کرتے ہیں” ایک مرتبہ ایک اعرابی نے حضور رسالت مآبﷺ کی چادر کو اس زور سے کھینچا کہ چادر کا کنارہ آپ کی گردن مبارک میں کھُب گیا اور پھر کہا محمدﷺ۔۔مجھے اپنے دونوں اُونٹوں پر لادنے کیلئے مال چاہیے، کیونکہ جو مال تیرے پاس ہے وہ نہ تیرا ہے، نہ تیرے باپ کا۔ آپ ذرا خاموش سے ہو گئے، پھر فرمایا،مال تو اللہ کا ہے اور میں اس کا بندہ ہوں۔پھر آپ نے پوچھا جو سلوک تم نے مجھ سے کیا تمہیں اس پر خوف نہیں آتا؟ اس نےجھٹ سے کہا ،نہیں! آپ نے پوچھا کیوں؟ اُس نے کہا میں جانتا ہوں تم برائی کے بدلے برائی نہیں کرتے۔ اس پر آپ ہنس دیئے اور حکم دیا کہ اِس کے ایک اونٹ پر جو اور دوسرے پر کھجوریں لاد دو”۔
اہل علم کی ذمہ داری ہے کہ وہ قوم کی تربیت کریں جو ان کا اصل منصب ہے۔ اُنہیں اپنا نکتہ نظر واضح کرنا ہو گا کہ وہ کس طرف کھڑے ہیں، کیا ہجوم کے دین کے ساتھ ہیں؟ یا اصل دین کے داعی ہیں؟ انہیں واضح کرنا ہو گا کہ توہین رسالت کا الزام کوئی معمولی الزام نہیں ہے، اس پر سزا دینے کا اختیارکسی فرد یا جتھے کو ہر گزنہیں دیا جا سکتا۔ابھی بھی وقت ہے کل قیامت کے دن اگر سلمان تاثیر یا مشعال خان نے کٹہرے میں کھڑے ہو کرپوچھ لیا کہ اِن سے جینے کا حق، جو پروردگار نے ان کو دیا تھا، کیوں چھینا گیا تو یقین جانیےخدائی فوجدار بن کر فیصلہ کرنے والےکسی شخص کا کوئی فقہی استدلال اورکوئی عذر کام نہیں آئے گا۔

Facebook Comments

سید جواد کاظمی
ایم-فل ارضیات: مذہب، سائنس اور ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply