بانجھ کوکھ

آسمان پر چاروں اور گھٹا ٹوپ اندھیرا چھایا ہوا تھا ۔ زمین بنجر اور جل کر کوئلہ بن چکی تھی ۔ وہ زمین جو ہر سال سبز لبادہ اوڑھ کر اپنی چھب دکھلاتی تھی آج کسی بیوہ کی طرح سیاہ ماتمی لباس میں نظر آتی تھی ۔ گاؤں کے ہر گھر میں ایک بوڑھا اور بڑ ھیا رہتے ہیں ۔علاقے کے بڑے بڑے کاہن ،پروہت سر جوڑ کر بیٹھے ہو ئے ہیں لیکن ان کی کوئی بھینٹ ،قربانی، نذر و نیاز دیوتاؤں کے حضور قبولیت کا درجہ نہیں پاتی ۔
“آخر اس سمسیا کا کیا حل ہے ؟ سب سے معزز اور طاقت وار کاہن نے اپنے پروہتوں سے پوچھا ؟
“سمجھ میں نہیں آتا ججمان ؟ ” یہ مصیبت ہمارے ہی علاقے پر کس لئے آئی ہے ..! ہم تو ہر سال تھور، لاٹ اور اوڈین کے حضور نہ صرف خون بہترین جانوروں اور یہاں تک کہ اپنے خوبرو ،کڑیل جوانوں کا نذرانہ بھی پیش کر چکے ہیں _”
” نا جانے کیوں ہمارے دیوتا ہم سے ناراض ہیں ،ایک صدی بیت گئی ،نہ زمین سر سبز ہوتی ہے نہ آسمان آگ برسانا چھوڑتا ہے ۔ ہماری نسل تقریبا” نا پید ہو چکی ۔ہماری عورتوں کے رحم سکڑ کر نا کارہ ہو گئے ہیں ۔ عرصہ گزر گیا کسی بھی گھر سے کسی بچے کی کلکاریوں کی آواز نہیں آئی ۔
اس سے پہلے تو نہ کبھی اس خطے کی زمین بانجھ ہوئی تھی نہ کوئی کوکھ ۔”پچاس سال پہلے تک تو ماؤں نے اتنے بہادر ،جنگجو ،طاقتور سورما جنے تھے _ پھر وہ ہی سورما چھوٹے چھوٹے اختلاف پر ایک دوسرے کو قتل کرنے لگے ۔ہر دن درس گاہوں ، کھیل کے میدانوں ، ندی کنارے ، خانقاہوں ، سمندروں ،ریگزاروں ،رہگزاروں میں لوگ مارے جانے لگے ۔ وہ نوجوان جو ہمارا سرمایہ تھے،ہمارے مستقبل کی نوید تھے ۔ درختوں کی طرح کٹ کٹ گرنے لگے ۔ ”
یہ اختلافات گھروں ،وادیوں ،پہاڑوں سے نکل کر میدانوں ،شہروں میں پھیلتے گئے ۔ ایک نسل ماری جاتی تو اس کی جگہ ایک اور زیادہ طاقتور ،غضب ناک پود تیار ہو جاتی ۔ان سالوں میں اس سرخ زمین پر اتنی خونریزی ،قتل و غارت ہوا کہ زمین نے مزید خون کا دان لینے سے انکار کر دیا ۔ ہمارے ندی،نالے ،دریا خون سے اٹ گئے ۔ زمین سے اناج کی جگہ خوں رنگ کانٹوں کی فصل اگ آئی ۔پانی کا ذائقہ عجیب دھاتی سا ہو گیا اور اسے پی کر بھی پیاس بجھتی نہیں تھی بلکہ دو چند ہوتی جاتی تھی ۔
یہ قتل وخون کا بازار مزید پچاس سال تک چلتا رہا ۔ کیونکہ یہاں کی عورتوں نے بہادر سپوت جننے کی بجائے خونخوار قاتل پیدا کرنے شروع کر دیئے تھے ۔ تو ایک دن بڑی کا ہنہ نے اس خطے کو بد د عا دے دی۔
اس لئے یہاں کی زمین بھی بانجھ رہےگی اور عورتیں بھی ۔
کچھ ایسا ہی حال ہمارے ملک کا بھی ہو رہا ہے۔ہمارے ملک کی ماؤں کی کوکھ سے بھی مذہبی ،جنونی قاتل پیدا ہو رہے ہیں جو کسی کے بھی لخت جگر کو ،کہیں بھی ڈنڈوں ،لاٹھیوں ،لاتوں اور ہتھیاروں سے دن دھاڑے ، درس گاہوں ،بازاروں ،گلی،محلوں میں جان سے مار دیتے ہیں ۔کوئی بھی ایسا نہیں جو بڑھ کر ان کا ہاتھ روک لے ،اکثر تو اس بہتی گنگا میں اپنے ہاتھ دھو لیتے ہیں یا دور کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں،فون سے ویڈیو بناتے ہیں اور فخر سے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کر دیتے ہیں ۔ارے ان کا دل نہیں پگھلتا ، بدن کے رونگٹے کھڑے نہیں ہوتے ،دکھ اور تاسف سے منہ چھپانے کو دل نہیں کرتا ۔کیسے کسی انسان کو اس طرح سر عام مار دیا جائے اور اس قوم کے ہونہاروں کے جسم میں خوف کی لہر بھی نہ دوڑے ۔
اگر وہ خود کو اس نوجوان کی جگہ رکھیں ،اس کی تکلیف کا احساس کریں تو کیا وہ ایسا ہونے دیں گے ؟نہیں اب اس خطے کی مائیں صرف قاتل ہی پیدا کریں گی جو کسی کی سوچ ،خیالات اور عقیدے پر اسے ڈنڈے مار مار کر لہو لہان کرتے رہیں گے اور خلقت دیکھتی رہے گی _
وہ دن دور نہیں میرے بیٹے ،میرے لخت جگر “مشال خان” جب یہاں کی مائیں بھی بانجھ ہو جائیں گی اور تم جیسا خوبرو ،ہونہار اور کڑیل جوان کبھی دوبارہ جنم نہیں لے گا .
آؤ اس وقت کاسب مل کر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرکے انتظار کریں۔ٹک ٹک دیدم۔

Facebook Comments

فرحین جمال
قلمی نام : فرحین جمال تاریخ پیدایش : 31 دسبر . لاہور ،پاکستان . تعلیم : بیچلر ز ان سائنس ، بیچلرز ان ایجوکیشن ، ماسٹرز ان انگلش ادب پیشہ : درس و تدریس . خود ہی خیر آباد کہہ دیا پہلا مطبوعہ افسانہ : ' کھیل ' ثالث 2013، "رجو ' 2015 شمع دہلی، 'رجو '2015 دبستان ادب ، "آنگن "2014 ثالث ، "وقت سے مسابقت " سنگت 2016، "سرد موسموں کے گلاب " ثالث فکشن نمبر2016، ""سرخ بالوں والی لڑکی ' سنگت 2016 ، "دیوی " 2016 ، افسانے جو مشہور ہوے " میں کتاب "نقش پائے یوسفی" میں ایک تحریر شامل ،ابھی زیر طبع ہے افسانوی مجموعہ ، سال اشاعت ابھی تک کوئی بھی نہیں ..

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply