• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب۔۔/آخری حصہ

پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب۔۔/آخری حصہ

سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ کاشف مرزا اس اخلاق باختہ حرکت کی بھی مہمل توجیہات پیش کرتے دکھائی دیئے، اور بغیر کوئی شرمندگی دکھائے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس کا ذمہ دار بھی ملالہ کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی کتاب میں جنرل ضیاء الحق کے لئے ’’پانڈا شیڈو آئیز‘‘ اور ملا عمر کے لئے ’’ون آئیڈ ملا‘‘ کے الفاظ لکھے ہیں، اس لئے کاشف مرزا کو بھی حق حاصل ہے کہ وہ ایسی پست حرکت کریں کہ ملالہ کے ساتھ کسی جانور کی تصویر جوڑ دیں۔ حیرانی کی بات ہے کہ بزعم خود ایک دانشور یہ بات جاننے سے قاصر ہے کہ انگریزی زبان میں انگریزی اصطلاحت ہی استعمال ہوں گی۔ ملا عمر خود کو ملا ہی کہلواتے تھے، اور اس میں بھی کیا شبہ ہے کہ وہ ایک آنکھ سے محروم تھے، ایسے میں انہیں انگریزی میں ’’ون آئیڈ ملا‘‘ نہ لکھیں تو کیا ٹو آئیڈ ملا کہیں؟ اسی طرح جنرل ضیاء الحق کی آنکھوں کے گرد گہرے سیاہ ہلکوں سے کون واقف نہیں۔ ایسے حلقوں کو پانڈا شیڈو آئیز ہی کہا جاتا ہے۔

کاشف مرزا پھر فرماتے ہیں، ’’اور میں ایک بات بتاؤں۔۔۔ یہ سوشل میڈیا پر ۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں کیا۔۔۔۔‘‘۔

احمد قریشی انہیں پھر احساس دلاتے ہیں کہ ایک ماہر تعلیم کو ایسی حرکت زیب نہیں دیتی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے احمد کے تاثرات واضح تھے کہ وہ ان مضحکہ خیز ’’دلائل‘‘ کو کس مجبوری سے برداشت کر رہے ہیں۔ کاشف مرزا نے اس موقع پر کہا، ’’یہ سوشل میڈیا پر آل ریڈی (پہلے سے) موجود ہے۔۔۔۔ یہ ہم نے نہیں لگائی۔۔۔‘‘۔

کمال است! یعنی کاشف مرزا کی فکری گہرائی اور گیرائی کا مزید اندازہ اس بات سے ہی لگا لیں کہ اپنی ہی شائع کردہ کتاب میں موجود ایک شے کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں کہ صاحب، ہم نے نہیں لگائی۔ اور پھر ڈھٹائی دیکھئے کہ کہتے ہیں کہ یہ سوشل میڈیا پر پہلے سے موجود ہے۔ گویا سوشل میڈیا پر پائی جانے والی مغلظات ان کے نزدیک کسی آسمانی سچائی کا نام ہیں۔

مجھے ذات طور پر مایوسی اور صدمہ تھا کہ میں، کاشف مرزا کی کسی ایک بات سے بھی متفق نہیں ہو پا رہا۔ مگر پروگرام کے آخر میں انہوں نے ایک ایسی خوبصورت بات کہی، جس میں ان سے مجھے کوئی اختلاف نہ تھا۔ انصاف کا تقاضہ یہ ہے کہ اس تحریر میں اس کا ذکر بھی کیا جائے۔ آپ نے کہا کہ ’’پاکستان زرخیز ہے۔ خواتین کا بہت اہم، وائٹل (بھرپور) رول (کردار) ہے۔۔۔ خواتین جو ہیں (وہ) مردوں سے زیادہ بہتر پرفارم کر رہی ہیں۔ ‘‘۔

زندہ باد! کیسی کھری اور سچی بات کہی تم نے۔ یقینی طورپر خواتین، مردوں سے بہتر پرفارم کر ہی ہیں۔ اس ضمن میں ملالہ سے بہتر مثال بھلا اور کیا ہو سکتی ہے؟

پروگرام کے اختتام پر کاشف مرزا نے ملالہ اور ضیاء الدین صاحب کو ان الفاظ میں للکارا، ’’میں ملالہ کو، ضیاء الدین کو، اوپن چیلنج کرتا ہوں۔۔۔۔ کہ پوری دنیا میں۔۔۔ اس کو (اگر) ڈر لگتا ہے پاکستان آنے میں۔۔۔ میں پوری دنیا میں کسی بھی جگہ، جہاں وہ اپنے آپ کو بہت محفوظ سمجھتے ہیں، میں آنے کو تیار ہوں۔۔۔۔ وہ اپنی کتاب کے اوپر بھی، اور میری کتاب کے اوپر بھی، دونوں کے اوپر مجھ سے ڈیبیٹ کر لیں، اس کی سچائی کے اوپر۔۔۔ اور میں ان سے کہتا ہوں کہ میرا خون تم پر حلال ہے، اگر تم مجھے غلط ثابت کر دو۔‘‘۔

سچائی! کیا کہا، سچائی! واہ کاشف مرزا، آپ کی حس مزاح بھی خوب ہے۔ یہ لفظ کم از کم آپ کے ہونٹوں پر بہت اجنبی اجنبی سا لگ رہا ہے۔ اور یہ بھی خیال رہے کہ جس ملالہ نے خود پر قاتلانہ حملہ کرنے اور کرانے والوں کو بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی سنت پر عمل کرتے ہوئے درگزرکر دیا اور انہیں تعلیم حاصل کرنے اور امن کی راہ پر چلنے کی دعوت دی، کیا وہ ملالہ ، کاشف مرزا کا خون حلال کرے گی؟

احمد قریشی کے پروگرام میں آدھے گھنٹے تک ٹی وی سکرین پر دروغ گوئی اور نفرت کا پرچار کرنے کے بعد کاشف مرزا کے بھاگ ایک بار پھر جاگے اور 7 فروری کو انہیں ایک اوسط درجے کے اینکر، یعنی ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں اپنا زہر اگلنے کا موقع ملا۔ اب کی بار پہلے سے میچ فکس کرا لیا گیا تھا، یعنی ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا کے تمام جھوٹ خوب مرچ مصالحہ لگا کراپنے پروگرام میں پیش کرنے کے لئے پوری طرح تیار یعنی اس جرم میں پوری طرح شریک کار تھے۔

ڈاکٹر دانش اپنے پروگرام کے آغاز میں کہتے ہیں، ’’یہ وہ ملالہ ہے، جس کے والد کا سوات میں پرائیویٹ سکولز کا کاروبار تھا۔‘‘۔

آپ کا تو مجھے معلوم نہیں، البتہ ڈاکٹر دانش کی زبان سے مجھے یہ لفظ ’’کاروبار‘‘ کوئی اچھا محسوس نہیں ہوا۔

اگلی سانس میں ڈاکٹر دانش سوال کرتے ہیں کہ لوگ پوچھ رہے ہیں کہ آخر ملالہ نے ایسا کیا کیا ہے کہ اسے دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے؟

اگر کچھ لوگ یا ڈاکٹر دانش خود اس سے لاعلم ہیں تو بہت بہتر ہو گا کہ وہ پہلے اس پر تحقیق کر لیں۔ ان کی بے خبری اس بات کی گواہی نہیں ہو سکتی کہ ملالہ نے کچھ نہیں کیا۔ ان کی بے خبری ان کی اپنی جہالت یا تعصب کی علامت ہے۔

اگلے جملے میں ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر) کر رہی ہے۔۔۔۔‘‘۔

ڈاکٹر دانش کا مسئلہ یہ ہے کہ شاید انہیں انگریزی کی سمجھ نہیں، اس لئے ’’پوچھے کوئی الف تو اسے بے بتاتے ہیں‘‘ کی طرح انہیں ملالہ کی کہی بات کی سمجھ تو آئی نہیں، اس کے برعکس جو ڈاکٹر دانش کی عقل میں پڑا، وہ مکمل الٹ تھا۔ مگر اس کی وضاحت ہم بعد میں کریں گے جب ڈاکٹر دانش اپنے دعویٰ کو سچا کرنے کی غرض سے وہ کلپ دکھائیں گے جس میں وہ اپنی کہی بات ثابت کرنے کی ناکام کوشش کریں گے۔

پھر فرماتے ہیں، ’’اس کتاب کے اندر نظریہ پاکستان، اسلامی قوانین، اللہ، رسول اور ایٹمی، نیوکلیر پاکستان کا سٹیٹس، انسٹی ٹیوشنز، پاکستان کی آرمی، آئی ایس آئی اور دنیا بھر کی سٹیٹ منٹس اس کتاب میں موجود ہیں، جو ملالہ نے لکھی ہے۔۔۔ وہ ملالہ جسے چند دن پہلے تک یہ نہیں پتا تھا کہ محبت کس کو کہتے ہیں۔۔۔ میں دکھاؤں گا ۔‘‘۔

یہاں ڈاکٹر دانش نے دوسری بار وہی بات دہرائی ہے، مگر ہم اس کا جواب اپنے وقت پر دیں گے۔ ان کے جملے سے واضح طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ وہ کس مکارانہ طور پر ملالہ کو غداری اور توہین مذہب کے کیس میں فریم کرنا چاہ رہے ہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمانوں کا تعارف کراتے ہوئے کاشف مرزا، فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ وہ صاحبان ہیں جو ملالہ کے لئے بغض تو رکھتے ہی ہیں، مگر ساتھ ساتھ لا محالہ طالبان کے لئے بھی خصوصی نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

پھر ڈاکٹر دانش، اپنی طرف سے ملالہ کی کتاب سے دانستہ طور پر سیاق و سباق حذف کر کے اپنی طرف سے کچھ ’’قابل اعتراض‘‘ اقتباسات پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر دانش ٹی وی سکرین پر کتاب کی سکرین شاٹس دکھانا شروع کرتے ہیں اور یہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں اور وہ صبح اٹھنا پسند نہیں کرتی۔ بعد میں ڈاکٹر دانش ملالہ پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ اس نے ریپ کا شکار عورت پر ’’اسلامی‘‘ قانون کے مطابق چار گواہوں کی شرط پر تنقید کی ہے۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں، ’’ اس نے اپنی کتاب کے پیج 24 پر اسلام کو لکھا ہے میلیٹنٹ اسلام (عسکری اسلام)۔ ‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش ملالہ کے والد پر تنقید کرتے ہوئے رشدی کے ناول کے مد مقابل کتاب لکھنے پر اعتراض کرتے ہیں۔ اس کے بعد ڈاکٹر دانش اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اس کے بعد بڑی بات لکھی ہے اور وہ پیج 72 میں ہے۔‘‘ اس کے لئے ملالہ کی کتاب سے ایک صفحے کا عکس سکرین پر دکھاتے ہوئے یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ گویا ملالہ نے اس بات پر سوال اٹھایا ہے کہ خدا سب کچھ نہیں دیکھ پاتا۔ ڈاکٹر دانش یہ تبصرہ کرتے ہیں ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘ اس کے بعد ڈاکٹر دانش کہتے ہیں ’’اس کے بعد پیج 75 ۔۔۔۔ جس میں اس نے احمدیوں کا ذکر کیا ہے۔۔۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش اس صفحے کا عکس دکھاتے ہیں جس میں اس قانون پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ زیادتی (ریپ) کا شکار عورت کو چار مرد گواہ لانا پڑیں گے۔ ڈاکٹر دانش کے مطابق یہاں اسلامی قوانین پر اعتراض کیا گیا ہے۔

یوں کوئی آٹھ منٹ تک ملالہ کی مسلسل کردار کشی اور اس کی کتاب کو سیاق و سباق اور اصل متن سے ہٹا کر پیش کرنے کے بعد ڈاکٹر دانش اپنے مہمان یعنی کاشف مرزا کو بولنے کی دعوت دیتے ہیں۔

کاشف مرزا نے اپنی مرضی کے ایمپائر کی موجودگی میں جھوٹ اور فریب سے تیار کردہ پچ پر اپنی بیٹنگ کا آغاز یوں کیا، ’’دیکھیں! اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کا احترام ہر مسلمان، مرد اور عورت پر فرض ہے۔ ‘‘ اور پھر اس کے بعد یہ راگ الاپا کہ ملالہ کی کتاب میں اس کا خیال نہیں رکھا گیا۔ اسی تحریر میں ہم پہلے ہی کاشف مرزا کی جعل سازی کا پول کھول چکے ہیں، لہٰذا اس کو دہرانا غیر ضروری ہے۔ ہم کاشف مرزا کو یاد دلانا چاہیں گے کہ سچ بولنا، مظلوم کا ساتھ دینا، اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور بدگمانی سے بچنا بھی اللہ تبارک و تعالیٰ اور نبی پاک (صلی اللہ علیہ وسلم) کے احکامات ہیں، جن سے کاشف مرزا کا دور کا بھی واسطہ دکھائی نہیں دے رہا۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ اپنے گریبان میں بھی جھانکنا سیکھیں۔

اب ہم آتے ہیں ان الزامات کی طرف جو ڈاکٹر دانش نے اپنی تمہیدی خطاب میں اٹھائے اور جن کو کاشف مرزا نے مزید آگے بڑھایا۔

ذیل میں ملالہ کی کتاب کا وہ اقتباس پیش کیا گیا ہے ، جس پر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ الزام لگایا ہے کہ ملالہ کو موذن کی آواز پسند نہیں۔ ’’وہ بات سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا۔۔۔ وہ بات ان کو بہت ناگوار گزری ہے‘‘ کے مصداق، یہاں ملالہ نے سرے سے ایسی کوئی بات کی ہی نہیں۔ اس کے برعکس ملالہ سوات کی زندگی یاد کرتے ہوئے کہتی ہے، ’’مجھے نیند سے اٹھنا پسند نہیں، اور میں (صبح) مرغ کی بانگوں اور موذن کی اذان کے دوران بھی (گہری) نیند سوئی رہتی ہوں۔ ‘‘ پھر وہ بتاتی ہے کہ اسے پہلے اس کے والداٹھانے کی کوشش کرتے تھے اور بعد میں والدہ، یہاں تک کہ وہ اپنی نیند بھگا کر اٹھ جانے میں کامیاب ہو جاتی۔ چھوٹی عمر میں بچوں کی نیند پکی ہی ہوتی ہے اور ان کے لیے صبح اٹھنا ایک مشکل کام ہوتا ہے، اور یہی بات اس جملے میں لکھی گئی ہے۔ میں اپنے قارئین سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا اس میں ایک بھی لفظ قابل اعتراض ہے؟ یقینی طور پر نہیں، مگر کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش، چونکہ یہ ارادہ کر کے آئے ہیں کہ وہ ملا فضل اللہ کے مشن کو آگے بڑھائیں گے اور ملالہ کی زندگی کو خطرے میں ڈال کر ہی دم لیں گے، لہٰذا وہ مسلسل لوگوں کی مذہبی جذبات اکسا رہے ہیں۔

Getting up

اب آگے چلتے ہیں اور ایک مختصر نظر اس الزام پر بھی ڈال لیتے ہیں جہاں بقول ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ’’اسلامی قوانین‘‘ کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ کوئی بھی عقل، فہم رکھنے والا شخص یہ بات سمجھ سکتا ہے کہ جنرل ضیاء الحق کے بنائے ہوئے قوانین کو ہم انسان کے بنائے قوانین ہی سمجھیں گے اور کسی بھی مہذب معاشرے میں انسان کے بنائے ہوئے قوانین پر غور کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاکہ اس میں بہتری لائی جا سکے۔ واضح رہے کہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو بھی اسی ’’جرم‘‘ کی پاداش میں شہید کر دیا گیا کہ انہوں نے جنرل ضیاء کے قوانین پر نظر ثانی اور ان میں بہتری لانے کی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ یاد رہے کہ ان کی بھی پاکستانی میڈیا پر اسی طرح کردار کشی کی گئی تھی، جیسے یہ نام نہاد اینکرز آج ملالہ کی کر رہے ہیں۔ اس ضمنی تبصرے کے بعد ہم اپنے قارئین کو مولانا منور حسن (سابقہ امیر جماعت اسلامی) کا وہ فرمان یاد دلانا چاہیں گے جس میں موصوف نے اپنے ٹی وی انٹرویوکے دوران کہا کہ اگر کوئی لڑکی زیادتی کا شکار ہو جائے تو یا تو وہ چار گواہ پیش کرے یا پھر خاموشی سے اس سانحے کو نظر انداز کر کے چپکے سے اپنے گھر بیٹھ جائے۔ اس پر میزبان نے ان سے پوچھا کہ کیا یہ کہنا مجرمین کی حوصلہ افزائی کرنے کے مترادف نہیں اور یہ کہ عدل کا تقاضہ کیا ہے؟ اس پر مولانا منور حسن نے بڑی سہولت سے اپنے فرمان کو قرآن الحکیم کے احکامات کا عکس قرار دیتے ہوئے میزبان پر کفر کا فتویٰ لگا دیا اور اسے کلمہ پڑھ کردوبارہ اسلام قبول کرنے کا حکم دیا۔ یہ ہے وہ ملائیت، جو زہر بن کر ہمارے معاشرے میں سرایت کر گئی ہے، اور جس سے جس قدر جلد پیچھا چھڑا لیا جائے، اتنا ہی مسلم دنیا کے حق میں بہتر ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ جنسی عصمت دری، جسے ریپ یا زیادتی کہا جاتا ہے، ایک قبیح جرم ہے اور ایسا جرم کوئی سرعام نہیں ہوتا کہ مظلوم عورت چار نیک، متقی، پرہیز گار اور صالح گواہوں کو عدالت میں پیش کر سکے۔ واضح رہے کہ اگر کوئی اتنا ہی نیک، پرہیز گار، متقی اور صالح شخص ہو گا تو کیا وہ آگے بڑھ کر جرم ہونے سے روکے گا نہیں؟ کیا ہم اسلام کو ایسا غیر منطقی اور انصاف سے دور سمجھتے ہیں کہ ایک تو کسی عورت کی زندگی برباد کر کے رکھ دی جائے اور اس کے بعد اسے یہ کہا جائے کہ وہ یا تو چار مرد گواہ پیدا کرے یا پھر چپ کر کے گھر میں بیٹھی رہے (اور مجرم معاشرے میں کھلے عام دندناتے پھریں اور اپنی حرکتیں جاری رکھیں)؟ دوسری طرف یہ بھی کہ اگر زیادتی کا شکار عورت مقدمہ درج کرانے جائے، تو انصاف دلانے کی بجائے الٹا اسی کے خلاف مقدمہ درج کرا دیا جاتا ہے کہ وہ اس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کر رہی ہے کہ اس کے ساتھ جنسی فعل ہوا ہے۔ کیا کوئی ذی شعور اس طرح کے قانون کو عدل کے مساوی تصور کر سکتا ہے؟ افسوس کہ ڈکٹر دانش، کاشف مرزا اور مولانا منور حسن کی مذہبی اور عورت مخالف فہم کے مطابق یہ ’’اسلامی‘‘ قوانین ہیں۔ واضح رہے کہ ضیاء الحق کے حدود قوانین کی رُو سے زیادتی کا شکار ہونے والی عورت کو چار مرد گواہ پیش کرنا لازم ہیں۔ اور اگر آپ ہمارے نام نہاد علماء سے فتاویٰ حاصل کریں تو وہ چار مردوں کی شرط سے بھی مطمئن نہیں ہیں، بلکہ کہتے ہیں کہ ان چاروں نے جنسی فعل ایسے ہی سرزد ہوتا دیکھا ہو جیسے سرمہ دانی میں سلائی داخل ہوتے دیکھی ہو۔ گویا ریپ کا شکار عورت اس دنیا میں تو کسی صورت انصاف نہیں پا سکتی، الٹا اسے خود سزا دے دی جاتی ہے کہ وہ جنسی فعل کا اعتراف کر رہی ہے۔

یہاں ہم یہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہمارے مطالعے اور غور و فکر کے مطابق قرآن الحکیم میں چار گواہوں کی شرط کا تعلق ہرگز ریپ کا شکار عورت کے لئے نہیں ہے۔ ذیل میں ہم سورۃ النور کی آیت کو پیش کر رہے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ ہم  قارئین سے پوچھتے ہیں کہ یہاں کہاں پر زیادتی کی شکار عورت کا ذکر ہے؟ یہاں تو یہ کہا گیا ہے کہ اگر کسی پاکباز عورت پر کوئی اٹھ کر بدکاری کا الزام لگا دے، تو الزام لگانے والا چار گواہ پیش کرے۔

Surah-Al-Noor

اسی طرح اب ایک نظر سورۃ النساء کی آیت بھی دیکھ لیتے ہیں جہاں چار گواہوں کا ذکر ہے۔ یہاں اُن خواتین کی بات ہو رہی ہے جو بدکاری میں ملوث ہیں۔ ظاہر ہے کہ زیادتی کا شکار عورت ایک مظلوم عورت ہے، اسے بدکار تصور نہیں کیا جا سکتا۔ لہٰذا سورۃ النساء کی اس آیت میں بھی ریپ کا ذکر نہیں ہے۔ اس آیت میں بھی یہ امکان کم کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ کوئی بھی اٹھ کر کسی عورت کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے، ماسوائے اس کے کہ وہ چار گواہ پیش کر سکے۔

یہ آیات ہماری سمجھ کے مطابق تو خواتین کو کسی جھوٹے الزام سے بچانے اور ان کی معاشرے میں حفاظت یقینی بناتی دکھائی دیتی ہے، جب کہ مولانا منور حسن اور حدود قوانین اسے خواتین کے ساتھ ظلم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ افسوس کہ ہمارے مذہبی دانشور اپنے نفس کی پیروی میں کلام الٰہی کی تشریح میں ملاوٹ سے بھی باز نہیں آتے۔

Surah An-Nisa

اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے اس اعتراض پر کہ ملالہ کی کتاب میں ’’میلیٹنٹ اسلام‘‘ کی اصطلاح کیوں استعمال ہوئی۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس کتاب میں صرف ایک جگہ پر یہ اصطلاح لکھی گئی ہے۔ اس کے علاوہ کتاب میں جہاں جہاں اسلام کی تعلیمات کا ذکر آیا ہے، وہاں صرف اسلام ہی لکھا گیا ہے۔ میلیٹنٹ یا عسکری اسلام کی اصطلاح ملالہ کی ایجاد کردہ نہیں، بلکہ یہ تو وہ اصطلاح ہے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے دنیا میں مستعمل ہے۔ اس سے مراد اسلام جیسے جامع اور وسیع القلب دین کی ایسی تنگ نظر اور لہو میں لتھڑی ہوئی غلط تعبیر اور تشریح ہے، جسے دنیا بھر کی مسلمان عسکری تنظیمیں اپنے اپنے مفادات کے فروغ کے لئے پیش کر تی ہیں۔ چاہے وہ بیت اللہ محسود، حکیم اللہ محسود، فضل اللہ جیسے ظالم ہوں یا بوکوحرام یا داعش کے دہشت گرد، یہ سب جس ’اسلام ‘ کے نام پر کشت و خون کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں، وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا اسلام نہیں، بلکہ ان کا اپنا مسخ شدہ یعنی عسکری اسلام ہے۔

اس وضاحت کے بعد اب باری آتی ہے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے ایک مضحکہ خیز اعتراض کی طرف، جس میں ڈاکٹر دانش نے یہ الزام لگایا، ’’میں بھی ایک طالب علم کی حیثیت سے اس جملے سے پریشان ہو گیا ہوں۔ میں ان سے پوچھوں گا کہ اس کا کیا مطلب ہے۔۔۔ اور کیا یہ چیز ہے کہ کیا خدا سے بھی کوئی چیز مس (نظر انداز) ہو سکتی ہے؟‘‘۔

افسوس ہے ان صاحبان کی ذہنیت پر جو ہر شے کو اپنی تنگ نظر کے عدسے سے دیکھتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم اس الزام کا جواب دیں، ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کے سامنے علامہ اقبال کے کچھ اشعار رکھنا چاہیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ کیا وہ علامہ اقبال پر بھی اللہ کی توہین کا الزام لگائیں گے کہ نہیں! اگر نہیں، تو وہ نہتی ملالہ کے معاملے میں داروغہ بن کر کیوں سامنے آ رہے ہیں؟

ذرا علامہ اقبال کا یہ قطعہ دیکھئے:۔

Iqbal-one

کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر بھی ہنگامہ مچائیں گے کہ اقبال نے اللہ تعالیٰ کو بخیل کہا اور یہ کہا کہ تو ایسا ساقی ہے جس کا پیمانہ خالی ہے؟

لگے ہاتھوں ذرا اقبال کی شہرہ آفاق نظم شکوہ کا یہ شعر بھی دیکھ لیجئے:۔

Iqbal-two

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کیا اقبال پر بھی فردِ جرم لگائیں گے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہرجائی کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں؟

اقبال کے کلام میں سے ایسی بہت سی اور مثالیں بھی دی جا سکتی ہیں ، مثال کے طور پر ایک مقام پہ وہ اللہ سے کہتے ہیں کہ تیرا نقش (تخلیق آدم) باطل نکلا۔

Iqbal-three

اور

Iqbal-four

اگر اقبال کی زندگی میں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش جیسے صاحبان موجود ہوتے اور اگر اس دور میں بھی فضل اللہ جیسے ’میلیٹنٹ اسلام‘ کے نمائندگان موجود ہوتے، تو اقبال بھی کسی خود کش کی بھینٹ چڑھ چکے ہوتے۔ اور اگر اقبال کے دور میں ضیاء الحق کا سکہ چل رہا ہوتا تو اقبال ملاؤں سے اپنی جان پچاتے پھر رہے ہوتے اور ان پر بلاسفمی یعنی توہین مذہب کا مقدمہ چل رہا ہوتا اور وہ کسی روز سلمان تاثیر کی طرح کسی اندھی گولی کا نشانہ بن چکے ہوتے اور ان کا قاتل یہاں قوم کے ایک بڑے طبقے کا ہیرو ہوتا اور اس کا مقدمہ ہائی کورٹ کے جسٹس صاحب لڑ رہے ہوتے اور عدالت میں اس پر گل پاشی ہو رہی ہوتی۔

امید ہے کہ ڈاکٹر دانش، کاشف مرزا اور ان کے ہم نوا کم از کم اقبال کے معاملے میں اپنی تنگ نظری اپنے تک ہی رکھیں گے۔ یقینی طور پر اقبال ایک نابغہ روزگار اور عظیم شخصیت ہیں اور کسی طور انہوں نے کوئی توہین نہیں کی۔ اس کے برعکس یہ شاعرانہ سچائی (پوئٹک ٹرتھ) کی مثالیں ہیں، جس میں شاعر اپنی بات ایک نئے پیرائے میں پیش کرتا ہے۔

اب ہم آتے ہیں ملالہ کی کتاب کے اس اقتباس پر جسے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے خوب اچھالا اور ملالہ کی کردار کشی جاری رکھی۔ میرے مطابق وہ اس کی کتاب کا ایک خوبصورت اور پر اثر حصہ ہے، جس پر سمجھ بوجھ سے عاری یہ صاحبان بے کار میں انگلیاں اٹھا رہے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ ملالہ کی عمر محض آٹھ، نو سال ہے اور وہ اپنے ارد گرد لوگوں کو مشکلات سہتے ہوئے دیکھ رہی ہے۔ ایک بچے کا سہارا اس کے والدین ہوتے ہیں، اور جب ملالہ نے دیکھا کہ اس کے والد بھی بے بسی سے حالات کو دیکھ رہے ہیں اور غمزدہ ہیں تو اس نے اپنی کتاب میں یہ لکھا کہ اس کے پاس سوائے اس کے اور کوئی حل نہیں تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی۔ لہٰذا اس نے کاغذ، قلم پکڑا اور اللہ تعالیٰ کے نام خط لکھا،۔

Letter

۔’’پیارے اللہ! میں جانتی ہوں کہ آپ سب کچھ دیکھتے ہیں۔۔۔ مگر بہت کچھ ایسا ہے جو نظر انداز ہو رہا ہے۔۔۔ خاص طور پر افغانستان پر بموں سے حملے۔۔۔۔ لیکن میں نہیں سمجھتی کہ آپ میری سڑک پر کوڑے کے ڈھیر پر زندگی گزارنے پر مجبور بچوں کو دیکھ کر خوش ہوں گے۔۔۔۔ اے خدا! مجھے طاقت اور ہمت دے اور مجھے کامل بنا دے کیونکہ میں اس دنیا کوبہتر بنانا چاہتی ہوں۔۔۔۔ ملالہ۔‘‘۔

یہ دعا کرنے کا کیسا خوبصورت انداز ہے، جس کے حرف حرف سے خدا اور انسانیت سے محبت جھلک رہی ہے۔۔۔۔ اور دوسری طرف ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا بضد ہیں کہ اس میں سے توہین کا پہلو نکالا جائے۔۔۔ جس طرح خوبصوتی اصل میں دیکھنے والے کی آنکھ میں ہوتی ہے، ویسے ہی بری سوچ ملالہ کی کتاب پڑھنے والے کے دماغ میں تو ہوسکتی ہے، کتاب میں ایسا کچھ نہیں۔

اب لگے ہاتھوں اس سنسنی خیز الزام پر بھی ایک نظر کہ ملالہ کی کتاب میں احمدیوں کی حمایت کی گئی ہے۔

صورت یہ ہے کہ پوری کتاب میں احمدیوں کا ذکر صرف ایک بار آیا ہے، اور وہ بھی ایک اقلیت کے طور پر۔ ملالہ لکھتی ہے، ’’ہمارے ہاں دو ملین کے قریب مسیحی اور دو ملین سے زیادہ احمدی رہتے ہیں جو خود کو مسلمان کہتے ہیں جب کہ حکومت انہیں ایسا نہیں مانتی۔‘‘۔

They say

میں اپنے قارئین سے جاننا چاہوں گا کہ اس جملے میں کون سی خلاف واقعہ بات لکھی گئی ہے؟ 1974ء میں ایک آئینی ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا، جب کہ وہ اس سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی، یعنی ابھی تک خود کو مسلمان ہی کہتے ہیں۔ اب چاہے کوئی انہیں ایسا تسلیم کرے یا نہ کرے، یہ ایک الگ معاملہ ہے۔ یہاں برسبیل تذکرہ ایک مثال ذہن میں آ گئی۔ القرآن الحکیم میں سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ انہیں برا نہ کہیں جنہیں مشرکین خدا کے سوا مدد کے لئے پکارتے ہیں کہ لامحالہ وہ جوابی طور پر اللہ کو برا نہ کہنا شروع کر دیں (کیونکہ وہ اپنی طرف سے جنہیں مدد کے لئے پکارتے ہیں، انہی اپنا معبود ہی سمجھتے ہیں)۔ ہم ڈاکٹردانش اور کاشف مرزاسے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا وہ اس آیت سے یہ استنباط کریں گے کہ معاذ اللہ، قرآن الحکیم میں مشرکوں یا ان کے معبودوں کی حمایت کی گئی ہے؟

ضمنی طور پر ہم یہ اضافہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ سبز خزاں بلاگ مذہب کو سیاست میں ایک آلے کے طور پر استعمال کرنے کا مخالف ہے اور وہ تکفیر کے عمل کو امت مسلمہ کے لئے زہر قاتل سے کم نہیں سمجھتا۔

پروگرام میں آگے چلتے ہیں تو ڈاکٹر دانش کی بھرپور آشیر باد سے کاشف مرزا پورے زورو شور سے ملالہ اور اس کے والد کی کردار کشی جاری رکھتے ہوئے وہی الزامات دہراتے ہیں جو اس سے پہلے وہ احمد قریشی کے پروگرام میں بھی پیش کر چکے ہیں۔ مثال کے طور پر کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’بنیادی طور پر ملالہ اوراس کا باپ سلمان رشدی سکول آف تھاٹ کے پیروکار ہیں۔ آپ تسلیمہ نسرین کے ساتھ اس کی تصویریں دیکھ لیں۔‘‘۔

ہم اس جھوٹے الزام کا تفصیلی جواب اس تحریر میں پہلے ہی بہت وضاحت سے دے آئے ہیں، لہٰذا پھر دہرانے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا ایک دوسرے کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے اپنا مکروہ پروپیگنڈا جاری رکھتے ہیں اور احمد قریشی کے پروگرام والے الزامات کی تکرار کرتے ہیں۔ کاشف مرزا، ایک بار پھر وہی راگ الاپتے ہیں کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ یہ ملک نصف شب کو بنا؟ پھر کاشف مرزا اپنی پست سوچ کا اظہار ایک بار پھر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ اگر ملالہ ڈرون حملے میں ماری جاتی، تو وہ اس پر پروگرام نہ کر رہے ہوتے۔ گویا ملالہ کا زندہ بچ جانا، جو اللہ تعالیٰ کا کرم ہے، پر کاشف مرزا کو سخت رنج ہے۔

پھر کاشف مرزا ان الفاظ میں اپنی دماغی ابکائی کرتے ہیں ، ’’ملالہ اور اس جیسے غدار تو ہوں گے۔۔۔‘‘۔

کوئی نیا الزام نہیں، مذہب کی دنیا میں کسی کو نیچا دکھانے کے لئے کفر کے فتوے اور قومیت پرستی کی دنیا میں دوسروں کو غدار قرار دینا ہمارے معاشرے کا قومی مزاج ہے۔

ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، اس بات پر معترض ہیں کہ ملالہ کی کتاب میں یہ شکوہ کیوں کیا گیا ہے کہ سوات میں طالبان اپنا اثر و رسوخ قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے مگر افواج پاکستان ان سے بے خبر رہیں۔ ڈاکٹر دانش کا کہنا ہے کہ یہ اداروں کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبان کے نزدیک افواج پاکستان اور آئی ایس آئی (جنہیں دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں راقم الحروف کی مکمل حمایت حاصل ہے) کی مثال کسی ایسی دوشیزہ کی سی ہے، جس پر کسی نے کوئی آواز کس دی یا کسی پرائے کی نظر پڑ گئی تو اس سکی بے حرمتی ہو جائے گی اور وہ چھوئی موئی کی طرح مرجھا جائے گی۔ لگے ہاتھوں ہم ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کو یہ مفت مشورہ دینا چاہیں گے کہ کبھی ہمت کر کے سابق آئی ایس آئی چیف اسد درانی کا وہ انٹرویو بھی سن لیں جو انہوں نے گزشتہ برس الجزیرہ چینل پر مہدی حسن کو دیا۔ اس کے مندرجات یہاں لکھنے کا موقع نہیں، البتہ اگر ڈاکٹر دانش کو اس قدر اداروں کی بے حرمتی کی فکر لاحق ہے تو ذرا ایک جملہ اسد درانی کی شان میں بھی بول کر دکھائیں۔ جی، صرف ایک جملہ! ہم ان سے پورا پروگرام کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے۔ اور ہاں، ذرا اس بیان پر بھی اپنا تبصرہ فرما دیں جو ملک کی داخلی سلامتی پر انٹیلی جنس بیورو کے سربراہ آفتاب سلطان نے سینٹ کی داخلی کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے دیا کہ ضیاء الحق کے اثر سے نکلنے میں دس برس لگیں گے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا اس بات پر کیا فرمائیں گے جو سابقہ ڈائرکٹر جنرل آئی ایس پی آر عباس اطہر نے فوجی قیادت پر تنقید کرتے ہوئے کی کہ طالبان کے خلاف جنوبی وزیرستان آپریشن کئی برس پہلے ہی ہو جانا چاہئے تھا۔ لگے ہاتھوں یہ ملالہ مخالف صاحبان ذرا ایک سابقہ چیف آف جنرل سٹاف لیفٹیننٹ جنرل شاہد عزیز کی کتاب ’’یہ خاموشی کہاں تک‘‘ پر بھی تبصرہ کرتے چلیں جس میں وہ اپنے ہی ادارے کے بارے میں نازیبا باتیں لکھ چکتے ہیں۔ اور ہاں، پاکستان میں آگ اور خون کی ندیاں بہانے والے، خود کش حملوں کا ایک ہولناک سلسلہ شروع کرنے والے اور اے پی ایس اور باچا خان یونی ورسٹی پر حملے کرنے والی ٹی ٹی پی کے سرغنوں یعنی پہلے بیت اللہ محسود اور بعد میں ملا فضل اللہ کو جس ٹاپ سیکورٹی آفیسر نے محب وطن قرار دیا، ذرا اس کا نام بھی کسی سے معلوم کرلیں۔ ایک اٹھارہ سالہ نہتی لڑکی پر اوچھے وار کرنا تو بہت آسان کام ہے مگر اگر اداروں کی حرمت اتنی ہی نازک شے ہے اور خطرے میں پڑی ہے، تو درج بالا شخصیات پر بھی ایک تنقیدی پروگرام کرلیں۔

نہیں صاحب! یہاں آپ کے پر جلنے لگیں گے۔

ایک اعتراض جسے بڑی شد و مد کے ساتھ دہرایا گیا، وہ ملالہ کی کتاب میں کرسٹینا لیمب کی بطور شریک مصنف موجودگی ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا نے یہ رٹ لگائی رکھی کہ کرسٹینا لیمب پاکستان اور اسلام مخالف ایجنڈے پر کام کر رہی ہے وغیرہ۔ ہم ان کو یاد دلانا چاہیں گے کہ کرسٹینا لیمب نے کتاب میں واضح طور پر ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل عاصم باجوہ، کرنل عابد علی عسکری، میجر طارق اور آئی ایس پی آر کی ٹیم کا کتاب لکھنے کے لئے اپنی پاکستان آمد پر بھرپور شکریہ ادا کیا ہے۔ کیا ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، ان باوردی صاحبان بالخصوص ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم باجوہ کو بھی اس ’’ملک اور اسلام دشمن‘‘ سازش میں شریک کار گردانیں گے؟

Lamb

اپنے پروگرام میں آگے بڑھتے ہوئے ڈاکٹر دانش ایک ویڈیو کلپ چلاتے ہیں، جس کا ذکر وہ پروگرام کے شروع میں بھی کر چکے تھے۔ اس کلپ کو چلانے سے پہلے وہ ملالہ کے والد کو غدار کہتے ہوئے یہ سلائیڈ چلاتے ہیں۔

Slide-PROPAGANDA

اس سلائیڈ کے بعد ڈاکٹر دانش 2009ء کی ایڈم بی ایلک کی بنائی ہوئی ڈاکومنٹری ’’کلاس ڈس مسڈ‘‘ (جماعت برخواست) کا ایک مختصر سا کلپ چلاتے ہیں ۔ سلائیڈ میں کئے گئے دعویٰ کے برخلاف کمرے میں نہ تو کوئی کرسی موجود ہے اور نہ ہی کرسی یا کرسی نما کسی بھی چیز پر کوئی جائے نماز۔ ہاں، فرش پر چٹائی سی پڑی دکھائی دے رہی ہے جو لامحالہ نماز ہی کے لئے ہوگی۔ اس کے علاوہ کیمرہ فرش پر جلی ہوئی سگریٹ کے ٹکڑے پر جاتا ہے۔ ضیاء الدین صاحب کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگرچہ یہ معلوم نہیں کہ ان کی غیرموجودگی میں کس نے سکول اور اس کمرے کو استعمال کیا، مگر جو کوئی بھی یہاں تھا اس نے صفائی کا خیال نہیں رکھا۔‘‘ امکان ہے کہ اس وقت کمرے میں سگریٹ کی بد بو بھی بسی ہوئی ہوگی۔۔کلک

کاشف مرزا کا فرمانا ہے، ’’جس وقت اس (ملالہ کے والد) نے کہا کہ جو لوگ یہاں رہے، وہ بہت ڈرٹی تھے(ترجمہ)۔۔۔ تو وہ کیا ڈرٹی (گندے) تھے؟ وہ جائے نماز بچھی ہوئی تھی۔۔۔ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا۔۔۔ جو اس نے بکواس کی ہے کہ وہ ڈرٹی تھے۔۔۔۔‘‘۔

کاشف مرزا یوں تو ماشاء اللہ کافی وسیع الجثہ اور فربا شخصیت ہیں، مگر اس المیے کو کیا نام دیا جائے کہ ان کی سوچ اسی قدر چھوٹی ہے اور اس سوچ میں فہم بالکل ہی ناپید ہے۔ یہ بات تو انہوں نے چٹائی کی موجودگی میں بظاہر درست ہی کی کہ اس کمرے کو مسجد کا درجہ دیا ہوا تھا، مگر انہیں یہ سمجھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ اس کمرے کو اگر مسجد کا درجہ دیا گیا تھا تو وہ خود ملالہ کے والد نے دیا تھا۔ ہم کاشف مرزا کو یہ بتانا چاہیں گے کہ عام طور پر ہر ادارے میں ایک چھوٹا کمرہ عبادت کے لئے مختص کر دیا جاتا ہے، جہاں چٹائی بچھی رہتی ہے۔ ہماری سمجھ کے مطابق ایسا ہی ملالہ کے والد کے سکول میں بھی ہوا۔ مگر سکول بند ہونے کی صورت میں جس کسی نے بھی سکول میں داخل ہو کر وقت گزارا (اور وہ فضل اللہ کے دہشت گرد طالبان بھی ہو سکتے ہیں)، وہ اتنے بد اخلاق تھے کہ عبادت کے لئے مختص جگہ پر سگریٹ (نشہ آور شے) استعمال کر کے انہیں اسی مسجد کے فرش پر پھینک کر چلتے بنے۔ لہٰذا ملالہ کے والد کی مایوسی اور غصہ بجا تھا کہ یہاں جو کوئی بھی رہا، اسے صفائی کا کوئی پاس نہ تھا۔

اب ایک مختصر سا تبصرہ اسی کلپ کے دوسرے حصے کا۔ ملالہ وہاں پڑی ایک کاپی اٹھا کر کھولتی ہے اور پڑھتی ہے کہ اس پر کسی نے یہ لکھا ہے کہ وہ پاکستان کی فوج سے ہے اور یہ کہ اسے اپنے سپاہی ہونے پر فخر ہے۔ ملالہ کہتی ہے کہ اس شخص کو تو سولجر کے درست سپیلنگ بھی نہیں آتے۔ وہ بولتی ہے کہ اس نے ایس۔او۔ایل۔جی۔آر لکھا ہوا ہے۔ پھر ملالہ اس کاپی کے ورق پلٹتی ہے، تو وہاں اسے اسی شخص کی (جو سکول بند رہنے کے دوران اندر داخل ہو کر اپنے ساتھیوں سمیت ٹھہرا رہا) ایک اور تحریر ملتی ہے۔ یہاں ملالہ اس تحریر کو پڑھ کر سناتی ہے۔ یہ ایک مختصر اور مشہور انگریزی نظم ہے۔۔۔ ’’سم لؐو ون۔ سم لَو ٹو۔ آئی لو ون۔ دیٹ از یُو۔‘‘ پھر ملالہ کہتی ہے کہ میری سہیلی (جس کی وہ کاپی ہے) کو محبت کے بارے میں کچھ معلوم نہیں (یعنی یہ سطحی رومانوی نظم اس کی سہیلی نے نہیں لکھی)۔

اب آپ یاد کیجئے وہ جملے جو ڈاکٹر دانش نے پروگرام کے شروع میں کہے تھے۔۔۔ ’’کل تک جو لڑکی کہتی تھی، میں وہ کلپ دکھاؤں گا۔۔۔ وہ کہتی تھی۔۔۔ کہ سم لَو ون، سم لَو ٹو۔۔۔ ایک پوئٹری (شاعری) وہ کر رہی ہے۔۔۔۔ آئی لَو ون، دیٹ از یُو۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے تو اس عمر میں یہ بھی نہیں پتا کہ محبت کیا ہوتی ہے؟ وہ ملالہ چند دنوں بعد پوری دنیا میں سپیچ (تقریر)کر رہی ہے۔۔۔۔ ‘‘۔

ڈاکٹر دانش کی انگریزی خراب ہے کہ نیت، یہ فیصلہ ہم آپ پر چھوڑتے ہیں۔۔۔ ہماری ذاتی رائے میں دونوں ہی خراب ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کہ ملالہ نے اپنی سہیلی کے حوالے سے یہ کہا کہ اسے اس کم سنی میں محبت کا کیا پتا، اور یہ کہ یہ انگریزی تحریر دراصل اس شخص کی ہے جو یہاں ان کی غیر موجودگی میں قیام پزیر رہا۔ دوسری طرف ڈاکٹر دانش یہ جھوٹا پروپگنڈا کر رہے ہیں کہ یہ نظم ملالہ نے خود کہی ہے، جب کہ اس کا خود یہ کہنا ہے کہ اسے محبت کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔

اس کے بعد ڈاکٹر دانش فرط جذبات میں کہتے ہیں، ’’وہ تصویر دکھائیں، جو سی آئی اے کے ساتھ یہ لوگ بیٹھے ہوئے ہیں۔‘‘۔

اس کے بعد وہی گھسی پٹی پروپگنڈا تصویر سکرین پر دکھائی جاتی ہے جو مدتوں سے سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہے۔۔۔ جس کا جواب ہزار بار دیا جا چکا ہے اور جس پر احمد قریشی نے بھی وضاحت کر دی تھی کہ وہ تصویر یونی سیف کی منعقدہ تقریب سے لی گئی ہے، جس میں رچرڈ ہالبروک باقاعدہ حکومت پاکستان کی منظوری سے شریک ہوئے۔ اس تقریب کا ذکر ایڈم بی ایلیک کی ڈاکومنٹری میں بھی ہے، اور اسی تقریب کے ایک کلپ کو وہاں دکھایا بھی گیا ہے، جس میں گیارہ سالہ ملالہ بہت اعتماد سے رچرڈ ہالبروک سے استدعا کرتی ہے کہ وہ پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے مدد کریں۔

آپ نے دیکھا رائی کا پہاڑ بنانا اور جھوٹ تراشنا کیسا گھٹیا عمل ہے کہ وہ ایک احسن بات کو بھی غلط رنگ میں پیش کر دیتا ہے۔ ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا، فریب گوئی کی آخری حدوں پر قدم رکھتے دکھائی دیتے ہیں۔

اورذرا کاشف مرزا کے ان جملوں پر غور کیجئے جہاں وہ برہمی سے فرماتے ہیں، ’’ان جیسے غداروں کی وجہ سے پاکستان بدنام ہے۔‘‘۔۔۔۔۔ ’’اب آپ ایک بات بتایئے۔۔۔ کہ ان سے بڑا گستاخ رسول اور گستاخ اللہ کون ہے؟‘‘ ۔۔۔۔۔ ’’ آپ مجھے ایک بتائیں کہ ان جیسے غداروں کی موجودگی میں کیا ہم ایک قوم بن سکتے ہیں؟ ‘‘۔

انا للہ و انا الیہ راجعون۔

اس موقع پر پروگرام میں کاشف مرزا پر جوش انداز میں چنگھاڑتے ہیں، ’’اس (ملالہ) کی کمپین گورڈن براؤن اور اوبامہ چلا رہا ہے۔‘‘ پھر ڈاکٹر دانش کے استسفارپر فرماتے ہیں کہ ملالہ کے بنک اکاؤنٹ میں 68 بلین ڈالر موجود ہیں۔

ہزار نہیں، لاکھ نہیں، کروڑ نہیں، بلکہ اڑسٹھ ارب!!! اگر آپ اس رقم کو پاکستانی کرنسی میں بدلیں تو یہ سات کھرب سے زیادہ رقم بنتی ہے۔ چونکہ یہ پاکستانی میڈیا ہے، یہاں دن کو رات کہنے کے لئے صرف زبان کو ہلانا درکار ہے، لہٰذا اتنی رقم کا دعویٰ ویسا ہی درست ہے جیسے یہ دعویٰ کہ دنیا ایک بیل کے سینگ پر ٹکی ہوئی ہے اور جب وہ بیل اسے دوسرے سینگ پر پھینکتا ہے تو یہاں زلزلہ آنے لگتا ہے۔ کاشف مرزا کے اس مضحکہ خیز جھوٹ پر انہیں کسی دماغی امراض کے ماہر کے پاس جانے کا مشورہ ہی دیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ہم ان کی مالی معاونت کرنے کو بھی تیار ہیں۔

اس موقع پر ڈاکٹر دانش ایک نہایت ہی اوچھی حرکت کرتے ہوئے اے پی ایس حملے میں زخمی ہونے والے طالبعلم ولید کی تصویر دکھاتے ہیں اور نہایت بے شرمی سے ملالہ اور ولید کا تقابل کرنے لگتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ملالہ کو جعلی گولی لگی تھی، جب کہ ولید اصلی گولی کھانے کے بعد بھی پاکستان ہی میں ٹھہرا ہوا ہے۔

Slide-PROPAGANDA-2

دو مظلوموں کا آپس میں یوں مقابلہ کرا کر ایک مظلوم کی کردار کشی کرنا پاکستانی میڈیا کی پستی اور گھٹیا پن کی ایک نئی مثال ہے، جس پر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ واضح رہے کہ ملالہ کو طالبان نے باقاعدہ ٹارگٹ کیا تھا، جب کہ ولید اور اے پی ایس کے دیگر معصوم بچوں پر ان کے نام یا کسی فعل کی وجہ سے حملہ نہیں کیا گیا۔ ملالہ پر حملے سے پہلے قاتل نے ملالہ کا نام لے کر اپنے ٹارگٹ کی تصدیق کی، اور یہ بھی کہ ملالہ کے زندہ بچ جانے کے بعد بھی تحریک طالبان پاکستان اسے قتل کی دھمکیاں دیتی رہی۔ یاد رہے کہ ملالہ کو اور اس کے گھرانے کو برطانیہ میں منتقل کرنے کا فیصلہ اس وقت کی حکومت اور فوج کا تھا۔ یہ بھی مت بھولئے کہ اس وقت کے آرمی چیف، جنرل اشفاق پرویز کیانی نے خود اس معاملے میں دلچسپی لے کر اسے یقینی بنایا۔ یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ ملالہ کا ابتدائی آپریشن پاکستان میں فوج کے ڈاکٹروں نے کیا۔

ایسے میں اگر ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا دیدہ دلیری سے سرے سے اس بات کا ہی انکار کر رہے ہیں کہ ملالہ کو کوئی گولی لگی تھی، تو ظاہر ہے کہ ان کے اعتراض کی زد میں افواج پاکستان اور ان کا سپہ سالار تک آ جاتا ہے کہ وہ اس ’’ڈرامے‘‘ میں شامل تھا۔ کیا کوئی عقل مند آدمی اس احمقانہ تھیوری پر یقین رکھ سکتا ہے؟ کاشف مرزا جیسی مضحکہ خیز باتیں کرنے والے فضل اللہ اور طالبان کے حامی تو ضرور ہ سکتے ہیں، پاکستان کے نہیں۔

پروگرام کے اختتام پر ڈاکٹر دانش پروگرام میں شریک فیاض الحسن چوہان اور اجمل وزیر سے انہیں اپنے رائے دینے کا کہتے ہیں۔ یہ دونوں صاحبان نہایت تابع داری سے کاشف مرزا کے جھوٹے پروپگنڈے کی تائید کرتے ہیں اور اس نفرت انگیز پروگرام میں اپنا زہر گھولتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیاض الحسن چوہان، اس سیاسی جماعت سے وابستہ ہیں جن کے قائد کو تحریک طالبان پاکستان نے اپنے نمائندے کے طور پر حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لئے تجویز کیا تھا۔ یہ وہی سیاسی جماعت ہے جو طالبان کو پاکستان میں باقاعدہ اپنے دفاتر کھولنے کی دعوت دے چکی ہے۔ یہ وہی جماعت ہے جو 2009ء کے سوات آپریشن میں فوج کی مخالفت میں پیش پیش تھی اور جن کے قائد، ملا فضل اللہ کو ’’انصاف کے لئے جدو جہد کرنے والا‘‘ کہہ چکے ہیں۔ لہٰذا فیاض الحسن چوہان نے اپنی سیاسی جماعت کی پالیسی کا نمک خوب حلال کیا۔ اس کے بعد اجمل وزیر نے بھی بہتے گنگا میں ہاتھ دھوئے۔

Khattak

اور یوں کاشف مرزا اور ڈاکٹر دانش نے باہمی ملی بھگت سے ملالہ اور ان کے والد کی ویسی ہی کردار کشی کی جیسی کچھ برسوں قبل مہر عباسی نے سلمان تاثیر کی کردار کشی کی جو بالآخر ان کی شہادت کا سبب بنی۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ سب کوئی اتفاقی یا غیر ذمہ داری کے مظاہرے کے طور پر نہیں، بلکہ باقاعدہ پورے ارادے اور قوت سے کیا جا رہا ہے۔ ملالہ کو ایک منظم کمپین کے تحت یہاں متنازعہ بنایا گیا ہے، اور اس کے لئے لوگوں کو مذہبی اشتعال دلایا گیا ہے، جیسا کہ ان دو پروگراموں میں کیا گیا۔ یہ ایک نہایت ہی مکروہ اور افسوس ناک عمل ہے۔ یہ ایک شرمناک بات ہے کہ ہمارے میڈیا پر یوں تو دانش، لیاقت اور لقمان جیسے پر مغز نام تو موجود ہیں مگر ان میں کوئی بھی اسم بامسمیٰ نہیں۔

ایک اور قابل افسوس امر یہ ہے کہ کاشف مرزا، پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور کچھ عرصہ پہلے تک پنجاب حکومت کے مشیر برائے تعلیم اور کھیل رہے ہیں۔ ایسے تنگ نظر اور دروغ گو شخص کا ریاستی عہدے پر موجود ہونا ایک پریشان کن بات ہے۔ یہ بھی خدشہ ہے کہ ملالہ اور ان کے والد کو متنازعہ بنا کر، ملالہ کی کتاب کو پاکستان میں بین کروا کر لامحالہ کاشف مرزا اپنے ان مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں جو پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے صدر کی حیثیت سے ان کی دسترس میں ہیں یا آ سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ فیڈریشن پہلے ہی دھروں میں بٹ چکی ہے۔  یہ بھی دھیان میں رہے کہ ملالہ کی تنظیم، ملالہ فنڈ، پاکستان میں تعلیم کے لئے پراجیکٹس شروع کر چکی ہے اور مزید کا ارادہ ہے۔ ملالہ مخالف مہم کی وجہ سے اس سے پہلے بھی ان کے نام سے خیبر پختون خواہ میں یونیورسٹی بنانے کی قراداد اسمبلی میں رد کی جا چکی ہے۔ اگر یہ مہم یونہی چلتی رہی، تو اس کے نتیجے میں ملالہ کی تنظیم کے دیگر تعلیمی منصوبوں پر بھی پاکستان میں عمل درآمد نہیں ہو سکے گا، اور جو منصوبے چل رہے ہیں ان میں کام کرنے والے افراد کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان کو ہی نقصان پہنچے گا اور ملا فضل اللہ کا ایجنڈہ پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔ دوسری طرف پرائیویٹ سکول فیڈرشن کے صدر کاشف مرزا کے مفادات کا تحفظ بھی ہوتا رہے گا۔ ملالہ مخالف مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی صورت میں ڈاکٹر دانش اور ان کا چینل، اور اس سے پہلے اوریا مقبول جان اور انصار عباسی، ڈاکٹر دانش اور طلعت حسین بمع دیگر اینکرز اور نام نہاد دانشواران طالبان کی گڈ بکس میں رہیں گے اور ان پر کوئی حملہ نہیں کیا جائےگا۔ اب یہ پاکستانی عوام پر ہے کہ وہ اپنا برا، بھلا پہچانتی ہے یا جھوٹے پروپیگنڈے کا شکار رہنا پسند کرتی ہے۔

Resolution

جب سر عام سب کی آنکھوں میں دھول جھونک کر تاریخ کو اس طرح مسخ کیا جا رہا ہو اور اس کی تصحیح نہ کی جائے تو کچھ عرصہ گزرنے پر وہ جھوٹ دستاویزی صورت اختیار کر کے سچ تصور کیا جانے لگتا ہے۔ سبز خزاں بلاگ نے اس ضمن میں اپنا فرض ادا کر دیا ہے۔ اس سے پہلے ہم اوریا مقبول جان اور نصار عباسی کے ملالہ مخالف پروپگنڈے کو دلائل اور پوری صداقت کے ساتھ بے نقاب کر چکے ہیں۔ آج ہم نے ڈاکٹر دانش اور کاشف مرزا کا جھوٹ بھی واضح کر دیا ہے۔ ہم اپنے قارئین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ جس محنت سے ہم نے یہ تحریر لکھی ہے، اس کا احساس کرتے ہوئے وہ کم از کم اسے ایک بار تسلی سے اور کھلے دماغ سے پڑھیں گے اور اگر وہ ہمارے براہین اور دلائل سے متفق ہوں تو اس تحریر کو آگے پھیلائیں گے تاکہ ہم اس معاشرے میں سچائی کی شمع روشن کرنے میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

اور یاد رہے کہ انٹرنیٹ یا ٹی وی پر نشر ہونے والی ہر اطلاع درست نہیں ہوتی۔ سنی سنائی بات پر یقین کرنے سے بہتر یہ ہے کہ پہلے اس کی تصدیق کر لی جائے یا کم از کم اس کے بارے میں تنقیدی ذہن سے غور کر لیا جائے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی لاعلمی سے کسی کو نقصان پہنچ جائے اور آپ جانے یا انجانے میں اس کے ذمہ دار ٹھہریں۔

Quran-49-6

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply