• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب۔۔آفاق سید/حصہ اول

پاکستانی میڈیا پر چلنے والی ملالہ مخالف مہم کا جواب۔۔آفاق سید/حصہ اول

اس تفصیلی تحریر کا موضوع پاکستانی میڈیا پر حال ہی میں ایک بار پھر سے چلنے والی ملالہ مخالف مہم ہے۔ اس سے قبل اوریا مقبول جان اور انصار عباسی نے اس ’’کارِشر‘‘ کا آغاز کیا، جس کا بھرپور جواب  دیا جا چکا ھے۔ اس کے بعد موسمی حشرات الارض کی طرح کچھ مزید افراد اٹھے اور انہی الزامات کو دہرانے لگے۔ مثلاََ پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر جناب کاشف مرزا نے اپنی ایک تصنیف بنام ’’میں ملالہ نہیں‘‘ شائع کی، جس کی تادم ِ تحریر چار بار تقریب رونمائی ہو چکی ہے۔ کاشف مرزا نے ملالہ کی کتاب پر بہت سے اعتراضات لگاتے ہوئے اسے پاکستان کے سکولوں میں ممنوع قرار دیا۔

پچھلے کچھ عرصے میں کاشف مرزا کچھ ٹی وی پروگراموں میں مدعو کئے گئے اور وہاں انہوں نے سب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی افسوسناک کوشش کی، جس کے نتیجے میں حقائق مسخ ہوئے اور جھوٹ کی مٹی سے ایک ایسی عمارت کھڑی کی گئی جو دور سے تو بڑی مضبوط دکھائی دے، مگر سچ کے مد مقابل وہ ایسے ہی زمیں بوس ہو جائے، جیسے زلزلے سے قد آور عمارتیں۔ اس طویل تحریر میں ہم کاشف مرزا کے ان اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لیں گے، جو انہوں نے 26 دسمبر 2015ء کو نوجوان تجزیہ کار اور ٹی وی ہوسٹ احمد قریشی کے ساتھ انٹر ویو میں اٹھائے اور جس کا اعادہ کاشف مرزا نے فروری 2016ء کو ڈاکٹر دانش کے پروگرام میں کیا۔

سب سے پہلے کچھ اصولی سوالات: کیا کسی کی یک طرفہ کردار کشی کرتے پھرنا اور جان بوجھ کر نہ صرف حقائق مسخ کرنا، بلکہ جھوٹ کا سہارا لے کر مصنوعی ’’سچائیاں‘‘ تراشنا ایک قابل قبول عمل ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا میڈیا کا کام انتشار پھیلانا اور محض اپنی ریٹنگ یا کسی نا معلوم ایجنڈے کی تکمیل کے لئے شر اور فساد پھیلانا رہ گیا ہے؟ کیا پاکستان کے میڈیا پر کوئی ضابطہ اخلاق لاگو ہوتا ہے یا کوئی بھی اٹھ کر کسی کی بھی پگڑی اچھال کر، کسی پر بھی غداری اور مذہب فروشی کا الزام لگا سکتا ہے؟

گزشتہ برس 26 دسمبر کو کاشف مرزا ایکسپریس نیز کے پروگرام ’’ایٹ کیو — ود — احمد قریشی‘‘ میں مدعو کئے گئے۔ میں نے کاشف مرزا کے تمام تر دلائل کو غور اور دلچسپی سے سنا، اور مایوسی سے کہنا پڑتا ہے کہ ان کی کوئی دلیل عقل و منطق کی کسوٹی پر پوری نہیں اتری۔ کاشف مرزانے آغاز ہی میں مذہبی جذبات کو بھڑکانے والے جملے بول کر ملالہ یوسف زئی کی زندگی کو خطرے میں ڈالنے کی کوشش کی۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کچھ مواقع پر کاشف مرزا کو اپنے انداز میں سمجھانے کی کوشش کی کہ ان کے اکثر دلائل میں وزن نہیں، تاہم انہوں نے اپنی صحافتی ذمہ داری نبھاتے ہوئے کاشف مرزا کو بولنے کا موقع فراہم کیا۔ دوسری طرف اپنے ذاتی ٹوئٹر ہینڈل پر بھی احمد نے کاشف مرزا کے دلائل کے بارے میں لکھا کہ ان میں سے کچھ دلائل کمزور ہیں۔ اگر احمد نے ملالہ کی کتاب از خود پڑھی ہوئی ہوتی، تو ہمیں یقین ہے کہ وہ کاشف مرزا کے تمام دلائل کو ہی کمزور سجھتے۔

AQ-Tweet

بہت مناسب ہو گا اگر ہم ان نام نہاد دلائل کا ایک جائزہ لے سکیں۔

احمد قریشی نے کاشف مرزا سے سوال کیا کہ آپ کو اس کتاب پر سب سے پہلا اعتراض کیا ہے، تو جواب میں کاشف مرزا نے فرمایا،۔

۔’’ایک مسلمان اور پاکستانی کی حیثیت سے یہ اہم ہے کہ میں سب سے پہلے یہ سوچوں کہ خدا تعالیٰ کی شان میں اس (ملالہ) نے کیا الفاظ استعمال کئے ہیں۔ گاڈ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، لفظ اللہ نہیں۔‘‘۔

ناطقہ سر بگریباں ہے، اسے کیا کہئے؟

God-Definition

گویا گاڈ کا لفظ جو انگریزی میں خدا تعالیٰ یا اللہ تعالیٰ ہی کے لئے استعمال ہوتا ہے، اس پر کاشف مرز کو اعتراض ہے۔ اس مضحکہ خیز اعتراض پر بات کرنا وقت کا ضیاع ہے، مگر ہم کاشف مرزا سے پوچھنا چاہیں گے کہ کیا انجیل مقدس کے وہ نسخے جہاں گاڈ ہی لکھا جاتا ہے، کیا خدا تعالیٰ کی شان میں کمی لانے کی غرض سے ہیں۔ کیا جب مسیحی برادری کے پیشوا پوپ فرانسس اپنے خطبات میں گاڈ کا لفظ استعمال کرتے ہیں، تو کیا وہ توہین ہے؟ اسی طرح کیا تورات یا زبور کے انگریزی نسخوں میں لکھا جانے والا لفظ گاڈ معیوب ہے؟ ہم کاشف مرزا سے ان کا فتویٰ حاصل کرنا چاہیں گے کہ انگریزی تراجم اور تفاسیر میں جب گاڈ کا لفظ لکھا جاتا ہے، تو کیا وہ خدا کی شان گھٹانے کی غرض سے ہوتا ہے؟ اصول ، چاہے کتنا ہی مضحکہ خیز کیوں نہ ہو، بہر حال اس کا اطلاق سب پر ہی ہونا چاہیئے۔ کیا یہ بات سمجھنا کوئی مشکل کام ہے کہ انگریزی قارئین کے لئے لفظ گاڈ ہی شناسا ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ کاشف مرزا نے یہاں صریحاََ جھوٹ کا سہارا لیا ہے۔ یہ درست ہے کہ ملالہ کہ کتاب میں گاڈ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے (جس پر اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں)، مگر ساتھ ساتھ کئی بار اللہ کا اسم مبارک بھی استعمال کیا گیا ہے۔ ذیل میں ملالہ کی کتاب سے چند اقتباسات پیش کئے گئے ہیں، جن سے بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ کاشف مرزا کے سب سے پہلے اعتراض میں کوئی سچائی نہیں کہ ملالہ کی کتاب میں اللہ کا اسم مبارک نہیں لکھا گیا۔

Allah I

Allah II

Allah III

Allah IV

ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کی اطلاع کے لئے ایک خبر بھی پیش کرتے چلیں، اور وہ یہ ہے کہ کچھ ہی عرصہ قبل ملائشیا کی ہائی کورٹ نے مسیحیوں پر اپنے چرچ کے اخبار میں لفظ اللہ کے استعمال پر پابندی لگا دی ہے۔ گویا ایک طرف تو ہم اس پر معترض ہیں کہ غیر مسلم اللہ کا لفظ استعمال نہ کریں، دوسری طرف ہم بضد بھی ہیں کہ وہ اللہ کا لفظ پڑھیں۔

کاشف مرزا، ملالہ کی کتاب پر دوسرا الزام یہ لگاتے ہیں کہ کتاب میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نام مبارک کے ساتھ ’’کہیں بھی‘‘ درود و سلام نہیں لکھا ہوا۔

Glossary

یہ الزام بھی حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے برابر ہے۔  کتاب کے پہلے ایڈیشن کی فرہنگ (گلاسری) میں واضح طور پر درودو سلام تحریر ہے۔ ہر وہ شخص جو کتب بینی کا شوق رکھتا ہو، اسے اس پبلشنگ روایت کا علم ہو گا کہ فرہنگ میں لکھی ہوئی بات کا اطلاق پوری کتاب پر ھوتا ہے، یعنی جب فرہنگ میں درود لکھا ہے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ کتاب میں جہاں جہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ذکر مبارک آیا ہے، وہاں وہاں درود لکھا ہی شمار کیا جانا چاھیئے۔ دوسری بات یہ کہ کتنے ہی مسلمان مصنفین جو مغربی ممالک میں ہماری مذہبی فکر کی نمائندگی کر رہے ہیں، اسی روایت کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے قاری زیادہ تر غیر مسلم ہیں۔ یاد رہے کہ ہمارے سامنے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے اسوہ حسنہ سے یہ مثال بھی موجود ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے صلح حدیبیہ کے موقع پر معاہدہ تحریر فرماتے ہوئے خود رسول اللہ کے الفاظ مٹا دیئے تھے کیونکہ فریق مخالف اس پر معترض تھے۔ میں توقع رکھتا ہوں کہ کاشف مرزا اس بات کو سمجھ سکیں کہ چونکہ مغرب میں شائع ہونے والے ایڈیشن کے قاری غیر مسلم ہیں، تو پبلشر نے ان کی سہولت کا خیال کرتے ہوئے درود و سلام صرف فرہنگ میں ڈالنا مناسب سمجھا۔ واضح رہے کہ ملالہ اور ان کے والد بارہا اس بات کی وضاحت کر چکے ہیں کہ ایسا ہر گز قصد اور ارادے سے نہیں، بلکہ پبلشر کی کوتاہی سے ہوا ہے۔ جب کتاب کے ابتدائی ایڈیشن کے بعد کے تمام ایڈیشنز میں اس کوتاہی کی تلافی کر دی گئی ہے، تو کیا اس بات پر لوگوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانا کوئی مناسب عمل ہے؟ ایک بات سامنے آئی، ا س کا ازالہ کر دیا گیا، اور وہ بات ختم ہو گئی۔ کیا ہمیں زمین پر ہی عدالت لگا کر دوسروں پر اپنا فیصلہ سنانا چاھیئے یا قرآن پاک کے اپنے حکم کے مطابق بدگمانی سے بچنا چاھیئے؟ اس بات کا جواب کاشف مرزا پر چھوڑا جا رہا ہے۔ یہاں ضمنی طور پر یہ اضافہ کرنا بھی برمحل ہوگا کہ   شاعر مشرق علامہ اقبال نے اپنے خطبات “تجدیدِ فکریاتِ اسلام ” میں بھی درود و سلام یا “پیس بی اپان ہم” نہیں لکھا۔ اس کی تصدیق ان کے خطبات کی انگریزی جلد سے با آسانی کی جا سکتی ہے۔ کیا کاشف مرزا حکیم الامت پر بھی اسی جذبے اور شدت سے معترض ہوں گے، جس شدت سے وہ ملالہ پر فتویٰ صادر کر رہے ہیں؟

Malala-apology

Hamid Mir 7 November 2013

Excerpt from Hamid Mir’s column, dated 7th November 2013

کاشف مرزانے مزید یہ بھی کہا کہ ملالہ کا تسلیمہ تسرین اور سلمان رشدی سے گٹھ جوڑ (نیکسس) ہے اور یہ کہ ملالہ رشدی کی متازعہ کتاب کی حمایت کرتی ہے۔ یہ نہایت سنگین الزامات ہیں جو کاشف مرزا کے اپنے ذہن کی پیداوارہیں، اور جن کا حقیقت سے دور کا بھی تعلق نہیں۔ کاشف مرزا اپنی دانست میں یہ دلیل دیتے ہیں کہ تسلیمہ نسرین کے ساتھ ملالہ کی تصاویر موجود ہیں اور یہ بھی کہ تسلیمہ نسرین کا ملالہ کے نام خط بھی پایا جاتا ہے۔

آئیے اب ان اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہیں تاکہ حقائق صاف ہو سکیں۔

کاشف مرزاجس ’’خط‘‘ کا حوالہ دے کر شکوک و شبہات پھیلا رہے ہیں، وہ ایک کھلا خط ہے جو تسلیمہ نسرین نے اپنی ویب سائٹ پر ملالہ کے نام لکھا ہے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسا میں اپنے بلاگ میں کاشف مرزا کے نام چار سطریں تحریر کردوں۔ کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے گا کہ کاشف مرزا اور میں ہم خیال ہو گئے ہیں؟ ہر صاحب مطالعہ شخص یہ جانتا ہے کہ کھلا خط اس صورت میں لکھا جاتا ہے، جب انسان دوسرے شخص سے متفق نہیں ہوتا اور اس تک اپنی رائے کسی عوامی فورم کے ذریعے پہنچانا چاہتا ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب ہم ایک نظر اس خط پر بھی ڈال لیتے ہیں۔ یہاں کلک کرنے کی صورت میں آپ خط کو خود پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں تسلیمہ اپنے خط میں ملالہ سے اختلاف کرتے ہوئے اپنا نکتہ نظر پیش کررہی ہیں۔ جی ہاں! اختلاف کرتے ہوئے۔

صرف یہی نہیں، ذرا لگے ہاتھوں تسلیمہ کی لکھی ہوئی یہ تحریر بھی پڑھ لیں، جس میں وہ اس بات پر مایوسی کا اظہار کر رہی ہیں کہ یورپی یونین کی تقریب میں تسلیمہ کی موجودگی ملالہ کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی تھی۔ تسلیمہ کہتی ہیں کہ جب اس نے ملالہ کو ایوارڈ وصول کرنے کے بعد مبارک باد دی اور اپنا تعارف کرایا، تو ملالہ نے اس پر کسی گرم جوشی کا کوئی اظہار نہ کیا اور اس کا چہرے پر کوئی تاثر نہ ابھرا۔ اور اس بات نے تسلیمہ کو حیران اور مایوس کیا۔

M-17

جن ’’تصاویر‘‘ کا ذکر کاشف مرزا نے کیا، ان کی حقیقت بھی محض یہ ہے کہ یورپی یونین کی انسانی حقوق کے ایوارڈز کی تقریب میں سینکڑوں کی تعداد میں شرکاء میں ایک تسلیمہ بھی موجود تھی۔ اور جب بعد میں سٹیج پر گروپ فوٹو بنائی گئی تو اس میں تسلیمہ، ملالہ سے کچھ فاصلے پر کھڑی تھی، اور بس! ہر تقریب میں ڈھیروں افراد موجود ہوتے ہیں، ان میں کسی کی موجودگی پر اعتراض کرنا ایک بچگانہ سی بات ہے۔ آپ نے دیکھا کہ اتنی سی بات کا کاشف مرزا نے کیسے افسانہ بنا ڈالا۔

Family picture with Sakharov laureats

یورپی یونین کی اس تقریب میں جرمنی کے سیاست دان اور یورپی یونین کے صدر مارٹن شلز بھی موجود تھے۔ یہ ایک افسوس نام بات ہے کہ پاکستان کی صحافت، چاہے وہ پرنٹ میڈیا ہو کہ برقی میڈیا، اکثر انتہا درجے کی غیر ذمہ داری اور اوچھے ہتھکنڈوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ اس کی مثال آپ نیچے دی گئی تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں، جہاں حقائق کو جان بوجھ کر مسخ کرتے ہوئے مارٹن شلز کو سلمان رشدی کہہ کر جھوٹا پروپگنڈا کیا گیا۔ ضیاء شاہد، جو گزشتہ کئی دہائیوں سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں، یقیناً اتنے بے خبر نہیں ہو سکتے کہ انہیں سلمان رشدی کی شکل و صورت تک کا علم نہ ہو، مگر دیکھئے کہ کس مہارت سے وہ جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں اور بغیر کسی خدا خوفی کے ایک نہتی، معصوم بچی پر اتنی بڑی تہمت لگا رہے ہیں۔

M-15

Roznama Khabrain 12-12-14

صرف یہی نہیں، ضیاء شاہد کی اس پر فریب رپورٹنگ کے بعد انہی کے روزنامہ خبریں اخبارمیں اگلے روز، یعنی تیرہ دسمبر 2014ء کو ان کے کالم نگار حامد جلال نے ایک نفرت انگیز اور الف سے یے تک جھوٹ پر مبنی کالم لکھتے ہوئے ضیاء شاہد کے  جھوٹ کے پودے کی مزید آبیاری کی۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اردو میڈیا کس دیدہ دلیری سے جھوٹ اور پروپگنڈے کا سہارا لیتا ہے۔

Khabrain-column

راقم الحروف نے روزنامہ اخبار کے ایڈیٹر اور حامد جلال کو ای میلز لکھ کر انہیں حقائق بتائے اور ان سے اس غلط ترین انداز صحافت پر احتجاج کیا۔ یہاں اور یہاں کلک کر کے آپ ان میلز کو پڑھ سکتے ہیں۔ ان میلز کا کوئی جواب دیا گیا اور نہ ہی اپنی غلط ترین رپورٹنگ پر معذرت یا کم از کم اگلے ایڈیشن میں کوئی تصحیح کی گئی۔ یوں لگتا ہے کہ اس مملکت خداداد میں صرف جھوٹ کا سکہ چلتا ہے۔

اب اسی جھوٹ کا سہارا کاشف مرزا لے رہے ہیں۔ ہم س کے سوا انہیں کیا یاد دلا سکتے ہیں کہ کلام الٰہی میں جھوٹے پر لعنت فرمائی گئی ہے۔

لگے ہاتھوں کاشف مرزا اور ان کے پیش رو یعنی اوریا مقبول جان اور انصار عباسی کی اس دروغ گوئی کا جواب بھی دے دیا جائے کہ ملالہ کی کتاب میں سلمان رشدی کی حمایت کی گئی ہے۔ یہ اس قدر بے رحم بہتان ہے کہ لگتا ہے ان افراد کے دلوں میں خدا کا کوئی خوف نہیں رہا۔ اس پر مختصراََ یہ کہا سکتا ہے کہ ’’شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور۔‘‘۔

مجھے اس موقع پر فروری 2008ء کی وہ دوپہر یاد آرہی ہے، جب مجھے عالمگیر شہرت کی حامل مفکر اور مصنف کیرن آرمسٹرانگ کا براہ راست لیکچر سننے کا موقع ملا۔ سن اسی کی دہائی کا ذکر کرتے ہوئے کیرن آرمسٹرانگ نے سلمان رشدی کے متنازعہ ناول کے حوالے سے ایک اہم بات کی، جو کچھ یوں تھی،۔

۔’’اس ناول کی اشاعت کے فوراََ بعد مسلم دنیا میں پر تشدد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ میں نے اس کا تجزیہ کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ اگرچہ اس عمل سے مسلم دنیا کا غم وغصہ تو دنیا پر ظاہر ہو رہا ہے مگر اس سے مسلمانوں کے حق میں دور رس بہتری کے امکانات کم ہیں۔ ناول کی اشاعت اور اس پر احتجاج کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ یورپ کے لوگوں کا اسلام کے بارے میں تجسس بڑھا اور انہوں نے اسلام کے بارے میں جاننے کے لئے کتب خانوں کا رخ کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ دانائی کا تقاضہ یہ تھا کہ اس شر انگیز ناول کے مقابلے میں مسلمان علماء اس موقع پر رسول اللہ کی سیرت اور اسلام کی تعلیمات پر کتب لکھ کر مغربی دنیا کو اسلام کا پیغام پہنچاتے۔ جب (ناول کے رد میں) ایسی کوئی کتاب مغربی دنیا کے سامنے نہیں آئی تو میں نے از خود پیغمبر اسلام پر اپنی کتاب لکھنا شروع کی۔‘‘۔

Karen-Armstrong

ایک غیر مسلم مفکر کے پر خلوص اور فکر انگیز الفاظ سن کر لیکچر ہال کی دیواریں تالیوں سے گونج اٹھیں۔

یہ واقعہ لکھنے کا مقصد اس اہم نکتے کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ کسی بھی مسئلے یا سانحے کے جواب میں انسان دو طرح کا رد عمل دکھا سکتا ہے۔ پہلا رد عمل جذباتی جب کہ دوسرا رد عمل تعقل یعنی فکر پر مبنی ہوسکتا ہے۔ کیرن آرمسٹرانگ نے دوسرے رد عمل کی اہمیت پر زور دیا اور اس کی بات میں وزن تھا۔

جب میں ملالہ کی کتاب پڑھ رہا تھا تو مجھے اندازہ ہوا کہ ملالہ کے والد نے بھی رشدی کے متنازعہ ناول کو ناپسندیدہ پایا۔ تاہم ان کا ایمان اس قدر قوی تھا کہ وہ یقین رکھتے تھے کہ کسی کے شر انگیزی پر مبنی ناول سے اسلام جیسے دین کو نقصان نہیں پہنچایا جا سکتا۔ انہوں نے یہ تجویز دی کہ کیوں نہ ہم قلم کا مقابلہ قلم سے کریں اور اس ناول کے جواب میں اپنی کتابیں لکھیں۔ دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ کیا وہ درست نہیں کہہ رہے؟

?

میں بھی یہی سمجھتا ہوں کہ رشدی کا پوسٹ مارڈرن فکشن پر مبنی یہ ناول انتہائی لغو اور سراسر شر انگیز تھا۔ اس کے نتیجے میں لازماََ مسلم دنیا کے جذبات مجروح ہونا تھے اور ان میں غم وغصے کی لہر دوڑنا تھی۔ واضح رہے کہ رشدی کا ناول پاکستان میں بین کردئیے جانے کی بنا پر فروخت کے لئے میسر نہیں تھا، لہٰذا ایک عام پاکستانی کی اس کے مندرجات کے بارے میں معلومات محض اخباری کالمز یا سنی سنائی باتوں تک ہی محدود تھی۔ ملالہ کے والد کی ناول کا قلم سے مقابلہ کرنے کی تجویز ویسی ہی دکھائی دیتی ہے جیسی کیرن آرمسٹرانگ کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ رشدی کی حمایت ہرگز ہرگز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا ضیاء الدین یوسف زئی اس کے مقابلے میں جوابی کتاب لکھنے کی تجویز دیتے۔

یہاں ہم کاشف مرزا سے ایک آسان سا سوال پوچھنے کی جسارت کرنا چاہیں گے۔ آپ نے ملالہ کی کتاب سے اختلاف کیا، اور اس کے رد میں اپنی کتاب لکھی۔ کیا کوئی ذی عقل اس سے یہ نتیجہ نکال سکتاہے کہ آپ ملالہ کی کتاب کی حمایت کرتے ہیں، اس لئے آپ نے اس کے جواب میں اپنی کتاب لکھی؟ اگر نہیں، تو ضیاء الدین نے بھی تو رشدی کی کتاب کے رد میں یہی راستہ تجویز کیا کہ جوابی کتاب لکھی جائے۔

نیچے آپ کو اس کتاب کا ٹائیٹل دکھائی دے رہا ہو گا جو سلمان رشدی کے اہانت انگیز ناول کے جواب میں لکھی گئی۔ کیا کاشف مرزا کے نزدیک یہ جوابی کتاب لکھنے والے ڈاکٹر شمس الدین اور اس کتاب کا ترجمہ کرنے والے ڈاکٹر محمد مبارز بھی توہین رسالت کے مرتکب کہلائیں گے اور کاشف مرزا اس بات پر بضد رہیں گے کہ یہ اصحاب دراصل رشدی کی حمایت کرتے تھے، تبھی انہوں نے جوابی کتاب لکھی؟

Rebuttl to SR

تعصب اور تنگ نظری انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھا جاتی ہے۔ ایسا ہی کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ احمد قریشی کے پروگرام میں کاشف مرزا اپنی طرف سے ملالہ پر ایک اور وار کرتے ہوئے ایک مضحکہ خیز الزام لگاتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ ملالہ کی کتاب کا اولین جملہ پاکستان اور اسلام مخالف ہے۔ پھر وہ اس جملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں،۔

۔’’اس نے یہ تاثر دیا ہے کہ پاکستان کی تخلیق راتوں رات ہوئی ہے، کوئی جرم ہوا ہے، اندھیرے میں ہوئی ہے۔ مجھے یہ بتائیں کہ وہ رات، لیلۃ القدر کی رات تھی۔ مسلمانوں کی حیثیت سے ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ پاکستان کی تخلیق کو اس نے کریٹی سائز (تنقید) کیا۔ آگے وہ کہتی ہے کہ اس پر حملہ دن دیہاڑے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے کتنے بچے ڈرون حملوں کے اندر شہید ہوگئے ہیں، ہمارے نوے ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر ڈیبیٹ کرتے؟‘‘۔

Midnight

کاشف مرزا اگر خود اپنا مذاق اڑوانا پسند کرتے ہوں، تو ہم ان کی دماغی کیفیت پر افسوس ہی کر سکتے ہیں۔ ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق آدھی رات کو ہونے کا ذکر ایک جرم ہے۔ پھر اپنی دوسری سانس میں فرماتے ہیں کہ پاکستان کی تخلیق لیلۃ القدر میں ہوئی۔ شاید وہ اس پر غور کرنا بھول گئے کہ لیل کا اپنا مطلب رات ہی ہوتا ہے۔ مزید یہ کہ کس روحانی ذریعے سے ان تک یہ القاء ہوا کہ وہ لیلۃ القدر ہی تھی، رسول مہربان (صلی اللہ علیہ وسلم) کے فرمان مبارک کے مطابق لیلۃ القدر رمضان المباری کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں پائی جاتی ہے۔ کاشف مرزا کو یہ حق نہیں کہ وہ اس فرمان میں تحریف کرتے ہوئے اسے اپنی پسند کی ایک طاق رات میں محدود کریں۔ ضمنی طور پر ہم کاشف مرزا کو تاریخ کا ایک وہ رخ بھی دکھانا پسند کریں گے جنہیں کاشف مرزا جیسے ’’محققین‘‘ دنیا سے اوجھل رکھتے ہیں۔ بہت مناسب ہو گا اگر وہ کبھی قانون آزادیء ہند (انڈین انڈیپنڈنس ایکٹ) کا مطالعہ کر لیں۔ وہاں پاکستان اور بھارت، دونوں نو مولود ریاستوں کے لئے یوم آزادی کی تاریخ پندرہ اگست 1947 ء تحریر ہے۔ اور ایسا اس لئے ہے کہ آزادی کا اعلان نصف شب کو ہوا تھا، جب کیلنڈر پر اگلے دن کی تاریخ طلوع ہو چکی تھی۔

Indian Independence Act 1947

انہیں اس بات پر بھی اعتراض ہے کہ ملالہ نے یہ کیوں لکھا کہ اس پر طالبان کا قاتلانہ حملہ دن دیہاڑے ہوا۔ حیرانی ہے کہ جب ایک سانحہ ہوا ہی دن کے وقت ہے، تو اسے اور کیا کہا جائے؟ پھر کاشف مرزا اچانک موضوع بدلتے ہوئے ڈرون حملوں کا ذکر کرنے لگتے ہیں۔ کیا مدلل گفتگو اس طرح ہوتی ہے؟ پھر ستم یہ دیکھئے کہ ڈرون حملوں اور دہشت گرد حملوں میں مارے جانے والے بچوں اور بے گناہ شہریوں کا ذکر کرتے ہوئے وہ اگرچہ خود کو ایک نہایت دردمند انسان ظاہر کرتے ہیں، مگر انہیں ہرگز یہ توفیق نہیں ہوتی کہ وہ دہشت گردوں اور تحریک طالبان پاکستان کے درندوں کی مذمت میں ایک لفظ ہی کہہ دیتے۔ اس کے برعکس ان کا سارا زور ان ظالموں کے ہاتھوں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والی ملالہ ہے، اور وہ سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں کہ کسی طرح ملالہ کو غدار اور مذہب مخالف ثابت کر کے اس پر قاتلانہ حملے کا نہ صرف جائز ثابت کریں بلکہ اس پر مزید حملے بھی کرائیں۔

سچ تو یہ ہے کہ انہیں دہشت گردوں یا ڈرون حملوں میں مارے جانے والے کسی بچے سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کا اظہار ان کی اپنی زبان سے ادا ہوتے اس جملے سے ہی ہو جاتا ہے، جہاں وہ کہتے ہیں، ’’اگر وہ کسی ڈرون حملے میں ماری گئی ہوتی، تو کیا ہم آج یہاں بیٹھ کر اس پر پروگرام کرتے؟‘‘ یعنی وہ خود تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کے نزدیک ڈرون حملوں میں مارے جانے والے بچے کسی توجہ کے حق دار نہیں۔ اور یہ کہ ملالہ کے خلاف ان کا بغض یہ ہے کہ وہ زندہ کیوں کر بچ گئی۔ دوسری طرف ملالہ ڈرون حملوں کے بارے میں جو رائے رکھتی ہے، اس کو امریکی صدر کے سامنے بیٹھ کر پوری دلیری سے بیان کر چکی ہے۔ واضح رہے کہ یہ حوصلہ ہمارے حکمرانوں تک میں نہیں، جبکہ ملالہ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کے باوجود اپنے دشمنوں پر ڈرون حملوں کی خواہش نہیں رکھتی۔

Malala-to-Obama

اگلے جملے میں کاشف مرزا کہتے ہیں، ’’کیا بہادری اس نے کی ہے؟ ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ سکول کے اندر اے پی ایس کا واقعہ ہوا، میرے 144 شہداء کو (مار دیا گیا)۔ ہم سلام پیش کرتے ہیں ان بچوں کو، ان ٹیچرز کو، جو شہید ہوئے اور جو غازی بھی بنے۔ وہ بچہ پھر اسی سکول میں آیا جس کو آٹھ گولیاں لگیں۔ یہ ہیں وہ بہادر جن کی وجہ سے پاکستان قائم ہے۔ یہاں پر اعتزاز احسن کو کبھی کسی نے ڈسکس کیا ہے، جس نے خود کش حملہ آور کو اپنی جان دے کر روکا۔‘‘ پھر اس سے اگلے جملے میں کاشف مرزا ایک بار پھر بے حسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’’اگر یہ ڈرون حملے میں مرتی، تو کیا ہم اسے ڈسکس کرتے؟‘‘۔

لاشوں پر سیاست کرنا تو ہم دیکھتے، سنتے آئے ہیں، جو ہمارے چالاک دماغ سیاستدانوں کا وطیرہ ہے۔ کاشف مرزا کا کمال دیکھئے کہ وہ اپنی سیاست معصوم بچوں کی لاشوں پر چمکا رہے ہیں۔ یوں دکھائی دیتا ہے کہ ان کو دہشت گردوں کے ہاتھوں بچوں کی موت سے کوئی تسکین ملتی ہے، تبھی وہ بار بار ملالہ کے زندہ بچ جانے پر افسوس کا اظہار کر رہے ہیں۔ یہ کس قدر ذہنی افلاس ہے کہ وہ اے پی ایس کے شہید طلباء اور اعتزاز احسن کو ملالہ کے مد مقابل کھڑا کر رہے ہیں۔ اور ملالہ کو بیرون ملک ٹھہرنے پر مطعون کرتے نہیں تھکتے۔ ’’ملک سے بھاگ گئی۔ بھاگنے والوں کو بہادر نہیں کہتے۔ ‘‘ کے الفاظ میں واضح طور پر زہر جھلکتا دکھائی دے رہا ہے۔ ملک سے ہجرت اور جلا وطنی کو کاشف مرزا جیسی ذہنیت ہی بھاگنا اور بزدلی قرار دے سکتی ہے۔ کاش کہ وہ یہ نہ بھولتے کہ تاریخ اسلام میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے بھی مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تھی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی خبر ہونی چاہیئے کہ اے پی ایس پر حملہ یا باچا خان یونی ورسٹی پر حملہ کرتے ہوئے دہشت گردوں نے پہلے ان بچوں کے نام دریافت نہیں کئے تھے کہ ان میں سے کسی خاص طالب علم کو نشانہ بنایا جائے۔ اس کے بر عکس ملالہ پر قاتلانہ حملہ مکمل طور پر ملالہ کے اوپر ہی کیا گیا تھا، اور حملہ آور نے سکول وین کو روکنے کے بعد پہلے یہ دریافت کیا تھا کہ ان بچیوں میں ملالہ کون ہے۔ کاشف مرزا اگر اخبار پڑھتے ہوں تو انہیں یہ بھی خبر ہوتی کہ پہلے ناکام حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان بار ہا یہ دھمکی دے چکی ہے کہ وہ ملالہ پر ایک بار پھر قاتلانہ حملہ کرے گی۔ کاشف مرزا کو یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ تحریک طالبان پاکستان کے مطابق ملالہ (اور یہاں تک کہ اے پی ایس) پر حملہ قرآن اور سنت کے مطابق جائز ہے۔ افسوس کہ کاشف مرزا کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ دین کے ساتھ یہ بے رحمانہ سلوک کرنے والے دہشت گردوں کے لئے بھی مذمت کا ایک لفظ بول سکتے۔ الٹا ان کی خواہش ہے تو صرف یہ کہ اپنے سے تین گنا کم عمر کی ایک مظلوم لڑکی کو غدار ثابت کیا جائے اور طالبان کی بلا واسطہ حمایت کی جائے۔

اس کے بعد کاشف مرزا، ملالہ پر ایک اور بہتان لگاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ملالہ نے بیرون ملک جا کر پاکستان کو گالیاں نکالی ہیں۔ پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے کاشف مرزا کی بات کاٹتے ہوئے واضح طور پرکہا کہ یہ الزام درست نہیں۔ اس پر کاشف مرزا جاوید چوہدری کے ملالہ کا لئے گئے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے ہیں، ’’(ملالہ نے جاوید چوہدری کو کہا کہ) میں پاکستان کو کیوں برا کہوں، پاکستان پہلے ہی بہت بدنام ہو چکا ہے۔‘‘ پھر اسی سانس میں زہر اگلتے ہیں کہ ’’پاکستان اس (ملالہ) کی حرکتوں کے سبب بدنام ہو سکتا ہو گا۔ ‘‘ احمد قریشی نے کاشف مرزا کو یہاں بھی ٹوکتے ہوئے کہا کہ ملالہ نے اس رنگ میں کچھ نہیں کہا۔ اس پر کاشف مرزا اچانک ہی ایک نئے موضوع کو چھیڑ کر ملالہ کو افواج پاکستان کا مخالف ثابت کرنے کے لئے جھوٹ گھڑنے لگے۔

بہت ضروری ہے کہ حقائق سامنے رکھے جائیں اور جاوید چوہدری کے پروگرام میں ملالہ سے مکالمہ من و عن پیش کیا جائے۔ مکمل انٹرویو یہاں کلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے۔

جاوید چوہدری: ’’سوشل میڈیا پر جب یہ کمپین چلی آپ کے خلاف، تو ایک سوال بار بار کیا گیا کہ ملالہ یوسفزئی کی وجہ سے پاکستان بہت بدنام ہوا۔ کیا آپ یہ محسوس کرتی ہیں کہ آپ کی وجہ سے پاکستان بدنام ہوا؟‘‘۔

ملالہ: حقیقت یہ ہے کہ مجھے لگتا ہے کہ پاکستان پہلے سے ہی بہت زیادہ بدنام ہو چکا ہے۔ اورمیری کمپین کا یہ حصہ ہے کہ میں (دنیا کے) لوگوں کو بتاؤں کہ پاکستان کے لوگ کتنے پر امن ہیں۔ میں تو یہ کوشش کر رہی ہوں کہ پاکستان کے لوگوں کی رائے سب کے سامنے آ جائے۔ پاکستان کے لوگ دہشت گرد نہیں ہیں، بلکہ پاکستان کے لوگ امن چاہتے ہیں، وہ تعلیم چاہتے ہیں، وہ اپنی بچیوں کو سکول جاتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو مزدوری کرتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ اور یہی پاکستان کے اصل لوگ ہیں۔ ہم نے ان غریب، ان پر امن اور ان ایماندار لوگوں کی آواز آگے پہنچانی ہے۔اور یہی میرا کمپین ہے۔ ہم پاکستان کو بدنا م کبھی بھی نہیں کرناچاہیں گے، بلکہ ہم پاکستان کے لوگوں کی آواز آگے پہنچانا چاہتے ہیں۔ ‘‘۔

ایک مثال اکثر دی جاتی ہے کہ قرآن الحکیم میں یہ کہا گیا ہے کہ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جاؤ۔ اب اگر کوئی اٹھ کر کوئی یہ کہتا پھرے کہ اللہ تعالی ٰنے نماز کے قریب نہ جانے اور اس سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، تو آپ ایسے شخص کو کس نام سے پکاریں گے۔ ہم اب یہ صاحب انصاف لوگوں پر چھوڑتے ہیں کہ وہ خود یہ پرکھ لیں کہ کاشف مرزا کے جھوٹ پر وہ کیا تبصرہ کرتے ہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزا پینترے بدلتے ہیں اور ایک اور جھوٹ بولتے ہوئے کہتے ہیں، ’’آپ مجھے ایک بات بتائیں، اسے (ملالہ کو) بلڈ (پیش) کہاں سے کیا گیا؟ اس عبدالحئی کاکڑ نے بلاگ کے زریعے کیا نا؟‘‘ پھر فرماتے ہیں، ’’وہ جو بی بی سی کا بلاگر ہے، اس نے یہ ایک پلاننگ کے تحت کیا۔ اپنی کتاب میں وہ خود لکھتی ہے کہ میں بولتی تھی، اور وہ ٹیلی فون پر سن کر لکھتا تھا۔‘‘ پھر اس سے کاشف مرزا بڑے فخر سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ’’اب اس(ملالہ نے) یہ مان لیا کہ وہ خود نہیں لکھتی تھی۔‘‘۔

یہ اس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ کاشف مرزا کو ہم پورے خلوص سے مشورہ دیں گے کہ وہ فوری طور پر کسی ماہر نفسیات سے رابطہ کریں کیونکہ وہ اپنی سوچ سمجھ مکمل طور پر کھو رہے ہیں۔

اگر ایک ٹیچر خود اپنے ہاتھوں سے ایک مضمون لکھے، اور اگلے روز اپنی کلاس میں اس مضمون کو زبانی بولے تاکہ اس کے طلباء اس مضمون کو سن کر اپنی کاپیوں پر لکھیں، تو کیا اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ٹیچر نے مضمون نہیں لکھا؟ کاشف مرزا کی لغت میں تو ایسا ہی ثابت ہوتا ہے۔ حقیقت حال محض یہ ہے کہ سوات میں ملا فضل اللہ اور ان کے دہشت گرد عوام کا جینا حرام کئے ہوئے تھے، ایک طرف وہ اپنی غیر قانونی ریڈیو نشریات سے لوگوں کو ڈراتا دھمکاتا، دوسری طرف وہ لیڈی ہیلتھ ورکرز کو قتل کرواتا، اور روز سر بریدہ لاشیں سوات کی سڑکوں اور کھمبوں پر پڑی نظر آتیں۔ اپنی دہشت کا سکہ جمانے کے بعد ملا فضل اللہ نے حجام کی د کانوں اور لڑکیوں کے سکولوں کو دھمکیاں دینا شروع کردیں۔ سوات کے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، وہ فوج کو بلا رہے تھے، اور مولانا فضل الرحمان کی صوبائی حکومت ایسا ہونے نہیں دے رہی تھی۔ طالبان نے لڑکیوں کے سکولوں کو بند کر دیئے جانے کا الٹی میٹم دیا اور پھر سینکڑوں سکول اڑا دیئے۔ ان حالات میں بی بی سی نے سوات کے عوام کے زخم سامنے لانے کے لئے بلاگ شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ عبدالحئی کاکڑ نے ملالہ کے والد (جو ایک صاحب کتاب دانشور اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن تھے) سے اس سلسلے میں مدد مانگی۔ ملا فضل اللہ کے خوف سے کوئی بلاگ (ڈائری) لکھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ ایسے میں ملالہ نے از خود اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آگے بڑھے گی۔ ملالہ نے محض گیارہ برس کی عمر میں اس کٹھن کام کا بیڑا اٹھایا اور بی بی سی کے لئے بلاگ لکھنا شروع کئے۔ ملالہ اپنی کتاب میں کہتی ہے کہ بار بار بجلی کا سلسلہ منقطع ہونے اور انٹرنیٹ کی فراہمی نہ ہونے کے سبب اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ٹیلی فون پر اپنے بلاگ زبان سے لکھواتی۔ لہٰذا بی بی سی کے عبدالحئی کاکڑ، ملالہ کے گھر فون کرتے، اور ملالہ (کاغذ پر اپنی لکھی ہوئی تحریر) کو فون پر بولتی جاتی اور وہ لکھتے جاتے۔

Diary

کاشف مرزا اس واضح بات کو جس طرح غلط رنگ دے کر جھوٹ پھیلا رہے ہیں، اس سے واضح ہے کہ ان کی ہمدردیاں دراصل ملا فضل اللہ کے ساتھ ہیں اور انہیں اس بات کا افسوس ہے کہ ملالہ نے اتنی بڑی دلیری کا کام کر کے طالبان کے ظلم و ستم بے نقاب کیوں کئے۔

احمد قریشی نے میزبان کی حیثیت سے نرم پیرائے میں کاشف مرزا کی بات کو رد کرتے ہوئے کہا کہ ملالہ ایک انٹلکچوال ہے اور وہ ڈائری لکھنے سے پہلے بھی تقاریر کیا کرتی تھی اور انسانی حقوق کے لئے متحرک تھی۔ اس پر حسد کے مارے کاشف مرزا فرماتے ہیں کہ ملالہ کوئی انٹلکچوال نہیں، اور یہ کہ ’’(پرائیویٹ سکول) فیڈریشن ایک پیپر بناتی ہے، وہ (ملالہ) اسے پاس کر کے دکھا دے۔‘‘ پھر اس کے بعد ہاتھ نچاتے ہوئے پھر یہ تکرار کرتے ہیں کہ ’’جب وہ خود مان رہی ہے کہ لکھتا وہ تھا، تو پیچھے رہ کیا گیا؟‘‘ اس موقع پر احمد قریشی کے چہرے پر بیزاری اور جھنجھلاہٹ کے آثار نمایاں دکھائی دیئے۔ اقوام متحدہ میں دنیا بھر کے رہنماؤں کے سامنے مکمل اعتماد سے تقریر کرنے اور دنیا بھر میں اردو، پشتو اور انگریزی، ان سب زبانوں میں بہترین انٹر ویوز دینے والی ملالہ کو ایسی بات کہنے والے کاشف مرزا کی ذہنی ساخت کتنی پست اور نیچ ہے، اس پر مزید کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔

اس کے بعد کاشف مرزاکہتے ہیں کہ چونکہ ملالہ کے والد کے لڑکیوں کے سکول تھے، اور ملا فضل اللہ نے لڑکیوں کے سکولوں کو دھماکوں سے اڑانے کی دھمکی دی تھی، لہٰذا ضیاء الدین صاحب کا بزنس خراب ہو رہا تھا، اس لئے وہ طالبان کے خلاف اٹھے۔

۔’’بزنس خراب ہو رہا تھا‘‘؟ افسوس کہ ایک ایسا شخص جو خود آل پاکستان پرائیویٹ سکول فیڈریشن کا نہ صرف یہ کہ مرکزی صدر ہے بلکہ گورنر پنجاب اور وزیر اعلیٰ کا سابقہ مشیرِ تعلیم بھی رہا ہے، کی بصیرت کا یہ حال ہے۔ انہیں اس کی کوئی فکر نہیں کہ سوات کے بچے، بچیاں تعلیم جیسے حق سے محروم ہو رہی تھیں اور وہاں فضل اللہ کے ظلم و ستم سے گھر گھر خوف کی فضا قائم تھی۔

اس کے بعد کاشف مرزا ایک نیا اعتراض گھرتے ہوئے کہتے ہیں ’’اس (ملالہ) کے باپ نے ایک ای میل کی اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر ، جنرل عباس اطہر صاحب کو، کتاب میں اس نے لکھا ہوا ہے کہ میں نے اپنے گیارہ لاکھ روپے وصول کئے۔ کیوں وصول کئے بھئی؟‘‘۔

1.1 million

کاشف مرزا صاحب ! یا تو آپ کی بینائی میں کوئی سنگین مسئلہ ہے کہ آپ کو صرف اپنے مطلب کی بات دکھائی دیتی ہے اور اس کے آگے پیچھے کے جملے پڑھتے ہوئے آپ اندھے پن کا شکار ہو جاتے ہیں، یا دوسری صورت یہ ہے کہ آپ حسد اور نفرت میں اس حد تک آگے نکل گئے ہیں کہ آپ کے دل میں خدا کا خوف نامی کوئی شے باقی نہیں رہی، اور آپ کا ضمیر جیتے جی مر چکا ہے۔

صورت حال یہ ہے کہ 2009ء میں سوات میں آپریشن کے نتیجے میں لاکھوں افراد دربدر ہوئے اور سوات کا نظام زندگی برباد ہو کر رہ گیا۔ یہ آپریشن ملا فضل اللہ اور ان کے چیلے چانٹوں کے خلاف تھا، جن سے کاشف مرزا کو بظاہر نظریاتی ہمدردی ہے۔ ملالہ کے والد کے سکول بھی بند پڑے رہے۔ طالب علم جب سکول میں نہیں آرہے تھے تو ملالہ کے والد نے ان سے کوئی فیس وصول نہیں کی۔ البتہ آپ کو یہ فکر دامن گیر رہی کہ سکول کے اساتذہ کو تنخواہ کیسے ادا کی جائے۔ واضح رہے کہ کاشف مرزا خود پرائیویٹ سکول فیڈریشن کے مرکزی صدر ہیں، اور ہم سب جانتے ہیں کہ پرائیویٹ سکول والے سکول بند ہونے کے باوجود بھی اپنے طلباء کا خون چوستے اور فیسیں وصول کرتے ہیں، دوسری طرف اپنے ٹیچرز کو چھٹیوں میں شاید ہی تنخواہیں ادا کرتے ہوں۔ خیر، ملالہ کے والد ایک انسان دوست شخصیت ہیں اور وہ اپنے اسٹاف کے بارے میں فکر مند تھے، اور انہوں نے اپنے طلباء سے کوئی فیس بھی نہ لی۔ سوات میں آپریشن کئی ماہ تک جاری رہا۔ اس سے پہلے ایک ملاقات میں اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عباس اطہر نے ملالہ کے والد کو خود اپنا وزیٹنگ کارڈ دے کر یہ پیشکش کی تھی کی کسی ضرورت یا پریشانی کے موقع پر وہ ان سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ لہٰذا ضیاء الدین یوسف زئی صاحب نے عباس اطہر کو ای میل میں اس پریشانی کا ذکر کیا، جس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے ازراہ شفقت انہیں گیارہ لاکھ روپے دیئے، جس کو استعمال کر کے اساتذہ کرام کی مہینوں کی تنخواہیں وغیرہ ادا کی گئیں۔

یہ سب ملالہ کی کتاب میں واضح لکھا ہے مگر حسد اور نفرت انسان کی آنکھوں پر تعصب کی پٹی باندھ دیتے ہیں، اور یہی کچھ کاشف مرزا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ صاف پتا لگ رہا ہے کہ وہ ملالہ اور اس کے والد سے کسی ذاتی رنجش اور کاروباری رقابت کا بدلہ لے رہے ہیں، اور ساتھ ہی ساتھ وہ طالبان کے نظریاتی ہمدرد بھی ہیں۔

احمد قریشی نے اس موقع پر کاشف مرزا سے سول کیا کہ آخر وہ ملالہ کے والد کے اس قدر خلاف کیوں بول رہے ہیں، اس کے جواب میں کاشف مرزا فرماتے ہیں،۔

۔’’میں ضیاء الدین صاحب کے اس لئے خلاف ہوں کہ کوئی انسان جو آئین پاکستان، پاکستان، اسلام کے خلاف ہے، جو غدار ہے، میں اس کے خلاف ہوں۔‘‘۔

اپنے جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی اعتراضات، جن کا پول ہم اس تحریر میں کھول ہی چکے ہیں، کے بعد جس انداز میں کاشف مرزا حب الوطنی اور ایمان کے سرٹیفیکیٹ بانٹتے پھر رہے ہیں، اس سے ہمیں یورپ کے تاریک دور (ڈارک ایجز) کی یاد آرہی ہے جہاں مسیحی پیشوا لوگوں میں جنت کے سرٹیفیکیٹ بیچا کرتے تھے۔ لہٰذا غریب، غربا جنت کا ٹکٹ خریدنے میں ناکام رہتے اور گویا جہنم واصل ہو جاتے۔ مغربی اقوام نے اپنا سبق سیکھ لیا اور اپنی اصلاح کر لی، مگر افسوس کہ مملکت خداد کے نصیب میں کاشف مرزا جیسے نام نہاد دانشور آئے جو جہالت کا بیوپار کرتے پھر رہے ہیں۔

پروگرام کے میزبان احمد قریشی نے بجا طور پر کاشف مرزا کو یہاں ٹوکتے ہوئے کہا کہ اس طرح کوئی کسی کو ذاتی ناپسندیدگی کی بنا پر غدار قرار نہیں دے سکتا۔ اور یہ کہ غداری ایک قانونی اصطلاح ہے اور اس کا فیصلہ صرف اعلیٰ عدالتیں ہی کر سکتی ہیں۔ اس پر کاشف مرزا نے دو دلائل دیئے۔ ایک تو یہ کہ ضیاء الدین نے 1997ء میں پاکستان کی یوم آزادی کے موقع پر بازو پر کالی پٹی باندھی، جس پر عدالت نے ان پر جرمانہ کیا اور دوم یہ ان پر واپڈا نے بھی مقدمہ قائم کیا۔

مسئلہ یہ ہے کہ کاشف مرزامیں فکری بصیرت کی نہ صرف قلت بلکہ شدید قحط کی سی صورتحال ہے۔ وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ زندہ معاشروں میں لوگوں کو اپنی رائے دینے اور پر امن احتجاج کا حق حاصل ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب نومبر 2007ء میں پاکستان میں ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا، تو میری یونی ورسٹی کے طلباء نے سیاہ پٹیاں باندھ کر حکومت سے احتجاج کیا (میں اس احتجاج میں شریک نہیں تھا، میں نے ہنگامی حالت کے نفاذ کی حمایت کی تھی، اور یہ رائے رکھنا میرا حق تھا)۔ مگر میں یہ بھی جانتا تھا کہ سیاہ پٹیاں باندھنے والے طلباء بھی اپنا جمہوری حق استعمال کرتے ہوئے حکومت تک اپنی آواز پہنچا رہے تھے۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ پاکستان کے خلاف ہیں، ان کا شکوہ صرف حکومت سے تھا۔

کیا یہ حقیقت نہیں کہ قیام پاکستان سے اب تک غریب عوام ایک استحصالی نظام کی چکی میں پسے جا رہے ہیں؟ کیا یہ حقیقت نہیں کہ قائد اعظم مذہب اور ریاست کے معاملات کو الگ الگ رکھنے کے قائل تھے۔ اس ریاست کی بنیاد میں وہ میثاق شامل ہے، جس کی زبان پاکستان کے بانی نے اپنی گیارہ اگست 1947ء کی تقریر میں دی۔ کیا پاکستان کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ قائد اعظم کے اصولوں کی دھجیاں اڑانے کے بعد یوم آزادی پر منافقت کا مظاہرہ کر کے بڑے بڑے جشن منائے اوراپنی اصلاح کو تیار نہ ہوں؟

اگر کوئی یہ کہے کہ وہ اس بنا پر عید نہیں منا رہا اور نیا لباس نہیں بنوا رہا کہ اس ملک کے کتنے ہی لوگ غربت اور تنگ دستی کے مارے نیا جوڑا نہیں پہن سکیں گے، تو کیا کاشف مرزا اس سے یہ استنباط کریں گے کہ وہ شخص ایک اسلامی تہوار کا مذاق اڑا رہا ہے۔ اگر نہیں، تو انہیں بدگمانی کرنے کی بجائے اچھا گمان رکھ کر یہ سوچنا چاہئے کہ سیاہ پٹی پاکستان کے خلاف نہیں، بلکہ معاشرتی نا انصافیوں کے خلاف احتجاج کے طور پر تھی، اور بتانا یہ مقصود تھا کہ وہ جشن نہیں منا رھے۔ اور جشن نہ منانے کوہرگز یہ مطلب نہیں کہ انہیں آزادی یا پاکستان سے محبت نہیں۔

افسوس یہ ہے کہ ملالہ اور اس کے والد کی حب الوطنی کو داغدار کرنے والے کاشف مرزا کو اسی کتاب میں یہ لکھا نظر نہیں آیا جہاں ملالہ کہتی ہے، “مجھے فخر ہے کہ ہمارا وطن، دنیا میں مسلمان ریاست کے طور پر وجود میں آیا۔” رنج ہوتا ہے کہ کاشف مرزا کو کتاب میں یہ لکھا ہوابھی نظر نہیں آیا، جہاں ملالہ کہتی ہے، ’’میرے والد اضطراب کے عالم میں گھر لوٹے اور کہا کہ اگر لوگ سکول اور سڑکیں تعمیر کرنے کے لئے رضاکارانہ کام کریں اور دریاؤں سے پلاسٹک (اور کاٹھ کباڑ ) صاف کردیں، تو خدا کی قسم ہمارا ملک ایک برس میں ہی جنت جیسا ہوجائے گا۔‘‘ کیا آپ کو ان جملوں میں وطن سے پیار جھلکتا نہیں دکھائی دے رہا؟ کاشف مرزا کی نظروں سے ملالہ کا یہ جملہ بھی اوجھل رہا جہاں لکھا ہے کہ ’’میں نے ڈاکومینٹری بنانے والوں سے کہا کہ وہ (طالبان) مجھے نہیں روک سکتے۔ میں تعلیم حاصل کروں گی، چاہے گھر میں یا سکول میں یا کہیں بھی اور۔ میری دنیا سے درخواست ہے کہ وہ ہمارے سکولوں کو بچائیں، ہمارے پاکستان کو بچائیں، ہمارے سوات کو بچائیں۔ ‘‘۔

I am Malala - III

اب آئیے کاشف مرزا کے ایک اور جھوٹ کی طرف ۔ موصوف فرماتے ہیں، ’’دوسرے جگہ وہ (ملالہ) لکھتی ہے کہ میرے باپ کے اوپر واپڈا نے میٹر ٹمپرنگ کا کیس کیا، اور اس پر جرمانہ ہوا۔‘‘۔

آیئے ذرا اس کی حقیقت بھی دیکھ لیں۔ ملالہ کی کتاب میں اس کی یاد داشتیں تحریر ہیں۔ ان میں ایک جگہ یہ لکھا ہے کہ ایک مرتبہ واپڈا کے میٹر ریڈر نے ضیاء الدین صاحب سے یہ بہانہ لگا کر رشوت طلب کی کہ میٹر درست نہیں ہے۔ ضیاء الدین صاحب نے عمدہ کردار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس بے ایمان شخص کو رشوت دینے سے انکار کر دیا، جس کے نتیجے میں میٹر ریڈر نے انہیں لمبا چوڑا بل بنا کر بھجوا دیا۔ اس وضاحت کے بعد کاشف مرزا کا ایک اور دعویٰ ریت کی دیوار کی طرح زمین بوس ہو جاتا ہے۔

WAPDA

اس کے بعد کاشف مرزا کچھ جذباتی مگر حقائق سے عاری تقریر جھاڑ کر ملالہ اور ان کے والد کے ایک بار پھر پاکستان مخالف ہونے کی رٹ لگاتے ہیں۔ پھر سانس لیتے ہی یہ کہتے ہیں کہ ضیاء الدین صاحب کو پاکستان ہائی کمشن کے اتاشی کی حیثیت سے یہ بیان دینے کا حق کس نے دیا کہ پاکستان کو ہر حال میں شکیل آفریدی کو امریکہ کے حوالے کرنا پڑے گا۔

کاشف مرزا نے یہ دعویٰ کیا تو بہت طمطراق سے، مگر افسوس کہ وہ یہاں بھی مار کھا گئے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ یہ بھی سچ نہیں۔ کاشف مرزا کے قبیلے کے کسی شخص نے مدتوں پہلے یہ جھوٹ میڈیا پر پھیلا دیا تھا، اور اس کے فوری بعد ضیاء الدین صاحب نے اس کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا کہ ان سے منسوب ایسی تمام خبریں غلط اور جھوٹی ہیں۔

Fake propaganda Clarificaton by ZY

پھر کاشف مرزا فرماتے ہیں، ’’آپ مجھے بتائیں، وہ پاکستان کے خلاف اپنی بچی کو استعمال کر رہا ہے۔‘‘۔

فی الوقت تو اگر کوئی شخص ہے جو پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہا ہے تو وہ کوئی اور نہیں، بلکہ کاشف مرزا خود ہی ہیں، جو کسی ایجنڈے کے تحت پاکستان کی ہونہار اور قابل فخر بیٹی کے خلاف ایک پر فریب مہم چلا رہا ہے، جو ممکنہ طور پر طالبان کے ایماء پر ہو رہا ہے۔

اس کے بعد کاشف مرزا احمد قریشی سے سوال کرتے ہوئے پوچھتے ہیں، ’’آپ میڈیا سے تعلق رکھتے ہیں، آپ کتنی بار امریکی سفیر سے براہ راست ملتے ہیں؟ یہ (ملالہ) کس حیثیت میں رچرڈ ہالبروک کو جا کر ملتی رہتی ہے؟‘‘۔

اس موقع پر احمد قریشی انہیں ٹوک کر فوراََ ان کے جھوٹ کا پردہ چاک کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ رچرڈ ہالبروک کے ساتھ جس ملاقات کا ذکر کیا گیا ہے، وہ دراصل یونی سیف کے ایک پبلک اجلاس کے موقع پر لی گئی تصویر ہے جس میں رچرڈ ہالبروک (انسانی حقوق اور) این جی اوز کے نمائندگان کے ساتھ ملے اور یہ کہ وہ تقریب حکومت پاکستان اور دفتر خارجہ کی اجازت سے منعقد کی گئی تھی اور اس میں ملالہ (اور ان کے والد) نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ کے لئے رچرڈ ہالبروک سے مدد کی استدعا کی تھی۔

M-18

یہ دیکھنے پر کہ ان کا یہ جھوٹ تو ایک دم ہی پکڑا گیا، کاشف مرزا نے بات کا رخ بدل کر ڈرون حملوں کا ذکر کرنا شروع کر دیا، جو اس بات کا واضح ثبوت تھا کہ وہ یہ سب اعتراضات جان بوجھ کر اور بدنیتی کے ساتھ کر رہے ہیں، اور جہاں چوری پکڑے جانے کا اندیشہ ہو، بات کا رخ بدل لیتے ہیں۔ کاش کہ احمد قریشی نے ملالہ کی کتاب کا از خود مطالعہ کیا ہوتا کہ ایسا ہونے کی صورت میں وہ یقینی طور پر ہر نکتے پہ کاشف مرزا کو ٹوک سکتے۔

پروگرام کے آخر میں احمد قریشی نے کاشف مرزا سے کہا، ’’ملالہ یوسف زئی، ایک چھوٹی بچی، جس کو گولیاں لگی ہیں، جس کی وجہ سے اس کا فیس (چہرہ) ڈس فگر (مسخ) ہو گیا، اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ذرا سا۔ اس کے کمپیریزن (تقابل) میں آپ اپنی کتاب میں ۔۔۔ آپ کا کہنا ہے کہ آپ اس (ملالہ) کی کتاب سکول میں سلیبس نہیں بنا سکتا۔۔۔ مگر یہ بھی تو آپ دیکھیں نا۔۔۔۔ کہ آپ نے اس بیچاری بچی کی تصویر، جس میں اس کا منہ ٹیڑھا ہو گیا ہے، اس کے ساتھ ایک جانور کی تصویر لگائی ہے، جو میں نہیں دکھاؤں گا سکرین پہ۔۔۔ کیونکہ وہ بہت برا ہے۔‘‘۔

Qabeeh-Harkat

 

Save

Save

Save

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply